دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
(قسط 10)
اپنی زبان میں دعا
- سوال ہوا کہ آیا نماز میں اپنی زبان میں دعا مانگنا جائز ہے؟ حضرت اقدسؑ نے فرمایا:
’’سب زبانیں خدا نے بنائی ہیں۔ چاہیئے کہ اپنی زبان میں جس کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہے۔ نماز کے اندر دعائیں مانگے۔ کیونکہ اس کا اثر دل پر پڑتا ہے۔ تاکہ عاجزی اور خشوع پیدا ہو۔ کلام الٰہی کو ضرور عربی میں پڑھو۔ اور اس کے معنی یاد رکھو اور دعا بیشک اپنی زبان میں مانگو۔ جو لوگ نماز کوجلدی جلدی پڑھتے ہیں اور پیچھے لمبی دعائیں کرتے ہیں وہ حقیقت سے ناآشنا ہیں۔ دعا کا وقت نماز ہے نماز میں بہت دعائیں مانگو۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ298، آن لائن ایڈیشن 1984)
استغفار وظیفہ ہے
- ایک شخص نے پوچھا کہ میں کیا وظیفہ پڑھا کروں۔ فرمایا۔
’’استغفار بہت پڑھا کرو۔ انسان کی دو ہی حالتیں ہیں۔ یا تو وہ گناہ نہ کرے۔ یا اللہ تعالیٰ اس گناہ کے بدانجام سے بچالے۔ سو استغفار پڑھنے کے وقت دونوں معنوں کا لحاظ رکھنا چاہیئے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ سے گذشتہ گناہوں کی پردہ پوشی چاہیئے اور دوسرا یہ کہ خدا سے توفیق چاہے کہ آئندہ گناہوں سے بچائے۔ مگر استغفار صرف زبان سے پورا نہیں ہوتا۔ بلکہ دل سے چاہیئے۔ نماز میں اپنی زبان میں بھی دعا مانگو۔ یہ ضروری ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ320، آن لائن ایڈیشن 1984)
قبولیتِ دعا کے شرائط
- قبولیت دعا کے واسطے چار شرطوں کا ہونا ضروری ہے۔ تب کسی کے واسطے دعا قبول ہوتی ہے۔ شرط اول یہ ہے کہ اتقاء ہو یعنی جس سے دعا کرائی جاوے وہ دعا کرنے والا متقی ہو۔ تقویٰ احسن واکمل طور پر حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پایا جاتا تھا۔ آپؐ میں کمال تقویٰ تھا۔ اصول تقویٰ کا یہ ہے کہ انسان عبودیت کو چھوڑ کر الوہیت کے ساتھ ایسا مل جاوے جیسا کہ لکڑی کے تختے دیوار کے ساتھ مل کر ایک ہوجاتے ہیں۔ اس کے اور خدا کے درمیان کوئی شئے حائل نہ رہے۔ امور تین قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک یقینی بدیہی یعنی ظاہری دیکھنے میں ایک بات بری یا بھلی ہے۔ دوم یقینی نظری یعنی ویسا یقین تو نہیں۔ مگر پھر بھی نظری طورپر دیکھنے میں وہ امر اچھا یا برا ہو۔ سو م وہ امور مشتبہ ہیں یعنی ان میں شبہ ہو کہ شاید یہ برے ہوں۔ پس متقی وہ ہے کہ اس احتمال اور شبہ سے بھی بچے۔ اور تینوں مراتب کو طے کرے۔ حضرت عمر کا قول ہے کہ شبہ اور احتمال سے بچنے کے لئے ہم دس باتوں میں سے نو باتیں چھوڑ دیتے ہیں۔ چاہیئے کہ احتمالات کا سد باب کیا جاوے۔ دیکھو ہمارے مخالفوں نے اس قدر تائیدات اور نشانات دیکھے ہیں کہ اگر ان میں تقویٰ ہوتا تو کبھی روگردانی نہ کرتے۔ ایک کریم بخش کی گواہی ہی دیکھو جس نے رو رو کر اپنے بڑھاپے کی عمر میں جبکہ اس کی موت بہت قریب تھی یہ گواہی دی کہ ایک مجذوب گلاب شاہ نے پہلے سے مجھے کہا تھا کہ عیسیٰ قادیان میں پیدا ہوگیا ہے۔ اور وہ لدھیانہ میں آوے گا۔ اور تو دیکھے گا کہ مولوی اس کی کیسی مخالفت کریں گے۔ اس کا نام غلام احمد ہوگا۔ دیکھو یہ کیسی صاف پیشگوئی ہے جو اس مجذوب نے کی۔ کریم بخش کے پابند صوم و صلوٰۃ ہونے اور ہمیشہ سچ بولنے پر سینکڑوں آدمیوں نے گواہی دی جیسا کہ ازالہ اوہام میں مفصل درج ہے۔
اب کیا تقویٰ کا یہ کام ہے کہ اس گواہی کو جھٹلایا جاوے۔ تقویٰ کے مضمون پر ہم کچھ شعر لکھ رہے تھے اس میں ایک مصرعہ الہامی درج ہوا۔ وہ شعر یہ ہے۔
ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے
اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے
اس میں دوسرا مصرعہ الہامی ہے۔ جہاں تقویٰ نہیں وہاں حسنہ حسنہ نہیں اور کوئی نیکی نیکی نہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف کی تعریف میں فرماتا ہے۔ ھُدًى لِّلۡمُتَّقِينَ (البقرہ: 3) قرآن بھی ان لوگوں کےلئے ہدایت کا موجب ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں ابتدا میں قرآن کے دیکھنے والوں کا تقویٰ یہ ہے کہ جہالت اور حسد اور بخل سے قرآن شریف کو نہ دیکھیں بلکہ نور قلب کا تقویٰ ساتھ لے کر صدق نیّت سے قرآن شریف کو پڑھیں۔
دوسری شرط قبولیت دعا کیواسطے یہ ہے کہ جس کیواسطے انسان دعا کرتا ہو۔ اس کے لئے دل میں درد ہو۔ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ (النمل: 63)
تیسری شرط یہ ہے کہ وقت اصفیٰ میسر آوے۔ ایسا وقت کہ بندہ اور اس کے رب میں کچھ حائل نہ ہو۔ قرآن شریف میں جو لیلۃ القدر کا ذکر آیا ہے کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ یہاں لیلۃ القدر کے تین معنی ہیں۔ اول تو یہ کہ رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر کی ہوتی ہے۔ دوم یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ وسلم کا زمانہ بھی ایک لیلۃ القدر تھا یعنی سخت جہالت اور بے ایمانی کی تاریکی کے وہ زمانہ میں آیا جبکہ ملائکہ کا نزول ہوا۔ کیونکہ نبی دنیا میں اکیلا نہیں آتا۔ بلکہ وہ بادشاہ ہوتا ہے۔ اور اس کے ساتھ لاکھوں کروڑوں ملائکہ کا لشکر ہوتا ہے۔ جو ملائک اپنے اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ اور لوگوں کے دلوں کو نیکی کی طرف کھینچتے ہیں۔ سوم۔ لیلۃ القدر انسان کے لئے اس کا وقت اصفیٰ ہے۔ تمام وقت یکساں نہیں ہوتے۔ بعض وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عائشہؓ کو کہتے کہ ارحنا یا عائشۃ یعنی اے عائشہؓ مجھ کو راحت و خوشی پہنچا اور بعض وقت آپ بالکل دعا میں مصروف ہوتے۔ جیسا کہ سعدیؒ نے کہا ہے۔
وقتے چنیں بودے کہ بجبرئیل و میکائیل پرداختے
و دیگر وقت باحفصہ و زینب درساختے
جتنا جتنا انسان خدا کے قریب آتا ہے۔ یہ وقت اسے زیادہ میسر آتا ہے۔
چوتھی شرط یہ ہے کہ پوری مدت دعا کی حاصل ہو یہاں تک کہ خواب یا وحی سے اللہ تعالیٰ خبر دے۔ محبت و اخلاص والے کو جلدی نہیں چاہیئے۔ بلکہ صبر کے ساتھ انتظار کرنا چاہیئے۔
(الحکم جلد5 نمبر32 صفحہ14-13 پرچہ31اگست 1901ء)(ملفوظات جلد دوم صفحہ335-337)
دعا کا طریق
- دعا کے لئے رقت والے الفاظ تلاش کرنے چاہئیں۔ یہ مناسب نہیں کہ انسان مسنون دعاؤں کے ایسا پیچھے پڑے کہ ان کو جنتر منتر کی طرح پڑھتا رہے اور حقیقت کو نہ پہچانے۔ اتباع سنت ضروری ہے۔ مگر تلاشِ رقت بھی اتباع سنت ہے۔ اپنی زبان میں جس کو تم خوب سمجھتے ہو۔ دعا کرو۔ تاکہ دعا میں جوش پیدا ہو۔ الفاظ پرست مخذول ہوتا ہے۔ حقیقت پرست بننا چاہیئے۔ مسنون دعاؤں کو بھی برکت کے لئے پڑھنا چاہیئے۔ مگر حقیقت کو پاؤ۔ ہاں جس کو زبانِ عربی سے موافقت اور فہم ہو وہ عربی میں پڑھے۔‘‘
(ملفوظات جلد دوم صفحہ338)
(مجھے) دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے
- بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہوگا۔فرمایا اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کرلے پھر فرمایا کہ میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہوجاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد اول صفحہ 303)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)