• 20 اپریل, 2024

حضرت رحمت بی بی ؓ

حضرت رحمت بی بی ؓ
صحابیہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام

ولادت: 1875ء۔ بیعت: 1902ء۔ وفات: 17 مارچ 1958ء

حضرت رحمت بی بی رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ صحابیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تھیں۔ آپ کے نکاح کی خود حضرت مسیح موعودؑ نے اجازت مرحمت فرمائی تھی۔ آپؑ نے میاں محمد موسیٰ صاحب کو فرمایا۔ ’’ہاں بہت مبارک ہو۔ میں دعا کروں گا۔‘‘

تعارف

حضرت رحمت بی بی رضی اللہ عنہا کا سنِ ولادت 1875ء ہے۔ خاکسار ڈاکٹر محموداحمد ناگی ان کا پوتا ہے۔ اُن کی شادی حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کے ساتھ 1902ء میں ہوئی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس شادی کے لئے دعا کی۔ میاں محمدموسیٰ اور ان کے تمام اہلِ خانہ نے 1902ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تھی۔ انہوں نے 1905ء میں آپ ؑ کی دستی بیعت کا بھی شرف حاصل کیا۔ اس شادی کے بارے میں لاہور تاریخ احمدیت میں لکھا ہے:

چند بار آمدورفت ہو جانے کی وجہ سے میں نے حضورؑ کی خدمت میں عرض کی کہ میرا ارادہ ایک اور نکاح کرنے کا ہے۔ ابھی میں یہ کہنا ہی چاہتا تھا کہ حضور دعا فرمائیں کہ حضور نے فوراً فرمایا:
’’ہاں، بہت مبارک ہو، میں دعا کروں گا۔‘‘

چنانچہ اس کے بعد میں نے تیسرا نکاح کیا اور یہ رشتہ بہت ہی بابرکت ثابت ہوا۔ میری یہ اہلیہ بہت متقی ہیں اور موصیہ بھی۔

حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ کے بطن سے پانچ لڑکے اور تین لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ بڑے لڑکے میاں عبدالمجید صاحب ؓ یکم جنوری 1903ء کو پیدا ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے تقریباً ایک سال پہلے 1907ء میں بیعت کرکے صحابہ میں اپنا نام لکھوا لیا۔

(لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب، ’’حاجی میاں محمد موسیٰ‘‘، صفحہ306، مطبوعہ فروری 1966ء)

حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ کی باقی اولاد کے نام درجِ ذیل ہیں:
لڑکوں میں میاں عبدالماجد صاحب، میاں محمد احمد صاحب، میرے والد میاں محمد یحییٰ صاحب اور میاں مبارک احمد صاحب شامل ہیں۔ لڑکیوں میں مریم بی بی صاحبہ زوجہ عبدالخالق صاحب، زینب بی بی صاحبہ زوجہ عبدالعزیز صاحب اور عائشہ بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری بشیر احمد صاحب آف جہلم ہیں۔ یہ سب وجود وفات پا چکے ہیں۔

میرے والد میاں محمدیحییٰ صاحب اپنی والدہ کو بے بے جی کہتے تھے۔ ابّا جان کو والدہ سے بڑی عقیدت اور محبت تھی۔ ان کی ہر بات من و عن مانتے اور کوشش کرتے کہ وہ خوش رہیں۔ ان کی کوئی بات نہ ٹالی اور نہ کبھی کوتاہی برتی۔ ہماری دادی صاحبہ نے سارے خاندان کو اتفاق کی مالا میں پرویا ہوا تھا۔ سب میں پیار محبت تھا۔ ایک دوسرے کی عزت کرتے تھے۔ سب بچوں پر ان کا رعب اور دبدبہ تھا۔ سب ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرتے تھے۔

صحابی اور صحابیات خاندان میاں محمد موسیٰؓ

-1 حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ۔
-2 والدہ حضرت میاں محمد حسین رضی اللہ عنہا۔ حضرت میاں محمد حسینؓ میاں محمد موسیٰؓ کے فرزند اکبر تھے اور آپؓ کی پہلی بیوی سے تھے۔
-3 حضرت میاں محمد حسینؓ صاحب فرزند اکبر میاں محمد موسیٰؓ صاحب۔
-4 بے بے حاجنؓ صاحبہ رضی اللہ عنہا، دوسری زوجہ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ صاحب رضی اللہ عنہ۔
-5 حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ، حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی زوجہ نمبر تین اور خاکسار کی دادی محترمہ۔
-6 حضرت میاں عبد المجید صاحبؓ فرزند حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ اور حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ۔

حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی وفات

حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ کے تین پوتے خدّام الاحمدیہ لاہور کے زیرِ اہتمام دریائے راوی لاہور پر پکنک کے دوران دریا میں کشتی الٹنے سے ڈوب گئے تھے۔ دو ہفتوں کے بعد ان کی سب سے چھوٹی صاحبزادی عائشہ بیگم اہلیہ چوہدری بشیر احمد صاحب آف جہلم پاکستان ایک طویل بیماری کے بعد اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ بچوں کے ڈوبنے کے غم کے بعد یہ نیا حادثہ رونما ہو گیا۔ میاں محمد موسیٰ صاحب نے چپ سادھ لی جیسے خدا تعالیٰ نے انہیں صبر عطا کر دیا ہو۔ کسی قسم کا ناشکری کا کوئی کلمہ زبان پر نہ آیا۔ خدا تعالیٰ پر بھروسہ کیا۔ ڈوبنے والے بچوں اور اپنی صاحبزادی کے لئے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ یہ سارے صدمات آخرکار جان لیوا ثابت ہوئے اور 24 دسمبر 1945ء کو وہ خود بھی اس جہانِ فانی سے اپنے مولا کے پاس حاضر ہوگئے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ› میاں محمد موسیٰ کی وفات‘ 25 دسمبر 1945ء صفحہ2)

دوماہ سے کم عرصہ میں خاندان کے پانچ افراد وفات پاگئے۔

حضرت رحمت بی بیؓ کے بڑے بیٹے کا حضورؑ سے معانقہ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہٖ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱مئی 2012ء بابت روایات صحابہ حضرت محمد موسیٰ صاحبؓ کے بیٹے میاں عبدالمجید صاحبؓ کا مندرجہ ذیل واقعہ یوں بیان فرمایا:
’’ایک دفعہ میرے لڑکے جس کی عمر اس وقت تقریباً 4 برس تھی نے اس بات پر اصرار کیا کہ میں نے حضرت صاحب کو چمٹ کر جپھی (معانقہ) ڈال کر ملنا ہے۔ (یہ واقعہ غالباً 1907ء کا ہے)۔ اس نے مغرب سے لے کر صبح تک یہ ضد جاری رکھی اور ہمیں رات کو بہت تنگ کیا۔ صبح اُٹھ کر پہلی گاڑی میں اسے لے کر بٹالہ اور وہاں سے ٹانگے پر ہم قادیان گئے۔ قادیان پہنچتے ہی حضرت صاحبؑ کی خدمت میں یہ پیغام بھیجا کہ عبد المجید آپ کو ملنا چاہتا ہے۔ گلے ملنا چاہتا ہے یا جپھی ڈالنا چاہتا ہے (چھوٹا سا بچہ تھا عمر 4 سال تھی)۔

حضورؑ اس موقع پر باہر تشریف لائے اور عبدالمجید ؓ آپ کی ٹانگوں کو چمٹ گیا اور اس طرح اس نے ملاقات کی اور پھر وہ 4 سال کا بچہ کہنے لگا ’’ہن ٹھنڈ پے گئی اے (یعنی بھرپور تسلّی ہو گئی ہے۔ ناقل)۔‘‘

(روایات صحابہ، غیر مطبوعہ، رجسٹر11 صفحہ11 تا12، خطبات مسرور 2012ء صفحہ295)

حضرت امّاں جان رضی اللہ عنہا سے تعلق ِ محبت

حضرت امّ المومنین رضی اللہ عنہا زوجہ حضرت مسیح موعودؑ حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ کے بڑے بیٹے میاں عبدالمجید صاحبؓ کے گھر واقع نیلا گنبد لاہور1951-52ء کے لگ بھگ تشریف لائی تھیں۔ اس کا خاکسار ڈاکٹر محموداحمد ناگی چشم دید گواہ ہے۔ میری عمر اس وقت تقریباً 8 سال تھی۔ حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ (خاکسار کی دادی جان) اور گھر کی دوسری خواتین بھی موجود تھیں۔ وہ گھر کے صحن میں ایک تخت پوش پر تکیہ لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ سب بچوں کو دعا اور پیار سے نوازا۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں اپنی دادی جان ؓکے ہمراہ اس عظیم روحانی ہستی سے فیض یاب ہوا۔

میاں محمد یحییٰ صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت امّاں جانؓ ہمارے آبائی گھرفلیمنگ روڈ لاہور پر بھی تشریف لاتی رہتی تھیں۔ خاکسار کی خوشدامن عائشہ بیگم صاحبہ دختر حضرت محمد موسیٰؓ نے اس قیمتی وجود کے لئے دوپٹے پر مکیش کا کام صرف ایک دن میں مکمل کرکے بطورتحفہ دیا تھا۔ حضرت امّاں جان ؓ نے وہ دوپٹہ اوڑھ لیا اور بہت دعائیں دیں۔

غیر احمدی گھرانوں میں شادیاں نہ کرنا

حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ نے احمدیت یعنی حقیقی اسلام دیانت داری سے قبول کی۔ حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے احمدیت سے حد درجہ کی عقیدت اور محبت تھی۔ حضرت مسیح موعودؑ کی بیعت میں آنے کے بعدگاؤں کے رشتہ داروں نے آپ سے رشتہ ناطہ توڑ لیا مگر انہوں نے اس کی قطعاً پرواہ نہ کی۔اپنا میل ملاپ صرف اور صرف احمدی خاندانوں تک محدود رکھا۔ ان کے شوہر میاں محمد موسیٰؓ نے ان پر واضع کر دیا تھا کہ ہم احمدی ہیں اور اپنے بچوں یا ان کی اولادوں کی شادیاں صرف احمدیوں گھرانوں میں کریں گے۔ حضرت حاجی میاں محمد موسیٰ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد رحمت بی بیؓ صاحبہ نے اپنے تمام بچوں کے رشتے احمدی گھرانوں میں کئے۔ ان کے آبائی گاؤں کے غیر احمدی احباب نے اُن سے دوبارہ تعلق قائم کیا۔ انہوں نے انہیں خوش آمدید کہا۔ اپنے غیر احمدی عزیزوں کو صاف صاف بتا دیا کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں ان کے گھروں میں نہیں کریں گے۔

گھر میں پنج وقتہ نماز کی پابندی کروانا

حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ گھر میں چھوٹے بڑوں کی پنج وقتہ نماز کی پابندی کرواتی تھیں۔میں نے بچپن سے دیکھا کہ گھر میں باجماعت نماز ہوا کرتی تھی۔ حلقہ کے احمدی احباب اس میں شامل ہوتے تھے۔

جب خاکسار چار پانچ سال کا ہوا تو میری دادی جان مجھے اپنے ساتھ جائے نماز پر کھڑا کر لیتیں اور ساری نماز اونچی آواز میں ادا کرتیں تاکہ مجھے نماز یاد ہوجائے اور نماز ادا کرنے کا طریقہ آجائے۔

مغرب سے پہلے گھر واپس لوٹنے کا حکم

خاکسار نے بچپن سے مشاہدہ کیا کہ بڑوں چھوٹوں سب کے لئے گھر میں مغرب تک واپس آنے کا دستور رائج تھا۔ دادی جان سختی سے سب اہلِ خانہ کو مغرب سے پہلے گھر لوٹنے کی سختی سے تلقین کرتیں اور اگر کسی وجہ سے کوئی لیٹ ہوجاتا تو بے چین ہو جاتیں اور گھر کے خارجی دروازے کھڑی رہتیں۔ لیٹ آنے والے کو معقول وجہ بتانی پڑتی۔

1953ء کے احمدیوں کے خلاف فسادات

1953ء میں جب احمدی گھروں کو بلوائیوں نے لوٹنے کا پروگرام بنایا تو خاکسار کے والد میاں محمد یحییٰ گھر کی حفاظت کے لئے اپنی بندوق سے پہرہ دیتے۔ان کی والدہ حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ نے انہیں حکم دیا کہ بچوں کو ساتھ لے کر گھرسے کوچ کر جائیں۔ وہ والدہ کی بات کو نہ ٹال سکے جس کی وجہ سے ساری املاک اور گھر کو جلایا گیا۔ یہ ضرور ہوا کہ سب خدا کے فضل سے سلامت رہے۔گھر والے تقریباً دو ماہ کے لئے ماڈل ٹاؤن لاہور شفٹ ہوگئے۔ گھر جب واپس آئے تو گھر صرف اینٹوں پر کھڑا تھا۔ ظالموں نے گھر کے دروازے تک جلا دیئے۔ گھر کی کوئی چیز نہ بچ سکی۔

رفائے عامہ کا ایک واقعہ

دادا جان میاں محمدموسیٰ کو بیعت سے پہلےجب بھی کاروبار سے فرصت ملتی تو وہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کے لئے گاؤں چلے جاتے اور فصل مالیہ وغیرہ کا حساب کرتے۔عام طور پر میری دادی جان بھی ان کے ہمراہ ہوتیں تاکہ اگر ضرورت پڑے تو ان کو بھی زمینی معاملات کا علم ہو۔گاؤں جانے کے لئے تین سے چار میل کا سفر پیدل کرنا پڑتاتھا۔ کوئی سڑک نہ تھی اور بارشوں کے دنوں میں بہت تکلیف اُٹھانا پڑتی تھی۔ ایک دفعہ گاؤں جاتے ہوئے ہماری دادی جان ایک ندی نالہ پھلانگتے ہوئے گر پڑیں۔بہت چوٹیں آئیں۔ دادا جان نے کچھ دنوں کے بعد ہی گاؤں کے رستے میں تمام ندی نالوں پر پل بنوادیئے اور گاؤں تک کچی سڑک بنوادی۔ اس کے علاوہ راستہ میں مسافروں کے پانی پینے کے لئے ہینڈ پمپ لگوادیا۔

وفات

1957ء میں حضرت رحمت بی بیؓ صاحبہ کو کینسر تشخیص ہوا۔ ان دنوں اس کا کوئی خاطر خواہ علاج نہ تھا۔ لاہور کے ایک ہسپتال میں ان کا اپریشن ہوا۔ ایک سال میں ہی کینسر دوبارہ پھیل گیا۔ یہ قیمتی وجود 17 مارچ 1958ء کو لاہور میں اپنے مولائے حقیقی سے جا ملا۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ 82 برس عمر پائی۔ آپ بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ خاص کی چاردیواری کےقریب دفن ہیں۔

(لاہور تاریخ احمدیت مرتبہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب، ’’حاجی میاں محمد موسیٰ‘‘، صفحہ312)

(ڈاکٹر محمود احمد ناگی۔ اوہایو، امریکہ)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2021