• 26 اگست, 2025

کیا تیسری عالمی جنگ کاخطرہ بڑھ رہا ہے؟

گزشتہ سات دہائیوں کے بعد موجودہ صدر امریکہ کو آخر خیال آ ہی گیا اور دوسری عالمگیر جنگ کے 71سال بعد وہ جاپان کے شہر ہیرو شیما گئے اور دوسری عالمگیر جنگ کے دوران امریکہ نے اس شہر پر جو ایٹم بم برسائے تھے اور اس کے نتیجہ میں جو تباہی پھیلی تھی اس کا از خود مشاہدہ کیا اور اس امر کا جائزہ بھی لیا کہ آ ئندہ دنیا کو ایٹمی تباہی سے کیسے بچایا جا سکتا ہے۔ وہ ایٹم بم جو ہیرو شیما شہر پر برسائے گئے تھے اگران کاموجودہ دور کے ایٹم بموںسے مقابلہ کیا جاے تو اگر برسائے گئے ایٹم بم شہر نیست و نابود کرنے کی طاقت رکھتے تھے تو موجودہ ایٹم بم یقینی طور پر ایک پوری انسانی تہذیب اور تمدن کو نیست و نابود کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ مشہور سائنسدان آئن سٹائن نے ایک مرتبہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسے یہ تو علم نہیں کہ تیسری عالمگیر جنگ کس طرز پر لڑی جائے گی لیکن اتنا ضرور علم ہے کہ چوتھی عالمگیر جنگ پتھر کے دور کی یاد تازہ کر دے گی۔ اس کے اس تبصرہ سے صاف ظاہر ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ جو لازما ایٹمی جنگ ہو گی بنی نوع انسان کو کس ہولناک تباہی سے دوچار کرے گی کہ دنیا پتھر کے دور میں واپس چلی جائے گی۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سے ہی دنیا کی بڑی طاقتیں اس سعی میں ہیں کہ ایٹمی ہتھیاروں کوقابو میں رکھا جا سکے۔اس وقت نو ممالک کے پاس ایٹمی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے۔اور دنیا میں دہشت گردی کی لہر کے پیش نظر یہ خطرہ ہر وقت سر پر منڈلاتا رہتا ہے کہ کہیں یہ مہلک ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ عالمی ایٹمی ماہر Mr Waren Buffet کے مطابق ہر آنے والے ایک سال میں کسی غلطی یا اور کسی وجہ سے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کئے جانے کا 10%رسک ہے اور اگر یہ رسک آئندہ پچاس سالوں میں اسی طرح رہتا ہے تو آنے والے پچاس سالوں میں کسی حادثہ یا غلط وارننگ کی بنا پر ایٹمی ہتھیاروں کے probable استعمال کا99.5% چانس بن رہا ہے۔

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق امریکہ اور روس نے اپنے ایٹمی ہتھیاروں کو مختلف جگہوں پر نصب کر رکھا ہے جو کسی بھی حادثہ یا غلط وارننگ کی بنا پر ایک لمحہ کے نوٹس پر فائر کئے جا سکتے ہیںاور دنیا بھر میں لامتناہی تباہی پھیلا سکتے ہیں۔چند دہائیوں قبل امریکہ اور روس میں ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے بارہ میں تسلسل سے روابط اور مذاکرات کئے جاتے تھے جو کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہو چکے ہیں اور اس وقت دونوں ممالک میں شدید تناؤ کی صورتحال ہے۔ جو کسی بھی ایٹمی حادثہ کا باعث بن سکتی ہے۔ایک جائزہ کے مطابق اس وقت دنیا کے 24 ممالک میں Highly Enriched Uranium & Plutonium کی بہت بڑی مقدار موجود ہے جو کہ کئی ہزار ایٹم بم بنا نے کے لئے کافی ہے اور اس وقت عالمی سطح پر کوئی ایسا مؤثر نظام موجود نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں موجود اس خوفناک مواد کے استعمال پر کڑی نظر رکھی جا سکے۔ اسی طرح ایٹمی ہتھیاروں کے حامل موجود ممالک کے علاوہ کئی دوسرے ممالک بھی ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے کاوشیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی آرزو ایک انتہائی خطرناک خواہش ہے جو دنیا کو دن بدن تباہی کے دہانے کی طرف لے جارہی ہے۔ ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنے کی کاوش کو حوصلہ افزا کاوش کہا جا سکتا ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ معاہدہ کے تمام اسٹیک ہولڈر اس کو کامیاب بنائیں گے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس شمالی کوریا ایک ایسا ملک ہے جس کے بارہ میں دنیا بھر میں شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اس ملک کے ساتھ چین جاپان اور جنوبی کوریا کے کسی نہ کسی حد تک ورکنگ تعلقات ہیں لہٰذا ان ممالک کو کوشش کر کے شمالی کوریا کو بھی مذاکرات کی ٹیبل پر لانا چاہئے تاکہ دنیا کو درپیش ایٹمی جنگ کے خطرات کو کم کیا جا سکے۔

امریکہ اور روس کے حالات اس وقت سب سے زیادہ خطرہ کی علامت بنے ہوئے ہیں۔ اور کسی وقت بھی دنیا کو تیسری عالمی جنگ میں دھکیل سکتے ہیں۔ دنیا کے ایٹمی ہتھیاروں کا 90% ذخیرہ ان دونوں ممالک کے کنٹرول میں ہے۔ Strategic Interest کسی غلط فہمی،غلط وارننگ یا کسی اور وجہ سے اگر ان دو ممالک میں سے کسی ایک نے غلطی کر دی تو دنیا کا بیشتر حصہ چند لمحوں کے اندر اندر پتھر کے زمانہ میں واپس چلا جاے گا۔ اب اس وقت کے حکمران جو ان خطرناک ہتھیاروں کے ذ خیرہ کو کنٹرول کر رہے ہیں ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر دیانت داری سے بات چیت کریں تاکہ دنیا پر تیسری عالمی ایٹمی جنگ کے منڈلاتے ان خطرات کو ٹالا جا سکے۔

(زبیر خلیل خان۔ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

درخواست دعا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2020