• 7 مئی, 2024

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ) (قسط 44)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعودؑ)
قسط 44

کوئی بیماری لا علاج نہیں

میرا مذہب یہ ہے کہ کوئی بیماری لاعلاج نہیں۔ ہر ایک بیماری کا علاج ہوسکتا ہے جس مرض کو طبیب لاعلاج کہتا ہے اس سے اس کی مراد یہ ہے کہ طبیب اس کے علاج سے آگاہ نہیں ہے۔ ہمارے تجربہ میں یہ بات آچکی ہے کہ بہت سی بیماریوں کو اطباء اور ڈاکٹروں نے لاعلاج بیان کیا مگر اللہ تعالیٰ نے اس سے شفا پانے کے واسطے بیمار کے لئے کوئی نہ کوئی راہ نکال دی۔ بعض بیمار بالکل مایوس ہوجاتے ہیں۔ یہ غلطی ہے۔ خداتعالیٰ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیئے اس کے ہاتھ میں سب شفاء ہے۔

سیٹھ عبد الرحمٰن صاحب مدراس والے ایک ضعیف آدمی ہیں۔ ان کو مرض ذیابیطس بھی ہے اور ساتھ ہی کاربنکل نہایت خوفناک شکل میں نمودار ہوا۔ اور پھر عمر بھی بڑھاپے کی ہے۔ ڈاکٹروں نے نہایت گہرا چیرا دیا اور ان کی حالت نہایت خطرناک ہوگئی یہانتک کہ ان کی نسبت خطرہ کے اظہار کے خطوط آنے لگے۔ تب میں نے ان کے واسطے بہت دعا کی تو ایک روز اچانک ظہر کے وقت الہام ہوا

آثار زندگی

اس الہام کے بعد تھوڑی دیر میں مدراس سے تار آیا کہ اب سیٹھ صاحب موصوف کی حالت روبصحت ہے۔

بیمار کو چاہیئے کہ توبہ استغفار میں مصروف ہو۔ انسان صحت کی حالت میں کئی قسم کی غلطیاں کرتا ہے۔ کچھ گناہ حقوق اللہ کے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ حقوق عباد کے متعلق ہوتے ہیں۔ ہر دو قسم کی غلطیوں کی معافی مانگنی چاہیئے اور دنیا میں جس شخص کو نقصان بیجا پہنچایا ہو اس کو راضی کرنا چاہیئے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں سچی توبہ کرنی چاہیئے۔ توبہ سے یہ مطلب نہیں کہ انسان جنتر منتر کی طرح کچھ الفاظ منہ سے بولتا رہے بلکہ سچے دل سے اقرار ہونا چاہیئے کہ میں آئندہ یہ گناہ نہ کروں گا اور اس پر استقلال کے ساتھ قائم رہنے کی کوشش کرنی چاہیئے تو خدا تعالےٰ الغفور الرحیم ہے۔ وہ اپنے بندوں کے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ اور وہ ستّار ہے بندوں کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے۔ تمہیں ضرورت نہیں کہ مخلوق کے سامنے اپنے گناہوں کا اظہار کرو۔ ہاں خدا تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ61-62 ایڈیشن 1984ء)

جب تک دعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں
وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی

نماز کیا ہے؟ یہ ایک دعا ہے جس میں پورا درد اور سوزش ہو اسی لئے اس کا نام صلوٰۃ ہے۔ کیونکہ سوزش اور رقت اور درد سے طلب کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالےٰ بدارادوں اور برے جذبات کو اندر سے دور کرے اور پاک محبت اس کی جگہ اپنے فیض عام کے ماتحت پیدا کردے۔

صلوٰۃ کا لفظ اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ نرے الفاظ اور دعا ہی کافی نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ ضروری ہے کہ ایک سوزش، رقّت اور درد ساتھ ہو۔ خدا تعالیٰ کسی دعا کو نہیں سنتا جب تک دعا کرنے والا موت تک نہ پہنچ جاوے۔ دعا مانگنا ایک مشکل امر ہے اور لوگ اس کی حقیت سے محض ناواقف ہیں۔ بہت سے لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہم نے فلاں وقت فلاں امر کے لئے دعا کی تھی مگر اس کا اثر نہ ہوا۔ اور اس طرح پر وہ خدا تعالیٰ سے بدظنّی کرتے ہیں اور مایوس ہو کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتے کہ جب تک دعا کے لوازم ساتھ نہ ہوں وہ دعا کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔

دعا کے لوازم میں سے یہ ہے کہ دل پگھل جاوے اور روح پانی کی طرح حضرت احدیت کے آستانہ پر گرے اور ایک کرب اور اضطراب اس میں پیدا ہواور ساتھ ہی انسان بے صبر اور جلد باز نہ ہو بلکہ صبر اور استقامت کے ساتھ دعا میں لگا رہے پھر توقع کی جاتی ہے کہ وہ دعا قبول ہوگی۔

نماز بڑی اعلیٰ درجہ کی دعا ہے مگر افسوس لوگ اس کی قدر نہیں جانتے اور اس کی حقیقت صرف اتنی ہی سمجھتے ہیں کہ رسمی طورپر قیام رکوع سجود کرلیا اور چند فقرے طوطے کی طرح رٹ لئے خواہ اُسے سمجھیں یا نہ سمجھیں۔ ایک اور افسوسناک امر پیدا ہو گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ پہلے ہی مسلمان نماز کی حقیقت سے ناواقف تھے اور اس پر توجہ نہیں کرتے تھے۔ اس پر بہت سے فرقے ایسے پیدا ہوگئے ہیں جنہوں نے نماز کی پابندیوں کو اُڑا کر اس کی جگہ چند وظیفے اور ورد قرار دے دیئے۔ کوئی نوشاہی ہے۔ کوئی چشتی ہے کوئی کچھ ہے کوئی کچھ۔ یہ لوگ اندرونی طورپر اسلام اور احکام الٰہی پرحملہ کرتے ہیں اور شریعت کی پابندیوں کو توڑ کر ایک نئی شریعت قائم کرتے ہیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ ہمیں اور ہر ایک طالبِ حق کو نماز ایسی نعمت کے ہوتے ہوئے کسی اور بدعت کی ضرورت نہیں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی تکلیف یا ابتلا کو دیکھتے تو فوراً نماز میں کھڑے ہوجاتے تھے اور ہمارا اپنا اوران راستبازوں کا جو پہلے ہو گزرے ہیں ان سب کا تجربہ ہے کہ نماز سے بڑھ کر خدا کی طرف لے جانے والی کوئی چیز نہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ109-110 ایڈیشن 1984ء)

اللہ تعالےٰ دعا کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا

بعض لوگ تھک جاتے ہیں۔ میرے پاس ایسے خطوط آئے ہیں جن میں لکھنے والوں نے ظاہر کیا کہ ہم چار سال یا اتنے سال تک نماز پڑھتے رہے دعائیں کرتے رہے۔ کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسے لوگوں کو میں مخنث سمجھتا ہوں تھکنا نہیں چاہیئے۔

گر نباشد بدوست راہ بردن
شرطِ عشق است در طلب مردن

میں تو یہانتک کہتا ہوں کہ اگر تیس چالیس برس گزر جاویں تب بھی تھکے نہیں اور باز نہ آوے خواہ جذبات بڑھتے ہی جاویں۔ اللہ تعالیٰ دعا کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔جب تضرع سے دعا کرتا ہے اور مصیبت میں مبتلا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ یہ شخص بچایا جاوے اور وہ بچایا جاتا ہے کیونکہ

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ

(البقرہ: 223)

یاد رکھو جو شخص مرا ہے اور ہلاک ہوا ہے وہ تھکنے سے مرا ہے۔ خدا تعالےٰ سے مانگنا اور دعا کرنا موت ہے۔ ہرشخص جو خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے ضرور پاتا ہے مگر وہ آپ ہی بدظنی کرتا ہے تب حاصل نہیں ہوتا۔

بدیوں کو چھوڑ دینا کسی کے اختیار میں نہیں۔ اس واسطے راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد میں خدا کے حضور دعائیں کرو۔ وہی تمہارا پیدا کرنے والا ہے خَلَقَکُمۡ وَمَا تَعۡمَلُوۡنَ پس اور کون ہے جو ان بدیوں کو دور کرکے نیکیوں کی توفیق تم کو دے ….یقیناً خدا رحیم کریم اور حلیم ہے۔ وہ دعا کرنے والوں کو ضائع نہیں کرتا۔ تم دعا میں مصروف رہو اور اس بات سے مت گھبراؤ کہ جذباتِ نفسانی کے جوش سے گناہ صادر ہوجاتا ہے۔ وہ خدا سب کا حاکم ہے۔ وہ چاہے تو فرشتوں کو بھی حکم کرسکتا ہے کہ تمہارے گناہ نہ لکھے جاویں۔ دیکھو دعا کے ساتھ عذاب جمع نہیں ہوتا۔ مگر دعا صرف زبان سے نہیں ہوتی بلکہ دعا وہ ہے کہ

جو منگے سو مررہے مرے سو منگن جا

(ملفوظات جلد9 صفحہ129-130 ایڈیشن 1984ء)

ایک دعا
کتاب براہین احمدیہ میں اللہ تعالیٰ مجھے ایک دعا سکھاتا ہے یعنی بطور الہام فرماتا ہے

رَبِّ لَاتَذَرۡنِیۡ فَرۡدًا وَّاَنۡتَ خَیۡرُالۡوَارِثِیۡنَ

یعنی مجھے اکیلا مت چھوڑ اور ایک جماعت بنادے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ161ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح بتاریخ 3؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک اسلام آباد، یوکے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2022