• 23 اپریل, 2024

واقعہ الفیل

اطفال کارنر
واقعہ الفیل

(ہر اخبار، معاشرہ کے تمام طبقوں کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے جس میں بوڑھے، نوجوان، خواتین اور بچے شامل ہوتے ہیں۔ ادارہ کچھ عرصہ سے احمدی نونہالوں کے لئے ایک کالم شروع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ایک احمدی طفل عزیزم حارث محمود آف لندن بعمر 12 سال نے اپنی انگریزی میں لکھی ہوئی ایک تحریر جو غالبا ان کی ایک تقریر ہے اس درخواست کے ساتھ بھجوائی ہے کہ اس کا اردو ترجمہ کروا کر الفضل میں شائع کر دیں۔ یوں اس طفل کی تحریر سے ’’اطفال کارنر‘‘کا آغاز کر رہے ہیں اور دنیا بھر سے اطفال و ناصرات کو ان کے اپنے اس کالم کے لئے مختصر مضامین / تقاریر بھجوانے کے لئے دعوت عام ہے۔ لطیفے اور کہانیاں نہ بھجوائیں۔ جَزَاکُمُ اللّٰہُ خَیْرًا۔

(ابو سعید ایڈیٹر)

آج میں جس موضوع پر بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہے عبد المطلب کے دور میں ایک بہت طاقتور، لالچی اور خود غرض آدمی تھا، جسکا نام ابرہہ تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ عرب کے لوگوں کی توجہ خانہ کعبہ سے ہٹا دے۔ چناچہ اس نے ایک عبادت گاہ بنائی اور عرب کے باشندوں کو ترغیب دی کہ وہ کعبہ کی بجائے اس کی بنائی ہوئی عبادت گاہ میں آ کر حج کریں۔ عرب اقدار کے حامل لوگ کعبہ کے مقابل کسی اور عبادت گاہ کا وجود کیسے برداشت کر سکتے تھے۔ ابرہہ عربوں کی طرف سے انکار کی خبر سن کر آگ بگولہ ہو گیا۔ اور اس نے اپنی تمام قوت کے ساتھ مکہ پر حملہ کر کے مکہ کو تباہ کرنے کا ارادہ کر لیا۔ تاہم اس نے ایسا کرنے کے لیے حبشہ کے بادشاہ نیگس کی اجازت طلب کی اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہو گیا۔ مختلف روایات کے مطابق اس کے لشکر کی تعداد ساٹھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی۔ بہرحال اس کی فوج ہزاروں پر مشتمل تھی۔ وہ یمن سے روانہ ہوا اور راستے میں کئی عرب قبائل کو شکست دیتے ہوئے مکہ کے ایک قریبی مقام تک پہنچ گیا۔ اس نے اپنی فوج کو شہر کے گرد و نواح میں صف بند کر دیا۔ جب قریش کو اس بات کا علم ہوا تو وہ کافی پریشان ہو گئے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ وہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرنے سے عاجز تھے۔ اس لیے انہوں نے عبد المطلب کو اپنا نمائندہ بنا کر ابرہہ کے پاس بھیجا۔ اُنکی قابل تعظیم شخصیت اور اعلیٰ ذہانت نے ابرہہ پر گہرا اثر ڈالا۔ اس لیے ابرہہ انکے ساتھ نہایت عزت کے ساتھ پیش آیا اور انکے مترجم کو حکم دیا کہ عبدالمطلب سے پوچھے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ عبد المطلب نے شاید پہلے ہی سے اپنا مدعا سوچ رکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ آپ کی فوج نے میرے اونٹ پکڑ لیے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے اونٹ مجھے واپس کر دیے جائیں۔ ابرہہ نے انکو انکے اونٹ لوٹا دیے۔ مگر اس پر سے عبدالمطلب کی تعظیم اور دانائی کا خود پر پڑا ابتدائی اثر زائل ہونے لگا۔ اسنے عبدالمطلب کا مزاق اڑاتے ہوئے کہا کہ میں یہاں تمہارا کعبہ تباہ کرنے آیا ہوں لیکن تم کو اس بات کی کوئی فکر نہیں، تمہیں صرف اپنے اونٹوں کی فکر ہے؟ عبدالمطلب نے انتہائی بے فکری کے عالم میں کہا کہ میں صرف ان اونٹوں کا مالک ہوں اس لیے مجھے صرف اُنکی فکر ہے۔ اسی طرح اس گھر کا بھی ایک مالک ہے جو اس گھر کی حفاظت کرے گا۔ جب ابرہہ نے یہ جواب سنا تو وہ غصہ سے بھر گیا اور کہا میں دیکھا ہوں کہ کیسے مجھے اس گھر کا مالک اس کو تباہ کرنے سے روکے گا۔ چنانچہ وہ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا۔ لیکن الٰہی تصرف سے ایسا ہوا کہ جیسے ہی ابرہہ کے ہاتھی کو مکہ کی سمت میں بڑھنے کے لیے موڑا گیا تو اس نے آگے جانے سے انکار کر دیا۔ انتہائی کوشش کے باوجود ہاتھی آگے نہ بڑھا۔ اس کے بعد اس کے لشکر پر ایسی افتاد پڑی کہ اسکا سارا لشکر پرندوں کی خوراک بن گیا۔

روایات میں یہ واقعہ اس انداز میں بیان ہوا ہے کہ جب اس کے لشکر نے مکہ کی طرف بڑھنے کی کوشش کی تو مشیت ایزدی سے پرندوں کا ایک جھنڈ ان پر حملہ آور ہو گیا جنہوں نے اپنے پنجوں میں ایک زہر آلود مٹی کے کنکر اٹھا رکھے تھے۔ جس کسی پر بھی وہ کنکر گرتے وہ چیچک سے ملتی ایک مہلک اور متعدی بیماری کا شکار ہو جاتا جب یہ بیماری پہلی بار پھوٹی تو انتہائی تیزی کے ساتھ پھیلی۔

اس واقعہ سے کسی کو حیرت زدہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ متعدی بیماریاں پہلے کئی بار مٹی کے کنکروں یا اسی طرح کے دوسرے ذرائع سے پھیلی ہیں۔ تاہم یہ بھی ممکن ہے کہ یہ پرندے کسی ایسے علاقے سے آئے ہوں جو کسی متعدی بیماری والے بیکٹیریا سے متاثر ہو اور اسی وجہ سے چیچک سے ملتی جلتی ایک مہلک بیماری سارے لشکر میں پھیل گئی ہو۔ چنانچہ ابرہہ سے متعلق ایسی روایت بطور خاص موجود ہے کہ وہ ایک ایسی بیماری کا شکار ہوا تھا جس سے اس کے جسم سے گوشت کے لوتھڑے گرتے تھے۔ یہ واقعہ قرآن کریم میں ان الفاظ میں مذکور ہے کہ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تیرے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیا کیا۔ کیا اس نے ان کی تدبیر ناکام نہیں بنا دی۔ اور اس نے ان پر پرندوں کے جھنڈ بھیجے جو ان پر کنکر پھینکتے تھے۔ پس اس نے ان کو کھائے ہوئے بھوسے کی مانند بنا دیا۔‘‘ ابرہہ کا یہ حملہ تاریخ میں اصحاب الفیل کے حملے کے نام سے مشہور ہے۔ یعنی ہاتھی والوں کا حملہ۔ یہ اس لیے کہ ابرہہ کے پاس ایک ہاتھی تھا یا بعض روایات کے مطابق کئی ہاتھی تھے۔ کیونکہ ہاتھی مکہ کے قریش کے لیے ایک نئی اور عجیب مخلوق تھی۔ اور اس سے پہلے انہوں نے کبھی اسکو نہیں دیکھا تھا۔ تو نہ صرف یہ کہ انہوں نے ان حملہ آوروں کو اصحاب الفیل کا نام دیا بلکہ اس سال کا نام بھی عام الفیل یعنی ہاتھیوں کا سال رکھا۔ اصحاب الفیل کی تباہی سے قریش میں کعبۃ اللہ کی تعظیم بہت بڑھ گئی اور عرب کے دیگر قبائل قریش کو مزید عزت اور تعظیم کی نگاہ سے دیکھنے لگے۔

(حارث محمود ولد کاشف محمود۔ایسٹ لندن برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

پہلا آن لائن اسلامک سیمینار یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2021