• 24 اپریل, 2024

سورۃ طٰہٰ اور الانبیاء کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابع

سورۃ طٰہٰ اور الانبیاء کا تعارف
از حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ

سورۃ طٰہٰ

یہ مکی سورت ہے اور بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو چھتیس آیات ہیں۔

یہ طٰہٰ کے حروف ِ مقطعات سے شروع ہوتی ہے اور یہ مقطعات کسی اَور سورت کے آغاز میں بیان نہیں ہوئے۔ اس کے معنی ہیں:

اے پاک رسول اور ہادیٔ کامل۔

اس سے پہلی سورت میں جن ہولناک جنگوں کی خبر دی گئی ہے لازماً یہ خبریں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر گراں گزرتی ہوں گی اس لئے اللہ تعالیٰ نے تاکیداً فرمایا کہ ان کے نتیجہ میں تُو کسی دکھ میں مبتلا نہ ہو۔ یہ اس کی طرف سے تنزیل ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا فرمایا اور وہ رحمان ہے جس نے عرش پر قرار پکڑا۔

چونکہ تمام رسالتیں رحمانیت کے نتیجہ میں ہی عطا کی جاتی ہیں اور گزشتہ سورت کی طرح اس سورت میں بھی رحمانیت ہی کا مضمون جاری ہے اس لئے ایک دفعہ پھر حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ذکر ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے رحمانیت کے سبب آپ کو اپنا رسول بنایا۔ وہ تمام احسانات جو حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر فرمائے گئے وہ تمام تر رحمانیت کے نتیجہ میں تھے۔

اسی سورت میں جادوگروں کے سجدہ ریز ہونے کا ذکر ہے اور فرعون کی طرف سے ان کو انتہائی خطرناک سزاؤں کی دھمکی کا بھی۔ لیکن جنہوں نے رحمٰن خدا کے جلوے دیکھ لئے ہوں وہ ایسی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتے۔پس ان کا حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام پر ایمان ہر قسم کی دھمکی کے باوجود پوری طرح قائم رہا۔

اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ سے وہ پہاڑوں کے بارہ میں سوال کرتے ہیں۔پہاڑوں کے بارہ میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی سوال نہیں کیا گیا تھا۔ ہاں پہاڑوں جیسی بلند طاقتوں کے متعلق مشرکین پوچھتے تھے کہ ان کے ہوتے ہوئے تُو کیسے کامیاب ہو گا۔ ایک طرف کسریٰ کی حکومت کا پہاڑ تھا اور دوسری طرف قیصر کی حکومت کا پہاڑ تھا۔ تو اس کا یہ جواب سکھایا گیا کہ دنیا کی بڑی بڑی متکبر قومیں خواہ پہاڑوں کی طرح سر بلند ہوں اس وقت تک ایمان نہیں لاتیں جب تک ان کا تکّبر توڑ نہ دیا جائے اور وہ ایسے صحرا کی ریت کی طرح نہ ہو جائیں جو پوری طرح ہموار ہو اور اس میں کوئی بلندی اور پستی دکھائی نہ دے۔ جب یہ ہوگا تو وہ ایک ایسے رسول کی پیروی کریں گے جس میں کوئی کجی نہیں پائی جاتی۔

آیت نمبر109 میں بھی صفتِ رحمان کی تکرار ہے اور اس کے بعد آنے والی آیت نمبر110 میں بھی رحمان کے جلوے کا ذکر ہے جس کے رعب اور شان کے حضور تمام آوازیں مدھم پڑ جائیں گی گویا سب اگر گفتگو کرتے بھی ہیں تو سرگوشیوں میں۔

اس کے بعد حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کا پھر ذکر چھیڑا گیا ہے کیونکہ آپ کی پیدائش بھی رحمانیت کے جلوے کے تابع تھی۔ اور پہلی بار آپ کی شریعت کے چار بنیادی پہلو بیان فرمائے گئے ہیں یعنی یہ کہ جو کوئی بھی حضرت آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کو قبول کرے گا اس کے لئے ضمانت ہے کہ نہ وہ بھوکا رہے گا اور نہ ننگا اور نہ پیاسارہے گا اور نہ دھوپ میں جلے گا۔

اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دفعہ پھر صبر کی تعلیم دی گئی ہے کہ دشمن کی ایذا دہی پر صبر سے کام لے اور اپنے ربّ کی حمد کے ساتھ تسبیح، سورج نکلنے سے پہلے بھی کر اور اس کے غروب سے پہلے بھی اور رات کی گھڑیوں میں بھی اور دن کے دونوں کناروں پر بھی۔ اس آیت کریمہ میں دن رات کی تمام نمازوں کا ذکر فرما دیا گیا ہے۔

اس سورت کے آخر پر فرمایا کہ کہو کہ سب انتظار کر رہے ہیں کہ اس کشمکش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ تم بھی انتظار کرو۔ پس تم پر خوب کھول دیا جائے گا کہ سیدھے راستے پر چلنے والا کون ہے اور وہ کون ہے جو ہدایت پاتا ہے۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ522-521)

سورۃ الانبیاء

یہ مکی سورت ہے اور اس کا زمانہ نزول نبوت کا چوتھا یا پانچواں سال ہے۔ بسم اللہ سمیت اس کی ایک سو تیرہ آیات ہیں۔

جس حساب کا پچھلی سورت کے آخر پر ذکر تھا کہ لوگ جوابدہ ہوں گے اور تجھ پر یہ بات کھل جائے گی کہ تُو ہی ہدایت پر قائم ہے، اس سورت کے آغاز میں یہ ذکر فرمایا گیا کہ وہ حساب کی گھڑی آ پہنچی ہے لیکن اکثر اس بات سے غافل ہیں۔

پھر اس سورت میں فرمایا گیا کہ تجھ سے پہلے بھی ہم نے مردوں ہی میں سے رسول مبعوث فرمائے تھے اور انہیں ایسے جسد عطا نہیں کئے گئے جو بغیر کھانے کے زندہ رہ سکیں۔ یہاں ضمناً حضرت مسیح ؑ کی الوہیت کا بھی ردّ کر دیا گیا ہے کیونکہ وہ تو زندگی بھر کھاتے پیتے رہے۔

اس کے معاً بعد یہ بیان کیا گیا کہ جاہل لوگوں نے زمین سے ہی معبود گھڑ لئے ہیں۔ اور پھر ایک عظیم الشان دلیل اس امر پر دی ہے کہ دو خدا ہو ہی نہیں سکتے۔ اگر ایسا ہوتا تو زمین و آسمان میں فساد پھیل جاتا اور ہر خدا اپنی پیدا کردہ تخلیق کو لے کر الگ ہو جاتا اور کائنات میں ایسا رخنہ اور فساد پڑتا کہ پھر کبھی دور نہ ہو سکتا۔ حالانکہ کائنات میں جدھر بھی نظر دوڑاؤ اس میں کوئی دوئی کا نشان تک نہیں ملتا۔ اسی لئے فرمایا کہ ہم نے اس سے پہلے بھی جتنے رسول بھیجے ان کی طرف بھی وحی کرتے رہے کہ ایک اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔

آیت نمبر 27 میں ان کے جھوٹے دعویٰ کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹا پکڑ لیا ہے۔ مگر جب بھی ایک بیٹے کو فرضی معبود بنایا جائے تو پھر وہ ایک فرضی معبود نہیں رہتا بلکہ اَور بھی اس مفروضے میں شامل کر دئے جاتے ہیں۔ چنانچہ معاً بعد فرمایا کہ حضرت عیسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کی طرح اَور بھی اللہ تعالیٰ کے بہت سے پاک بندے ہیں جن کو اللہ کا شریک ٹھہرایا گیا۔

اس کے معاً بعد ایک ایسی آیت ہے جو کائنات کے اسرا پر سے ایسا پردہ اٹھاتی ہے جو اُس زمانے کے انسان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا۔ فرمایا : یہ ساری کائنات ایک مضبوطی سے بند کئے ہوئے ایسے گیند کی شکل میں تھی جس میں سے کوئی چیز باہر نہیں نکل سکتی تھی۔ پھر ہم نے اس کو پھاڑا اور اچانک ساری کائنات اس میں سے پھوٹ پڑی اور پھر پانی کے ذریعہ ہر زندہ چیز کو پیدا فرمایا۔ اور پانی کے معاً بعد ’’رَوَاسِی‘‘ کے ساتھ اس پانی کے نازل ہونے کے نظام کا ذکر فرما دیا۔ اور پھر یہ ذکر فرمایا کہ کس طرح آسمان، زمین اور اہلِ زمین کی حفاظت کرتا ہے۔ پھر زمین و آسمان اور تمام اجرام کی دائمی گردش کا ذکر فرمایا اور جس طرح زمین اور آسمان دائمی نہیں ہیں اسی طرح یہ بھی متوجہ فرمایا کہ انسان بھی دائم رہنے والا نہیں اور اے رسول ! تجھ سے پہلے جتنے لوگ زندہ تھے ان میں سے کسی کو بھی دوام نہیں بخشا گیا۔

پھر اس کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے تمام انبیاء کا ذکر ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنی رحمانیت کا فیض پہنچایا۔ اور یہ نہ ٹلنے والا مضمون بیان فرما دیا کہ جب کسی بستی کے بسنے والوں کو ایک دفعہ ہلاک کر دیا جائے تو وہ دوبارہ کبھی اس کی طرف لوٹ کر نہیں آئیں گے۔ یہاں تک کہ یاجوج ماجوج کے زمانہ میں بھی جب بظاہر سائنسدان مُردوں کو زندہ کرنے کادعویٰ کریں گے ایسا نہیں ہو سکے گا۔

اس سورت میں آگے چل کر زمین و آسمان کی صف لپیٹ دینے کا ذکر ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا کہ یہ ہمیشہ کے لئے نہیں بلکہ اسی کائنات سے جو ایک دفعہ عدم میں ڈوب جائے گی، نئی کائنات پیدا کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ اس کا اعادہ کرتا رہے۔

اس سورت کے آخری رکوع میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کُل عالَم کے لئے رحمان خدا کا مظہر قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ تجھے بھی ہم نے تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

اس سورت کی آخری آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ربّ کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ تُو میرے درمیان اور میرے مکذّبین کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ فرما۔ اور چونکہ آپ ؐ رحمان کے نمائندہ ہیں اس لئے سب دنیا کو متنبہ کر رہے ہیں کہ ربِّ رحمان اپنے اس بندے کو تنہا نہیں چھوڑے گا جو اُس کی رحمانیت کا کُل عالَم کے لئے مظہر ہے۔

اس کے بعد سورۃ الحج آتی ہے جو اس بات کا کامل ثبوت ہے کہ تمام دنیا کے انسانوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بطور رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ مبعوث ہوئے تھے اور بیت اللہ وہ واحد جگہ ہے جہاں تمام دنیا سے بنی نوع انسان ادائیگی حج کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔

(قرآن کریم اردو ترجمہ مع سورتوں کا تعارف از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ، صفحہ542-541)

(عائشہ چوہدری۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

ایڈیٹر کے نام خطوط

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2021