• 23 اپریل, 2024

فقہی کارنر

ارکان نماز پُر حکمت ہیں

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
دُعا وہ اکسیر ہے جو ایک مشتِ خاک کو کیمیا کر دیتی ہے اور وہ ایک پانی ہے جو اندر ونی غلاظتوں کو دھو دیتا ہے۔ اُس دعا کے ساتھ روح پگھلتی ہے اور پانی کی طرح بہہ کر آ ستانہ حضرت احدیّت پر گرتی ہے۔ وہ خدا کے حضور میں کھڑی بھی ہوتی ہے اور رکوع بھی کرتی ہے اور سجدہ بھی کرتی ہے۔ اور اسی کی ظِل وہ نماز ہے جو اسلام نے سکھائی ہے اور رُوح کا کھڑا ہونا یہ ہے کہ وہ خدا کے لئے ہر ایک ہیبت کی برداشت اور حکم ماننے کے بارے میں مستعدی ظاہر کرتی ہے اور اس کا رکوع یعنی جھکنا یہ ہے کہ وہ تمام محبتوں اور تعلقوں کو چھوڑ کر خدا کی طرف جھک آتی ہے اور خدا کے لئے ہو جاتی ہے اور اُس کا سجدہ یہ ہے کہ وہ خدا کے آستانہ پر گِر کر اپنے خیال بکلّی کھو دیتی ہے اور اپنے نقش ِ وجود کو مٹا دیتی ہے۔ یہی نماز ہے جو خدا کو ملاتی ہے اور شعریت اسلامی نے اس کی تصویر معمولی نماز میں کھینچ کر دکھلائی ہے تا وہ جسمانی نماز روحانی کا اثر جسم پر اور جسم کا اثر روح پر ضرور ہوتا ہے۔ جب تمہاری روح غمگین ہو تو آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہو جاتے ہیں اور جب روح میں خوشی پیدا ہو تو چہرہ پر بشاشت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ انسان بسا اوقات ہنسنے لگتا ہے ایسا ہی جب جسم کو کوئی تکلیف اور درد پہنچے تو اس درد میں روح بھی شریک ہوتی ہے اور جب جسم کسی ٹھنڈی ہوا سے خوش ہو روح بھی اس سے کچھ حصہ لیتی ہے پس جسمانی عبادات کی غرض یہ ہے کہ روحانی قیام اور سجود میں مشغول ہو جائے کیونکہ انسان تر قیات کے لئے مجاہدات کا محتاج ہے اور یہ بھی ایک قسم مجاہدہ کی ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جب دو چیزیں باہم پیوست ہوں تو جب ہم اُن میں سے ایک چیز کو اٹھا ئیں گے تو اُس اُٹھانے سے دوسری چیز کو بھی جو اس سے ملحق ہے کچھ حرکت پیدا ہوگی۔ لیکن صرف جسمانی قیام اور رکوع اور سجود میں کچھ فائدہ نہیں ہے جب تک کہ اس کے ساتھ یہ کوشش شامل نہ ہو کہ روح بھی اپنے طور سے قیام اور رکوع اور سجود سے کچھ حصہ لے اور یہ حصہ لینا معرفت پر موقوف ہے اور معرفت فضل پر موقوف۔

(لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ223۔224)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022