• امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قویٰ اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی وجسمانی ہیں جو خداتعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے۔ اور پھر انسان کامل برطبق آیت اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُکُمۡ اَنۡ تُؤَدُّوا الۡاَمٰنٰتِ اِلٰۤی اَہۡلِہَا (النّساء: 59) اس ساری امانت کو جناب الٰہی کو واپس دے دیتا ہے۔ یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے… اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید، ہمارے مولیٰ، ہمارے ہادی، نبی ٔ اُمِّی صادق مصدوق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی۔
(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد پنجم صفحہ161-162)
• کیا ہی خوش قسمت وہ لوگ ہیں جو اپنے دلوں کو صاف کرتے ہیں۔ اور اپنے دلوں کو ہر ایک آلودگی سے پاک کر لیتے ہیں اور اپنے خدا سے وفاداری کا عہد باندھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ہرگز ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ ممکن نہیں کہ خدا ان کو رسوا کرے کیونکہ وہ خدا کے ہیں اور خدا اُن کا۔ وہ ہر ایک بلا کے وقت بچائے جائیں گے۔
(کشتیٔ نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ19-20)
• انسان کی پیدائش میں دو قسم کے حسن ہیں۔ ایک حسن معاملہ اور وہ یہ کہ انسان خداتعالیٰ کی تمام امانتوں اور عہد کے اداکرنے میں یہ رعایت رکھے کہ کوئی امر حتی الوسع ان کے متعلق فوت نہ ہو۔ جیساکہ خداتعالیٰ کے کلام میں رَاعُوْنَ کا لفظ اسی طرف اشارہ کرتاہے۔ ایسا ہی لازم ہے کہ انسان مخلوق کی امانتوں اور عہد کی نسبت بھی یہی لحاظ رکھے یعنی حقوق اللہ اور حقوقِ عباد میں تقویٰ سے کام لے۔ یہ حسن معاملہ ہے۔ یا یوں کہو کہ روحانی خوبصورتی ہے۔
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ218)