• 4 مئی, 2024

اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں اس کے آگے جھک جائیں

اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں
اس کے آگے جھک جائیں تو تھوڑے عرصہ میں ان شاء اللہ انقلاب آسکتا ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں
اور یہ نظارے آج بھی اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو دکھا رہا ہے۔ ایک طرف یہ گالیاں ہیں، دوسری طرف ترقیات ہیں۔ بیشک ملک میں شرفاء بھی ہیں، ایسے بھی ہیں جیسا کہ میں نے کہا، جوپوسٹروں کو اپنے گھروں کی دیواروں پر سے اُتارنے والے ہیں۔ لیکن ان میں جو اکثریت ہے اُن میں گونگی شرافت ہے۔ جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتے تھے کہ شرافت تو ہے لیکن گونگی شرافت ہے جو بولتی نہیں۔

(تذکرہ صفحہ426-427 مع حاشیہ ایڈیشن 2004ء)

لیکن ایک پڑھا لکھا طبقہ جو انگریزی اخباروں میں لکھتا ہے، انہوں نے اب اس حد سے بڑھے ہوئے ظلم کے خلاف آواز بھی اُٹھانا شروع کر دی ہے۔ بہر حال ملک کو بچانے کے لئے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ الہامی دعا بھی پڑھنی چاہئے تا کہ شر پسندوں کا خاتمہ ہو۔ ملک کی شریف آبادی اُن شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ احمدی ان شر پسندوں کے شر سے محفوظ رہیں۔ پس جیسا کہ میں نے کہا، ہر احمدی کو پہلے سے بڑھ کر صبر اور دعا کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہے۔ مختلف شہروں میں، مختلف علاقوں میں احمدیوں کے خلاف ان شر پسندوں کی منصوبہ بندیاں ہوتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارا خدا خیر الماکرین ہے۔ ان کے منصوبوں کو ان پر الٹانے والا ہے اور اُلٹا رہا ہے۔ وہی ہے جس نے اب تک ہمیں اُن کے خوفناک منصوبوں سے محفوظ رکھا ہوا ہے۔ پس جیسا کہ مَیں نے کہا خدا کے دامن کو کبھی نہ چھوڑیں۔ پہلے بھی کچھ عرصہ ہوا، مَیں جماعت کو اس طرف توجہ دلا چکا ہوں کہ اپنے عملوں کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالتے ہوئے اجتماعی رنگ میں اس کے آگے جھک جائیں تو تھوڑے عرصہ میں ان شاء اللہ تعالیٰ انقلاب آ سکتا ہے۔

مستقل مزاجی سے دعاؤں کی طرف توجہ دیتے چلے جانے کے بارے میں ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ:
’’دعا اور اُس کی قبولیت کے زمانہ کے درمیانی اوقات میں بسا اوقات ابتلاپر ابتلاآتے ہیں اور ایسے ایسے ابتلا بھی آ جاتے ہیں کہ کمر توڑ دیتے ہیں۔ مگر مستقل مزاج، سعید الفطرت، ان ابتلاؤں اور مشکلات میں بھی اپنے رب کی عنایتوں کی خوشبو سونگھتا ہے اور فراست کی نظر سے دیکھتا ہے کہ اس کے بعدنصرت آتی ہے۔ ان ابتلاؤں کے آنے میں ایک سِرّ یہ بھی ہوتا ہے کہ دعا کے لئے جوش بڑھتا ہے۔ کیونکہ جس جس قدر اضطرار اور اضطراب بڑھتا جاوے گا اُسی قدر روح میں گدازش ہوتی جائے گی اور یہ دعا کی قبولیت کے اسباب میں سے ہیں۔ پس کبھی گھبرانا نہیں چاہئے اور بے صبری اور بے قراری سے اپنے اللہ پر بدظن نہیں ہونا چاہئے۔ یہ کبھی بھی خیال کرنا نہیں چاہئے کہ میری دعا قبول نہ ہوگی یا نہیں ہوتی۔ ایسا وہم اللہ تعالیٰ کی اس صفت سے انکار ہو جاتا ہے کہ وہ دعائیں قبول فرمانے والا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ707-708 ایڈیشن 2003ء)

یعنی اگر انسان اس قسم کی باتیں سوچے تو پھر وہ لا شعوری طور پر اللہ تعالیٰ کی جو دعائیں قبول فرمانے کی صفت ہے، اس کا انکار کر رہا ہوتا ہے۔

پس ہمارا کام اپنے اندر استقلال پیدا کرنا ہے۔ ہمیں اُن شرائط کے ساتھ دعاؤں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جن میں سے چند ایک میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے حوالے سے بیان کی ہیں۔ ہمیں ہمیشہ اس یقین پر قائم رہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا قول کبھی غلط نہیں ہوتا۔ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُجِیْبُ دَعْوَۃَالدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (سورۃ البقرہ: 187) کہ دعا کو اُس کی شرائط کے ساتھ مانگو، میں قبول کروں گا تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم مایوس ہوں۔ ہاں قبولیت کا وقت خدا تعالیٰ نے رکھا ہے۔ ہر ابتلا ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والا بنائے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ قبولیت بھی ہم دیکھیں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور ارشاد بھی پیش کرتا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’یاد رکھو کوئی آدمی کبھی دعا سے فیض نہیں اُٹھا سکتا جب تک وہ صبر میں حدنہ کر دے اور استقلال کے ساتھ دعاؤں میں نہ لگا رہے۔ اللہ تعالیٰ پر کبھی بد ظنی اور بدگمانی نہ کرے۔ اُس کو تمام قدرتوں اور ارادوں کا مالک تصور کرے۔ یقین کرے پھر صبر کے ساتھ دعاؤں میں لگا رہے۔ وہ وقت آ جائے گا کہ اللہ تعالیٰ اُس کی دعاؤں کو سن لے گا اور اُسے جواب دے گا۔ جو لوگ اس نسخہ کو استعمال کرتے ہیں وہ کبھی بدنصیب اور محروم نہیں ہو سکتے بلکہ یقینا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ کی قدرتیں اور طاقتیں بے شمار ہیں۔ اس نے انسانی تکمیل کے لئے دیر تک صبر کا قانون رکھا ہے۔ پس اُس کو وہ بدلتا نہیں اور جو چاہتا ہے کہ وہ اُس قانون کو اُس کے لئے بدل دے وہ گویا اللہ تعالیٰ کی جناب میں گستاخی اور بے ادبی کی جرأت کرتا ہے۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بعض لوگ بے صبری سے کام لیتے ہیں اور مداری کی طرح چاہتے ہیں کہ ایک دم میں سب کام ہو جائیں۔ مَیں کہتا ہوں کہ اگر کوئی بے صبری کرے تو بھلا بے صبری سے خدا تعالیٰ کا کیا بگاڑے گا؟ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ بے صبری کر کے دیکھ لے وہ کہاں جائے گا‘‘… فرمایا ’’دیکھو حضرت یعقوب علیہ السلام کا پیارا بیٹایوسف علیہ السلام جب بھائیوں کی شرارت سے اُن سے الگ ہو گیا تو آپ چالیس برس تک اُس کے لئے دعائیں کرتے رہے۔ اگر وہ جلد باز ہوتے تو کوئی نتیجہ پیدا نہ ہوتا۔ چالیس برس تک دعاؤں میں لگے رہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی قدرتوں پر ایمان رکھا۔ آخر چالیس برس کے بعد وہ دعائیں کھینچ کر یوسف کو لے ہی آئیں۔ اسی عرصہ دراز میں بعض ملامت کرنے والوں نے یہ بھی کہا کہ تُو یوسف کو بے فائدہ یاد کرتا ہے مگر انہوں نے یہی کہا کہ مَیں خدا سے وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔ بیشک اُن کو کچھ خبر نہ تھی مگر یہ کہا۔ اِنّی لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ۔ (سورۃ یوسف: 95) پہلے تو اتنا ہی معلوم تھا کہ دعاؤں کا سلسلہ لمبا ہو گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اگر دعاؤں سے محروم رکھنا ہوتا تو وہ جلد جواب دے دیتا۔ مگر اس سلسلہ کا لمبا ہونا قبولیت کی دلیل ہے۔ کیونکہ کریم سائل کو دیر تک بٹھا کر کبھی محروم نہیں کرتا۔ بلکہ بخیل سے بخیل بھی ایسا نہیں کرتا۔ وہ بھی سائل کو اگر زیادہ دیر تک دروازہ پر بٹھائے تو آخر اُس کو کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد دوم صفحہ151-152 ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

(خطبہ جمعہ 15؍ مارچ 2013ء)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ لگزمبرگ کا پہلا جلسہ سیرۃ النبی ؐ

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اپریل 2022