• 4 مئی, 2024

دنیا میں ایک نذیر آیا

گزشتہ کئی سالوں سےدنیا قدرتی آفات کی لپیٹ میں ہے۔ زلزلوں، وباؤں، جنگوں اور سیلا ب کی صورتحال نے بڑی بڑی طاقتوں سمیت دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔ ہمارا وطن عزیز پاکستان بھی اسی صورتحال سے دوچار ہے۔ آجکل سیلاب نے پورے ملک میں تباہی مچا دی ہے۔ہزاروں افراد جاں بحق، سینکڑوں بستیاں ویران، لاکھوں گھر تباہ و برباد ہوگئے اور کروڑوں افراد بے یارو مددگار سڑکوں کے کنارے خیمہ زن یا مختلف مقامات پہ پناہ کی تلاش میں ہیں۔ لاکھوکھامویشی ہلاک اور لاکھوں ایکڑ پہ کھڑی فصلیں تباہ وبرباد ہو گئی ہیں جس کی وجہ سے ماہرین مستقبل میں خوراک کی قلّت کے باعث قحط کی صورتحال پیدا ہونے کے امکان سےخبردار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں1961ء سے قبل بارش کا ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا۔اس کے بعد سےریکارڈ رکھا جا رہا ہے۔ اس ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہونے والی معمول کی بارشوں کی نسبت اس سال 500 فیصد زیادہ بارش ہوئی ہے جس سے سیلاب کی شدّت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ملک میں جب بھی ایسی صورتحال پیدا ہوتی ہے تو ایک بحث چھڑ جاتی ہے کہ یہ عذاب ہے یا آزمایش ہے۔اکتوبر 2005ء میں بھی زلزلہ سے تباہی و بربادی نے ایک قیامت کا منظر برپا کر دیا تھا جسے دیکھ کے ہر شخص پکار اُٹھا تھا کہ یہ اللہ کا عذاب ہے۔ تباہی ایسی تھی کہ آزاد کشمیر کے وزیر اعظم بھی ایک خیمہ میں پناہ لینے پہ مجبور ہو گئے تھے۔مجھے یاد ہے کہ آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار عبدالقیوم خان سے ایک صحافی نے پوچھا کہ آپ اس موقع پہ کیا کہیں گے؟ تو ان کی زبان سےبرجستہ نکلا کہ ’’یہ اللہ کا عذاب ہے‘‘۔ لیکن پھر فوراً ہی بولے عذاب تو نہیں تاہم یہ ایک آزمائش ہے۔

آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا پہ اس بارے میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے۔ لوگ اسے عذاب الٰہی قرار دے رہے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر سراج درّانی صاحب کو TV پہ کہتے یہ ہوئے سنا گیا کہ یہ سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے اور قرآن کریم میں سب لکھا ہوا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔قرآن سے دوسری قوموں کے حالات پڑھ لیں۔ ایک اور کالم نویس اوریا مقبول جان صاحب اس بارے میں اخبار ایکسپریس 28 جولائی 2010ء میں لکھے گئے اپنےایک کالم بعنوان ’’ڈورا ٹوٹ چکا‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہیں ایک اہل نظر نے بتایا تھا کہ پاکستان والوں نے اگر توبہ و استغفار نہ کی تو اللہ کا عذاب تیار ہے۔یہ اہل نظر کون ہوتے ہیں ؟ اس بارے میں وہ اپنے اسی کالم میں لکھتے ہیں کہ ’’ان صاحبان بصیرت اور اہل نظر کی گفتگو کو سائنس کے ترازو میں نہیں تولا جا سکتا۔ ان کی صداقت کا ایک ہی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ عام زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ راستبازی اور پاکبازی ان کی پہچان ہوتی ہے اور شریعت محمدی کی اتباع اُن کی مقصد اولیٰ۔ ایسے لوگ اللہ کے سربستہ رازوں کے امین ہوتے ہیں اور ان کی زبان سے نہ دعوے نکلتے ہیں اور نہ وہ اس امانت میں خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ البتّہ جب اللہ ان کی بستی والوں سے ناراض ہو تو وہ بستی والوں کو خبردار ضرور کرتے ہیں‘‘

سوشل میڈیا پہ بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کے بعد مارگلہ میں طیّارہ گرا پھر سیلاب کا عذاب آیا۔ اس کے بعد اللہ نے 12 سال تک مہلت دی۔ پھر مورخہ 30،اگست 2022ء کو اپنے کالم ’’حرف راز‘‘ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سےمہلت دیئے جانے کا ذکر کر کے لکھتے ہیں ’’لیکن بحیثیت قوم ہم نے ان سیلابوں کو اللہ کے عذاب یا ناراضگی کے طور پر نہیں لیا۔۔۔ٹھیک بارہ سال بعد ایک بار پھر اہل نظر نے ایسی وارننگ میرے گوش گزار کی تھی اور میں نے وہ پیغام ڈیڑھ ماہ قبل مختلف میڈیا کے راستے عوام تک پہنچا دیا تھا‘‘ پھر سورۃ الانفال آیت 26 کے مطابق ہر خاص و عام پر خدا کے اجتماعی عذاب کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ ’’ایک اجتماعی رویّہ جس کی وجہ سے ہر خاص و عام پر عذاب آتا ہے، اس کی نشاندہی رسول اکرمﷺ نے فرما دی،‘‘ اللہ عوام کو خاص لوگوں کے بُرے اعمال کے سبب عذاب نہیں دیتا، جب تک وہ اپنے درمیان بُرائی کو کھلے عام پائیں اور اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اللہ ہر خاص و عام کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے (مسند احمد، مؤطہ امام مالک، طبرانی) اہل نظر کہتے ہیں کہ پاکستانی قوم میں ایک عیب اب بہت عام ہو گیا ہے کہ یہ قوم اسقدر بے حس ہو چکی ہے کہ بُرائی کو بالکل نہیں روکتی بلکہ الٹا پسند کرتی ہے اور بُرائی کرنے والے کی مدد کرتی ہے۔ایسے لوگوں کی ہر جگہ حمایت کرتی ہے اور ایسے افراد کی نافرمانیوں کا دفاع کرتی ہے۔ ایسی قوم کو اللہ جھنجوڑنے کے لئے یہ عذاب نازل کر رہا ہے۔‘‘

اللہ تعا لیٰ یہ عذاب کیوں دیتا ہے؟ اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے اوریا مقبول جان نے قرآن کریم کی سورۃ البقرہ آیت 86 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ فرماتا ہے کہ کیا تم کتاب کے بعض حصّہ پر ایمان لاتے ہو اور بعض کا انکار کر تے ہو۔ یعنی کتاب کے کچھ حصّہ کو چھپانے یا چھوڑنے کی وجہ سے عذاب آتا ہے اور جب اللہ کسی قوم کے متعلق عذاب کا فیصلہ کرتا ہے تو کیا کرتا ہے؟ اس بارے میں انہوں نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 17 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی قوم پر عذاب نازل کرنے لگتے ہیں تو ہم اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ہماری نافرمانی کریں۔ (جب وہ نافرمانی کرتے ہیں تو اس پہ پھر اللہ کا عذاب واجب ہو جاتا ہے)۔

(حقیقت tv، 28 اگست 2022 بعنوان اوریا مقبول جان کاحقیقت tv کو تہلکہ خیز انٹرویو)

غرض پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرونک میڈیا ہر جگہ لوگ پکار رہے ہیں کہ اللہ ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ یہ اللہ کا عذاب ہے اور ہم تباہی وبربادی کی طرف جا رہے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود کہ اللہ ناراض ہے اور ہمیں غلط کام کرنے اور برائیوں سے روکنے کے بجائے بُرے لوگوں کا ساتھ دینے کی وجہ سے عذاب دے رہا ہے، اپنی غلطیوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کر رہا۔ سب ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں اور خود انہیں مظالم اور بے انصافیوں میں مبتلاء ہیں جن سے دوسروں کو منع کرتے ہیں۔ حالانکہ یہی وہ بات ہے جواللہ کی سخت ناراضگی کا سبب بنتی ہے کہ دوسروں کو نصیحت کی جائے اور خود اس پر عمل نہ کیا جائے۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۳﴾ کَبُرَ مَقۡتًا عِنۡدَ اللّٰہِ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۴﴾ (الصّف: 3-4) کہ اے ایمان والو ! وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم خود نہیں کرتے۔ اللہ کے نزدیک یہ بات سخت غصّہ دلانے والی کے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں ہو۔

یہاں ایک اور غلطی کا ازالہ کرنا ضروری ہے کہ ان صاحب نے سورۃ بنی اسرائیل کی آیت 17 کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب ہم کسی قوم پر عذاب نازل کرنے لگتے ہیں تو ہم اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ ہماری نافرمانی کریں۔ یہ درست نہیں کہ اللہ تعالیٰ نافرمانی کا حکم دیتا ہے۔یہ اس آیت کو سیاق و سباق کے مطابق نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اگر سیاق و سباق کو مدّنظر رکھا جائے تو اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ عذاب کا ایک واضح اصول بیان فر ماتا ہےکہ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا (بنی اسرائیل: 16) کہ ہم ہرگز عذاب نہیں دیتے جب تک کہ ایک رسول نہ بھیج دیں (اور حجّت تمام نہ کر دیں)۔ اس کے بعد فرمایا کہ وَاِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا فَحَقَّ عَلَیۡہَا الۡقَوۡلُ فَدَمَّرۡنٰہَا تَدۡمِیۡرًا (بنی اسرائیل: 17) اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کریں تو اس کے آسودہ حال لوگوں کو (نیکی کا) حکم دیتے ہیں۔جس پر وہ نافرمانی کرتے ہیں۔ تب اس بستی کے متعلق ہمارا کلام پورا ہو جاتا ہے اور ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ نہیں کہ اللہ نافرمانی کا حکم دیتا ہے بلکہ مطلب یہ ہےکہ عذاب سے قبل اللہ تعالیٰ اپنا رسول بھیج کر نیکی اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جب لوگ رسول کے ذریعہ ملنے والے حکم کی نافرمانی کرتے ہیں اور نیکی سے انکار کرتے ہیں تو پھر ان پر اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ خود نافرمانی کا حکم دے اور پھر خود ہی نافرمانی پر عذاب نازل کر دے۔ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

’’وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا اور ہم سزا نہیں دیا کرتےیہاں تک کہ ہم ایک رسول بھیج لیں۔۔۔۔۔ ایک اور جگہ فرمایا کہ اَوَلَمۡ نُعَمِّرۡکُمۡ مَّا یَتَذَکَّرُ فِیۡہِ مَنۡ تَذَکَّرَ وَجَآءَکُمُ النَّذِیۡرُ (فاطر: 38) کیا تم کو ہم نے اس قدر عمر نہیں دی کہ جس کی سمجھنے کی نیّت ہوتی، اس میں سمجھ سکتا تھا اور پھر اسی پر بس نہیں کی بلکہ تمہارے پاس ہوشیار کرنے کے لئے رسول بھی بھیجے۔ اسی طرح (سورۃ) قصص رکوع 6 میں فرمایا وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہۡلِکَ الۡقُرٰی حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا تیرے خدا کی شان کے خلاف ہے کہ وہ اس کے مرکزی مقام میں نبی بھیجے بغیر کسی بستی کو ہلاک کر دے۔ اور پھر سورہ قصص رکوع 5 میں فرمایا وَلَوۡلَاۤ اَنۡ تُصِیۡبَہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌۢ بِمَا قَدَّمَتۡ اَیۡدِیۡہِمۡ فَیَقُوۡلُوۡا رَبَّنَا لَوۡلَاۤ اَرۡسَلۡتَ اِلَیۡنَا رَسُوۡلًا فَنَتَّبِعَ اٰیٰتِکَ وَنَکُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ یعنی اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ ان لوگوں کو اپنے اعمال کی وجہ سے کوئی عذاب پہنچا تو یہ کہہ دیں گے کہ اے ہمارے رب کیوں نہ آپ نے ہماری طرف رسول بھیجا کہ ہم ذلیل و خوار ہونے سے پہلے آپ کے احکام کی تعمیل کرتے، تو ہم ان کو بغیر رسول بھیجے ہی عذاب دے دیتے۔ مگر چونکہ یہ عذر ان کا معقول ہوتا، ہم نے اس عذر کو توڑ دیاہے اور ہمیشہ پہلے رسول بھیجتے ہیں۔ پھر اس کے انکار کے بعد عذاب لاتے ہیں۔

ان تمام آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سنّت الٰہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ بغیر رسول بھیجنے کے کسی قوم پر عذاب نازل نہیں کرتا۔ یعنی اتنے وسیع علاقہ پر جو نبیء وقت کا مخاطب ہو، اس وقت تک عذاب نہیں آتا جب تک پہلے ایک اور نبی خواہ وہ پہلے نبی کا تابع ہی کیوں نہ ہو، ظاہر ہو کر لوگوں کو ہوشیار نہ کر دے‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ314-315)

پھر آپ ؓ اگلی آیت یعنی وَاِذَاۤ اَرَدۡنَاۤ اَنۡ نُّہۡلِکَ قَرۡیَۃً اَمَرۡنَا مُتۡرَفِیۡہَا فَفَسَقُوۡا فِیۡہَا کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’بعض مخالفین اسلام نے اس آیت کے یہ معنے کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑے لوگوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ بدکار ہو جاؤاور یہ غلط معنے کر کے اس پر اعتراض کیا ہے کہ آپ ہی پہلے گمراہ کیا پھر عذاب میں مبتلاء کر دیا۔۔۔یہ معنے بالبداہت غلط ہیں اور عربی زبان سے ناواقفیت کی وجہ سے کئے گئے ہیں۔اور اعتراض قرآن کریم پر نہیں پڑتا بلکہ ان لوگوں کے علم پر پڑتا ہے۔ اصل مطلب اس آیت کا یہ ہے کہ ہم ان کو حکم دیتے ہیں۔ یعنی بعض خاص امور پر چلنے کا حکم دیتے ہیں جو حکم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے سبب سے بہر حال نیکی کا حکم ہوتا ہے۔مگر وہ نافرمان ہو جاتے ہیں۔ یعنی اس (نیکی کے) حکم کو نہیں مانتے۔غرض اس جگہ امرنا کا مفعول ثانی محذوف ہے۔۔۔ قرآن کریم نے بار بار اس امر کو بیان کیا ہے کہ خدا تعالیٰ جب حکم دیتا ہے نیکی کا ہی حکم دیتا ہے۔چنانچہ سورہ نحل رکوع ۱۳ میں فرماچکا ہے کہ اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَالۡاِحۡسَانِ وَاِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی وَیَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡکَرِ وَالۡبَغۡیِ (النحل: 91) یعنی اللہ تعالیٰ عدل اور احسان اور اُس نیکی کا جس میں بدلے کا خیال تک بھی دل میں نہیں ہوتا، حکم دیتا ہے۔ اور باطنی بدی اور ظاہری بدی اور ظلم سے روکتا ہے۔ اسی طرح سورۂ اعراف میں ہے قُلۡ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَاۡمُرُ بِالۡفَحۡشَآءِ (الاعراف: 29) تو کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ ہر گز بدی کا حکم نہیں دیتا۔پس چونکہ یہ امر واضح ہو چکا ہے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کا ہی حکم دیتا ہے۔ مفعول ثانی کو محذوف کر دیا گیا ہے اور مطلب آیت کا یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس قوم کو ایک رسول کے ذریعے سےنیک احکام پر چلنے کا حکم دیتا ہے۔ مگر بجائے اس حکم سے فائدہ اُٹھانے کے وہ خدا تعالیٰ کی نافرمانی میں بڑھ جاتے ہیں۔

اس جگہ یہ جو فرمایا ہے کہ اَمَرنَا مُتْرَفِیْھَا کہ ہم بستی کے مترفوں کو حکم دیتے ہیں۔اس کے یہ معنی نہیں کہ صرف مالداروں کو خدا کا حکم ملتا ہے، بلکہ مترف کے معنی اس جگہ اَلَّذِیْ یَصْنَعُ مَا یَشَاءُوَلَایمْنَعُ کے ہیں۔ یعنی ایسا شخص جو اپنی مرضی پر چلتا ہےاور نیک بات کو نہیں مانتا۔ اور اس لفظ میں سب کے سب وہ لوگ شامل ہیں جو بدی میں مبتلاء ہوتے ہیں، خواہ غریب ہوں یا امیر۔۔۔۔ پس جب نبی آتا ہےتو وہ عام حکم لاتا ہے۔ ماننے والے مان لیتے ہیں اور انکار کرنے والے انکار کرتے ہیں۔

قریہ سے مراد یہاں پر بستی نہیں بلکہ امُّ القریٰ مراد ہے۔ یعنی جس بستی کو اس زمانہ کے لحاظ سےخدا تعالیٰ نے مرکز تجویز کیا ہو۔ جیسا کہ قرآن میں ایک اور جگہ فرمایا کہ حَتّٰی یَبۡعَثَ فِیۡۤ اُمِّہَا رَسُوۡلًا (القصص: 60) کہ ہم عذاب نازل کرنے سے پہلے امّ القریٰ میں رسول بھیج لیتے ہیں‘‘

(تفسیر کبیر جلد4 صفحہ316-317)

پس اس سے واضح ہوتا ہے کہ عذاب الٰہی چونکہ کسی نبی کی بعثت کے بغیر نازل نہیں ہو سکتاْ لہٰذا ان تمام دوستوں سے عاجزانہ اپیل ہے کہ قرآن کریم پر غور فرمائیں اور سوچیں کہ اجتماعی طور پر مسلسل کس غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے یہ عذاب اور سزائیں ہر خاص و عام پر نازل ہو رہی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر ان لوگوں کے بقول پوری دنیا پہ عذاب بن کے آنے والا کرونا، وبائیں اور لڑھکتے ہوئے پتھروں کا سیلاب وغیرہ عذاب یا سزا ہے تو کیا اللہ تعالیٰ نے کوئی رسول بھیجا ہے؟ یا دوسرے لفظوں میں اگر یہ عذاب ہے اور اللہ نے کوئی رسول نہیں بھیجا تو پھر کیا اللہ تعالیٰ نے نعوذبااللہ وعدہ خلافی کی کہ رسول بھیجے بغیر عذاب پہ عذاب نازل کر تا چلاجا رہا ہے؟ اللہ فرماتا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (آل عمران: 10) کہ اللہ تعالیٰ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سزا سے قبل اپنے وعدہ کے مطابق ضرور کسی کو اپنا رسول اور نبی بنا کے بھیجا ہے۔ جس کو جھٹلا کر نہ صرف شریعت کی نافرمانی کی جارہی ہے بلکہ اس کی جماعت کے خلاف ظلم اور نا انصافی کی جارہی ہے اور قوم اس ظلم اور ناانصافی میں پورا ساتھ دے رہی ہےجیسا کہ ان صاحب نے لکھا ہے کہ ’’قوم میں ایک عیب اب بہت عام ہو گیا ہے کہ یہ قوم اسقدر بے حس ہو چکی ہے کہ بُرائی کو بالکل نہیں روکتی بلکہ الٹا پسند کرتی ہے اور بُرائی کرنے والے کی مدد کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ہر جگہ حمایت کرتی ہے اور ایسے افراد کی نافرمانیوں کا دفاع کرتی ہے۔ ایسی قوم کو اللہ جھنجوڑنے کے لئے یہ عذاب نازل کر رہا ہے۔‘‘

غور طلب بات ہے کہ آنحضورﷺ نے اگر اس زمانے میں فتنے پھوٹنے کی پیشگوئی فرمائی تھی اور ساتھ عذاب الٰہی سے بھی ڈرایا تھا تو یقیناً اس عذاب سے قبل کسی مامور من اللہ کے ظہور کی پیشگوئی بھی کی ہوگی۔ کیونکہ عذاب رسول بھیجے بغیر نہیں آیا کرتا۔ جب ہم قرآن وحدیث کو دیکھتے ہیں تو کثرت سے ایک آنے والے موعود کی پیشگوئیاں ملتی ہیں۔ آنحضورﷺ نے فرمایا تھا کہ اس دور میں جب دنیا میں ہدایت کا فقدان ہوگا اور ضلالت و گمراہی کا دور دورہ ہوگا تواس امّت کی اصلاح کے لئے اللہ کی طرف سے حضرت مسیح علیہ السلام امام مہدی کی صورت میں ظاہر ہوں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا کہ فرمایا ’’لاَ يَزْدَادُ الأَمْرُ إِلاَّ شِدَّةً، وَلاَ الدُّنْيَا إِلَّا إِدْبَارًا، وَلاَ النَّاسُ إِلاَّ شُحًّا، وَلاَ تَقُومُ السَّاعَةُ إِلاَّ عَلَى شِرَارِ النَّاس وَ لَا المَھدِیُّ اِلَّا عِیسیٰ ابنُ مَریَمَ (ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب شدّۃ الزّمان) کہ معاملہ شدّت اختیار کر جائے گا، دنیا میں ادبار بڑھتا چلا جائے گا، لوگ بخیل ہوتے جائیں گے، اور قیامت بدترین لوگوں پہ برپا ہوگی اور (اس وقت) عیسیٰ بن مریم کے سوا اور کوئی مہدی نہ ہوگا۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ يُوشِكُ مَنْ عَاشَ مِنْكُمْ أَنْ يَلْقَى عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ إِمَامًا مَهْدِيًّا وَحَكَمًا عَدْلًا، فَيَكْسِرُ الصَّلِيبَ، وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ، وَتُوضَعُ الْجِزْيَةَ، وَتَضَعُ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا (مسند احمد بن حنبل جلد2) کہ قریب ہے کہ جو تم میں سے زندہ رہے وہ مسیح ابن مریم سے امام مہدی اور حَکم و عدل ہونے کی حالت میں ملاقات کرے۔ وہ صلیب کو توڑے گا، خنزیر کو قتل کرے گا، جزیہ ختم کر دیا جائے گا اور جنگ اپنے اوزار رکھ دے گی۔ یعنی اس دور میں دین کے لئے جنگیں نہیں ہوں گی بلکہ سیاسی جنگیں ہوں گی۔ اسی طرح فرمایا کہ کیف تَهلِكُ أُمَّةٌ أَناأوَّلُها وعيسى بن مريمُ آخرُها (کنزالعمال، حرف القاف، کتاب القیامہ، من قسم الاقوال، زیر نزول عیسیٰ) وہ امّت کس طرح ہلاک ہو سکتی ہے جس کے اوّل حصّہ میں خود مَیں ہوں اور آخر میں میں عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔ پھر فرمایا کہ خیرُ ھٰذِ ہِ الاُمَّۃِ أوَّلُھا واٰخِرُھا أَوَّلُھا فیھم رسولُ اللّٰہ واٰخِرُھا فیھم عیسیٰ ابنُ مریمَ وبینَ ذٰلک فیجُ أعوجٍ لیسُوا مِنِّی ولَستُ مِنھُم (کنزالعمال حرف القاف، کتاب القیامہ، من قسم الاقوال، زیر نزول عیسیٰ) کہ اس امّت کا اوّل اور آخر سب سے بہتر ہے۔ (کیونکہ) اس کے اوّل حصّہ میں اللہ کا رسول خود ہے اور آخرین میں عیسیٰ بن مریم ہوں گے۔ اس کے درمیان فیج اعوج (یعنی ٹیڑھے پن) کا دور ہے۔ ان کامجھ سے اور میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اس آنے والے مسیح کو آنحضور ﷺ نے مسلم کی حدیث میں چار مرتبہ نبی اللہ فرمایا۔ خاکسار اس وقت زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ تاہم مختصراً اتنا عرض کردوں کہ قرآن وحدیث اور تاریخِ انبیاء و مذاہب میں واضح اشارے اور ثبوت موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں، آنے والا موعود مسیح ؑ اسی اُمّت سے ہو گا اور وہ نبی ہوگا۔ مسیح اور مہدی دو الگ وجود نہیں بلکہ مسیح موعود ہی امام مہدی ہو گا، آنے والا امام دمشق سے مشرق کی جانب (ہندوستان میں) ظاہر ہو گا۔

جاء المسیح جاء المسیح

چنانچہ ان پیشگوئیوں کے مطابق آج سے قریباً سوا سو قبل جب اسلام سمیت دیگر تمام مذاہب کے پیروکار دُنیا کی پستی اور ضلالت و گمراہی کو دیکھ کر پکار اُٹھے تھے کہ اُس موعود کے ظہور کا یہی وقت ہےاور اللہ تعالیٰ سے اُس موعود کے ظہور کی التجائیں کر رہے تھے، ہندوستان کی ایک گمنام بستی قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے اپنا مسیح و مہدی بنا کے اس دنیا کو ہوشیار کرنے کے لئے مبعوث کیا اور آپ علیہ السلام کو الہام کیا کہ ’’دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسے قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زورآور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا‘‘ (الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ303) اس سے یہ ظاہر تھا کہ دنیا سنّت الاوّلین کے مطابق اس موعود کو جھٹلائے گی۔ اس کی جماعت کے ساتھ حقارت سے پیش آئے گی۔ ان پہ ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گی اور خدا کے غضب کو دعوت دے گی۔ اس وقت ایک طرف تو دُنیا اس کی جماعت پر زور آور حملے کر کے سمجھے گی کہ ہم اس جماعت کو تباہ کردیں گے لیکن وہ تمام قدرتوں اور طاقتوں کا مالک خدا اس کی حفاظت کرے گا اور اس پر ترقیات کے دروازے کھول کر اسے بڑھاتا چلا جائے گا۔ دوسری طرف خدا کے غیض و غضب کے زور دار حملے زلزلوں، جنگوں، وباؤں اور سیلابوں سے تباہی و بربادی کی صورت میں ظاہر ہوں گے اس کی جماعت پر دُنیا کے حملوں سےانہیں خدا بچا ئے گا لیکن خدا کے حملوں سے دنیا کو بچانے والا کوئی نہیں ہوگا۔ یہی زور آور حملے س مسیح موعود علیہ السلام کی سچّائی کو ثابت کریں گے۔

معیار صداقت

سوشل میڈیا پہ وہی صاحب اہل ِنظر بزرگوں کی نشانیاں بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ ’’ان کی صداقت کا ایک ہی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ عام زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھائی جا سکتی۔ راستبازی اور پاکبازی ان کی پہچان ہوتی ہے اور شریعت محمدی کی اتباع اُن کی مقصد اُولیٰ‘‘۔ انہوں نے جو معیار ِصداقت اہل نظر کے لئے بیان کیا ہے، یہ وہی معیار ہے جس پہ ہمیشہ سے انبیاء کرام اپنےآپ کو پیش کرتے آئے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’تم میں کون مجھ پر گناہ ثابت کرتا ہے۔اگر میں سچ بولتا ہوں تو میرا یقین کیوں نہیں کرتے؟‘‘ (یوحنّا باب8 آیت46) اسی طرح فرمایا ’’میں اتنی مدّت سے تمہارے ساتھ ہوں کیا تومجھے نہیں جانتا‘‘ (یوحنّا باب14 آیت9) آنحضورﷺ کی صداقت کے نشان کے طور پہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے نبی! انہیں کہہ دے کہ فَقَدۡ لَبِثۡتُ فِیۡکُمۡ عُمُرًا مِّنۡ قَبۡلِہٖ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ (یونس: 17) کہ میں اس سے قبل تم میں ایک عرصہ دراز گذار چکا ہوں کیا تم عقل نہیں کرتے۔ یعنی کسی نبی کی دعویٰ سے پہلے کی عمر دیکھ لو اگر اس عرصہ میں اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور پاکباز ی اختیار کی ہے تو ممکن نہیں کہ ایسا انسان اللہ پرجھوٹ گھڑنے لگے۔ تذکرۃ الاولیاء میں حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن شہریار کے حوالہ سے لکھا ہے کہ ’’جو شخص جوانی میں اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ہو گا، وہ بڑھاپے میں بھی اللہ ہی کا تابعدار ہوگا‘‘ (تذکرۃ الاولیاء، مصنّفہ شیخ فرید الدین عطّار، باب 76، حالات حضرت ابو اسحاق ابراہیم بن شہریار)۔ اسی طرح، امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنی صداقت کے لئے قرآن کریم کی یہی دلیل پیش کرتے ہوئے فرمایا۔
’’اور تم کوئی عیب، افتراء یا جھوٹ یا دغا کا میری پہلی زندگی پر نہیں لگا سکتے تا تم یہ خیال کرو کہ کہ جو شخص پہلے سے جھوٹ اور افترا کا عادی ہے، یہ بھی اس نے جھوٹ بولا ہو گا۔ کون تم میں سے ہے جو میری سوانح زندگی میں کوئی نکتہ چینی کر سکتا ہے۔ پس یہ خدا کا فضل ہے جو اس نے ابتدأ سے مجھے تقویٰ پر قائم رکھا اور سوچنے والوں کے لئے یہ ایک دلیل ہے‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد20 صفحہ64)

یہ آپ علیہ السلام کا دعویٰ ہی نہیں تھا بلکہ آپ کے شدید مخالفین بھی دعویٰ سے قبل ا ٓپ کی نیکی، تقویٰ اور پاکیزگی کے گواہ تھے۔ ان میں سے صرف ایک مثال پیش ہے۔ مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب جو آپ علیہ السلام کے دعویٰ کے بعد شدید مخالف ہو گئے تھے، آپ کے دعویٰ سے قبل اپنے رسالہ اشاعۃ السنّہ میں لکھتے ہیں کہ ’’مولّف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربے اور مشاہدے کی رو سے (واللّٰہ حسیبہ) شریعت محمدیہ پر قائم و پرہیز گار وصداقت شعار ہیں‘‘ (اشاعۃ السنۃ جلد7 نمبر9)۔ پھر کتاب براہین احمدیہ پہ ریویو لکھتے ہوئے تحریر کیا کہ ’’ہماری رائے میں یہ کتاب اس زمانے میں موجودہ حالت کی نظر سے ایسی کتاب ہے جس کی نظیر آج تک اسلام میں تالیف نہیں ہوئی۔۔۔ اور اس کا مؤلّف (حضرت مسیح موعود علیہ السلام) بھی اسلام کی مالی و جانی و علمی و لسانی و حالی و قالی نصرت میں ایسا ثابت قدم نکلا ہے جس کی نظیر پہلے مسلمانوں میں بہت ہی کم پائی گئی ہے‘‘

(اشاعۃ السنۃ جلد6 نمبر6)

پس خدا کے نزدیک اس زمانہ میں اصل اہلِ نظر تو وہ پاک وجود ہے جس کو خدا نے خود چناہے۔ جسے حضرت محمدﷺ کی غلامی میں پوری دنیا کی طرف اتمام حجّت کے لئے رسول بنا کے بھیجا ہے۔ وہ جس نور سے دیکھتا ہے کوئی اور خواہ کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔دنیا اس نورِ الٰہی کومٹانے کے درپے ہو گئی لیکن خدا نے اس کی حفاظت فرمائی اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰﷺ کی پیشگوئی کے مطابق ا س کے ذریعہ سے اِس آخرین کی جماعت میں خلافت قائم فرمادی۔ اس موعود امام کے دَور میں حضورﷺ کی بیان فرمودہ پیشگوئیوں کے مطابق فتنوں ڈورا ٹوٹ گیا تو محمدﷺ کے اُس غلام ِکامل نے خدا سے خبر پا کر زلزوں، وباؤں، جنگوں اور سیلاب کی وعیدی خبریں دیتے ہوئے فرمایا کہ
’’یاد رہے کہ مسیح موعود کے وقت میں موتوں کی کثرت ضروری تھی اور زلزلوں اور طاعون کا آنا ایک مقدّر امر تھا۔یہ معنی اس حدیث کے ہیں کہ جو لکھا ہے کہ مسیح موعود کے نام سے لوگ مریں گے اور جہاں تک مسیح ؑ کی نظر جائے گی اس کا قاتلانہ دم اثر کرے گا۔ پس یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ اس حدیث میں مسیح موعود کو ایک ڈائن قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔ بلکہ معنی حدیث کے یہ ہیں کہ اس کے نفحات طیّبات یعنی کلمات اس کے جہاں تک زمین پر شائع ہوں گے تو چونکہ لوگ ان کا انکار کریں گے اور تکذیب سے پیش آئیں گے اور گالیاں دیں گے۔ اس لئے وہ انکار موجب عذاب ہو جائے گا۔ یہ حدیث بتلا رہی ہے کہ مسیح موعود کا سخت انکار ہوگا۔ جس کی وجہ سے ملک میں مری پڑے گی اور سخت سخت زلزلے آئیں گے اور امن اُٹھ جائے گا۔ورنہ یہ غیر معقول بات ہے کہ خواہ نخواہ نیکو کار اور نیک چلن آدمیوں پر طرح طرح کے عذاب کی قیامت آوے۔یہی وجہ ہے کہ پہلے زمانوں میں بھی نادان لوگوں نے ہر ایک نبی کو منحوس قدم سمجھا ہے اور اپنی شامت اعمال اُن پر تھاپ دی ہے۔ مگر اصل بات یہ ہے کہ نبی عذاب کو نہیں لاتا بلکہ عذاب کا مستحق ہو جانا اتمام حجّت کے لئے نبی کو لاتا ہے اور اس کے قائم ہونے کے لئے ضرورت پیدا کرتا ہے۔اور سخت عذاب بغیر نبی قائم ہونے کے آتا ہی نہیں۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا پھر یہ کیا بات ہے کہ ایک طرف تو طاعون ملک کو کھا رہی ہے اور دوسری طرف ہیبت ناک زلزلے پیچھا نہیں چھوڑتے۔ اے غافلو! تلاش تو کرو شاید تم میں خدا کی طرف سے کوئی نبی قائم ہو گیا ہے جس کی تم تکذیب کر رہے ہو۔ اب ہجری صدی کا بھی چوبیسواں سال ہے۔ بغیر قائم ہونے کسی مرسل الٰہی کے یہ وبال تم پر کیوں آ گیا جو ہر سال تمہارے دوستوں کو تم سے جُدا کرتا اور تمہارے پیاروں کو تم سے علیحدہ کرکے داغِ جدائی تمہارے دلوں پر لگاتا ہے۔ آخر کچھ بات تو ہے۔ کیوں تلاش نہیں کرتے اور تم کیوں اس آیتِ موصوفہ بالا میں غور نہیں کرتے۔ جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا یعنی ہم کسی بستی پر غیر معمولی عذاب نازل نہیں کرتے جب تک ان پر اتمام حجّت کے لئے ایک رسول نہ بھیج دیں۔اب تم خود سوچ کر دیکھ لو کہ کیا یہ غیر معمولی عذاب نہیں جو تم کئی سال سے بھگت رہے ہو۔ تم وہ مصیبتیں دیکھ رہے ہو جن کا تمہارے باپ دادوں نے نام بھی نہیں سنا تھا اور جن کی ہزاروں برس تک اس ملک میں نظیر نہیں پائی جاتی اور جس طاعون اور جس زلزلہ کو اب تم دیکھتے ہو، میں اپنے کشفی عالم میں پچّیس برس سے اسے دیکھ رہا ہوں۔ اگر خدا نے مجھے یہ تمام خبریں پہلے سے نہیں دیں تو میں جھوٹا ہوں۔ لیکن اگر یہ خبریں پچّیس برس سے میری کتابوں میں مندرج ہیں اور متواتر میں قبل از وقت خبر دیتا رہا ہوں تو تمہیں ڈرنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ تم خدا کے الزام کے نیچے آجاؤ‘‘

(تجلیات الٰہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ399-402)

ایک اور مقام پہ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے۔ پس یقیناً سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے۔ اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کہ نہریں چلیں گی۔ اس موت سے پرند چرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اسقدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی اور اکثر مقامات زیرو زبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی۔ اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین اور آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی۔ یہانتک کہ ہر ایک عقلمند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی۔اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ میں ان کا پتہ نہیں ملے گا۔تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے۔ اور بہتیرے نجات پائیں گے اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے۔ وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پرہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی۔اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی۔ کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے۔ یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمّت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں۔اگر میں نہ آیا ہوتا توان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی۔ پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدّت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے۔جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیۡنَ حَتّٰی نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا اور توبہ کرنے والے امان پائیں گےاور وہ جو بلاءسے پہلے ڈرتے ہیں، اُن پر رحم کیا جائے گا۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے؟ یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہر گز نہیں۔ انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا۔ یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوط ہے۔ میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا مونہہ دیکھو گے۔ اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا۔میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں وہ واحد یگانہ ایک مدّت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا۔ مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا۔ جس کے کان سننے کے ہوں سنے، کہ وہ وقت دُور نہیں۔ میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں، پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے، نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشمِ خود دیکھ لو گے۔مگر خدا غضب میں دھیما ہے۔ توبہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد22 صفحہ268-269)

جیسا کہ خاکسار نے آغاز میں ایک صاحب کا حوالہ دیا ہے جو پاکستانی قوم کی اجتماعی بد اعمالی کو اس عذاب کی وجہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’یہ قوم اسقدر بےحس ہو چکی ہے کہ بُرائی کو بالکل نہیں روکتی بلکہ الٹا پسند کرتی ہے اور بُرائی کرنے والے کی مدد کرتی ہے۔ایسےلوگوں کی ہر جگہ حمایت کرتی ہے اور ایسے افراد کی نافرمانیوں کا دفاع کرتی ہے۔ ایسی قوم کو اللہ جھنجوڑنے کے لئے یہ عذاب نازل کررہا ہے ’’موصوف نے بیماری کی تشخیص تو بالکل درست کی ہے لیکن افسوس کہ پوری قوم کے ساتھ اسی بیماری میں خود بھی مبتلاء ہیں اور اصل علاج کرنے کے بجائے اس برائی میں خود بھی قوم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ پاکستان دنیا میں واحد ملک ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کے بجائے اس کا نہ صرف انکار کیا بلکہ ظلم وستم کی راہ اختیار کرتے ہوئے 1974ء اس کی جماعت کو کافر قرار دیا۔ اس ظلم میں ملک میں موجود تمام فرقوں کے نمائندوں نے ساتھدیا۔ پھر 1984ء میں ایک آرڈی نینس نافذ کر کے انہیں اپنے آپ کومسلمان کہنے پر پابندی لگا دی۔ گویا خود خدا بن بیٹھے۔ ان پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کا نام لینے، کلمہ پڑھنے، اذان دینے، نماز پڑھنے، قرآن کریم کی تلاوت کرنے حتّٰی کہ کوئی آیت کریمہ اپنے پاس رکھنے تک پہ بھیپا بندی لگا دی گئی ہے۔ ایسا کرنے پر اب بھی قید و بند کی تکالیف دی جارہی ہیں۔ اس مامور من اللہ کی جماعت پر ہر طرح کاظلم روا رکھنا اس ملک میںجائز قرار پایا ہے۔ان کی جان، مال، عزّت تک محفوظ نہیں۔ ان کی سجدہ گاہوں کو مسمار کرنا، ان پہ غاصبانہ قبضہ کر لینا معمول بن چکا ہے جس میںحکومت کی خاموش رضامندی مکمل طور پہ شامل ہے۔ ایسی صورتحال میں خدا کی طرف سے آنے والی ان تباہیوں کو ہم نہیں بلکہ یہ لوگخوداللہ کا عذاب قراردے رہے ہیں۔ تو ان دوستوں سے دست بستہ عرض ہے کہ خدا کے لئے سوچو کہ آخر رسول بھیجے بغیریہ عذاب کیوں آرہے ہیں؟ حضرت مسیح موعود السلام دنیا کو حوادث سے خبردار کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
’’حوادث کے بارے میں جو مجھے علم دیا گیا ہےوہ یہی ہے کہ ہر ایک طرف دنیا میں موت اپنا دامن پھیلائے گی اور زلزلے آئیں گے اور شدّت سے آئیں گےاور قیامت کا نمونہ ہوں گے اور زمین کو تہہ وبالا کردیں گے اور بہتوں کی زندگی تلخ ہو جائےگی۔ پھر وہ جو توبہ کریں گے اور گناہوں سے دستکش ہو جائیں گے، خداان پر رحم کرے گا۔جیسا کہ ہر ایک نبی نے اس زمانہ کی خبر دی تھی ضرور ہے کہ وہ سب کچھ واقع ہولیکن وہ جو اپنے دلوں کو درست کر لیں گےاور ان راہوں کو اختیارکریں گےجوخدا کو پسند ہیں، اُن کو کچھ خوف نہیں اور نہ کچھ غم۔خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تو میری طرف سے نذیر ہے۔ میں نے تجھے بھیجا تا مجرم نیکو کار وں سے الگ کئے جائیں اور فرمایا کہ دنیا میں ایک نذیر آیا پردنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گااور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچّائی ظاہر کر دے گا۔۔۔۔سو راستباز بنو! اور تقویٰ اختیار کرو!تابچ جاؤ۔آج خدا سے ڈرو تا اُس دن کے ڈر سےامن میں رہو۔ضرور ہے کہ آسمان کچھ دکھاوےاور زمین کچھ ظاہر کرے۔لیکن خدا سے ڈرنے والےبچائے جائیں گے۔

خدا کا کلام مجھے فرماتا ہےکہ کئی حوادث ظاہر ہوں گے اور کئی آفتیں زمین پر اُتریں گی۔ کچھ تواُن میں سےمیری زندگی میں ظہور میں آجائیں گی اور کچھ میرے بعد ظہور میں آئیں گی اور وہ اس سلسلہ کو پوری ترقی دے گا کچھ میرے ہاتھ سے اور کچھ میرے بعد‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ302-304)

مختصر یہ کہ اگر طاقتور ممالک سمیت دنیا میں آنے والی وبا، زلزلے، سیلاب، کروڑوں افراد کا گھر سے بے گھر ہوجانا، لاکھوں مویشیوں کی ہلاکت، لاکھوں ایکڑ رقبہ پر فصلوں کی تباہی، قوم کا گروہوں میں تقسیم ہو کر شدّت پسندی کی طرف چلے جانا وغیرہ آپ لوگوں کے نزدیک عذاب الٰہی ہے تو خدا کے لئے اس طرف بھی توجہ کریں کہ قرآن کریم میں اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ رسول بھیجے بغیر عذاب نہیں بھیجتا۔ اس کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اِس دَور میں جس مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی تھی، وہ ظاہر ہو گیا ہے۔ کیونکہ نبی کے ظہور کے بغیر عذاب نہیں آسکتا اور مسیح موعود کے علاوہ اور کسی کی پیشگوئی نہیں اور وہ پوری دنیا کے لئے اللہ کی طرف سے امام ہے۔ لہٰذا پوری دنیا پر اس امام کو ردّ کرنے کی صورت میں اتمام حجّت ہو چکا ہے۔آج اس دَور میں ایک ہی ہستی ہے جس نے دعویٰ کیا ہےکہ میں خدا کی طرف سے نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں اور وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیا نی علیہ السلام ہیں۔وہی ہیں جو اس دَور کا حصن حصین ہیں۔ پس اس آسمانی آواز پہ لبیک کہتے ہوئے اس طرف دوڑو تاکہ اس دنیا میں عافیت میں رہو اور آخرت میں بھی امن نصیب ہو۔

اسمعوا صوت السماء جاء المسیح جاءالمسیح
نیز بشنو از زمیں، آمد امامِ کامگار
اب اسی گلشن میں لوگو راحت و آرام ہے
ہیں درندے ہر طرف میں عافیت کا ہوں حصار

(شمشاد احمد قمر۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح بتاریخ 3؍ستمبر 2022ء بمقام مسجد مبارک اسلام آباد، یوکے

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 ستمبر 2022