• 18 مئی, 2024

قرآنی انبیاء (قسط 17)

قرآنی انبیاء
یہودیوں کی ناکامی
قسط 17

رومی حکومت کا گورنر آپ کو کوئی سزا نہیں دینا چاہتا تھا لیکن یہودیوں کا اصرار تھا کہ یہ شخص نبوت کی آڑ میں رومی حکومت کے خلاف بغاوت کر رہا ہے اس لئے اس کو سزائے موت دی جانی چاہئے۔ جب ان کا اصرار حد سے بڑھ گیا تو مجبوراً گورنر کو اجازت دینا پڑی اور خداتعالیٰ کا ایک پیارا نبی بغاوت کے جرم میں صلیب پر لٹکا دیا گیا۔

خداتعالیٰ نے اپنے اس پیارے بندے کی تکلیف پر نظر کرتے ہوئے اسے صلیب کی موت سے بچالیا اورحیرت انگیز طورپر یہودیوں کے شر سے محفوظ رکھا۔

حضرت عیسیٰؑ ؑ کی زندگی کے حالات
جو خداتعالیٰ کے ایک پیارے نبی تھے

آل عمرن کی یہ عورت جن کا نام حنہ تھا ایک نیک خاتون تھیں۔ خداتعالیٰ پر کامل یقین رکھنے والی اور اس کی راہ میں قربانیاں کرنے والی تھی۔ حنہ کی شدید خواہش تھی کہ ان کے ہاں اور اولاد ہو تو وہ اسے خدا تعالیٰ کی راہ میں وقف کر دیں۔ وہ اکثر یہ دعا کرتیں کہ اے خداتعالیٰ تو مجھے اولاد عطا کرتا کہ میں اسے تیرے دین کی خدمت کیلئے قربان کروں۔

میری اولاد بھی تیرے گھر یعنی بیت المقدس کی خدمت کرے اور میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا قبول کرلی اور ان کے ہاں ایک بچے کی پیدائش کا وقت قریب آگیا انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا کہ اے میرے اللہ! میں اپنے ہونے والے بچے کو ابھی سے تیری راہ میں وقف کرتی ہوں۔ تو اسے میری طرف سے قبول کرلے۔ لیکن جب آپ کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو آپ کو یہ دیکھ کرحیرانی ہوئی کہ آپ کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ہے۔ آپ کا خیال تھا کہ بیٹا پیدا ہوگا تو وہ بہتر رنگ میں خدمت دین کرسکے گا اس لئے جب بیٹی کی پیدائش ہوئی تو آپ تھوڑا سا افسردہ ہوئیں کہ یہ تو لڑکی ہے یہ کیسے دین کی خدمت کرے گی۔ آپ نہیں جانتی تھیں کہ یہ لڑکی جو پیدا ہوئی تھی ان کے سوچے ہوئے لڑکے سے زیادہ خدمت کرنے والی تھی۔ اس لڑکی کی نسل سے اس عظیم نبی نے جنم لیا تھا جس کا نام عیسیٰؑ تھا۔ حنہ نے اپنی اس وقت بیٹی کا نام مریم رکھا اور وعدہ کے مطابق اپنی اس بیٹی کو لے جا کر اپنے علماء کے سپرد کر دیا تا کہ وہ اس لڑکی کو اپنے زیر سایہ تربیت دیں اور اسے خدمت دین کیلئے تیار کریں۔

آج سے قریباً دوہزار سال قبل بیت المقدس میں یہ واقعات رونما ہو رہے تھے۔ فلسطین کی رہنے والی حنہ اور ان کی بیٹی مریم بنی اسرائیلی نسل میں سے تھیں اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرنے والوں میں سے تھیں۔ چنانچہ انہوں نے جب تربیت کیلئے اپنی وقف شدہ بیٹی مریم کو راہبوں اور علماء کے سپرد کیا تو یہ بحث چلی کہ اس بچی کو کسی عالم کی تحویل میں دیا جائے تاکہ وہ اس کی اچھی تربیت کرسکے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے بہتر جانا کہ قرعہ اندازی کے ذریعے سےفیصلہ کرلیا جائے۔ چنانچہ جب انہوں نے قرعہ ڈالا تو وہ حضرت زکریاؑ کے نام کا تھا۔ جو اپنے وقت کے ایک بزرگ نبی اور روایات کے مطابق حضرت مریم کے حقیقی خالو تھے۔ اب طے یہ پایا کہ حضرت زکریاؑ مریم کو اپنی کفالت میں لے لیں اور اس کی تربیت اور اچھی پرورش کاذمہ لیں۔ چنانچہ آپ مریم کو لیکر گھر آگئے اور بہت اچھے انداز میں مریم کی پرورش کرنے لگے۔ اتنے اچھے طریق پر کہ چھوٹی عمر سے ہی مریم نیکی پرپوری مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئیں۔ مریم کے توکل کا اور خدا تعالیٰ پر بھروسے کا ابتداء سے ہی یہ عالم تھا کہ جب حضرت زکریاؑ آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کرتے کہ اے مریم! یہ کہاں سے آئی ہے؟ تو آپ بلا توقف کہا کرتیں کہ یہ میرے خدا تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ غرض ابتدائی عمر سے ہی مریمؑ نیک اور پاکیزہ فطرت کی مالک تھیں اور روزبروز آپ کی یہ نیکی نکھر رہی تھی۔

حضرت زکریاؑ جب بھی حضرت مریمؑ کی طرف دیکھتے تو ان کی نیکی اور پاکیزگی سے بہت متاثرہوتے اور ان کے دل میں شدت کے ساتھ یہ خواہش پیدا ہوتی کہ کاش اللہ تعالیٰ مجھے بھی اولاد دے تو میں اس کی ایسی ہی تربیت کروں۔ چنانچہ آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرتے ہوئے آپ کو ایک نیک بیٹا عطا کیا جو حضرت یحییٰؑ تھے۔

بہرحال دن گزرتے گئے اور مریمؑ بڑی ہوتی گئیں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ آپ کا خدا تعالیٰ سے تعلق بھی بڑھتا گیا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کے وقف کو قبول کیا اور آپ کے دلی خلوص کی قدر کرتے ہوئے آپ کو الهام بتایا کہ اے مریم اللہ تعالیٰ نے تجھے چن لیا ہے اور تجھے ہر ایک برائی سے پاک کیا ہے اور تمام عورتوں پر تھے فضیلت بخشی ہے۔ اس لئے اے مریم تو اپنے رب کی فرمانبرداری اختیار کر اسی کے حضور سجدہ ریز ہو اور اس کی خالص پرستش کر۔ یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا تھا۔ لیکن یہ تو ابھی ابتداء تھی آگے اللہ تعالیٰ کے وہ عظیم فضل اور احسان آپ کے منتظر تھے جن کا آپ تصور بھی نہیں کرسکتی تھیں۔ چنانچہ جب اس عظیم احسان کا وقت آیا واقعی وہ حیران کن تھا۔ ایسا عظیم جو ناقابل یقین تھا۔

اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل میں ایک نبی بھیجنے والا تھا جس نے بھٹکے ہوئے بنی اسرائیل کو راہ راست پر لانا تھا اس نبی کی آمد کے متعلق گزشتہ انبیاء بھی پیشگوئیاں کر چکے تھے۔ اللہ تعا لیٰ نے حضرت مریم کو خبر دی کہ اے مریم! اللہ تعالیٰ مجھے اپنے کلام کے ذریعےسے ایک بیٹے کی بشارت دیتا ہے۔ اس مبشر بیٹے کا نام عیسیٰؑ ابن مریم ہو گا وہ اس دنیا میں بھی صاحب عزت اور منزلت ہو گا اور آخرت میں بھی اللہ تعالیٰ کے مقربوں میں سے ہوگا۔ وہ لوگوں کو کتاب اللہ اور حکمت الٰہی کی باتیں بتائے گا۔ اور انہیں تورات اور انجیل کا علم دے گا۔ وہ بنی اسرائیل کا رسول ہوگا۔

یہ ایک عظیم خوشخبری تھی جو الله تعالیٰ نے حضرت مریمؑ کو عطا کی تھی لیکن چونکہ ابھی آپ کی شادی نہیں ہوئی تھی اس لئے آپ نے سوچا کہ میں تو غیر شادی شدہ ہوں پھر یہ بیٹے کی خوشخبری کیسے؟ میرے ہاں کیسے اولاد ہو سکتی ہے جب کہ میں ابھی کنواری ہوں؟

اللہ تعالیٰ نے ان الجھنوں کے جواب میں فرمایا کہ اے مریم! تیرے رب نے ایساہی ارادہ کیا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا ہے توصرف اتنا کہتا ہے کہ ہو جا؟ سو وہ کام ہونے لگتا ہے۔ پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ایسا ہی ہو گا جیسا کہ خدا تعالیٰ نے چاہا ہے۔ بہرحال اللہ تعا لیٰ نے حضرت مریمؑ کو بغیر شادی کے اپنے خاص رحم اور فضل سے ایک نیک اور صالح بیٹا عطا کر دیا جس کا نام وحی الہٰی کے ماتحت ’’عیسیٰؑ ابن مریم‘‘ رکھا گیا۔

دنیا دار لوگ ہمیشہ خدا تعا لیٰ کے کاموں کو سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کے کاموں میں نقص نکالتے رہتے ہیں۔ سو یہی سب کچھ حضرت مریمؑ کے ساتھ بھی ہوا۔ آپ پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے۔ آپ کو برےبرے القابات دیئے گئے اور کہا گیا کہ مریم اچھی عورت نہیں ہیں۔ وہی لوگ جو کل تک آپ کی نیکی اور پاکیزگی کی قسمیں کھایا کرتے تھے آج خدا تعا لیٰ کے ایک معجزےکے ظہور کے بعد آپ سےکھنچ سے گئے تھے۔

یہ وہ وقت تھا جب یہودی ایک نبی کی آمد کے منتظر تھے اور آپ کی پیدائش کےزمانے سے اب تک کئی ایسے واقعات ہو چکے تھے جن سے یہودی علماء اور ربانی لوگوں کو علم ہو گیا تھا ایک نبی ظاہر ہونے والا ہے۔ چنانچہ جس وقت آپ کی پیدائش بیت اللحم میں (جو فلسطین کا ایک شہر ہے) ہوئی تھی تو اس وقت بھی بعض مجوسی علماء علم نجوم کےذریعے گبھرا کر یروشلم آئے تھے کہ ہمیں اپنے علم کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ یہودیوں کابادشاہ پیدا ہو گیا ہے۔ ہم اس کو دیکھنے آئے ہیں۔

یہ باتیں سن کر اس وقت کے بادشاہ جس کا نام ہیرو دیس تھا اس کو پریشانی لاحق ہوئی کہ اگر واقعی یہ بات ہے تو پھر میری حکومت تو ختم ہو جائے گی کیونکہ وہ بچہ جو پیدا ہوا ہے یہودیوں کا بادشاہ بن جائے گا۔ یہ سوچ کر ہیرودیس نے پروگرام بنایا کہ گزشتہ کچھ عرصے میں بیت لحم اور اس کے اردگرد کے علاقے میں جتنے بچے پیدا ہوئے ہیں ان کو قتل کروا دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اس نیت کی اطلاع حضرت مریمؑ تک پہنچادی اور حکم دیا کہ اس سے پہلے کہ ہیرودیس یہ ظلم شروع کرے تم اپنے بچے کو لیکر مصر کی طرف ہجرت کر جاؤ۔ چنانچہ آپ نے بیت لحم کو چھوڑ دیا اور مصر کی جانب روانہ ہو گئیں۔ آپ کی ہجرت کے بعد ہیرودیس نے اپنے پروگرام کے مطابق بیت لحم اور اس کے اردگرد کے علاقوں میں وہ تمام بچے قتل کروا دیئے جو 2 سال یا 4 سال سے چھوٹی عمر کے تھے۔ لیکن جسے اللہ تعالیٰ بچانا چاہے اسے کون مار سکتا ہے۔ جب ہیرودیس بادشاہ مرگیا تو حضرت مریمؑ اور حضرت عیسیٰؑ واپس آگئے اور ناصرہ نامی ایک بستی میں رہنے لگے۔ جہاں سے آپ اکثرمذہبی تہواروں پر یروشلم جایا کرتے تھے۔

اسی بستی میں آپ پرورش پاکر جوان ہوئے اور تقریبا 30 برس کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبوت کی نعمت سے سرفراز فرمایا اور حکم دیا کہ یہود کو ان کے برے عقائدسے نکال کر خدا تعالیٰ کی حقیقی تعلیمات پر اکٹھا کرو۔ حضرت عیسیٰؑ کی نبوت دراصل حضرت موسیٰ کی شریعت پر ہی تھی۔ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لے کر آئے تھے بلکہ یہود میں جو غلطیاں پیدا ہو گئی تھیں ان کی اصلاح کیلئے مبعوث کئے گئے تھے۔ سوآپ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کےمطابق اپنے کام کا آغاز کر دیا اور تبلیغ شروع کردی۔

حضرت مسیح بکھرے ہوئے بنی اسرائیلی قبائل کو متحد کرنے اور انہیں خدائے واحدکی حقیقی تعلیمات سے روشناس کروانے کیلئے آئے تھے۔ وہ بنی اسرائیل جو وقت کی چکی میں بری طرح پس رہے تھے۔ غیروں کی حکمرانی میں رہتے رہتے ان کی قوت برداشت جواب دے چکی تھی اور اب وہ آزادی چاہتے تھے۔ جب حضرت عیسیٰؑ نےیہ اعلان کیا کہ اب خدا تعالیٰ کی بادشاہی کے دن آگئے ہیں اور میں اس کا منادی ہوں تولوگ بڑی تیزی سے آپ کے ساتھ شامل ہونے لگے۔ آپ کا یہ کہنا کہ خدا کی بادشاہی کے دن آگئے ہیں سیاسی طور پر نہ تھایعنی آپ کا یہ مطلب نہیں تھا کہ حقیقی طور پربادشاہت رومی حکومت سے چھین کر آپ کو دے دی جائے گی بلکہ آپ کا مطلب یہ تھا کہ مذہبی طور پر اب ایک عظیم سلطنت قائم ہونے والی ہے۔ ایک نیا اور ہدایت یافتہ سلسلہ شروع ہونے والا ہے جس کے نتیجے میں زمین پر لوگ خدا تعالیٰ سے واقف ہوجائیں گے اور روحانی طور پر ترقیات حاصل کریں گے۔

لیکن بعض لوگ اسے دنیاوی بادشاہت سمجھ رہے تھے۔ یہ صورتحال رومی حکومت کیلئے تو پریشان کن تھی ہی لیکن خود یہودیوں میں سے بھی وہ طبقہ جو خود کو عالم کہتا تھا آپ کی نبوت کو ماننے کیلئے تیار نہ تھا۔ جیسا کہ ہر نبی کی قوم اس کی اول طور پر مخالفت کرتی ہے ایسے ہی یہود نے بھی آپ کی شدید مخالفت کی۔ وہ آپ پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے۔ آپ کی پیدائش پر طعن کرتے اور رومی حکومت کے قائم کردہ گورنر کو جو اس علاقے میں رومی حکومت کا نمائندہ تھا بھڑکاتے رہے کہ یہ مسیح در اصل رومی حکومت کو ختم کرنا چاہتاہے۔ یہ باغی ہے اسے پکڑ کر سزا دی جائے۔ وہ رومی حکومت کے گورنر کو جس کا نام پیلاطوس تھا مجبور کر رہے تھے کہ وہ بغاوت کے الزام میں عیسیٰؑ کو پکڑے اور موت کی سزا دے۔

یہ گورنر ایک شریف النفس اور نیک انسان تھا اور مخفی طور پر حضرت عیسیٰؑ کا حامی بھی تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس نیک نبی کو ظالم یہودیوں کے کہنے پر موت کے گھاٹ اتار دے لیکن دن بدن یہودیوں کا اصرار بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ وہ پیلاطوس کو دھمکیاں دے رہے تھے کہ اگر اس نے اس نبی کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ رومی حکومت کو اس بات کی اطلاع دیں گے کہ ان کا قائم کردہ گورنر ایک باغی کے خلاف کارروائی کرنےسے گریز کر رہا ہے۔ جب یہ معاملہ حد سے بڑھ گیا تو پیلاطوس نے مجبور ہو کر آپ کےخلاف کارروائی کرنے کی اجازت دے دی لیکن ساتھ ہی بھرے دربار میں یہود کو کہہ دیا کہ میں اس شریف اور نیک انسان کے خون سے خود کو بری قرار دیتا ہوں اگر یہ شخص مارا گیا تو اس کے قتل کا گناہ تمہارے سر ہو گا میں اس میں شامل نہیں ہوں۔ اوریوں حضرت عیسیٰؑ کے مخالف یہود نے حضرت عیسیٰؑ کے خلاف فیصلہ کروا لیا اور آپ کوپکڑنے کیلئے آپ کی تلاش شروع ہو گئی۔

یہ وہ نازک وقت تھا جب آپ کے وہ تمام ساتھی جو دنیاوی حکومت کے لالچ کی وجہ سے آپ کے ساتھ آملے تھے آپ کا ساتھ چھوڑ گئے۔ آپ کے انتہائی قابل اعتمادبارہ ساتھی جو ہر وقت آپ کے ساتھ ہوتے تھے انہوں نے بھی وفاداری نہ کی۔ انہی بارہ ساتھیوں میں سے ایک بدبخت نے جس کا نام یہودا اسکریوطی تھا۔ مخالف یہودیوں سے 30 روپے رشوت لے کر حضرت عیسیٰؑ کو گرفتار وا دیا تھا اور یہودی آپ کو پکڑ کرگالیاں دیتے ہوئے اور آپ کے ساتھ مذاق اور ہنسی کرتے ہوئے آپ کو ہجوم کی صورت میں گورنر پیلاطوس کی عدالت میں لے گئے۔ پیلاطوس آپ کو قتل نہیں کروانا چاہتا تھا لیکن ہجوم کے جوش اور اصرار کو دیکھ کر اسے اجازت دیناپڑی کہ ٹھیک ہے اسے مصلوب کرو۔ یہودی یہ فیصلہ سن کر بہت خوش ہوئے اور ہنستے گاتے اورنعرے لگاتے ہوئے آپ کو صلیب دینے کے لئے روانہ ہوئے۔ یہ جمعہ کا روز تھا اوراگلے دن یہودیوں کی عید بھی تھی اور سبت کا دن بھی تھا۔ (سبت یعنی ہفتے کا دن۔ یہودیوں کا مقدس دن تھا جیسے مسلمانوں کا مقدس دن جمعہ ہے) اور سبت کے دن کسی کو سزا دینا یا صلیب پر لٹکائے رکھنا منع تھا۔ اس لئے یہودی آج ہی مسیح کو سزا دلواناچاہتے تھے۔

بہرحال وہ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہوئے آپ کو صلیب دینے کی جگہ پر لے آئے اور آپ کو صلیب پر ٹانگ دیا۔ اور لگے ہنسی مذاق کرنےاور آپ کی توہین کرنے۔ جب انہیں یقین ہو گیا کہ ہم نے عیسیٰؑ ابن مریم کو صلیب پر لٹکا دیا ہے اور اب جلد ہی اس کی جان نکل جائے گی تو وہ خوش خوش گھروں کو روانہ ہو گئے اور صلیب کے پاس محافظوں کو کھڑا کر دیا گیا تاکہ حضرت عیسیٰؑ کا کوئی ساتھی آپ کو اتار کر نہ لے جائے۔

آپ میں سے اکثر کو شاید صلیب کا پتہ نہ ہو کہ وہ کیا ہوتی ہے؟ صلیب پھانسی کی طرح نہیں ہوتی کہ اس میں کسی انسان کی جان فور نکل جائے بلکہ صلیب میں ہوتایوں تھا کہ مجرم کو لکڑی کے عمودی تختے کے ساتھ کھڑا کر کے اس کے ہاتھ اور پیروں میں کیلیں ٹھونک دی جاتی تھیں۔ یہ کھیلیں اس کے ہاتھوں اور پیروں میں سے گزر کرتختوں میں پیوست ہو جاتی تھیں اور یوں وہ شخص لکڑی کے ساتھ چپک کر رہ جاتا تھا۔نہ توہ حرکت کر سکتا تھا اور نہ ہی اسے کھانے پینے کے لئے کچھ دیا جاتا تھایوں ایک یا دودن میں نہایت اذیت کے ساتھ اس کی جان نکل جاتی تھی اور وہ مرجاتا تھا۔

حضرت عیسیٰؑ کو بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی ہی تکلیف سے گزرنا پڑ رہا تھا۔ لیکن آپ اپنے خدا سے مایوس اور نامید نہیں تھے بلکہ دعائیں کرتے ہوئے اپنے خدا کی رحمت طلب کر رہے تھے۔ اور خدا تعالیٰ نے آپ کی فریاد آپ کی درد بھری پکار سن لی کیونکہ وہ رحیم اور کریم خدا تو ہر ایک تکلیف زدہ کی فریاد کو سنتا ہے یہ تو پھر اس کےپیارے نبی تھے جن کا کوئی بھی قصور یا خطا نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے بچایاکہ جس دن آپ کو صلیب دی گئی تھی اس سے اگلا دن یہودیوں کیلئے مقدس تھا اس لئے لازما جمعہ کی شام کو آپ کو صلیب پر سے اتارنا تھا۔ یہودیوں نے پیلاطوس سے کہاکہ چونکہ آج عیسیٰؑ کو صلیب سے اتار دیا جائے گا اس لئے اس کو اتارنے کے بعد اس کی ہڈیاں توڑ دی جائیں کیونکہ ابھی وہ مرا نہیں ہو گا۔ پیلاطوس دلی طور پر حضرت عیسیٰؑ کا ہمدرد تھا لیکن یہودیوں کے ہاتھوں مجبور تھا اس لئے اس نے سپاہی بھیجے کہ جتنے بھی مجرم صلیب پر ہیں ان کو اتار لیا جائے اور اگر وہ زندہ ہوں تو ان کی ہڈیاں توڑ دی جائیں۔ وہ سپاہی آئے اور حضرت عیسیٰؑ اور آپ کے علاوہ دوسرے مجرموں کو جنہیں آپ کے ساتھ صلیب دی گئی تھی نیچے اتار لیا۔ آپ کے ساتھ ایک چور کو بھی صلیب دی گئی تھی اور وہ ابھی زندہ تھا اس لئے سپاہیوں نے اس کی ہڈیاں توڑ دیں۔ لیکن جب وہ سپاہی حضرت عیسیٰؑ ٰکے پاس آیا تو اس نے کہا یہ تو ویسے ہی مر چکا ہے اس لئے اس کی ہڈیاں توڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص تصرف تھا کہ اس پانی نے یا تو حضرت عیسیٰؑ کی ہمدردی کی وجہ سے اور یا پھر واقعی انہیں مردہ جان کرآپ کو چھوڑ دیا اور ہڈیاں نہ توڑیں۔ سپاہیوں کے افسر نے جب یہ بات سنی تو خود دیکھنے کیلئے آیا اور اپنے بھالے سے آپ کی پسلی کو چھید دیا۔ اس کا بھالا لگتے ہیں حضرت عیسیٰؑ کے پہلو سے خون بہنے لگا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ ابھی تک آپ زندہ تھے لیکن یہ بات یہیں دبادی گئی اور بظاہر یہی اعلان کر دیا گیا کہ عیسیٰؑ صلیب پر فوت ہو گئے ہیں۔

حضرت عیسیٰؑ کے قریبی ساتھی آپ کی لاش لینے کیلئے آئے اور پیلاطوس سےدرخواست کی کہ ایسانہ ہو کہ یہودی اس لاش کی بے حرمتی کریں اس لئے ہمیں عیسیٰؑ کا جسم دے دیا جائے۔ پیلاطوس حیران تھا کہ اتنی تھوڑی سی دیر میں حضرت عیسیٰؑ کس طرح صلیب پر فوت ہو گئے لیکن اس نے کوئی سوال نہ کیا اور حضرت عیسیٰؑ کا جسم ان کے ساتھیوں کے حوالے کر دیا۔ زنده حضرت عیسیٰؑ کا جسم جو صلیب کی تکلیف کی وجہ سے صرف بے ہوش ہو گئے تھے۔ آپ کے ساتھی آپ کو لے کر دفن کرنے کے بہانے ایک خفیہ مقام پر لے گئے اور پوری تندھی کے ساتھ آپ کا علاج کرنے لگے۔آپ صلیب کی تکلیف کی وجہ سے بے ہوش ہو گئے تھے لیکن علاج کے نتیجے میں تیزی سے صحت مند ہونے لگے اور چند ہی روز میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہو گئے۔ یہ ایک حیرت انگیز بات تھی جس کو دیکھ کر حضرت عیسیٰؑ کے وہ چند قریبی لوگ جو آپ کےساتھ اس پوشیده مقام میں تھے بے انتہا خوش تھے لیکن یہودیوں کے ڈر سے اس خبر کوعام نہیں کر سکتے تھے۔ کیونکہ اگر ان کو پتہ چل جاتا کہ حضرت عیسیٰؑ زندہ ہیں اورصلیب پر فوت نہیں ہوئے تو وہ آسمان سر پر اٹھا لیتے اور دوبارہ آپ کو قتل کرنے کی کوشش کرتے۔ اس لئے عقلمندی کا تقاضہ یہی تھا کہ ابھی اس خبر کو عام نہ ہونے دیاجائے تاکہ آپ یہودیوں کے شر سے محفوظ رہ سکیں۔ ویسے بھی اب یہاں کے حالات اتنے ناساز گار ہو چکے تھے کہ صلیب سے زندہ بچ جانے کے باوجود حضرت عیسیٰؑ کیلئے ممکن نہ تھا کہ اس علاقے میں رہ سکیں۔ بلکہ اب بات صرف اس شہر یا قصبے کی نہیں تھی کیونکہ آپ پر رومی حکومت کے خلاف بغاوت کا الزام تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپ عظیم رومی سلطنت سے ہی ہجرت کر جائیں اور کسی دور دراز مقام پر چلے جائیں اور اس مقصد کیلئے سب سے بہترین جگہ افغانستان اور کشمیر تھی۔ کیونکہ آپ کی قوم بنی اسرائیل کے دس قبائل گزشتہ وقتوں میں فلسطین سے ہجرت کر کے افغانستان اورکشمیر کے علاقوں میں آباد ہو گئے تھے۔ آپ نے سوچا کہ یہاں تو حالات بہتر ہوتے نظرنہیں آتے اس لئے اب ان دس قبائل کی طرف چلنا چاہئے جو ان علاقوں میں آباد ہیں۔ یہ بات بھی صرف آپ نے اپنے انتہائی قریبی ساتھیوں کو بتائی اور طے یہ پایا کہ پوری احتیاط کے ساتھ آپ ہجرت کر جائیں گے۔ آپ ہجرت سے قبل اپنے ماننے والوں اور مریدوں سے ملنا چاہتے تھے اس لئے ایک روز آپ اپنے مریدوں کی مجلس میں تشریف لے گئے یہ لوگ آپ کو وفات یافتہ سمجھ رہے تھے جب انہوں نے آپ کواپنے سامنے دیکھا تو حیران و ششدر رہ گئے اور خیال کیا کہ شاید آپ روح ہیں جو ان سے ملنے آئی ہے۔ ان کی حالت دیکھ حضرت مسیح نے انہیں بتایا کہ میں کوئی روح نہیں ہوں بلکہ ایک گوشت پوست کا انسان ہوں۔ آپ نے انہیں اپنے زخم دکھائے اور کہا کہ دیکھو یہ وہ زخم ہیں جو صلیب کے نشے میں مجھے پہنچے تھے۔ پھر آپ نے ان کاشک دور کرنے کے لئے ان کے ہاتھ سے روٹی کا ٹکڑا اور مچھلی لیکر کھائی اور سارے حالات سے ان کو آگاہ کیا اس کے بعد آپ نے ان سے اجازت لی اور اپنے چند ایک رفقاء کے ساتھ فلسطین سے ہجرت کر گئے اور بنی اسرائیل کے مختلف قبائل کو تبلیغ کرتے ہوئے بالآ خر کشمیر میں پہنچ کر ڈیرہ ڈالا اور یہیں آپ نے وفات پائی اور کشمیر کے شہرسری نگر کے محلہ ’’خانیار‘‘ میں آپ کی قبر موجود ہے۔

فلسطین میں موجود آپ کے ساتھیوں میں سے بعض نے بعد میں یہ عقیدہ مشہور کردیا کہ عیسیٰؑ صلیب پر فوت ہونے کے بعد دوبارہ جی اٹھے تھے اور بعد ازاں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی طرف اٹھالیا۔ یہ عقیدہ ایک لمباعرصہ سے عیسائیوں میں موجود ہے لیکن اس ترقی یافتہ دور میں جب جماعت احمدیہ نے حضرت عیسیٰؑ کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے تو اب جدید اسکالرز اور محققین پرانے عقیدے سے بیزار ہو ان خطوط پرتحقیقات کر رہے ہیں جو جماعت احمدیہ نے پیش کئے ہیں اور روز بروز ان کے غلط عقائد پر سے پردہ اٹھتا چلا جا رہا ہے۔

(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)

پچھلا پڑھیں

سانحہ ارتحال

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 جون 2022