ڈنڈی شہر گلاسگو سے شمال مشرق کی طرف تقریباً 82 میل کے فاصلے پر ایک خوبصورت شہر ہے اور یہاں جماعت کے قیام کی صورت ایسے نکلی کہ تقریباً 2001ء سے احمدی طالبِ علم یہاں تعلیم اور بعد میں نوکری کی غرض سے آنا شروع ہوگئے۔ ان میں مکرم ڈاکٹر غُلام کبیر، مکرم طارق احمد اور مکرم نفیس احمد خان قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے بعد تقریباً 2006ء میں کافی احمدی طالبعلم پاکستان، افریقہ اور دوسرے ممالک سے ڈنڈی یونیورسٹی میں تعلیم کی غرض سے وارد ہوئے۔ اسی دوران کُچھ ڈاکٹری پیشہ اور دوسرے احمدی احباب کا آنا جانا اس شہر میں ہوتا رہا اور ان میں سے کافی دوستوں نے اس شہر کو اپنا وطن بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ دوست ایک دوسرے کے گھروں میں نماز اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے اکٹھے ہوتے رہے، تقریباً 2013ء میں اس بات کی شدت سے کمی محسوس ہوئی کہ ایک مسجد خریدی جائے جہاں احباب نمازوں کے لئے اکٹھے ہوسکیں۔ جب قابلِ ذکر احباب یہاں جمع ہوگئے تو ڈنڈی کو علیحدہ جماعت کے طور پر منظور کیا گیا اوربعد ازاں جماعت کے انتخابات ہوئے اورجنوری 2014ء کو یہ جماعت وجود میں آئی اور مکرم محمد احسان احمد اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے۔
ڈنڈی جماعت کی پہلی منتخب عاملہ کی تفصیل درج ذیل ہے۔
منظوری کی تاریخ: مؤرخہ29 دسمبر 2013ء
صدر جماعت: مکرم محمد احسان احمد
نائب صدر: مکرم ڈاکٹر غلام کبیر
جنرل سیکرٹری: مکرم ڈاکٹر عبدالمنان
سیکرٹری تبلیغ: مکرم سعیدالد ین احمد
سیکرٹری تربیت: مکرم عبدالباسط
سیکرٹری مال: مکرم شعیب افضال
سیکرٹری وقفِ نو: مکرم رضوان احمد
برطانوی قانون کے مطابق اگر کسی شہر کی کونسل کے پاس کوئی ایسی عمارت ہو جو surplus ہو تو ایسی عمارت کو گورنمنٹ کی ایک سکیم جس کا نام Asset transfer to community کے تحت کسی رفاہی ادارہ کو دیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ڈنڈی میں بھی کونسل سے رابطہ کیا گیا اور ایسی عمارت کی تفصیل اور خریدنے کے طریقۂ کار کی معلومات لیں گئیں اور ایک باقاعدہ درخواست جمع کروا دی گئی۔ اس کام میں مکرم ڈاکٹر غُلام کبیر، مکرم عبدالغفار عابد، مکرم محمد احسان احمد، مکرم رضوان احمد، مکرم ڈاکٹر عبدالمنان، مکرم احمد اوسو کونیڈو، محترم قریشی داؤد احمد مربی سلسلہ اور مکرم شُعیب خان کی کاوشیں قابلِ قدر ہیں۔ اس اثنا ءمیں ایک عمارت کے متعلق علم ہوا جو اس کونسل کی طرف سے اسی مقصد کے لئے لی جا سکتی تھی۔
اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دُعا اور رہنمائی کے لئے خط لکھا گیا اور آپ ایدہ اللہ تعالیٰ کا شفقت بھرا جواب موصول ہوا جس میں لکھا تھا ’’لےلو‘‘ اور اس عمارت کی خرید کے بعد حضور اقدس نے اس عمارت کا نام ’’مسجدمحمود‘‘ تجویز فرمایا۔ اس جواب سے احباب جماعت ڈنڈی کو ڈھارس بندھی اور انہوں نے جماعت احمدیہ برطانیہ کے شعبہ جائیداد سے قانونی مدد لی اور تیاری کے بعد 2015ء میں ڈنڈی کونسل میں دوسرے مرحلہ کے لئے بھی درخواست دے دی۔ اس دوران ڈنڈی شہر کے ممبر پارلیمنٹ برطانیہ، ممبر پارلیمنٹ سکاٹش پارلیمنٹ، کونسلرز اور دوسرے اہم لوگوں سے رابطہ بھی کیا گیا اور ضروری کاغذی کارروائی بھی جاری رہی۔ کونسل کی ایک عمارت منتخب کی گئی اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی دُعاؤں کے طفیل تقریباً اوائل 2016ء میں کاغذی کارروائی مُکمل ہوئی اور یہ عمارت محض ایک برطانوی پاؤنڈ کے عوض جماعت احمدیہ ڈنڈی کے نام مُنتقل ہوگئی، الحمدُ للہ
یہ 31 جولائی 2016ء اور جُمعہ کا مُبارک دن تھا جب اس عمارت کی چابیاں جماعت کو عطا ہوئیں اور اُسی دن جُمعہ کی نماز کی ادائیگی کے ساتھ مسجد محمود ڈنڈی کا رسمی افتتاح ہوا۔ اس عمارت کو قابلِ استعمال بنانے اور ضروری تبدیلیوں کے لئے زیادہ تر کام وقارِعمل کے ذریعہ آہستہ آہستہ جاری رہا جس میں خصوصی طور پر ڈنڈی جماعت کے احباب نے حصہ لیا اور عمومی طور پر گلاسگو اور ایڈنبرا کے احباب نے بھی حصہ لیا۔ ڈنڈی جماعت کے اُن احباب کا ذکر کرنا مُناسب ہوگا جنہوں نے جانفشانی سے مسجد محمود کے تعمیری کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ ان میں مکرم ناصح احمد، مکرم عماد احمد اور مکرم وسیم احمد نمایاں ہیں۔
اب اس مسجد میں باقاعدگی سے نمازیں، جُمعہ اور دوسری جماعت کی سرگرمیاں جاری ہیں اور حضرت مسیحِ موعودؑ کا پیغام برطانیہ کے اس کونے میں بھی پہنچ چُکا ہے۔ یہاں ابھی مربی سلسلہ کی تقرری نہیں ہوئی لہذٰاریجنل مربی ہی دورہ جات کرتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ شروع شروع میں اسلام مخالف مُقامی لوگوں نے اس مسجد کے قیام پر سوال اُٹھائے تھے مگر جیسے جیسے اُنہیں جماعت کی پُرامن تعلیم کے متعلق بتایا گیا اور مسجد میں ہمسایوں کی خاطر مُختلف پروگرام کئے گئے تو یہ مُخالفت بھی باقی نہ رہی۔ اب یہ عالم ہے کہ جب بھی کسی پروگرام میں غیرمُسلموں اور ہمسایوں کو بُلایا جاتا ہے تو یہ نہایت اطمینان اور خوشی سے شامل ہوتے ہیں اور مقامی سوشل اور پرنٹ میڈیا میں کُھل کر جماعت کی حمایت بھی کرتے ہیں جس سے تبلیغ کے مواقع مُیسر آتے رہتے ہیں الحمدُللہ۔



(ارشد محمود خاں ۔ اسکاٹ لینڈ)