• 24 اپریل, 2024

روزہ جسم کی زکوٰۃ

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
فَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا فَہُوَ خَیۡرٌ لَّہٗ ؕوَ اَنۡ تَصُوۡمُوۡا خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (البقرہ: 185) ترجمہ: پس جو روزے رکھنے کے حکم کو دِلی خوشی سے بجا لائے تو اس کے لئے یہ روزے زیادہ بہتر ثابت ہوتے ہیں۔ جان لو کہ تمہارا روزے رکھنا تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوں۔

ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ فرماتے ہیں۔
لِکُلِّ شَئٍ زَکٰوةٌ وَ زَکٰوةُ الْجَسَدِ الصَّوْمُ ہر چیز کی ز کوٰۃ ہوتی ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے۔

(سنن ابن ماجه ، کتاب الصيام باب في الصوم زكوٰة الجسد)

کم کھانا، کم سونا، کم بولنا اسلامی تصوف کی بنیاد ہیں۔ عام دنوں میں بھی رسول اکرم ﷺ نماز فجر کے بعد مسجد میں تسبیحات کرتے اور سورج نکلنے پر گھر تشریف لے جاتے اور پوچھتے کہ کچھ کھانے کو ہے۔ اگر نہ ہوتا تو آپؐ روزہ رکھ لیتے اور یہ آپ کا معمول تھا۔ حضرت عائشہؓ کے بیان کے مطابق تو کئی ایسے مہینے آتے کہ لگتا گویا آپ نے ان میں روزہ چھوڑنا ہی نہیں ہے۔ آپؐ نے نہ صرف فرض بلکہ نفلی روزوں پر بھی زور دیا اور اپنی سنت متواترہ سے روزے کی اہمیت واضح کی اور ایسے اشخاص جو روزہ نہ رکھ سکیں اُن کو ہدایت کی کہ کم از کم کھانا کم کھایا کرو۔ آپ ﷺ فرماتے ہیں: ابن آدم نے پیٹ سے زیادہ کسی بد ترین پیمانہ کو نہیں بھرا، حالانکہ بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُکُلَاتٌ یُقِمْنَ صُلْبَہٗ ابن آدم کے لئے اتنے لقمے کافی ہیں جو اس کی کمر کو سیدھار کھ سکیں۔ اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی کھانا ہو، ایک تہائی پانی ہو اور ایک تہائی سانس لینے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔

(سنن الترمذي، كتاب الزهد باب في كراهية كثرة الأٔكل)

آپؐ فرماتے ہیں۔ أَنَّ الْمَعِدَةَ حَوْضُ الْبَدَنِ معدہ جسم کا حوض ہوتا ہے اور رَگیں اور نَسیں اس کی طرف آتی ہیں۔ پس إِذَا صَحَّتِ المَعِدَةُ صَدَرَتِ العُرُوْقُ بِالصِّحَّةِ اور جب معده تندرست ہو گا تو رَگیں اور نَسیں بھی تندرست ہوں گی اور جب معده بیمار ہو گا تو رَگیں اور نَسیں بھی بیمار پڑ جائیں گی۔

(زاد المعاد في هدي خير العباد، فَصْلٌ فِي هَدْيِهٖ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّدَقَةِ وَالزَّکوٰۃِ)

ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔ ’’بہت سی بیماریاں جو پیدا ہورہی ہیں، اس خوراک کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں …. اس لئے حکم ہے کہ مومن کو بھوک چھوڑ کر اور اعتدال سے کھانا چاہئے۔ اسی لئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ۔مومن ایک آنت سے کھاتا ہے جبکہ کافر سات آنتوں سے کھاتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد3 ص661، 662)

سو اس لئے آپ ﷺ نے روزوں پر زور دیا تا کہ کم کھانا ایک عبادت بن جائے اور انسان اس عبادت کے ذریعہ جہاں اس کی روح خدا تعالیٰ کے قریب ہو وہاں اس کا جسم صحتمند رہے۔ اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ۔ صُوْمُوْا تَصِحُّوْا روزے رکھا کرو صحت مند ہو جاؤ گے ۔

(المعجم الأٔوسط، مِنْ بَقِيَّةِ مَنْ أَوَّلُ اسْمِہٖ مِيمٌ مَنِ اسْمُهٗ مُوْسَی)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں۔
یہ بات تو ہر انسان عام طور پر سمجھ لیتا ہے، سمجھنا آسان ہے کہ جسم کی زکوٰۃ روزے میں نکلتی ہے ……کوئی بھی حواس خمسہ میں سے ایسے نہیں ہیں جن کو خدا کی راہ میں قربانی نہ پیش کرنی ہو۔ پس یہ گویا جسم کی زکوٰة نکل رہی ہے اور زکوٰۃ نکلنے کا جو مفہوم ہے اُس کو سمجھنا چاہئے۔ زکوةکے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے۔ زکوٰة کم کرنے کے لئے نہیں ہے بلکہ بڑھانے کے لئے…… پس وہ انسان جو یہ چاہتا ہے کہ اس کا جسم پہلے سے زیادہ صحت مند ہو جائے۔ جب وہ خدا کی خاطر اپنے جسم کی ہر طاقت کی قربانی پیش کرتا ہے تو حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کا وعدہ ہے کہ وہ زکوٰة شمار ہو گی اور زکوٰة کے نتیجے میں اسی قسم کی چیزوں میں برکت پڑنے کا وعدہ قرآن کریم میں موجود ہے۔ پس وہ جاہل جو یہ کہتے ہیں روزے کے نتیجے میں مسلمانوں کی صحتیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ یہ بیوقوفی ہے اُن کی لاعلمی ہے …… رمضان تو تمام کھوئی ہوئی طاقتوں کو بحال کر جاتا ہے۔ جسم کو ایک نئی جان بخش دیتا ہے۔

(خطبات طاہر جلد12 ص190)

آپ حديث صُوْمُوْا تَصِحُّوْا کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
اگر تم روزے رکھوگے تو صحت مند رہوگے۔ پس صرف روحانی زکوٰة ہی نہیں بدنی زکوة بھی ہے اور رمضان کے مہینے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روزے کے نتیجہ میں صحت بہتر ہوتی ہے، خراب نہیں ہوا کرتی بشر طیکہ بیماری کی شرط کو پیشِ نظر رکھے……ایک تحقیق کا شاید مَیں نے پہلے کبھی ذکر کیا تھا۔ اسرائیل میں اس مضمون پر ریسرچ ہوئی اور اُن کی نیت بظاہر یہی معلوم ہوتی تھی کہ وہ ثابت کریں کہ مسلمانوں کا جو یہ طریق ہے روزے رکھنے کا ،یہ اُن کے لئے نقصان دہ ہے اور بچوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے، بڑوں کو بھی نقصان پہنچتا ہے۔ چنانچہ پوری گہری ریسرچ کی گئی، ایک بڑی ٹیم نے اس پہ کام کیا اور یہ بھی پیشِ نظر تھا کہ روزے کے دِنوں میں تو بعض لوگ پہلے سے بھی بڑھ کر کھاتے ہیں اور زیادہ کھانے کے نتیجے میں اور بیچ میں فاقے رہنے کے نتیجے میں ایسا نقصان ان کوپہنچ سکتا ہے کہ پھر وہ بعد میں سنبھل نہ سکیں۔ جوریسرچ کا ماحصل تھا اس نے اُن کو حیران کر دیا، بالکل برعکس نتیجہ نکلا۔ جس چیز کی تلاش میں تھے اُس کی بجائے یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ جتنی تحقیق کی گئی ہے اُس کے نتیجے میں رمضان کے مہینے کے بعد انسان بہتر صحت کے ساتھ باہر نکلتا ہے، کمزور ہو کے نہیں نکلتا۔ ہر پہلو سے اس کے جائزے لئے گئے۔

(خطبات طاہر جلد15 ص 73 تا 75)

سو جہاں تک ممکن ہو موسم کی شدت، ملازمت، پڑھائی اور کئی قسم کے عذر بناکر روزے نہیں چھوڑنے چاہئیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے فرض کئے ہیں اور موسموں کی تبدیلی یا مصروفیات کی بناء پر رخصت نہیں دی۔ رخصت صرف مریض اور مسافر کو ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس بابرکت مہینہ سے ہر طرح کی برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم روزے رکھ کر اپنے جسم کی روحانی اور بدنی ز کوٰۃ نکالنے والے ہوں۔ آمین۔


پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 13 مئی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 اپ ڈیٹ14۔مئی2020ء