• 5 مئی, 2024

’’آج تم یہ عہد کر لو کہ تم نے ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا ہے، جھوٹ کبھی نہیں بولنا‘‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، قولِ سدید کی وجہ سے تم لغو باتوں سے بھی پرہیز کرنے والے بن جاؤ گے۔ لغو بات سے پرہیز بذاتِ خود پھر نیک اعمال کی طرف لے جاتا ہے۔ برائیوں سے دور کرتا ہے۔ ایک بڑی مشہور حدیث ہے۔ ہم اکثر سنتے ہیں۔ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کہ ’’آج تم یہ عہد کر لو کہ تم نے ہمیشہ سچائی پر قائم رہنا ہے، جھوٹ کبھی نہیں بولنا‘‘ اگر اس پر عمل کرتے رہے تو فائدہ ہو گا۔ تمہاری برائیاں چھٹ جائیں گی۔ تو اس نے اس پر عمل کرتے ہوئے اپنی تمام چھوٹی بڑی برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا پا لیا۔

(التفسیرالکبیر لامام رازیؒ جزء16 صفحہ176 تفسیر سورۃ التوبہ زیر آیت نمبر119 دارالکتب العلمیۃ بیروت 2004ء)

اور جب انسان برائیوں اور گناہوں سے چھٹکارا حاصل کرتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کا وعدہ اور فعل اُس کو اعمال کے اصلاح کی توفیق دیتا ہے۔ اور یوں وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جاتا ہے جو اعمالِ صالحہ بجا لانے والے ہیں۔ اور پھر یہی نہیں کہ جو نیک اعمال اب سرزد ہو رہے ہیں اُنہی کا اجر ہے، بلکہ تقویٰ پر چلنے والے، سچائی پر قائم ہونے والے اپنے گزشتہ گناہوں سے بھی اللہ تعالیٰ کی بخشش کروا لیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف تمہارے اعمال کی اصلاح نہیں ہو گی بلکہ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔ تمہارے گزشتہ گناہوں کو بھی اللہ تعالیٰ بخش دے گا۔ اور اگر اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کے حکموں پر عمل کرتے رہے، تقویٰ پر قائم رہے، نیکیاں کرنے کی توفیق پاتے رہے، فتنہ و فساد سے بچے رہے، اُن تمام احکام پر عمل کرتے رہے جو اللہ تعالیٰ نے مومن کو حقیقی مومن بننے کے لئے دئیے ہیں، جن کے بارے میں ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تاکیداً اس طرح توجہ دلائی ہے کہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرو گے تو حقیقی مومن کہلاؤ گے۔ (ماخوذ ازکشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)۔ اور حقیقی مومن بننے کے نتیجہ میں آئندہ یہ گناہ بھی پھر معاف ہو جائیں گے۔ یہ نہیں کہ آئندہ گناہ انسان کرتا جائے اور خدا تعالیٰ معاف کرتا جائے گا، بلکہ نیک اعمال کی وجہ سے، اصلاحِ نفس کی وجہ سے گناہوں سے دُوری ہوتی چلی جائے گی۔ استغفار کرنے کی وجہ سے خدا تعالیٰ سے گناہوں کے خلاف انسان کو طاقت ملتی ہے۔

پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ‘‘تو اس کا یہی مطلب ہے کہ گزشتہ گناہوں سے بخشش اور آئندہ گناہوں کے خلاف طاقت ملتی ہے جس سے پھر اعمالِ صالحہ کا ایک جاری اور مسلسل عمل جو ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ فوزِ عظیم ہے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بن جائے۔

پس فوزِ عظیم کے حصول کے لئے اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی کامل اطاعت ضروری ہے۔ اپنی زندگی کو اللہ اور رسول کے حکموں کے مطابق ڈھالنا ضروری ہے۔ اس پر عمل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ سے طاقت مانگنا ضروری ہے۔ اور یہ طاقت استغفار سے ملتی ہے۔ جب یہ طاقت ملے گی تو پھر نیک اعمال بھی سرزد ہوں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے نیک اعمال کی طرف رہنمائی بھی فرماتا رہے گا۔ اور پھر ایسے انسان کا اُن حقیقی مومنوں میں شمار ہو گا جو سچائی پر قائم رہنے والے اور سچائی کو پھیلانے والے ہوں گے۔ اُن لوگوں میں شمار ہو گا جو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرنے والے مومنین ہیں۔ پس تقویٰ فوزِ عظیم تک لے جاتا ہے اور فوزِ عظیم حاصل کرنے والے متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے مومنو! اپنی زندگی کا یہ مقصد بناؤ اگر حقیقی مومن بننا ہے۔ پس یہ چیزیں ہیں جو ہمیں حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022