حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :
پس یہ جو فرمایا ہے کہ یہ آخری دو آیات کافی ہیں۔ یہ صرف پڑھ لینے سے نہیں بلکہ پہلی آیت میں ایمان پر مضبوط ہونے کا حکم ہے اور جب ایمان مضبوط ہو جائے تووہ اس قسم کی حرکت کر ہی نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ کی کچھ باتوں کو تو مانے اور کچھ کو نہ مانے اور ردّ کردے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُسوہ تمہارے لئے رسول اللہﷺ کا قائم ہو گیا۔ اس لئے ایمان کی انتہائیں حاصل کرنے کے لئے اس اُسوہ پر چلنے کے راستے تلاش کرو اور یہ کبھی خیال نہ آئے کہ بعض احکامات ہماری طاقت سے باہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے مختلف حالتوں میں بعض ایسی سہولتیں بھی دے دی ہیں۔ اسلام میں دین کے معاملے میں سب سے زیادہ سہولتیں ہیں۔ یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ بعض احکامات ہماری پہنچ سے باہر ہیں جن پہ عمل نہیں ہو سکتا۔ اگر انسان دین کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ سہل پسندنہ ہو تو کوئی حکم ایسا نہیں جو بوجھ لگ رہا ہو۔ اگر دنیاوی کاموں کے لئے انسان محنت اور کوشش کرتا ہے تو دین کے معاملے میں کیوں محنت اور کوشش نہیں کر سکتا؟
پس یہ واضح ہو کہ آخری دو آیات پڑھ لینے سے انسان تمام دوسرے احکامات سے آزادنہیں ہو جاتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ جو غور کرکے پڑھے گا پھر وہ اس پر عمل بھی کرے گا۔ قیام اللیل سے انسان کس طرح مستغنی ہو سکتا ہے؟ جبکہ آنحضرتﷺ نے اس کا نمونہ ہمارے سامنے پیش فرما دیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ آپ کا اُسوہ ہمارے لئے قابل تقلید اور پیروی کرنے کے لئے ہے۔ اگر اس کا کوئی مطلب ہو سکتا ہے تو اتنا کہ ان آیات پر غور کرنے سے اللہ تعالیٰ کی مدد سے ایمان میں اتنی ترقی ہو گی کہ عبادتوں کے لئے جاگنا اور توجہ دینا کوئی بوجھ نہیں لگے گا۔
(خطبہ جمعہ 16؍جنوری 2009)