• 14 مئی, 2024

تم صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
خدا تعالیٰ جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام دنیا کے لئے بھیجا ہے، خدا تعالیٰ جس نے زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کو بھیجا، اُس نے ہمیں فرمایا کہ مجھ میں ہو کر میرے راستوں کو تلاش کرو۔

اور خدا تعالیٰ میں ہو کر اُس کے راستے کی تلاش کس طرح کرنی ہے؟ فرمایا یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اسۡتَعِیۡنُوۡا بِالصَّبۡرِ وَالصَّلٰوۃِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۴﴾ (البقرۃ: 154)کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، صبر اور دعا کے ساتھ اللہ کی مدد مانگو، اللہ یقینا صابروں کے ساتھ ہو گا۔ پس یہ اللہ ہے جس سے مدد مانگی جائے تو بڑی سے بڑی روک بھی ہوا میں اُڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جو تمام قدرتوں والا ہے، اللہ تعالیٰ جو اپنے جلال کے ساتھ سب طاقتوں کا مالک ہے، وہ ہر انہونی چیز کو ہونی کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قیامت تک ہر زمانے اور ہر قوم اور ہر انسان کے لئے نجات دہندہ کے طور پر بنا کر بھیجا ہے جس نے قرآنِ کریم آپ پر نازل فرما کر تمام انسانوں کے لئے شریعت کو کامل کر دیا جس میں ہر زمانے کے دینی اور دنیاوی مسائل کا حل بھی ہے، جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس زمانے میں اسلام کے احیائے نَو کے لئے بھیجا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جب ایسے حالات آئیں کہ روکیں سامنے نظر آئیں، جب ایسے حالات آئیں کہ تمہاری عقلیں فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں اُس وقت تم صبر اور صلوۃ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو۔

پس اگر خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کی مدد مانگو گے تو بظاہر مشکل کام بھی آسان ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اُس کے دین نے غالب آنا ہے لیکن تمہیں اس غلبہ کا حصہ بننے کے لئے صبر اور صلوٰۃ کی ضرورت ہے۔ لیکن کیسے صبر اور کیسی صلوٰۃ کی ضرورت ہے؟ اُس کے لئے پہلے اصول بیان ہو چکا ہے کہ اللہ میں ہو کر مجاہدہ کرو۔

صبر کے مختلف معنی لغات میں درج ہیں۔ مثلاً صبر یہ ہے کہ مستقل مزاجی اور کوشش سے برائیوں سے بچنا۔ ایک مومن اور ایک احمدی کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس دنیاوی دور میں جب ہر طرف سے شیطانی حملے ہو رہے ہیں اور برائیاں ہر کونے پر منہ کھولے کھڑی ہیں ان برائیوں سے بچنے کے لئے جہاد کرے۔ اپنے نفس کو قابو میں رکھے۔ پھر صبر کا مطلب ہے کہ نیکی پر ثابت قدم رہے۔ یہ نہیں کہ وقتی نیکی ہو اور جب کہیں دنیا کا لالچ اور بدی کی ترغیب نظر آئے تو نیکی کو بھول جاؤ۔ اعمالِ صالحہ بجا لانے کی طرف ہمیشہ توجہ رہے۔ ان اعمالِ صالحہ کی قرآنِ کریم میں تلاش کی ضرورت ہے۔ پھر صبر یہ ہے کہ ہر صورت میں اپنے معاملات خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا۔ ہر مشکل میں، ہر پریشانی میں، ہر تکلیف میں خدا تعالیٰ کے سامنے معاملہ پیش کرنا۔ کسی بھی بات میں کوئی جزع فزع نہیں۔ پس صبر کی یہ حالتیں ہوں گی تو اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال ہو گی۔ روحانی مدارج میں ترقی ہو گی۔ دنیا کی کروڑوں کی جو دولت ہے اُس کے مقابلے میں ایک مومن کا ایک پاؤنڈ، ایک ڈالر، ایک روپیہ جو ہے وہ وہ کام دکھائے گا جو دنیا کو حیران کر دے گا۔

پھر صبر کے ساتھ برائیوں سے بچنے اور نیکیوں پر ثابت قدم ہونے اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنے معاملات پیش کرنے کے ساتھ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صلوٰۃ کی بھی ضرورت ہے۔ اور صلوٰۃ کے بھی مختلف معنی ہیں۔ صلوٰۃ کے ایک معنی نماز کے ہیں۔ یعنی یہاں جو نصیحت ہے کہ مومنوں کو نماز کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل کرنی چاہئے اور نماز کا حق ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ صبر کے اعلیٰ نتائج اُس وقت ظاہر ہوں گے جب نمازوں کی طرف بھی توجہ پیدا ہو گی۔ پھر اس کے یہ معنی بھی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت حاصل کرو، استغفار کرو۔ صلوٰۃ میں یہ سب معنی آ جاتے ہیں۔ پھر صرف یہ ظاہری نماز نہیں بلکہ دعاؤں کی طرف اُن کا حق ادا کرتے ہوئے توجہ کرو۔ خدا تعالیٰ کی مخلوق پر رحم کرو۔ اُن کے بھی حق ادا کرو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجو تا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہو۔

پس یہ وسعت صبر اور صلوۃ میں پیدا ہو گی تو اللہ تعالیٰ کی مغفرت بھی حاصل ہو گی اور تمام کام آسان ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے، ان شاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے اور فضل اور رحم کے دروازے کھلیں گے۔

پس ایک مومن کا یہ کام ہے کہ اپنی کوششوں، اپنی عبادتوں، اپنی دعاؤں، اپنے اخلاق کو انتہا تک پہنچاؤ۔ جو کچھ تمہارے بس میں ہے وہ کر گزرو، پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو۔ لیکن اگر صبر کا حق ادا نہیں کرو گے، اگر صلوٰۃ کا حق ادا نہیں کر رہے تو پھر یقینا اللہ تعالیٰ کے انعامات کے حصہ دار نہیں بن سکتے۔ جیسا کہ میں نے بتایا کہ صبر کا ایک مطلب برائیوں سے بچنا بھی ہے، اس کے لئے توبہ اور استغفار کی ضرورت ہے۔

(خطبہ جمعہ 22 نومبر 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

غزل

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 اکتوبر 2022