• 26 اپریل, 2024

ہجرت (قسط 1)

ہجرت
(قسط 1)

لوگ کہتے ہیں خدا نظر نہیں آتا، بھلا کیوں نظر آئے؟ تم کون ہو جو تمہیں خدا نظر آئے, ہوا نظر نہیں آتی، احساس نظر نہیں آتا، محبت نظر نہیں آتی لیکن ان سب کی بدولت ہی سکون میسر ہے، اس وقت کو دیکھنے کی خواہش مجھے کھائے جاتی ہے جب لوگ ہوا کی بجائے محبت میں سانس لیتے تھے، سرحدی حد بندیوں اور مذہبی و سیاسی بنیادوں پر بنائی جانے والی تفریقات کی لُو میں نہیں، ہائے وہ وقت، کاش میں وہ وقت دیکھ پاتی کاش وہ وقت ہماری نسل دیکھ پاتی، کاش وہ وقت محفوظ کر لیا جاتا

وہ وقت جب مسلمان ہندو سکھ جاٹ مغل کمہار سب ایک ہی دھرتی کے سپوت تھے، جب سب ایک ہی زمین کے جائے تھے. جب سب ہمسائے تھے، جب کوئی ہندو مسلمان کو ہاتھ ملانے سے کتراتا نہ تھا اور نہ ہی کوئی مسلمان ہندو کا گھر جلاتا تھا، وہ کیسا وقت تھا جب سکھ اور جاٹ ایک ہی پیالے میں پانی پیتے کشتی کرتے ہل چلاتے ونگاریں بھوگا کرتا تھے، ایک کا کام ہوتا تو سب بستی کے لوگ اکٹھے ہو کر پہلے ایک کا کام نپٹایا کرتے پھر وہ ان سب کے ساتھ کسی دوسرے کا اور اسی طرح پوری بستی کے لوگوں کی فصل کی بیجائی کٹائی سب مل کر کرتے، ایک ہی جگہ سب کھانا کھاتے گاتے ناچتے ڈھول بجاتے اور زندگی جیتے تھے، ہائے وہ وقت کاش یہ نسل وہ وقت دیکھ پاتی کاش وہ وقت کسی سائنسی مشین میں محفوظ کر لیا جاتا، جب کوئی تفریق نہ تھی، اس سے فرق ہی نہیں پڑتا تھا کہ بچہ ہندو کا ہے سکھ یا مسلمان کا، جاتے ہوئے کوئی بھی کندھے پہ اٹھا کے بچے کو چومتے ہوئے نہ تھکتا تھا، یہ پتہ ہی نہ تھا کہ شادی کافر کی بیٹی کی ہے یا حاجی ولی اللہ کی بیٹی کی سب بس خوشی کو ترجیح دیتے تھے اور ایک زمین کو ماں کہنے والے سگے بھائیوں کی طرح رہتے تھے

وہ پنجاب کی زمین تھی، پنج دریاواں دی دھرتی، ہندو مسلمان سکھ جاٹ کا فرق نہ تھا، عید پہ قربانی کا گوشت ہندو اور سکھ بھی مسلمان یاروں کے ساتھ کھاتے اور ہولی پہ رنگ مسلمان بھی منہ پہ ملا کرتے تھے، کشتی ہوتی تو شیر جوان ڈھول کی تاپ پہ بھنگڑا ڈالتے ہوئے ایک دوسرے کو کندھے پہ اٹھا کے چلتے، لڑکیاں ایک دوسرے کو مہندی لگاتیں، اپنے ہاتھوں سے اتار کر چوڑیاں سہیلیوں کو دے دیتیں اور اس سے فرق نہ پڑتا کہ یہ برہمن کے ہاتھ میں مسلمان یا سکھ کی لڑکی کے ہاتھ کی اتری چوڑی نہ پہنائی جائے، محبت سب تفریقات کی میل دھو کر اک ہی رنگ میں رنگ دیتی تھی اور وہ رنگ اپنی مٹی کا رنگ تھا، اپنی دھرتی کا رنگ تھا

دہلی اور آگرہ کی زمین پہ وہ وقت جب صرف پیار اور رکھ رکھاؤ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے نہیں بلکہ ایک دوسرے پہ جان وارنے کے لیے ہوتا تھا, ہندو یار مسلمان یاروں کے لیے لڑ جاتے تھے، مسلمان اپنا گھر چھوڑ کر بھی ہندو کا ساتھ نہ چھوڑتے کیونکہ ہندو مسلمان کا تصور نفرت اور دشمنی کا نہیں تھا بلکہ عبادت کے الگ طریقے کا تصور تھا, وہی بھگوان وہی خدا وہی رب وہی گرو، سب کی بنیاد تو ہی اللہ تھا جس کے سب قائل تھے اور محبت نس نس میں قائم تھی اور ہر سانس ایک دوسرے پہ وارنے کو ہی اہلِ ہند اپنی وفاداری سمجھتے تھے

کشمیر اور پشاور کی زمین تھی، پہاڑوں پہ جھرنے بہتے تو کنواری لڑکیاں بادام کے پھولوں کی طرح اور انگور کی بیلوں کی طرح اک دوسرے سے چمٹ کر کشمیری اور پشتو گیت گاتیں تو وادیاں حسن کی خوشبو سے مہک اٹھتیں، چشمے پانی ابلنے لگتے اور خوبانی کے پھل پک کر شہد سے زیادہ میٹھے ہو جاتے، محبت کرنے والے کھیل کنارے بندھی کشتی پہ سوار ہو کر چاندنی رات میں پیار کے وعدے نبھاتے اور یہ فرق ہی نہ تھا کہ ہندو کون ہے اور مسلمان کون، وہ کشمیری تھی بعد میں عقیدے کی بنیاد پر ہندو یا مسلمان اسی طرح وہ پختون تھے بعد میں ہندو یا مسلمان، پیار ہی سب کی زبان تھا اور احساس ہی سب کے دلوں کو جوڑے رکھتا تھا

اس وقت کو یاد کرتے ہوئی کیا اکیلی میں ہی بے چین ہوں؟ آپ نہیں؟ آپ پڑھتے ہوئے بے قرار نہیں ہوئے اس وقت میں واپس جانے کےلیے جب سب ایک تھے سب ایک، صرف محبت اور انسانیت کے رشتے میں سب ایک تھے ، نہ تفرقہ تھا نہ تفریق، نہ سرحدی دشمنی نہ ملکی عناد، بس ایک رشتہ تھا زمین کا، دھرتی کا رشتہ محبت اور پیار کا رشتہ اور اس رشتے سے بڑھ کر کوئی رشتہ ہو ہی نہیں سکتا

اور پھر ….

ہجرت …..

ہجرت کیا تھی؟ ایک آگ تھی جس نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، کسی نے یہ نہ پوچھا کہ صدیوں سے اکٹھے رہنے والے اک دوسرے کو کیوں چھوڑنا چاہیں گے اور اگر ہجرت کرنی بھی ہے تو کن بنیادوں پر، کیا کوئی اپنی مرضی سے وہیں رہ سکتا ہے جہاں رہ رہا ہے یا زبردستی ہے، بس ایک چار آنے کے نقشے پہ نفرت کی سیاہی سے ایک لکیر کھینچ دی گئی، یہ ہندوستان یہ پاکستان، یہ کسی نے نہ پوچھا کہ کچھ ہندو اور مسلمان اگر ایک دوسرے کے ساتھ اب بھی جڑ کے رہنا چاہیں تو ان کا کیا ہو گا، اس دھرتی کا کیا ہو گا جو اپنے ہندو مسلمان بیٹوں کو ہمیشہ سے اکٹھے پیار کے بندھن میں بندھا دیکھتی آئی ہے، اس محبت کا کیا ہو گا جس نے نسلوں کو جوڑے رکھا

بس لکیر کھینچ دی گئی.

حکم آ گیا

ہندو پاکستان میں نہیں رہ سکتے،

مسلمان ہندوستان میں نہیں رہ سکتے

وہ عجب وقت تھا

قہر کا وقت تھا

کیونکہ فجر ظہر عصر مغرب عشا میں سے کوئی پہر بھی اس وقت کو اپنے حصے میں قبول نہیں کرے گا، وہ عجب وقت تھا، ہجرت کا وقت

یاروں کو یاروں سے بچھڑنا تھا،

وہ یار جو اکٹھے کھیلتے کودتے بڑے ہوئے اور جو اک دوجے پہ جاں وارنے کے لیے تیار رہتے تھے اب وہ اک دوسرے سے نظریں چرا رہے تھے وہ اب یار نہیں ہندو اور مسلمان تھے،

اب محبت کرنے والوں کو بچھڑنا تھا کیونکہ وہ اب دیوانے نہیں مذہب دار تھے

اب ان سہیلیوں کو بچھڑنا تھا جنہوں نے اپنی گڑیا کی شادی دوسرے کے گڈے سے کر دی تھی، اب ان گڑیا اور گڈے کو بچھڑنا تھا جو پیار کی نسبت میں جڑے دھاگے سے نکل کر سرحد کی نوکیلی باڑ پہ وارے جا رہے تھے، اب دھرتی کے بیٹوں کو بچھڑنا تھا اور دھرتی بالکل اسی طرح رو رہی تھی جیسے مجبور ماں بیٹوں کے بٹواروں پہ خاموش آنسو بہاتی ہے، اب اس دھرتی کو آدھا ہندوستان میں رہنا تھا پاکستان میں حال کہ اسی طرح جیسے ایک ماں بٹوارے کے بعد کچھ دن ایک بیٹے کے گھر رہتی ہے اور کچھ دن دوسرے بیٹے کے گھر، سو ہجرت اٹل تھی

حکمِ ہجرت ملا تو دھرتی نے خاموش آنکھوں سے ان بیٹوں کی طرف دیکھا جو اس کے بیٹے تھے جو مٹی کے بیٹے تھے جو اپنی ماں کی عظمت کی قسمیں کھاتے تھے جو کہتے تھے دھرتی مٹی نہیں ماں ہوتی ہے، وہی بیٹے اپنی ماں کو بے سہارا چھوڑ کے مجبور آنکھوں سے اپنے اپنے مقدر کی بھینٹ چڑھ رہے تھے، کاش اس وقت کوئی یہ تو پوچھتا کہ دھرتی کے سپوتو یہ دھرتی تمہاری ہے, جو جہاں چاہے رہے، مسلمان چاہے ہندستان میں ہی رہیں انہیں کوئی روک ٹوک نہ ہو گی اور ہندو چاہے پاکستان سے ہجرت نہ کریں وہیں بس جائیں وہ ان کا اپنا ہی ملک ہو گا, ملک کیا دھرتی ہے جو سب کی سانجھی ہے، وہ معاملات جو امن اور آسانی سے طے پائے جا سکتے تھے وہی حالات بگاڑ کر خون کی ہولی کیوں کھیلی گئی، انسانی خون کے دریا کیوں بہائے گئے، کس نے ذہنوں میں نفرت بھر دی تھی، وہی جو پہلے ساتھ رہتے ساتھ کھاتے پیتے تھے وہی اب ایک دوسرے کا خون بہا رہے تھے اور یہ سب دیکھنے والوں نے خاموش ہو کر دیکھا اپنے ہی بیٹوں کا خون دھرتی نے اپنے سینے پر سہا اس کا کیوں نہی سوچتے کہ اس پر کیا گزری ہو گی دھرتی ماں پر کیا گزری ہو گی ، بس صرف اپنا ہی کیوں سوچا گیا

یہ ہندوستان ہے ہندوستان، ہندوؤں کا ملک، اس میں مسلمانوں کو رہنے کی اجازت ہرگز نہیں، یہاں سے مسلمانوں کو نکل جانا چاہیے ان کے لیے ہمارے پاس بالکل جگہ نہیں ، یہ ان ہندو بیٹوں کے بیانات تھے ان مسلمان بھائیوں کے لیے جو ان کے یار تھے کبھی، کبھی ساتھ اٹھنا بیٹھنا کھانا پینا تھا لیکن اب وہی ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے دشمن تھے اب سرحد کی جنگ تھی انا کی جنگ تھی نفرت کی جنگ تھی خودغرضیوں اور مرضیوں کی جنگ تھی، اپنی طاقت کی جنگ تھی، اور یہ وہ جنگ تھی جو انسانی اقدار کو لے ڈوبی

مسلمان جان بچاتے پھر رہے تھے، گھروں سے نکلے تو ضروری سامان اور پیسہ پونجی ساتھ اٹھایا کہ وہاں جا کر گزر بسر ہو سکے، راستے میں پہنچے تو قافلوں میں مشکلات کا سامنا ہوا، جان خطرے میں تھی، ہر قافلہ اجڑا، کہیں راستے میں ہندوؤں نے آ لیا، تلواریں لیے ہوئے خون کا کھیل کھیلا، جو سامان تھا لوٹ لیا. مال مویشی چھین لیے، نہتے قافلوں پہ وار کیے، ماؤں کے سامنے بیٹوں کو ذبح کیا اور خوشی اور فخر سے ذبح کیا کہ دیکھا مسلمانو تم ہمارے سامنے کچھ نہیں، ہم جو چاہیں کریں ، وہی ہندو جو پہلے مسلمانوں کت ساتھ اٹھتے بیٹھتے کھاتے پیتے عید جشن ہولی سب اکٹھے منائی جاتی اب وہی دشمن تھے اب وہی اپنے ہی دھرتی کے پالوں کے خون سے ہاتھ رنگ کر خود کو اونچا ثابت کرنا چاہتے تھے، ماؤں کے سامنے بچوں کو قتل کیا گیا، بیٹیاں اٹھا لے گئے عصمتیں لوٹ لی گئیں، وہی بیٹیاں تھیں انہیں کوئی تو بتاتا کہ یہ وہی بیٹیاں ہیں جن کے سر پر کل تک تم دوپٹے رکھا کرتے تھے جو تمہاری دھرتی کی بیٹیاں تھیں وہی بیٹیاں اب تم سے محفوظ نہیں زمین کیوں نہ پھٹی آسمان نے کیا دیکھا, اپنے ہی خون کی پہچان کھو دی گئی، انسانی اقدار کی پہچان کھو دی گئی، اس قدر ظلم ہوا اس قدر ظلم کہ ظلم بھی شرمندہ ہو گا.

کسی کا باپ مرا تو کسی کی ماں، کسی کی بہو کو اٹھا لے گئے تو کسی کی بیٹی، کسی کے بچے کو ذبح کیا تو کسی کے بھائی کو، یہ دیکھنے والا ہی کوئی نہ تھا کہ یہ جس کا خون میں بہا رہا ہوں یہ انسان ہے، انسانی جان لے رہا ہوں اور انسانی جان ایک بار چلی جائے تو واپس نہیں آتی، اور غضب یہ کہ ایک دوسرے کی ناموس کے رکھوالے ہی ایک دوسرے پہ تلواریں تانے کھڑے تھے, قافلوں کو لوٹا جاتا رہا، کبھی ہندو آ کے عظمتِ انسانی کو تار تار کرتے تو کبھی سکھ, بس ایک ہی نعرہ تھا کہ جو مسلمان ہے مار دیا جائے، کوئی سلامت نہ جائے جو بھی جائے ایک بھیانک یاد لے کر جائے اور ہمیشہ یاد رکھے کہ ہم ہندو قوم کتنی طاقتور اور بہادر ہیں جو اپنا بدلہ لے رہی ہے، کیا عجب قوم تھی جو اپنا ہی جسم کاٹ رہی تھی کیا عجب قوم تھی جو اپنی دھرتی کا خون بہا رہی تھی کیا عجب قوم تھی

مسلمان قافلے جہاں سے گزرتے ان پر حملے ہوتے رہے حملہ آور آ کے لوٹ مار کے چلے جاتے اور خاندان کم سے کم ہوتے گئے، کوئی خاندان ایسا نہ تھا جو اب تک سلامت ہو، اس ماں پر کیا گزری ہو گی جس کے اکلوتے بیٹے کو اس کے سامنے مارا گیا ذبح کیا گیا اس باپ پر کیا گزری ہوگی جس کی بیٹی جس کی عزت کو اس کے سامنے اٹھا کے لے جایا گیا اور اس بھائی پر کیا گزری ہو گی جس کی بہن ماں بھابھی پر ظلم ڈھایا گیا ہو گا، یہ انسان تھے؟ ہرگز نہیں؟ اس وقت ان انسانوں کو انسان کہنا جرم ہے وہ نفرت کے بھرے شیطان تھے، محبت سے بچھڑے، اپنوں کے رنج میں چور بھوکے پیاسے لڑتے قافلے، بے بس اور نفرت و حقارت کا شکار ہوتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے

کچھ قافلے ریل گاڑی پر بھی تھے، مسلمانوں کو ریل گاڑی سے بھیجا جا رہا تھا، ہندو سپاہی نگرانی پر مامور تھے، ڈبے میں بیٹھا ہر شخص اس قدر مجبور تھا کہ اسے یہ یقین ہی نہ تھا کہ وہ زندہ لاشیں تھیں صرف زندہ لاشیں، میں وہ سب کیسے بیان کر دوں جو اس وقت کے لوگوں نے دیکھا اور اس دھرتی نے اپنے سینے پر سہا، میرے بیان میں طاقت نہیں کہ میں وہ سب بیان کر سکوں، تاریخِ انسانی اس پر شرمندہ و رنجیدہ ہے، کہیں کسی بوڑھی عورت کے ساتھ معصوم بچہ تھا جسے پیاس بے قرار کر رہی تھی، پانی مانگنے پر ہندو سپاہی نے کہا سو روپیہ دو گی تو ایک گلاس پانی دوں گا, جس کے بیٹے کو راستے میں مار دیا گیا , بہو کو مار دیا گیا، بیٹیوں کو حملہ آور اٹھا لے گئے سامان لوٹ لیا گیا صرف ایک معصوم پوتا آ بچا تھا اب اس کو ایک گلاس پانی کے لیے سو روپیہ کہاں سے لاتی، اس وقت نفرت بھی ایسے لوگوں پر تھوک رہی ہو گی جب معصوموں کا خون بہانے والوں نے انسانی اقدار و جذبات کا مذاق اڑایا، کہیں ایک معصوم نو سالہ لڑکی اکیلی دبکی بیٹھی تھی جس کی بڑی بہن کو کوئی اٹھا لے گیا اور باپ کو مار ڈالا گیا، ہر اسٹیشن پر گاڑی رکتی حملہ آور آتے اپنی مرضی کی لوٹ مار کرتے سامان اور مال لوٹتے ,,لڑکیاں اٹھاتے، لوگوں کا خون بہاتے دہشت کی انمٹ داستان چھوڑتے نکل جاتے اور باقی بچنے والوں کے دلوں پر کیا گزرتی اس کو لکھ دوں کیا ؟ سہہ پاؤ گے؟ جب بھی گاڑی رکتی وہ خوف دل کو آ لگتا جو موت کی بھی ہلا کر رکھ دیتا، آرزوؤں کے لٹنے کا خوف ، عصمتیں تار تار ہونے کا خوف، معصوموں کے خون بہہ جانے کا خوف، کمزوروں کے قتل کا خؤف، بزرگوں کی توہین اور ذلالت کا خوف.

انسانیت سے اعتبار اٹھ چکا تھا،

بس ایک کسک تھی

صرف ایک کسک کہ اس ملک کی آزاد فضا میں جا کر ایک بار سانس لے کر دیکھ لیں

جس کی خاطر بیٹے ذبح ہوئے،

بیٹیوں کی عزت لوٹی گئی،

بچوں کو ماؤں کے سامنے قتل کیا گیا

ماؤں کی چادریں چھینی گئیں ،

وہ سب ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا،

بس ایک کسک اب بھی باقی تھی کہ اس جنت میں جا کے تو دیکھیں جس کے خواب دیکھتے ہوئے ہم نے سب کچھ کھو دیا،

ہواؤں میں خون کی بو تھی،

سانسوں میں خوف

آنکھیں اگلے رستے پر کہ کب وہ ملک آئے گا

ہمارا ملک

ہمارا وطن

ہمارا آزاد وطن

جہاں پہنچ کر وہ سب خوشیاں ہوں گی

جنہیں پا کر ہم سب دکھ بھول جائیں گے

قافلے رواں تھے

آزادی منتظر تھی

ہجرت اٹل تھی

یہ پاکستان ہے پنجاب ہے، لاہور ہے پشاور ہے، یہ وہ دھرتی ہے جس نے سب کو جایا، سب کے کسی تفریق کے بغیر بڑا کیا اور بڑے ہونے پر بیٹوں نے ہی تفریق کی ، تفریق کی دھرتی کی، تفریق کی تہذیب کی، تفریق کی اقدار کی، تفریق کی اخلاص، انسانیت محبت فکر سب کچھ کی تفریق کی علاوہ نفرت کے، نفرت نے تو پر دے دیے تھے جن پر سوار ہو کر ہر سپوت اندھیروں کے بادلوں کو بھی پیچھے چھوڑ جانے کی دھن میں تھا، سب یہی چاہتے تھے کہ بس زمین کو کاٹ کر اپنا نام لکھ دیں اور کمزور کو اس میں گاڑ دیں، افسوس اس بات کا نہیں کہ دھرتی بانٹی گئی، وہ بٹنی تھی تو امن اور احتیاط سے بھی بانٹی جا سکتی تھی، اپنی مرضی کے مطابق وطن چنا جا سکتا تھا، سب معاملات سکون سے طے پا سکتے تھے، سب کو آزاد ملک آزاد فضا میسر آ سکتی تھی لیکن نفرت نے اس قدر اندھا کر دیا تھا کہ صدیوں سے ایک ساتھ رہنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلنے والے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے کو آتے تھے، ایک دوسرے کی عزت تک لوٹنا عزت اونچی کرنے کے مترادف تھا، اور یہ حال صرف ایک طرف ہوتا تو ایک طبقے کو ظالم اور غلط قرار دے کر لکھنے والوں قسمت اور دھرتی کو سکون مل بھی جاتا لیکن یہ حالات ایک طرف نہ تھے، یہ حالات دونوں طرف تھے اور بالکل ایک جیسے تھے، ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے مسلمانوں پہ ظلم ڈھائے گئے تو یہ نہیں تھا کہ پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے ہندوؤں کو بھیگتی آنکھوں، آنسوؤں اور افسردگی کے ساتھ رخصت کیا گیا ہو یا پھر پھولوں کے ہار پہنا کر اور ڈھول بجا کے اور خوشی خوشی رخصت کیا گیا ہو، دونوں طرف صرف نفرت تھی نہ عقل تھی نہ دل تھے نہ دماغ نہ احساس نہ محبت نہ قدر نہ انسانیت, کچھ بھی نہ تھا سوا نفرت کے، پاکستان سے ہجرت کر کے جانے والے ہندوؤں کے ساتھ بھی وہی ہوا جو وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ ہوتا آیا

لاہور سے کچھ خاندان ہجرت نہ چاہتے تھے ان کا کہنا تھا ہم پاکستان میں ہی رہیں گے بے شک ہم ہندو ہیں لیکن ہمیں یہیں رہنا ہے یہ دھرتی سب کی ماں دھرتی ہے اور ہم اب بھی امن کے ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں یہ بالکل ویسے ہی تھا جیسے ہندوستان سے کچھ مسلمان ہجرت نہیں کرنا چاہتے تھے وہ بھی کہتے تھے کہ ہم ہندوستان میں ہی رہ سکتے ہیں، لیکن گھر نہ چھوڑنے پر دوسرے طبقے کو سخت غصہ تھا غصہ کس بات کا تھا کہ یہ گھر چھوڑیں گے تو ہی ہمیں یہ گھر مل سکیں گے، یہ احساس ہی ختم ہو گیا تھا کہ کل تک ہم ایک دوسرے کی جان مال کی حفاظت کرتے رہے، جس گھر سے پتہ چلا کہ یہاں ہندو رہ رہے ہیں انہیں زبردستی ہجرت پہ مجبور کیا جاتا اور اگر وہ ہجرت نہ بھی کرتے تو ان کے گھر کو جلا دیا جاتا اور صرف گھر نہیں اس میں موجود بچے جوان عورتیں بزرگ سب ساتھ میں ہی جل جاتے ، یہ انسانیت تھی یہ جذبہ حب الوطنی تھا.

مجھے علم ہے یہ مرے بہت سے پاکستان سے محبت کرنے والے اور مسلمان بھی پڑھیں گے، میں مسلمان ہوں اور اکثر لکھنے والوں کی طرح کیا میں بھی تصویر کا ایک رخ دکھاتی؟ مجھے میرے بابا نے میری ماں نے مری دھرتی نے مرے احساس نے سچ بولنا سکھایا ہے تو میں کیسے ان حقائق پہ پردہ ڈال دیتی جو واقعتاً ہوئے. ایک طبقہ یہ سوچے گا کہ مجھے مسلمان ہو کر صرف مسلمانوں کے حق میں ہی ثبوت ڈھونڈنے چاہئیں مجھے صرف مسلمان ہو کر مسلمانوں کی نمائندگی کرنی چاہیے، لیکن میں مسلمان ہوں مجھے اسلام اور حضرت محمد ص نے عدل سکھایا ہے، کیا حضرت محمد ص نے حقیقت کو چھپا کر صرف ایک رخ دکھانے کی تعلیم دی؟ ہرگز نہیں کیا انہوں نے اقلیتوں کے ساتھ غیر منصفانہ طریق اختیار کرنے کی تعلیم دی؟ ہرگز نہیں، کیا میں اپنے گروہ کی برتری ثابت کرنے کے لیے جھوٹ بول دوں کہ صرف ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیے اور مسلمانوں نے ہندوؤں کو پر امن طریقے سے اور محبت کے پھول پیش کر کے ہندوستان رخصت کیا؟ ہر گز نہیں مسلمانوں نے بھی ویسے ہی ظلم ڈھائے کیونکہ اس وقت کوئی ہندو تھا نہ مسلمان اس وقت صرف نفرت سوار تھی اور انتقام کی آگ نے سب کو اپنے اندر لپیٹ رکھا تھا، اب آپ بتائیے کیا میں تصویر کا ایک رخ پیش کر کے اپنے اندر کے ضمیر پہ بد دیانتی کے پتھر ڈال کر خآموش ہو جاؤں؟ کیا آپ کا ضمیر یہ کہتا ہے مجھے ایسا کرنا چاہیے؟ ہرگز نہیں نا؟ تو آئیے دوسرا رخ بھی دیکھتے ہیں کہ یہاں سے جانے والے ہندوؤں کے ساتھ کیا ہوا؟

یہ لاہور کا محلہ ہے، ایک گھر جہاں سے کچھ ہندو واپس جانا نہ چاہتے تھے لیکن ان کے گھر کو زبردستی واپس بھیجا گیا اور مجبور کر کے ہجرت پہ مائل کیا گیا، گھر چھوڑ کر وہ اپنے پرانے گاؤں گئے جہاں ان کے آباؤ اجداد رہتے تھے انہیں یہ امید تھی شاید انہیں وہاں امان مل جائے وہاں پہنچنے پر ان کو تسلی ہوئی کہ گاؤں والوں نے کہا ہم آپ کی حفاظت کریں گے ہم سب اکٹھے پلے ہیں اور اس گاؤں کو بھی چاہے کوئی آگ لگا دے ہم آپ کو اپنے ساتھ ہی رکھیں گے، ایک اطمینان کی گھڑی آئی لیکن گاؤں کے سردار کو جلد ہی اوپر سے حکم آیا کہ اگر تم لوگوں نے امان دی تو پورے گاؤں پہ حملہ کر دیا جائے گا، سردار نہ مانا، گاؤں والے پر امن تھے، پرعزم تھے لیکن موت آنے پر سانسیں بھی ساتھ چھوڑ جاتی ہیں،

اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہے ، ہائے اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہے ، اللہ اکبر کا مطلب ہے اللہ ہی سب سے بڑا ہے اور وہ ہی زندگی موت زر زمین سب کا مالک ہے لیکن یہ اللہ اکبر کی صدا لگانے والے اپنے رب کے محمد ص کے احکامات کے ہی خلاف ہو گئے تھے ، وہ خود کو رب سے بڑا ثابت کرنا چاہتے تھے ، زندگی موت دینے والا رب ہے لیکن اس وقت وہ زندگی موت کا فیصلہ کر رہے تھے اس وقت وہ زر زمین چھین رہے تھے جس کا مالک رب ہے ، کتنی بد نصیب فضا ہو گی جس نے یہ سب دیکھا ہو گا کتنا بد بخت وہ سورج ہو گا جس کے اجالے تلے یہ خون ہوا ہو گا ، رحمت اللعالمین کے امتی محمد ص جو شفقت اور رحمت کا سراپا تھے اس کا نام لینے والے خون کا کھیل کھیل رہے تھے ، کتنی افسردہ ہو گی انسانیت جس کے دامن کا داغا گیا، اللہ اکبر کی صدا گونجتی ہے ، ہندو خاندان کے سارے افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے ، خون بہا دیا جاتا ہے، ذلیل کر کے قتل کیا جاتا ہے اور اس گھر کے لوگوں کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے جنہوں نے پناہ دی ، زندہ رکھے جاتے ہیں تو صرف جانور ، یہ زمین انسانوں پہ تنگ تھی، جانور تو جانور تھے، انسان اپنی ہی نسل انسان کے خون کا پیاسا تھا ، اسے جانوروں پہ ترس آ سکتا تھا اسے اپنے ہی خون اپنے جیسے انسانوں پہ ترس نہیں آ سکتا تھا اور یہ سب تاریخ کی آنکھیں خون کے آنسو روتے ہوئے دیکھ رہی تھیں

پشاور سے ٹرین جاتی ہے جس میں پختون ہندو ہوتے ہیں، ہر ہر اسٹیشن پر روک روک کر ہندوؤں کو موت کے گھاٹ اتارا جاتا رہا، خون بہتا رہا، عصتیں لٹتی رہیں, جوان قتل ہوتے رہے, بچے ذبح ہوتے رہے، بیٹیاں اٹھائی جاتی رہیں مائیں بے آبرو ہوتی رہیں، بزرگ ذلیل کر کر کے مارے جاتے رہے، کوئی ایسا خاندان نہ تھا جو سلامت ہو ، ہر طرف نفرت خؤن انتقام اور تفریق تھی جس نے سب کو اپنے اندر جھلسا کے رکھ دیا تھا

ہندو قافلے جب گزر رہے تھے تو چاروں طرف سے خطرے کی تلواریں ان کے سروں پر ہوتی تھیں، کبھی کسی بھی طرف سے خون کی ہولی کھیلی جا سکتی تھی کسی بھی طرف سے حملہ آور آتے، اللہ اکبر کی صدا گونجتی اور اللہ کے نام لیوا اس کے انسانوں کا خؤن بہا کے لوٹ مار کر کے نکل جاتے، دکھ تو یہ ہے کہ احساس رہا ہی نہ تھا، وہی مسلمان جو خود لٹ مر کے ہندوستان سے کسی طرح پاکستان پہنچ گئے تھے اب وہی بدلے کی آگ میں جلتے ہوئے ہندو قافلوں پہ حملہ آوروں کے ساتھ مل کر جھپٹ پڑتے، وہ کیوں نہ سوچتے جس طرح اس طرف ہماری بہنوں کو لوٹا گیا ہمارے بچے قتل کیے گئے ہماری مائیں ماری گئیں جو ہم پہ گزری وہی ان پہ بھی گزر رہی ہو گی ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے لیکن وہ بس بدلے اور انتقامی نفرت کی زد میں اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کا مکمل بدلہ دوسروں سے لے لینا چاہتے تھے سوچ مفلوج تھی اور احساس جذبات سے عاری تھی، فقط نفرت تھی بے حد و بے حساب نفرت

یہ بارڑر ہے، راوی کا پل ہے، جہاں پہ انگریز فوجی تعینات تھے، انگریز فوجی افسر ہر آدھے گھنٹے کے لیے پل کی طرف ایک طرف سے داخلی دروازہ کھولتا جس سے مسلمان قافلے ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہوتے اور آدھے گھنٹے بعد اسے روک کر دوسری طرف کے دروازے کو کھولنے کا حکم دیتا اور ہندو قافلے پاکستان سے ہندوستان کی سرحد میں داخل ہوتے، جونہی وقت ہوتا دروازہ بند کر دیا جاتا اور یہ نہ دیکھا جاتا کہ آدھے خاندان کے لوگ نکل گئے اور آدھے پیچھےرہ گئے تو پیچھے رہنے والوں کو آگے نہ گزرنے دیا جاتا اور آگے والے رک نہ سکتے تھے اور اس طرح اگر کوئی خاندان اکٹھے بارڈر تک پہنچ بھی جاتے تو ایک دوسرے سے بچھڑ جاتے،

وقت ختم ہونے والا تھا، انگریز فوجی آوازیں دے رہا تھا ہری اپ ہری اپ، خارجی دروازے سے ماں باپ نے بیٹے کو جلدی سے باہر کیا اور خود گزرنے لگے لیکن انگریز فوجی نے آگے دروازہ بند کر دیا ، بیٹا ہندوستان میں داخل ہو چکا تھا اور ماں باپ پاکستان کی حد میں رہ گئے، پیچھے والا قافلہ آگے نہ جا سکتا تھا اور آگے نکل جانے والا رک نہ سکتا تھا کیونکہ پیچھے سے لوگ آرہے تھے

معصوم بچہ ماں باپ سے جدا ہو گا تو کسی پہ کچھ نہ گزری ہو گی ؟ کسی آنکھ نے آنسو نہ بہائے ہوں گے ؟ کوئی رویا تک نہ ہو گا ؟ لیکن دھرتی…. دھرتی تو روئی ہو گی، وہ بچہ اور اسی طرح کے ہزاروں بچے جو بچھڑ گئے ماں باپ سے اپنوں سے محبتوں سے وہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہو گئے جو کبھی نہ اپنوں سے مل سکے نہ اپنے ان سے ، یہ قربانیاں یاد ہی کون رکھے گا اور کیوں رکھے گا کیونکہ سب کی اپنی دنیا اپنا گھر اپنی مستی ہے ، کوئی ایسا خاندان نہ تھا جو نہ لٹا ہوا ، راستے میں بیٹیاں کوئی لے گئے تو بیٹے قتل ہو گئے ، بچے سرحد پر بچھڑ گئے اور بزرگ اور لٹے پٹے خاندان اپنی آزادی اور ملک کی حسرت لیے آزاد ملک میں داخل ہوئے۔

آزادی مل چکی تھی، دھرتی پاکستان اور ہندوستان میں بٹ چکی تھی، قربانیاں رنگ لا چکی تھیں، لٹے پٹے قافلے اب اپنے اپنے آزاد وطن میں پہنچ چکے تھے، مہاجرین خواب لیے ہوئے نئے ملک میں پہنچ چکے تھے اور پر امید تھے کہ اب نیا ملک اپنا ہو گا، وہ ملک ہو گا جو آزاد ہو گا جس میں ہمیں مکمل آزادی ہو گی. جہاں کوئی ہمارا حق چھیننے والا نہ ہو گا کوئی ہمیں بے وجہ زد و کوب کرنے والا نہ ہو گا جہاں ہماری جان کو کوئی خطرہ نہ ہو گا جہاں ہمارا مال محفوظ ہو گا جہاں ہمارے بچے قتل نہ ہوں گے جہاں ہماری بیٹیوں کی عصمتیں محفوظ ہوں گی مائیں بے آبرو نہ ہوں گی کمزور کو طاقتور سے خطرہ نہ ہو گا، انصاف ہو گا قانون کا بول بالا ہو گا سرمایہ کی ایماندارانہ تقسیم ہو گی کوئی امیر غریب نہ ہو گا سب بھائی ہوں گے اور ایک جنت نما آزاد ملک ہو گا جسے اندرونی و بیرونی طور پر کوئی خطرہ نہ ہو گا اور یہ خواب دونوں طرف کے مہاجرین کے تھے ہندو اور مسلمان دونوں

آزادی حاصل کس سے کی گئی تھی؟ انگریز سے؟ مغربی طاقتوں سے؟ لیکن وہ تو پہلے سے زیادہ پاکستان اور ہندوستان کے معاملات سنبھال رہے ہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ تم دونوں ملکوں نے صرف ایک دوسرے سے آزادی حاصل کی ہے، صرف اپنے اس اتفاق سے آزادی حاصل کی ہے جو تم دونوں قوموں میں تھا، وہ طاقتور جسے شکست دینا نا ممکن تھا، سکندرِ اعظم جو سب قوموں کو شکست دیتا ہوا یہاں پہنچا تو اسی قوم کے ہاتھوں مرا، وہی قوم حصوں میں بٹ کر ایک دوسرے کا خون بہا رہی ہے، انگریز نے دونوں کو الگ کر دیا اور نہ صرف تقسیم کیا ایک دوسرے کے خلاف بھی کر دیا، ایک وقت تھا جب آدھی سے زیادہ دنیا پر مسلمان راج کرتے تھے اسی طرح ہندو، اگر ان دونوں قوموں کو ساتھ رہنے دیا جاتا تو کیا ان کا اتحاد پوری مغربی دنیا کے لیے خطرہ نہ تھا؟ سو یہ بہترین حل تھا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف کروا دیا گیا، اگر یہ ایک دوسرے سے نہیں لڑیں گے تو ان کا اسلحہ کون خریدے گا؟ ان کے میزائل جنگی جہاز سب کچھ اور یہ اپنے لوگوں کو خوراک اور صحت کی سہولیات تک نہیں دے سکتے لیکن اسلحے کی جنگ میں ہر وقت ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ جانا چاہتے ہیں

دونوں ملک آزاد ہو گئے تو ان کا انجام کیا ہوا، کیا دونوں طرف کی عوام خوش ہے؟ کیا گاندھی یہی چاہتے تھے کہ ہندو ایک شدت پسندی کی لہر میں آ کر اپنی من مانی کرتے ہوئے جب چاہیں ہندوستان میں بچے مسلمانوں کے جب چاہیں دھمکیاں دیتے رہیں کہ ابھی ہندوؤں کا ملک چھوڑ دو، پاکستانیوں کے آنے پہ پابندی لگا دیں، ہر وقت مسلمانوں کی ٹوہ میں رہیں، دوسری طرف قائدِ اعظم محمد علی جناح کیا چاہتے تھے کہ پاکستان کا ہر ایک آدمی اپنی مرضی کا فرقہ اور ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اپنا ایمان الگ کر لے، جس کا جو جی چاہے وہ اسی طریقے سے دوسروں کے ایمان کو پرکھے، جس کا جی چاہے دوسرے پہ کافر کا فتویٰ لگا کر اسے قتل کر کے جنت کا مالک بن جائے جس کا جی چاہے اقلیتوں کے گھر جلا کے راکھ کر دے کہ یہ گھر یہ وطن مسلمانوں کا ہے یہاں اقلیتوں کو رہنے کا حق نہیں، جو جیسے چاہے سیاست کرے، اور آزاد ملک کے آزاد باشندے دور بیٹھ کر صرف تماشا دیکھیں کوئی اگر آواز اٹھائے تو اس کی آواز بند کروا دی جائے یا اس کا تماشا بنایا جائے، یہ ہماری قسمت ٹھہری

تو کیا خواب پورے ہوئے؟ آپ نہیں جانتے کہ خواب پورے ہوئے یا نہیں؟ میں نے خود سے سوال کیا اور آپ بھی خود سے سوال کیجیے کہ واقعی خواب پورے ہوئے؟ وہ قربانیاں انگلستان سری لنکا آسٹریا یا امریکہ کے لوگوں نے آ کر نہیں دی تھیں وہ ہمارے اپنے آباؤ اجداد نے دی تھیں، ہم ان کی اولاد میں سے ہیں کتنے ہی لوگ ایسے اب بھی زندہ ہیں جو ہجرت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے اور لٹ چکے کسی کا بھائی بچھڑا تو کسی کی بہن لٹی کسی کی ماں مری تو کسی کا باپ کیا وہ اب انہیں بھول چکے؟ وطن مل گیا اور ان خوابوں کا کیا ہوا جو دیکھے گئے؟ وہ خواب بھی قربانیاں دینے والوں نے پورے نہیں کرنے تھے وہ میں نے کرنے تھے آپ نے کرنے تھے اس نسل نے کرنے تھے جسے تیارشدہ آزاد وطن ملا جس نے آزادی کے لیے خاندان نہیں لٹوایا جس کی غیرت کا جنازہ آزادی کے لیے نہیں نکلا جس نے خون بہتا ہوا نہیں دیکھا ، ہم سب بے بس ہیں؟ ہر گز نہیں یہ سب ممکن تھا

لوگ کہتے ہیں کہ انقلاب آئے گا میں پوچھتی ہوں کیسا انقلاب چاہیے تمہیں ہندوستان اور پاکستان دونوں ملکوں کے باشندوں سے میں مخاطب ہو کر کہتی ہوں کہ جاؤ جا کر ان قبروں پہ سر پھوڑو جو تمہارے آباؤ اجداد کی ہیں جنہوں نے قربانیاں دے کر اس ملک کو پایا ان خیالات پہ جاں وارو جو سوچے گئے اس خون کو منہ پہ ملو جو معصوموں کا بہا، جاؤ ہمیشہ کے لیے ان پردوں میں جا بیٹھو جو تمہاری ماؤں بہنوں کے سر سے چھینے گئے؟ تم وہ لوگ ہو جنہیں دنیا کا سب سے بڑے انقلاب کے بعد آزادی ملی اور تم اس کی حفاظت کر پائے ؟ کونسا انقلاب چاہتے ہو تم؟ انقلاب مکئی کا بھٹا نہیں جو جب چاہا بھون لیا، انقلاب رب کی مرضی سے آتا ہے اور اپنی مکمل کیفیت اور حالات کے ساتھ آتا ہے، انقلاب ان لوگوں کے لیے آتا ہے جو اپنے اندر وہ قوت وہ جذبہ رکھتے ہوں جو اس وقت کے لوگوں میں تھا اس وقت کی عورتیں بھی مر مٹنے سے نہیں کتراتی تھیں اور آج کے مرد بھی دبک کر بیٹھتے ہیں تو تم کون ہو جو انقلاب اور آزادی کی امید لگائے بیٹھے ہو؟ آزادی ایک بار پھر حاصل کرنی ہے، اندرونی قید سے آزادی، بیرونی مداخلت سے آزادی، فرقہ بازی سے آزادی، تخریب کاری سے آزادی، منافقت اور غیر منصفانہ سیاست سے آزادی، کرپٹ عدلیہ سے آزادی، اس سب سے آزادی جس نے تمہیں ٹوٹنے پہ مجبور کیا اور یقین مانو تم عظیم قوم ہو اگر تم جان لو

(ناروے۔ بشریٰ بختیار خان)

پچھلا پڑھیں

پہلا آن لائن اسلامک سیمینار یونان

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2021