آسٹریلیا کا تعارف یہاں کے قدیمی باشندوں کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ یہ لوگ جنہیں ایبو رجنیز (ABORIGINES) کہا جاتا ہے۔ کم از کم چا لیس ہزار سال سے یہا ں رہ رہے ہیں۔ ان کا قصہ جہاں کئی علو م کے ما ہرین کے لئے دلچسپی کا حا مل ہے وہا ں خدا اور اسکے رسولوں کے ما ننے وا لے بھی اس سے کئی دلچسپ نتا ئج ا خذ کرسکتے ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعا لیٰ کو بھی اس معا ملہ میں بہت دلچسپی تھی چنا نچہ آپ نے اپنی کتا ب REVELATION RATIONALITY KNOWLEDGE AND TRUTH کے صفحات 217 تا 234 میں ان قدیمی با شندو ں کے مذہب اور خدا کے تصور پر خود اپنی اور دوسرو ں کی تحقیق درج فر ما ئی ہے سوال و جواب پروگرام منعقدہ 18 نومبر 1994ء کو آ پ نے ایک سوال کے جواب میں آ دم کی حقیقت۔ اس کے ارتقا ئی مرا حل اور آ سٹریلیا کے قدیم لو گو ں کے سما جی اور مذہبی حالات پر خوب رو شنی ڈا لی تھی۔
(روزنا مہ الفضل 30جنوری 2003ء)
مو جودہ انسا ن کو ئی ڈیڑھ دو لا کھ سا ل قبل افریقہ سے اچا نک ابھرا۔ ’’اچا نک‘‘ اس لئے کہ آ دمی سے مشا بہ کھڑا ہو نے اور چلنے وا لے جس جاندار سے یہ علیحدہ ہوا اس کے اعضاء اور قویٰ اس کے مقا بلہ میں بہت کم درجہ کے تھے اور یہ ان سے غیر معمو لی طور پر ا فضل تھا مثلاً آدم کا دماغ اس کے دما غ سے بہت بڑا تھا۔ اور عجیب با ت یہ ہے کہ درمیانی منازل غائب تھیں۔ ان کا کہیں نشا ن نہ ملا جبکہ یہ زبردست تبدیلیا ں نہ پہلے کا جا ندار آ گے منتقل کر سکتا تھا۔ اور نہ وہ از خود پیدا ہو سکتی تھیں۔ بہر حا ل انسان بہتر غذا اور ٹھکانو ں کی تلاش میں افریقہ سے با ہر نکلا۔ سائنسدانوں کا خیا ل تھا کہ وہ پہلے مصر میں آ یا اور پھر وہا ں سے دنیا میں پھیلا لیکن حا ل ہی کی تحقیق جو اپنے اپنے طور پر کیمرج یونیورسٹی اور نیشنل یو نیورسٹی آ سٹریلیا نے کی ہے انسا ن افریقہ سے نکل کر سب سے پہلے مصر کی بجائے عرب میں آ یا تھا اور وہا ں سے 65 ہزار سا ل قبل بحیرہ ہند کے سا حل کے ساتھ چلتے چلتے انڈونیشیا سے ہو تے ہو ئے آ سٹریلیا پہنچا اور بعد میں دوسرا گروپ (اب 40,30 ہزار سال قبل) یورپ کی طرف پھیل گیا۔ اب آگے مذہب کی تا ریخ ہمیں بتا تی ہے کہ آ ج سے قریبا ً 6155 قمری سال پہلے (آنحضرت ﷺ کی پیدا ئش سے 4739 قمری سال قبل) وہ آدم علیہ السلا م پیدا ہو ئے تھے جو ہمارے نبی کریم ﷺ کے جد امجد تھے۔ معلوم ہو تا ہے کہ وہ اس گرو پ کے لئے مبعوث ہو ئے تھے جو مکہ کے ارد گرد عرب ہی میں ٹھہرا رہا تھا۔ اسی کو خدا نے عربی زبا ن سکھا ئی تھی۔ ابتدا ئی شریعت دی۔ انہیں کے لئے مکہ میں خدا کا پہلا گھر تعمیر ہوا اور چونکہ ان کی زبا ن عربی تھی اس لئے دنیا کی سب زبا نیں اسی سے نکلیں اور جہا ں سے وہ دنیا میں پھیلے تھے وہی بستی ام القریٰ یعنی بستیو ں کی ما ں کہلا ئی۔
یہ ابتدا ئی انسان دنیا کے کئی حصو ں میں آ با د ہوا۔ چلّی میں ایسے انسان کے قد مو ں کے نشا ن ملے ہیں جو 12.5 ہزار سال پہلے وہا ں رہتا تھا۔ اور ایک جدید تحقیق یہ بھی کہتی ہے کہ 14 ہزار سال قبل امریکہ اور برا زیل میں آ سٹریلیا کے ABORIGINES نسل کے لو گ آ باد تھے جس پر آسٹریلیا کے ا خبا رو ں نے بڑے فخر سے یہ لکھا تھا کہ امریکہ کے قدیم ترین باسی تو ہم آ سٹریلین تھے۔
آ سٹریلیا کے ذکر میں ایک انگریز آ سٹریلوی پرو فیسر کا ذکر بھی خا لی از دلچسپی نہ ہو گا جس کو حضرت مسیح مو عود ؑکے ہا تھ پر بیعت کر کے اسلا م قبول کرنے کا شرف حا صل ہوا۔ اور اس کی مو ت اسلا م پر ہوئی۔ان کا ذکر حضرت مفتی محمد صا دق ؓ نے اپنی کتا ب ’’ذکر حبیب‘‘ کے صفحات 409- 422 میں کیا ہے ان کا اسم گرا می پروفیسر کلیمنٹ ریگ (PROF;CLEMENT RAIG) تھا۔ آپ ایک مشہور سیا ح ہیئت دا ن اور لیکچرر تھے۔ آ پ کا ا صلی وطن انگلستان تھا لیکن آ سٹریلیا میں بہت مدت تک گورنمنٹ سروس کرتے رہے۔ بہت غیر متعصب اور انصاف پسند انسا ن تھے۔ کئی کتا بو ں کے مصنف تھے۔ بعد میں نیوزی لینڈ چلے گئے اور وہیں وفات پا ئی۔
جن دنو ں حضرت مسیح موعود ؑ اپنے و صال سے قبل لا ہور میں قیا م فرما تھے پرو فیسر صا حب بھی لا ہو ر آ ئے ہو ئے تھے۔ حضرت مفتی صا حبؓ جن کو تبلیغ کی ایک قسم کی لو اور دھت لگی ہو ئی تھی انہو ں نے موقع غنیمت جا نا اور اس کو مل کر تبلیغ کی اس نے حضورؑ سے ملنے کا شوق ظا ہر کیا مفتی صاحبؓ نے حضرت مسیحِ موعود ؑ سے اس کا ذکر کیا تو آ پؑ نے ہنستے ہو ئے فر ما یا کہ مفتی صا حب تو انگریزو ں کو ہی شکا ر کرتے رہتے ہیں چنا نچہ آ پؑ نے اس کی اجا زت دے دی کہ وہ آ کر ملا قات کرے چنا نچہ وہ اور اس کی بیوی دو دفعہ حضورؑ کی ملا قا ت کے لئے ا حمدیہ بلڈنگ آئے اور بہت سے دلچسپ علمی سوالات کئے جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری ملا قا ت میں ان کا چھو ٹا لڑکا بھی سا تھ تھا۔ پرو فیسر صاحب حضور کی ملا قات سے بہت متاثر ہوئے اور کہا کہ مجھے بہت خو شی ہو ئی ہے کہ آ پ کا مذہب سا ئنس کے مطابق ہے جس پر حضورؑنے فرمایا کہ اس لئے تو خدا نے ہمیں بھیجا تاہم دنیا پر ظا ہر کریں کہ مذہب کی کو ئی با ت سچی اور ثا بت شدہ سا ئنس کے خلاف نہیں۔ حضرت مفتی صاحبؓ لکھتے ہیں ’’پروفیسر بعد میں ا حمدی مسلما ن ہو گیا تھا اور مرتے دم تک اس عقیدہ پر قائم رہا۔ اور اس کے خطوط میرے پاس آ تے رہے۔‘‘ (ذکر حبیب صفحہ 422)
جس طر ح آ ج کل کے عیسا ئیو ں کو بہت بے چینی ہے کہ با ئبل تو آ دم سے انسا نیت کا آ غا ز بتا تی ہے جس کو صرف 6 ہزار سال کا ہی عر صہ گزرا ہے جبکہ سا ئنسی شواہد اس کے خلا ف ہیں کیو نکہ انسان اس سےبہت عرصہ پہلے کا زمین پر آ باد ہے تو پھر کس با ت کو سچا سمجھا جائے؟ معلو م ہو تا ہے یہی سوا ل پرو فیسر ریگ کو بھی پریشا ن کرتا ہو گا کیو نکہ وہ تو آ سٹریلیا میں رہا ئش پذیر تھااور جا نتا تھا کہ وہا ں کے قدیم با شندے ہمارے آ دم سے بہت پہلے کے وہا ں رہ رہے ہیں۔
چنا نچہ پروفیسر صا حب نے 18مئی 1908ء کوجو حضرت مسیحِ موعودؑ سے سوالات پو چھے ان میں امریکہ اور آ سٹریلیا و غیرہ میں پا ئے جاتے ہیں یہ اس آ دم کی اولا د میں سے ہیں ؟
حضرت مسیحِ موعود ؑ نے فر ما یا ہے۔ ’’ہم اس با ت کے قا ئل نہیں اور نہ ہی اس مسئلہ میں ہم توریت کی پیروی کرتے ہیں کہ 6، 7 ہزار سال سے ہی جب سے یہ آ دم پیدا ہوا تھا اس دنیا کا آ غا ز ہوا ہے اور اس سے پہلے کچھ نہ تھا اور خدا گویا معطل تھا اور نہ ہی ہم اس با ت کے مدعی ہیں کہ یہ تما م نسل انسا نی جو اس وقت دنیا کے مختلف حصو ں میں موجود ہیں یہ اسی آ خری آ دم کی نسل ہے ہم تو اس آ دم سے پہلے بھی نسلِ انسا نی کے قا ئل ہیں جیسا کہ قرآ نِ شریف کے الفا ظ سے پتہ لگتا ہے۔ خدا نے یہ فر ما یا کہ اِنِّیْ جَاعلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَۃً ً ( البقرۃ: 31)
خلیفہ کہتے ہیں جا نشین کو۔ اس سے صا ف پتہ چلتا ہے کہ آ دم سے پہلے بھی مخلوق مو جود تھی۔ پس امریکہ اور آ سٹریلیا و غیرہ کے لو گو ں کے متعلق ہم کچھ نہیں کہہ سکتے کہ وہ اس آ خری آ دم کی اولا د میں سے ہیں یا کسی دوسرے آ دم کی اولا د میں سے ہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد دہم ص432)
1989ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الرا بع ؒ آسٹریلیا کے دورہ پر تشریف لا ئے تھے تو آ سٹریلیا کے قدیم با شندوں کے لیڈر بر نم بر نم بھی ایک گروپ کے سا تھ حضور کو ملنے آ ئے تھے۔ وہ ایبور جینز کی اس نسل کے نما ئندہ تھے جنہیں مسروقہ نسل کہا جا تا ہے۔ (STOLEN GENERATION) وہ ان ہزا رو ں بچو ں میں سے ایک تھے جن کو حکو مت نے ان کے والدین سے زبردستی چھین کر مختلف ادارو ں اور چرچوں کی کفالت میں دے دیا تھا۔ ان کا ما ضی ان سے چھین لیا گیا تھا۔ انہیں عیسا ئی مذہب اور کلچر سکھا یا گیا تھا۔ ان کے وا لدین اور قبیلو ں سے ان کا تعلق منقطع کر دیا گیا اور ان پر طر ح طر ح کے ظلم کئے گئے۔ بر نم بر نم 1936ء میں پیدا ہو ئے تھے ابھی 5 ما ہ کے تھے کہ گو رو ں نے زبردستی ان کی والدہ کی گود سے انہیں چھین لیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں وہا ں انسان نہیں بلکہ حیوان سمجھا جا تا تھا۔ رات کے وقت ان کے سا منے بے حیا ئی کے کا م کئے جا تے تھے۔ ان بچو ں سے ان کی طا قت سے بڑھ کر سخت کا م لئے جا تے بھو کا رکھا جا تا علا ج کی سہو لت سے بھی محروم رکھا جا تا چنا نچہ بہت تھے جو وقت سے پہلے مر جا تے (سڈنی ما رننگ ہیر لڈ 1997-5-24) برنم برنم 1997ء میں وفات پا گئے تھے۔
گورو ں کی آمد سے کم از کم چا لیس ہزار سا ل پہلے سے ایبور جینز آسٹریلیا میں رہتے تھے ان کے مذہب کی بنیا د خوا بو ں پر ہے جن کے با رہ میں رسو ل کریم ﷺ نے فر ما یا ہے کہ سچی مبشر رؤیا نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ یعنی خدا کی طرف سے ملنے والی ہدایت کا آغاز خوابو ں کے ذریعہ ہوتا ہے جو ترقی کرتے کرتے شریعت اور ما موریت کے الہام تک پہنچتا ہے۔ ایبور جینز مختلف قبائل میں بٹے ہوئے تھے۔ 600 سے زائد زبا نیں بو لی جا تی تھیں۔ نہ ان کا آ پس میں کو ئی را بطہ تھا نہ کو ئی مشترک زبا ن تھی لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ سبھی یہ ما نتے تھے کہ کائنات کی ایک طا قت ہے جو رؤیا کے ذریعہ ہم سے را بطہ رکھتی ہے۔ ان کی خوا بو ں کا ایک نظام ہے خوا بو ں کی تاویل کرنے والے ان میں بزرگ موجود ہیں۔ اور یہ کہتے ہیں کہ خوا بو ں میں جو پیغام ملتے ہیں وہ مستقبل میں اس طر ح پورے ہوتے ہیں یہ گویا اس با ت کا ثبوت ہے کہ خدا نے کسی بھی قوم اور نسل کو بغیر ہدایت کے نہیں چھو ڑا (تفصیل کے لئے دیکھیں حضور کی کتاب اور روزنا مہ الفضل 30جنوری 2003ء) ان کو یقین تھا کہ اس کا ئنات میں ایک برتر ہستی ہے جو ہر چیز سے پہلے موجود تھی جس نے دنیا کوپیدا کیا اور پھر آسمانوں پر چلی گئی (جس طر ح قرآ ن کہتا ہے کہ خدا نے مخلوقات کو پیدا کیا اور عرش پر قرار فر ما ہو گیا یعنی مخلوق سے منزہ جو تنزیہی صفات ہیں ان کے پردہ میں مستور ہو کر اور تشبیہی صفات کو ظا ہر کرکے تد بیر امور کا ئنات فر ما نے لگا)
یورپین اقوام نے ان سے ملک چھینا۔ جہا ں تک ہو سکا ان کو ختم کیا۔ وہ اپنے اپنے قبیلہ کے رسم و رواج کے پا بند تھے۔ جنگلو ں میں جو کچھ ملتا اسے کھا کر اپنی بھو ک مٹاتے بیاہ شادی اور موت کی رسوما ت بھی ان میں تھیں۔ باوجود نیم برہنہ رہنے کے ان میں عفت کا ایک معیار تھا۔ شادی سے پہلے لڑکا لڑکی ایک دوسرے کو چھوتے تو ان کو سزا دی جا تی۔ یہ لوگ نہ تو شرا ب سے آ شنا تھے نہ نشو ں کے عا دی تھے نہ کو ئی جوئے کی لت انہیں تھی۔ اور اب ان کا مذہب عیسائیت تھا۔ چرچ سختی سے نگرا نی کرتے ہیں کہ کو ئی دوسرا مذہب ان میں نفو ذ کرنے نہ پائے۔ منشیات کے عا دی ہو چکے ہیں کچھ نہ ملے تو پٹرول کو ہی سو نگھ کر نشہ کی عا دت پو ری کرتے ہیں۔ جو وظیفہ حکو مت سے ملتا ہے اور ان کو دوسروں کے مقابلہ میں بہت فراخ دلی سے ملتا ہے وہ اکثر جو ئے اور نشہ کی نذر ہو جا تا ہے اور جب خرچ پورے نہیں ہو تے تو چو ریاں کرتے اور ڈا کے ڈا لتے ہیں۔ حکو مت چونکہ ان کو اتنا دیتی ہے کہ بغیر کو ئی کا م کئے زندگی گزار سکتے ہیں۔ اس لئے اکثر بیکار رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ اخلا قی اور سما جی برا ئیو ں میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ ان میں وہ سب برا ئیا ں رچ بس گئی ہیں جن میں گورے خود بھی مبتلا ہیں۔ بغیر شادی کے اکھٹے رہنا بھی عام ہے۔ اسی حالت میں بچے بھی پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا اکثر کو ئی پرسانِ حا ل نہیں ہوتا۔ ان میں سمجھدار لو گ بھی ہیں۔ بعض تو خاصے پڑھے لکھے اور ذہین بھی ہیں۔ وہ ان برا ئیو ں سے تنگ آ چکے ہیں۔ لیکن کچھ نہیں کر سکتے بلکہ شخصی آزادی کے نا م پر کھلی چھٹی دینے پر مجبور ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ان طور طریقو ں سے تنگ آنے کے با وجود کچھ سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ دوسروں کو شک وشبہ کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اپنی زندگی اپنے ہا تھو ں سے برباد کر رہے ہیں۔ نشہ آور اشیاء کھا کر بیکار پڑے رہتے ہیں۔ یا ادھر ادھر پھرتے رہتے ہیں۔
مجھے ایک ا حمدی دوست نے بتا یا کہ ایک ایبور جینی مسلمان ہو گیا ہے۔ کچھ عرصہ بعد اس کے دوستوں نے اس سے پو چھا کہ تمہیں مسلمان ہو کر کیا ملا؟ کہنے لگا میں اب صا ف ستھرا رہتا ہو ں کیو نکہ نماز پڑھنی ہو تی ہے۔ باقاعدہ شادی کرکے بیوی بچو ں کے ساتھ رہتا ہو ں۔ نہ میں شراب پیتا ہوں نہ کوئی اور نشہ کرتا ہو ں۔ جؤا بھی نہیں کھیلتا ہوں۔ کام کرکے کھاتا ہوں میرے پاس پیسے بچتے ہیں اس لئے میں نے اپنا مکان بھی قسطوں پر خرید لیا ہے۔ جبکہ تم سب اپنے پیسے ادھر ادھر ضائع کردیتے ہو۔ اور کرایہ کے مکا نوں میں رہتے ہو۔ اب بتاؤ کہ میں اچھا ہو ں کہ تم؟ جو کچھ اس نے کہا اگروہ سچ ہے تو اس نے مسلمان ہونے کا دنیا ہی میں فائدہ اٹھا لیا اورآ خرت کا فا ئدہ الگ ہے۔ یہی ایبور جینز کے لئے پیغا م ہے اگر سوچیں تو اسلا م کے قلعہ کے اندر آ جا ئیں تو سب دکھو ں اور پریشانیوں سے بچ جائیں گے۔
٭…٭…٭
(خالد سیف اللہ خان۔ آسٹریلیا)