• 18 مئی, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 46)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 46

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ تعالیٰ کے حقوق

اللہ تعالیٰ چاہتا تو انسان کو ایک حالت میں رکھ سکتا تھا۔ مگر بعض مصالح اور امور ایسے ہوتے ہیں کہ اس پر بعض عجیب و غریب اوقات اور حالتیں آتی رہتی ہیں۔ ان میں سے ایک ھمّ وغم کی بھی حالت ہے۔ ان اختلاف حالات اور تغییر و تبدیل اوقات سے اللہ تعالیٰ کی عجیب در عجیب قدرتیں اور اسرار ظاہر ہوتے ہیں۔ کیا اچھا کہا ہے

اگر دنیا بیک دستور ماندے
بسا اسرار ہا مستور ماندے

جن لوگوں کو کوئی ھمّ وغم دنیا میں نہیں پہنچتا اور جو بجائے خود اپنے آپ کو بڑے ہی خوش قسمت اور خوشحال سمجھتے ہیں، وہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے اسرار اور حقائق سے نا واقف اور نا آشنا رہتے ہیں۔ اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ مدرسوں میں سلسلہ تعلیم کے ساتھ یہ بھی لازمی رکھا گیا ہے کہ ایک خاص وقت تک لڑکے ورزش بھی کریں۔ اس ورزش اور قواعد وغیرہ سے جو سکھائی جاتی ہے سر رشتہ تعلیم کے افسروں کا یہ منشا تو ہو نہیں سکتا کہ ان کو کسی لڑائی کے لئے طیار کیا جاتا ہے اور نہ یہ ہو سکتا ہے کہ وہ وقت ضائع کیا جاتا ہے اور لڑکوں کا وقت کھیل کود میں دیا جاتا ہے، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اعضاء جو حرکت کو چاہتے ہیں۔ اگر ان کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جائے تو پھر ان کی طاقتیں زائل اور ضائع ہو جاویں اور اس طرح پر اُس کو پورا کیا جاتا ہے۔ بظاہر ورزش کرنے سے اعضاء کو تکلیف اور کسی قدر تکان اُن کی پرورش اور صحت کا موجب ثابت ہوتی ہے۔ اسی طرح پر ہماری فطرت کچھ ایسی واقع ہوئی ہے کہ وہ تکلیف کو بھی چاہتی ہے تا کہ تکمیل ہو جاوے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہی ہوتا ہے۔ جو وہ انسان کو بعض اوقات ابتلاؤں میں ڈال دیتا ہے۔ اس سے اس کی رضا بالقضا اور صبر کی قوتیں بڑھتی ہیں۔ جس شخص کو خدا پر یقین نہیں ہوتا ان کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ ذرا سی تکلیف کے پہنچنے پر گھبرا جاتے ہیں اور وہ خودکشی میں آرام دیکھتا ہے، مگر انسان کی تکمیل اور تربیت چاہتی ہے کہ اس پر اس قسم کی ابتلاء آویں اور تاکہ اللہ تعالیٰ پر اس کا یقین بڑھے۔

اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے، لیکن جن کو تفرقہ اور ابتلاء نہیں آتا ان کا حال دیکھو کہ کیسا ہوتا ہے۔ وہ بالکل دنیا اور اس کی خواہشوں میں منہمک ہو گئے ہیں اُن کا سر اوپر کی طرف نہیں اٹھتا۔ خدا تعالیٰ کا ان کو بھول کر بھی خیال نہیں آتا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اعلیٰ درجہ کی خوبیوں کو ضائع کر دیا اور بجائے اس کے ادنیٰ درجہ کی باتیں حاصل کیں، کیونکہ ایمان اور عرفان کی ترقی ان کے لئے وہ راحت اور اطمینان کے سامان پیدا کرتے جو کسی مال ودولت اور دنیا کی لذت میں نہیں ہیں۔ مگر افسوس کہ وہ ایک بچہ کی طرح آگ کے انگارہ پر خوش ہو جاتے ہیں اور اس کی سوزش اور نقصان رسانی سے آگاہ نہیں، لیکن جن پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہوتا ہے اور جن کو ایمان اور یقین کی دولت سے مالامال کرتا ہے ان پر ابتلاء آتا ہے۔

جو کہتے ہیں کہ ہم پر کوئی ابتلاء نہیں آیا وہ بد قسمت ہیں۔ وہ نازو نعمت میں رہ کر بہائم کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی زبان ہے، مگر وہ حق بول نہیں سکتی۔ خدا کی حمدوثنا اس پر جاری نہیں ہوتی، بلکہ وہ صرف فسق و فجور کی باتیں کرنے کے لیے اور مزہ چکھنے کے واسطے ہے۔ ان کی آنکھیں ہیں، مگر وہ قدرت کا نظارہ نہیں دیکھ سکتیں، بلکہ وہ بد کاری کے لیے ہیں۔ پھر ان کو خوشی اور راحت کہاں سے میسّر آتی ہے۔ یہ مت سمجھو کہ جس کو ھمّ و غم پہنچتا ہے وہ بد قسمت ہے۔ نہیں۔ خدا اس کو پیار کرتا ہے۔ جیسے مرہم لگانے سے پہلے چیرنا اور جراحی کا عمل ضروری ہے۔ اسی طرح خدا کی راہ میں ھمّ و غم آنا ضروری ہے۔ غرض یہ انسانی فطرت میں ایک امر واقعہ شدہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ یہ ثابت کرتا ہے کہ دنیا کی حقیقت کیا ہے اور اس میں کیا کیا بلائیں اور حوادث آتے ہیں۔

ابتلاؤں میں ہی دعاؤں کے عجیب و غریب خواص اور اثر ظاہر ہوتے ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ ہمارا خدا تو دعاؤں ہی سے پہچانا جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ1-3 ایڈیشن2016ء)

دنیا میں جس قدر قومیں ہیں۔ کسی قوم نے ایسا خدا نہیں مانا جو جواب دیتا ہو اور دعاؤں کو سنتا ہو۔ کیا ایک ہندو ایک پتھر کے سامنے بیٹھ کر یا درخت کے آگے کھڑا ہو کر یا بیل کے رُو برو ہاتھ جوڑ کر کہہ سکتا ہے کہ میرا خدا ایسا ہے کہ میں اس سے دعا کروں تو یہ مجھے جواب دیتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ کیا ایک عیسائی کہہ سکتا ہے کہ میں نے یسوع کو خدا مانا ہے۔ وہ میری دعا کو سنتا اور اس کا جواب دیتا ہے؟ ہر گز نہیں۔ بولنے والا خدا صرف ایک ہی ہے جو اسلام کا خدا ہے جو قرآن نے پیش کیا ہے۔ جس نے کہا اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المؤمن: 61) تم مجھے پکارو میں تم کو جواب دوں گا اور یہ بالکل سچی بات ہے۔ کوئی ہو جو ایک عرصہ تک سچی نیت اور صفائی قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتا ہو۔ وہ مجاہدہ کرے اور دعاؤں میں لگا رہے۔ آخر اس کی دعاؤں کا جواب اُسے ضرور دیا جاوے گا۔

قرآن شریف میں ایک مقام پر ان لوگوں کے لیے جو گو سالہ پرستی کرتے ہیں اور گوسالہ کو خدا بناتے ہیں آیا ہے لَا یَرۡجِعُ اِلَیۡہِمۡ قَوۡلًا (طٰہٰ: 90) کہ وہ اُن کی بات کا کوئی جواب اُن کو نہیں دیتا۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جو خدا بولتے نہیں ہیں وہ گوسالہ ہی ہیں۔ ہم نے عیسائیوں سے بارہا پوچھا ہے کہ اگر تمہارا خدا ایسا ہی ہے جو دعاؤں کو سنتا ہے اور ان کے جواب دیتا ہے تو بتاؤ وہ کس سے بولتا ہے؟ تم جو یسوع کو خدا کہتے ہو۔ پھر اس کو بلا کر دکھاؤ۔ میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ سارے عیسائی اکٹھے ہو کر بھی یسوع کو پکاریں۔ وہ یقیناً کوئی جواب نہ دے گا، کیونکہ وہ مر گیا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ3-4 ایڈیشن2016ء)

نفس کے حقوق

اس سلسلہ میں داخل ہو کر تمہارا وجود الگ ہو اور تم بالکل ایک نئی زندگی بسر کرنے والے انسان بن جاؤ۔ جو کچھ تم پہلے تھے وہ نہ رہو۔ یہ مت سمجھو کہ تم خدا تعالیٰ کی راہ میں تبدیلی کرنے سے محتاج ہو جاؤ گے یا تمہارے بہت سے دشمن پیدا ہو جائیں گے۔ نہیں، خدا کا دامن پکڑنے والا ہر گز محتاج نہیں ہوتا اس پر کبھی بُرے دن نہیں آ سکتے۔ خدا جس کا دوست اور مدد گار ہو اگر تمام دنیا اس کی دشمن ہو جاوے تو کچھ پرواہ نہیں، مومن اگر مشکلات میں بھی پڑے تو وہ ہر گز تکلیف میں نہیں ہوتا بلکہ وہ دن اس کے لیے بہشت کے دن ہوتے ہیں خدا کے فرشتے ماں کی طرح اسے گود میں لے لیتے ہیں۔

مختصر یہ کہ خدا خود ان کا محافظ اور ناصر ہو جاتا ہے یہ خدا جو ایسا خدا ہے کہ وہ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ ہے وہ عالم الغیب ہے وہ حی وقیوم ہے۔ اس خدا کا دامن پکڑنے سے کوئی تکلیف پا سکتا ہے؟ کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ اپنے حقیقی بندے کو ایسے وقتوں میں بچا لیتا ہے کہ دنیا حیران رہ جاتی ہے آگ میں پڑ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زندہ نکلنا کیا دنیا کے لیے حیرت انگیز امر نہ تھا۔ کیا ایک خطرناک طوفان میں حضرت نوحؑ اور آپ کے رفقاء کا سلامت بچ رہنا کوئی چھوٹی سی بات تھی اس قسم کی بے شمار نظیریں موجود ہیں اور خود اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اپنے دستِ قدر ت کے کرشمے دکھائے ہیں دیکھو مجھ پر خون اور اقدامِ قتل کا مقدمہ بنایا گیا۔ ایک بڑا بھاری ڈاکٹر جو پادری ہے وہ اس میں مدّعی ہوا اور آریہ اور بعض مسلمان اس کے معاون ہوئے لیکن آخر وہی ہوا جو خدا نے پہلے سے فرمایا تھا۔ اِبْرَآء (بے قصور ٹھہرانا)۔

پس یہ وقت ہے کہ تم توبہ کرو اور اپنے دلوں کو پاک صاف کرو ابھی طاعون تمہارے گاؤں میں نہیں۔ یہ خدا کا فضل و کرم ہے اس لئے توبہ کا وقت ہے اور اگر مصیبت سر پر آپڑی اس وقت توبہ کیا فائدہ دے گی۔ جموں، سیالکوٹ اور لدھیانہ وغیرہ اضلاع میں دیکھو کہ کیا ہو رہا ہے۔ ایک طوفان برپا ہے اور قیامت کا ہنگامہ ہو رہا ہے اس قدر خوفناک موتیں ہوئی ہیں کہ ایک سنگدل انسان بھی اس نظارہ کو دیکھ کر ضبط نہیں کر سکتا۔ چھوٹا بچہ پاس پڑا ہوا تڑپ رہا اور بلبلا رہا ہے ماں باپ سامنے مرتے ہیں۔ کوئی خبر گیر نہیں ہے بہت عرصہ کا ذکر ہے کہ میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی کہ ایک بڑا میدان ہے اس میں ایک بڑی نالی کھدی ہوئی ہے جس پر بھیڑیں لٹا کر قصاب ہاتھ میں چُھری لئے ہوئے بیٹھتے ہیں اور آسمان کی طرف منہ کیے ہوئے حکم کا انتظار کرتے ہیں۔ میں پاس ٹہل رہا ہوں۔ اتنے میں میں نے پڑھا قُلۡ مَا یَعۡبَؤُا بِکُمۡ رَبِّیۡ لَوۡلَا دُعَآؤُکُمۡ (الفرقان: 78) یہ سنتے ہی انہوں نے جھٹ چُھری پھیر دی بھیڑیں تڑپتی ہیں اور وہ قصاب انہیں کہتے ہیں کہ تم ہو کیا، گوہ کھانے والی بھیڑیں ہی ہو وہ نظارہ اس وقت تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔

غرض خدا بے نیاز ہے، اُسے صادق مومن کے سوا اور کسی کی پروا نہیں ہوتی۔ اور بعد از وقت دعا قبول نہیں ہوتی ہے۔

جب اللہ تعالیٰ نے مہلت دی ہے اُس وقت اُسے راضی کرنا چاہیے، لیکن جب اپنی سیہ کاریوں اور گناہوں سے اُسے ناراض کر لیا اور اس کا غضب اور غصہ بھڑک اُٹھا۔ اُس وقت عذابِ الٰہی کو دیکھ کر توبہ استغفار شروع کی اس سے کیا فائدہ ہو گا جب سزا کا فتویٰ لگ چکا۔

یہ ایسی بات ہے کہ جیسے کوئی شہزادہ بھیس بدل کر نکلے اور کسی دولت مند کے گھر جا کر روٹی یا کپڑا پانی مانگے اور وہ باوجود مقدرت ہونے کے اس سے مسخری کریں اور ٹھٹھے مار کر نکال دیں۔ اور وہ اسی طرح سارے گھر پھرے، لیکن ایک گھر والا اپنی چارپائی دے کر بٹھائے اور پانی کی بجائے شربت اور خشک روٹی کی بجائے پلاؤ دے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کی بجائے اپنی خاص پوشاک اسکو دے تو اب تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ چونکہ در اصل تو بادشاہ تھا۔ اب ان لوگوں سے کیا سلوک کرے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ان کمبختوں کو جنہوں نے باوجود مقدرت ہونے کے اس کو دھتکار دیا اور اس سے بد سلوکی کی سخت سزا دے گا اور اس غریب کو جس نے اس کے ساتھ اپنی ہمت اور طاقت سے بڑھ کر سلوک کیا وہ دے گا جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ63-65 ایڈیشن 2016ء)

بنی نوع کے حقوق

بدی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک خدا کے ساتھ شریک کرنا۔ اس کی عظمت کو نہ جاننا۔ اُس کی عبادت اور اطاعت میں کسل کرنا۔ دوسری یہ کہ اس کے بندوں پر شفقت نہ کرنا۔ اُن کے حقوق ادا نہ کرنے۔ اب چاہیئے کہ دونو قسم کی خرابی نہ کرو۔ خدا کی اطاعت پر قائم رہو۔ جو عہد تم نے بیعت میں کیا ہے اس پر قائم رہو۔ خدا کے بندوں کو تکلیف نہ دو۔ قرآن کو بہت غور سے پڑھو۔ اس پر عمل کرو۔ ہر ایک قسم کے ٹھٹھے اور بیہودہ باتوں اور مشرکانہ مجلسوں سے بچو۔ پانچوں وقت نماز کو قائم رکھو۔ غرض کے کوئی ایسا حکم الٰہی نہ ہو جسے تم ٹال دو۔ بدن کو بھی صاف رکھو اور دل کو ہر ایک قسم کے بیجا کینے بغض و حسد سے پاک کرو۔ یہ باتیں ہیں جو خدا تم سے چاہتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ کبھی کبھی آتے رہو۔ جبتک خدا نہ چاہے کوئی آدمی بھی نہیں چاہتا۔ نیکی کی توفیق وہی دیتا ہے۔

دو عمل ضرور یاد رکھو۔ ایک دُعا۔ دوسرے ہم سے ملتے رہنا تاکہ تعلق بڑھے اور ہماری دعا کا اثر ہو۔

ابتلا سے کوئی خالی نہیں رہتا۔ جب سے یہ سلسلہ انبیاء اور مرسل کا چلا آرہا ہے جس نے حق کو قبول کیا ہے اس کی ضرور آزمائش ہوتی ہے۔ اسی طرح یہ جماعت بھی خالی نہ رہے گی۔ گر د و نواح کے مولوی کوشش کریں گے کہ تم اس راہ سے ہٹ جاؤ۔ تم پر کفر کہ فتوے دینگے لیکن یہ سب کچھ پہلے ہی سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے لیکن اس کی پروا نہ کرنی چاہیئے جوانمردی سے اس کا مقابلہ کرو۔

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ75 تا 77، ایڈیشن1984ء)

پھر یاد رکھو کہ حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں دانستہ ہر گز غفلت نہ کی جاوے۔ جو ان امور کو مدِّ نظر رکھ کر دعاؤں سے کام لے گا۔ یا یوں کہو کہ جسے دعا کی توفیق دی جاوے گی۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اور وہ بچ جاوے گا۔ ظاہری تدابیر صفائی وغیرہ کی منع نہیں ہیں۔ بلکہ بر توکّل زانوے اشتر بہ بند پر عمل کرنا چاہئے جیسا کہ اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ سے معلوم ہوتا ہے، مگر یاد رکھو کہ اصل صفائی وہی ہے جو فرمایا ہے قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا (الشّمس: 10) ہر شخص اپنا فرض سمجھ لے کہ وہ اپنی حالت میں تبدیلی کرے تمہیں یاد ہو گا کہ مجھے الہام ہوا تھا اَیَّامُ غَضَبِ اللّٰہِ غَضِبْتُ غَضْبًا شَدِیْدًا یہ طاعون کے متعلق ہے مگر وہی خدا کے فضل کا امیدوار ہو سکتا ہے جو سلسلہ دعا، توبہ اور استغفار کا نہ توڑے اور عمداً گناہ نہ کرے۔

گناہ ایک زہر ہے جو انسان کو ہلاک کر دیتی ہے اور خدا کے غضب کو بھڑکاتی ہے گناہ سے صرف خدا تعالیٰ کا خوف اور اس کی محبت ہٹاتی ہے طاعون بھی گناہوں سے بچانے کے لیے ہے۔ صوفی کہتے ہیں کہ سعید کسی موقع کو ہاتھ سے نہیں دیتے۔ بعض کے حالات سنے ہیں کہ انہوں نے دعا کی کہ کوئی ہیبت ناک نظارہ ہو تاکہ دل میں رقّت اور درد پیدا ہو۔ اب اس سے بڑھ کر کیا ہیبت ناک نظارہ ہو گا کہ لاکھوں بچے یتیم کیے جاتے ہیں۔ بیواؤں سے گھر بھر جاتے ہیں۔ ہزاروں خاندان بے نام و نشان ہو جاتے ہیں اور کوئی باقی نہیں رہتا۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنّت ہے کہ وہ انبیاء علیہم السلام کو ایسے موقعوں پر ہمیشہ بچا لیتا ہے جبکہ بلائیں عذابِ الٰہی کی صورت میں نازل ہوں۔ پس اس وقت خدا کا غضب بڑھا ہوا ہے اور حقیقت میں یہ خدا کے غضب کے ایام ہیں اس لیے کہ خدا کے حدود اور احکام کی بے حُرمتی کی جاتی ہے اور اس کی باتوں پر ہنسی اور ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ پس اس سے بچنے کے لیے یہی علاج ہے کہ دعا کہ سلسلہ کو نہ توڑو اور توبہ و استغفار سے کام لو۔وہی دعا مفید ہوتی ہے جبکہ دل خدا کے آگے پگھل جاوے اور خدا کے سوا کوئی مفرنظر نہ آوے جو خدا کی طرف بھاگتا ہے اور اضطرار کے ساتھ امن کا جویاں ہوتا ہے وہ آخر بچ جاتا ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ46-47 ایڈیشن 2016ء)

آدمی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ سعید الفطرت ہوتے ہیں جو پہلے ہی مان لیتے ہیں، یہ لوگ بڑے ہی دُور اندیش اور باریک بین ہوتے ہیں۔ جیسے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور ایک بیوقوف ہوتے ہیں اور جب سر پر آ پڑتی ہے تب کچھ چونکتے ہیں۔ اس لیے تم اس سے پہلے کہ خدا کا غضب آ جاوے، دعا کرو اور اپنے آپ کو خدا کی پناہ اور حفاظت میں دے دو، دعا اس وقت قبول ہوتی ہے جب دل میں درد اور رقّت پیدا ہو اور مصائب اور غضبِ الٰہی دُور ہو، لیکن جب بَلَا سر پر آئی بے شک اس وقت بھی ایک درد پیدا ہوتا ہے مگر وہ درد قبولیتِ دعا کا جذب اپنے اندر نہیں رکھتا۔ یقیناً سمجھو کہ اگر مصیبت سے پہلے اپنے دلوں کو گداز کرو گےاور خدا تعالیٰ کے حضور اپنی اور اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے گریہ و بکا کرو گے تو تمہارے خاندان اور تمہارے بچّے طاعون کے عذاب سے بچائے جائیں گے اگر دنیا داروں کی طرح رہو گے تو اس سے کچھ فائدہ نہیں کہ تم نے میرے ہاتھ پر توبہ کی، میرے ہاتھ پر توبہ کرنا ایک موت کو چاہتا ہے تاکہ تم نئی زندگی میں ایک اور پیدائش حاصل کرو۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ61-62 ایڈیشن 2016ء)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022