ربط ہے جانِ محمد سے مری جاں کو مدام
’’گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو‘‘
قسط 39
اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کو اعلائے کلمۂ حق کا کام سونپتا ہے۔ انہیں خالق کو بھولے ہوئے گمراہ لوگوں کوسمجھا بجھا کر سیدھا راستہ دکھانے کا کام کرنے کے لئے نرمی، پیار محبت اور عفو و درگزرسےدل جیت کر خدائے واحد کی طرف لانے کا طریق بتاتا ہے۔ صداقت کودعا اور دلائل سے منوانے کا گر سکھاتا ہے۔ انبیائے کرام کی دعوت پر نیک فطرت لوگ بغیر نشان اور دلیل طلب کیےایمان لے آتے ہیں۔ بعض دلیل سے قائل ہوجاتے ہیں لیکن جاہل،غافل، ہٹ دھرم دلیل اور نشان دیکھ کر بھی مخالف رہتے ہیں۔ جب کچھ بن نہیں پڑتا تو گالی گلوچ، سب و شتم، بدزبانی، ایذادہی اورمار دھاڑ پر اتر آتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مدد اپنے فرستادہ کے ساتھ ہوتی ہے وہ انہیں بتدریج بلندیوں کی طرف لے کر جاتا ہےجس سے دشمنوں کے غیظ و غضب جلن اورانتقام کی آگ میں اضافہ ہوتا ہے۔ عدو شوروفغاں میں بڑھتا ہے تو اللہ والے صبر اور برداشت سے کام لیتے ہیں یار نہاں میں نہاں ہوجاتے ہیں۔
جب ہو گئے ہیں ملزم اترے ہیں گالیوں پر
ہاتھوں میں جاہلوں کے سنگِ جفا یہی ہے
قرآن کریم نے انبیاءے کرام سے ایسے سلوک کو محفوظ کیا ہے
• وَلَقَدۡ کَذَّبَ اَصۡحٰبُ الۡحِجۡرِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ﴿ۙ۸۱﴾
(الحجر:81)
اور انہوں نے کہا اے وہ شخص جس پر ذکر اتارا گیا ہے! یقیناً تو مجنون ہے۔
• وَمَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۲﴾
(الحجر:12)
اور کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا تھا مگر وہ اس سے تمسخر کیا کرتے تھے۔
• قَالَ اِنَّ رَسُوۡلَکُمُ الَّذِیۡۤ اُرۡسِلَ اِلَیۡکُمۡ لَمَجۡنُوۡنٌ ﴿۲۸﴾
(الشعراء:28)
اس (یعنی فرعون) نے کہا یقیناً یہ تمہارا رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور پاگل ہے۔
• کَذٰلِکَ مَاۤ اَتَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا قَالُوۡا سَاحِرٌ اَوۡ مَجۡنُوۡنٌ﴿۵۳﴾
(الذاریات:53)
اسی طرح ان سے پہلے لوگوں کی طرف بھی کبھی کوئی رسول نہیں آیا مگر انہوں نے کہا کہ یہ ایک جادوگر یا دیوانہ ہے۔
• فَاِنۡ کَذَّبُوۡکَ فَقَدۡ کُذِّبَ رُسُلٌ مِّنۡ قَبۡلِکَ جَآءُوۡ بِالۡبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ وَالۡکِتٰبِ الۡمُنِیۡرِ ﴿۱۸۵﴾
(آل عمران:185)
پس اگر انہوں نے تجھے جھٹلا دیا ہے تو تجھ سے پہلے بھی تو رسول جھٹلائے گئے تھے۔ وہ کھلے کھلے نشان اور (الٰہی)صحیفے اور روشن کتاب لائے تھے
• وَلَقَدِ اسۡتُہۡزِیٴَ بِرُسُلٍ مِّنۡ قَبۡلِکَ فَحَاقَ بِالَّذِیۡنَ سَخِرُوۡا مِنۡہُمۡ مَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۱۱﴾
(الانعام:11)
اور یقیناً رسولوں سے تجھ سے پہلے بھی تمسخر کیا گیا۔ پس ان کو جنہوں نے ان(رسولوں) سے تمسخر کیا انہی باتوں نے گھیر لیا جن سے وہ تمسخر کیا کرتے تھے۔
• کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ فَکَذَّبُوۡا عَبۡدَنَا وَقَالُوۡا مَجۡنُوۡنٌ وَّازۡدُجِرَ ﴿۱۰﴾
(القمر:10)
اِن سے پہلے نوح کی قوم نے بھی جھٹلایا تھا۔ پس انہوں نے ہمارے بندے کی تکذیب کی اور کہا کہ ایک مجنون اور دھتکارا ہؤا ہے۔
ہمارے سراج منیر حضرت محمد مصطفیﷺ کو بھی اغیار نے ایسے ہی القاب سے نوازا۔ آپؐ نے گالیاں سنیں دکھ سہے، تکالیف بھی برداشت کیں۔ مارے پیٹے بھی گئے مگر ہمیشہ صبر کیا۔ خدا تعالیٰ کے مطہر مقدس مقرب بندے گالیوں کا جواب گالی سے نہیں دیتے بلکہ ان کے جہل پر رحم کھا کر انہیں دعا دیتے ہیں۔ اور قادرو توانا خدا ان کی طرف سے جواب دیتا ہے۔اور ان ہی میں سے سعید روحوں کو آپؐ کے قدموں میں ڈال دیتا۔ نبوت کا چھٹا سال تھا آپؐ دار ارقم میں مقیم تھے۔ آپؐ کے حقیقی چچا حمزہ ایک دن شکار سے واپس آئے تو ایک خادمہ نے ان سے کہا۔ ’’کیا آپ نے سنا کہ ابھی ابھی ابو الحکم (یعنی ابو جہل) آپ کے بھتیجے کو سخت برا بھلا کہتا گیا ہے اور بہت گندی گندی گالیاں دی ہیں۔ مگر محمد نے سامنے سے کچھ جواب نہیں دیا۔ یہ سن کر حمزہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور خاندانی غیرت جوش زن ہوئی۔ فوراً کعبہ کی طرف گئے اور پہلے طواف کیا۔ طواف کرنے کے بعد اس مجلس کی طرف بڑھے جس میں ابوجہل بیٹھا تھا اور جاتے ہی بڑے زور کے ساتھ ابو جہل کے سر پر اپنی کمان ماری اور کہا۔ ’’مَیں سنتا ہوں کہ تو نے محمد کو گالیاں دی ہیں۔ سن! مَیں بھی محمد کے دین پر ہوں اور مَیں بھی وہی کہتا ہوں جو وہ کہتا ہے۔ پس اگر تجھ میں کچھ ہمت ہے تو میرے سامنے بول۔‘‘ (سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 175) یہ گالیاں سن کر صبر کا پھل تھا کہ آپؐ کے چچا شرک ترک کرکے خدائے واحد کے پرستار بن گئے۔
مکہ میں تبلیغِ اسلام کو دس سال ہوگئے تھے۔ مکہ والوں کی بے حسی سے خاطر خواہ کامیابی نظر نہیں آرہی تھی آپؐ نے قریبی شہر طائف کا رخ کیا۔ حق کا پیغام دینے سے وہاں کے رئیس عبدیالیل نے بھی آپؐ کا تمسخر اڑایا نہ صرف خود بلکہ شہر کے بد بخت نے آوارہ آدمی آپؐ کے پیچھے لگا دیئے۔ جب آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم شہر سے نِکلے تو یہ لوگ شور کرتے ہوئے آپؐ کے پیچھے ہو لئے اور آپؐ پر پتھر برسانے شروع کئے جس سے آپؐ کا سارا بدن خون سے تَر بتر ہو گیا۔ برابر تین میل تک یہ لوگ آپؐ کے ساتھ ساتھ گالیاں دیتے اور پتھّر برساتے چلے آئے۔ یہ آپؐ کی زندگی کا شدید ترین تکلیف کا دن تھا۔ مگر آپؐ کا رد عمل کیا تھا؟ گالیاں سن کے دعا دو۔ آپؐ نے اﷲ کے حضور یوں دعا کی:
• اَللّٰھُمَّ اِلَیْکَ اَشْکُوْ ضُعْفَ قُوَّ تِیْ وَ قِلَّۃَ حِیْلَتِیْ وَھَوَا نِیْ عَلَی النَّاسِ اَللّٰھُمَّ یَااَرْحَمَ الرَّحِمِیْنَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِیْنَ وَانْتَ رَبِّیْ
یعنی اے میرے ربّ! مَیں اپنے ضعفِ قوت اور قلّتِ تدبیر اور لوگوں کے مقابلہ میں اپنی بے بسی کی شکایت تیرے ہی پاس کرتا ہوں۔ اے میرے خدا ! تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے اور کمزوروں اور بیکسوں کا تو ہی نگہبان و محافظ ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے … مَیں تیرے ہی منہ کی روشنی میں پناہ کا خواستگار ہوتا ہوں کیونکہ تو ہی ہے جو ظلمتوں کو دور کرتا اور انسان کو دنیا و آخرت کے حسنات کا وارث بناتا ہے۔
(سیرت خاتم النبیینؐ صفحہ 204)
آپؐ کی تربیت اللہ تعالیٰ نے کی تھی ارشاد ہے
• خُذِ الۡعَفۡوَ وَاۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۲۰۰﴾
(الاعراف:200)
یعنی عفو اختیار کر، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ: ’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریقِ ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے:
• وَلَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ
(الانعام:109)
یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے کیونکہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں۔ اب دیکھو کہ باوجود یکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بد گوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہر جاؤ۔‘‘
(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ460-461)
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنی زبان مبارک کو گالی سے آلودہ نہ فرماتے۔ بلکہ دوسروں کو بھی گالی دینے سے منع فرماتے رہے۔ آپﷺ کی تربیت کا انداز بہت پیارا تھا۔۔ غصے کے موقع پر بس اتنا فرماتے اس کی پیشانی خاک آلودہواسے کیا ہوگیا ہے۔
حدیث میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اپنے باپوں کو گالیاں مت دو۔ تو کسی نے سوال کیا کہ ماں باپ کو کون گالیاں نکالتا ہے۔آپﷺ نے فرمایا جب تم کسی کے باپ کو برا بھلا کہو گے تو وہ تمہارے باپ کو گالی نکالے گا اور یہ اسی طرح ہے جس طرح تم نے خود اپنے باپ کو گالی نکالی۔آپﷺ اپنے مخالفوں سے انتقام لینے کی بجائے ان کے لئے استغفار فرماتے گالیاں، بدزبانی اور شوخیاں آپﷺ کو جواباً گالی دینےبرا بھلا کہنے غصے یا انتقام پر انگیخت نہ کرتیں وہ خلق مجسم ان کے لئے دعا کرتے اور اعراض فرماتے۔ خدا تعالیٰ کی بے آواز لاٹھی سے مخالفین خود ہی ذلیل و خوار ہوئےاورتباہ ہوئے۔
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے
حقیقی عشقِ رسول اور غیرتِ رسول کیا ہے
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کوبھی اپنے محبوب آقا و مطاع حضرت محمد مصطفیﷺ کی طرح اپنی قوم کی سبّ و شتم کا سامنا کرنا پڑا ایک لحاظ سے کئی گنا زیادہ شدت اوراذیت برداشت کرنی پڑی کیونکہ دریدہ دہن آنحضورﷺ کو بھی اپنی بد فطرت کا نشانہ بناتے تھے۔ حکم ربانی یہی تھا کہ برداشت کریں صبر کے ساتھ اور جواب دیں دعاؤں کے ساتھ مگر بعض دفعہ غیرت کا تقاضا تھا کہ شریروں کے شرارے ان پر الٹانے بھی پڑتے۔ اس میں بھی ضبط ِنفس کے ساتھ اپنے للہی منصب کا لحاظ رکھتےہوئے مناسب اور مسکت جواب دیتے۔ آپ علیہ السلام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بے انتہا عشق تھا اور برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی کرے۔آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دکھ نہیں پہنچایا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھے نے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسولِ پاکؐ کی شان میں کرتے رہتے ہیں۔ ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے جو وہ حضرت خیر البشر کی ذات و الا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے۔ خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئیے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئیے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور مَیں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسولِ اکرمؐ پر ایسے ناپاک حملے کئے جائیں۔ پس اے میرے آسمانی آقا! تو ہم پر اپنی رحمت اور نصرت کی نظر فرما اور ہمیں اس ابتلا سے نجات بخش۔‘‘
(ترجمہ عربی عبارت آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد5صفحہ15 بحوالہ حضرت مرزا بشیر احمد ایم اے از سیرت طیبہ صفحہ41۔42)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے لئے بہت حساس تھے فرماتے ہیں :
’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو برے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجنابؐ پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بد زبانی سے باز نہیں آتے ہیں، ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبیؐ پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے، ناپاک حملے کرتے ہیں۔ خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘
(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد23 صفحہ459)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک تیغ براں تھامی ہوئی تھی۔ جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے کی صورت ہوتی سب سے پہلے مؤثر آواز بلند فرماتے۔ آپ علیہ السلام نے اپنے عمل سے بھی اور اپنی تحریر و تقریر سے بھی دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ حقیقی عشقِ رسول اور غیرتِ رسول کیا ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعودؑ سفر میں تھے اور لاہور کے ایک سٹیشن کے پاس ایک مسجد میں وضو فر مارہے تھے۔ اس وقت پنڈت لیکھرام حضور سے ملنے کے لئے آیا۔ اور آکر سلام کیا مگر حضرت صاحب نے کچھ جواب نہیں دیا اس نے اس خیال سے کہ شائد آپ نے سنا نہیں۔ دوسری طرف سے ہو کر پھر سلام کیا۔ مگر آپؑ نے پھر بھی توجہ نہیں کی۔اس کے بعد حاضرین میں سے کسی نے کہا۔کہ حضور ؑ پنڈت لیکھرام نے سلام کیا تھا۔ آپؑ نے فرمایا۔ ’’ہمارے آقا کو گالیاں دیتا ہے۔ اور ہمیں سلام کرتا ہے۔‘‘
1897ء میں جب پادریوں کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے بارہ میں انتہائی دریدہ دہنی کی گئی تھی۔ آپ نے حکومت کو مشورہ دیا کہ گورنمنٹ ایسا قانون بنائے کہ جس میں ہر ایک فریق صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرے اور دوسرے فریق پر گند اچھالنے کی اجازت نہ ہو۔ اور یہی طریقِ کار ہے جس سے امن امان اور بھائی چارہ قائم ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بہترین طریق نہیں ہے۔
استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے
گالیوں پر آپؑ کے پر سکون رد عمل کے بارے میں شہادتیں :
’’ایک بد زبان مخالف آیا اور اس نے حضرت مسیح موعودؑ کے بالمقابل نہایت دلآزار اور گندے حملے آپ پر کئے۔ کہتے ہیں وہ نظارہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔ آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا کہ پگڑی کے شملے کا ایک حصہ منہ پر رکھ لیا کرتے تھے۔ پگڑی کا حصہ منہ پر رکھ دیا کرتے تھے یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے، اس کی گالیاں سنتے رہے اور وہ شورہ پشت بکتا رہا۔ فسادی طبیعت کا آدمی بولتا رہا۔ آپ اسی طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے۔ اس ہندو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متأثر ہوا۔ اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے۔ اس وقت حضور اسے چپ کرا سکتے تھے۔ اپنے مکان سے نکلوا سکتے تھے اور بکواس کرنے پرآپ کے ایک ادنیٰ اشارہ سے اس کی زبان کاٹی جا سکتی تھی۔ مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبطِ نفس کا عملی ثبوت دیا۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ443-444)
’’ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضور علیہ السلام کو بھیجا آپ علیہ السلام نے اس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و تحمل کا اظہار کیا۔ آپ کے سکونِ خاطر اور کوہِ وقاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی۔ بڑی پر سکون طبیعت تھی۔ بڑی باوقار طبیعت تھی۔ یعنی اس طرح کہ جس طرح پہاڑ ہو۔ گویا کہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے۔ وقار کا ایک پہاڑ تھے اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کسی قسم کی گالیوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یعنی کبھی یہ نہیں ہوا کہ بے وقاری دکھاتے ہوئے گالیوں کے جواب میں، گالیوں کا جواب آپ کی طرف سے جائے۔ فرماتے ہیں کہ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی کہ فَاصْبِرْ کََمَا صَبَرَ اوْلوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسلِ(احقاف: 36) فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا جو اولواالعزم رسولوں کو دیا جاتا ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 463-464)
ایک شخص آپؑ کو رات بھر گالیاں نکالنے پر مقرر کیا گیا تھا جو آپؑ کے گھر کے سامنے کھڑا ساری رات اونچی اونچی گالیاں نکالتا رہتا۔ جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو کہ یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہو گا۔ اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔
(سیرت المہدی جلد دوم حصّہ چہارم روایت نمبر 1130 صفحہ نمبر 102 جدید ایڈیشن)
حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا:
’’اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے، آخر وہی شرمندہ ہو گا۔ اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ از مولانا عبدالکریمؓ سیالکوٹی صفحہ51۔52)
29 جنوری 1904ء کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہئے۔ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمایاکہ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّم کہا کرتے تھے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں ان کی مذمت کو کیا کروں۔ میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمدؐ رکھا ہوا ہے فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے، یَحْمَدُکَ اللّٰہ مِنْ عَرْشہٖ یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے اور یہ وحی براہینِ احمدیہ میں موجود ہے۔
(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ450)
حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانہ دیدہ و چشیدہ ظاہر کرتا تھا ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے بابِ کلام وا کیا۔ تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا۔ آپ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ پر کہتا تھا کہ آپ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور مَیں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں۔ (نعوذ باللہ)۔ اور مَیں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں۔ غرض ایسے ہی بیباکانہ الفاظ کہے۔ مگر آپ کی پیشانی پر بَل تک نہ آیا۔ بڑے سکون سے سنا کئے، اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا۔
(سیرت حضرت مسیح موعودؑ صفحہ 44)
کس نے مانا مجھ کو ڈر کر کس نے چھوڑا بغض وکیں
زندگی اپنی تو ان سے گالیاں کھانے کو ہے
’’ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اڑ جاتی۔ مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔ آخر جب اس فحش زبانی کی حد ہو گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں۔ اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں۔‘‘
(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ257-258 روایت نمبر281 جدید ایڈیشن)
جب ایک شخص نے اخبار شحنۂ حق کے ایڈیٹر پر گندے مضامین چھاپنے پر مقدمہ کرنے کا ذکر کیا توحضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ’’ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ ‘‘
(سیرت حضرت مسیح موعود ؑ از شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ113۔114)
حضرت اقدس ؑ کو گالیاں دینے والوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب :
’’یہ الہام کہ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَر۔ اس وقت اس عاجز پر خدا تعالیٰ کی طرف سے القاء ہوا کہ جب ایک شخص نو مسلم سعد اللہ نام نے ایک نظم گالیوں سے بھری ہوئی اس عاجز کی طرف بھیجی تھی اور اس میں اس عاجز کی نسبت اس ہندو زادہ نے وہ الفاظ استعمال کئے تھے کہ جب تک ایک شخص درحقیقت شقی خبیث طینت۔ فاسد القلب نہ ہو۔ ایسے الفاظ استعمال نہیں کرسکتا….سو یہ الہام اس کے اشتہار اور رسالہ کے پڑھنے کے وقت ہوا کہ اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ سو اگر اس ہندو زادہ بد فطرت کی نسبت ایسا وقوع میں نہ آیا۔ اور وہ نامراد اور ذلیل اور رسوا نہ مَرا۔ تو سمجھو کہ یہ خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘
(انجام آتھم حاشیہ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ58۔59)
’’خدا تجھے دشمنوں کی شرارت سے آپ بچائے گا۔ گو لوگ نہ بچاویں۔ اور تیرا خدا قادر ہے۔ وہ عرش پر سے تیری تعریف کرتا ہے۔ یعنی جو گالیاں نکالتے ہیں ان کے مقابل پر خدا عرش پر تیری تعریف کرتا ہے۔ ہم تیری تعریف کرتے ہیں اور تیرے پر درود بھیجتے ہیں۔ اور جو ٹھٹھا کرنے والے ہیں ان کے لئے ہم اکیلے کافی ہیں۔ اور وہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ تو جھوٹا افترا ہے جو اس شخص نے کیا۔ ہم نے اپنے باپ دادوں سے ایسا نہیں سنا۔ یہ نادان نہیں جانتے کہ کسی کو کوئی مرتبہ دینا خدا پر مشکل نہیں۔ ہم نے انسانوں میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ پس اسی طرح اس شخص کو یہ مرتبہ عطا فرمایا تاکہ مومنوں کے لئے نشان ہو۔ ‘‘
( تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 62)
حضرت عیسیٰؑ کے بارے میں کوئی سخت الفاظ نہیں کہے
حضرت اقدس علیہ السلام پر حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کا الزام لگایا جاتا ہے۔ جو حیرت انگیز ہےآپ علیہ السلام کا دعویٰ تھا کہ آپ مثیل عیسیٰ ہیں پھر خود ہی ان کو برے الفاظ میں یاد کرنا غیر منطقی ٹھہرتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے پادریوں کو انہی کے اعتقادات دکھائے۔ اور وضاحت بھی فرمائی کہ ان کا روئے سخن اس فرضی یسوع کی طرف ہے جو عیسائیوں کے مسلّمہ صحیفوں سے نظر آتا ہے۔بائبل سے جومسیح کا نقشہ ابھرتا ہے وہی عیسائیوں کو دکھایا ہےحضرت اقدس علیہ السلام نے بار بار اس الزام کی تردید کی اور فرمایا:
’’ہم اس بات کے لئے بھی خداتعالیٰ کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک اور راستباز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لاویں۔سو ہماری کسی کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں ہے جو ان کی شانِ بزرگ کے برخلاف ہو۔ اور اگر کوئی ایساخیال کرے تو وہ دھوکا کھانے والا اور جھوٹا ہے۔‘‘
(ایام الصلح ٹائٹل پیج، صفحہ2 روحانی خزائن جلد نمبر14 صفحہ 228)
پھر فرماتے ہیں:
یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے……ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے۔ جس مولوی کی خواہش ہو وہ آ کر دیکھ لیوے۔‘‘
(اشتہار ناظرین کے لئے ضروری اطلاع20 دسمبر1895ء نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ 357)
رکتے نہیں ہیں ظالم گالی سے ایک دم بھی
اِن کا تو شغل و پیشہ صبح و مسا یہی ہے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریرات میں اگر سخت الفاظ آئے ہیں تو ان کا مخاطب چند دریدہ دہن مولوی تھے مثلاً محمد بخش جعفر زٹلی، شیخ محمد حسین بٹالوی، سعد اللہ لدھیانوی، عبدالحق امرتسری جو آپ ؑ کو نہایت فحش اور ننگی گالیاں دیتے تھے۔ ان کے علاوہ کچھ پادری تھے اور آریہ سماج سے تعلق رکھنے والے گستاخ تھے۔ اس کی تفصیل’’ کتاب البریہ ‘‘ اور ’’ کشف الغطاء ‘‘ میں موجود ہے۔ غیرت کا تقاضا تھا کہ الزامی جواب دے کر ان کا منہ بند کیا جاتا۔ دیگر مسلمان علماء کی بہت سی مثالیں ہیں جن میں بہت سخت زبان استعمال کی گئی ہے لیکن آپؑ نے وہ انداز اختیار کیا جو قرآن پاک کی تعلیم کے عین مطابق تھا۔ نیک نام علما کے لئے کبھی سخت الفاظ استعمال نہیں کئے
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے برملا فرمایا:
’’مخالفوں کے مقابل پر تحریری مباحثات میں کسی قدر میرے الفاظ میں سختی استعمال میں آئی تھی لیکن وہ ابتدائی طور پر سختی نہیں ہے۔ بلکہ وہ تمام تحریریں نہایت سخت حملوں کے جواب میں لکھی گئی ہیں مخالفوں کے الفاظ ایسے سخت اور دشنام دہی کے رنگ میں تھے۔ جن کے مقابل پر کسی قدر سختی مصلحت تھی…یہ بات بالکل سچ ہے کہ اگر سخت الفاظ کے مقابل پر دوسری قوم کی طرف سے کچھ سخت الفاظ استعمال نہ ہوں تو ممکن ہے اس قوم کے جاہلوں کا غیظ وغضب کوئی اور راہ اختیار کر لے۔ مظلوموں کے بخارات نکلنے کے لئے یہ ایک حکمت عملی ہے کہ وہ بھی مباحثات میں سخت حملوں کا سخت جواب دیں۔ ‘‘
(کتاب البریہ،روحانی خزائن جلد13 صفحہ11۔12)
جماعت کو نصائح
حضرت مسیح موعود ؑفرماتے ہیں کہ:
’’یہ مجھے گالیاں دیتے ہیں لیکن مَیں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا اور نہ ان پر افسوس کرتا ہوں کیونکہ وہ اس مقابلہ سے عاجز آ گئے ہیں اور اپنی عاجزی اور فرومائیگی کو بجز اس کے نہیں چھپا سکتے کہ گالیاں دیں۔کفر کے فتوے لگائیں۔ جھوٹے مقدمات بنائیں اور قسم قسم کے افترا اور بہتان لگائیں۔ وہ اپنی ساری طاقتوں کو کام میں لا کر میرا مقابلہ کر لیں اور دیکھ لیں کہ آخری فیصلہ کس کے حق میں ہوتا ہے۔ مَیں ان کی گالیوں کی اگر پرواہ کروں تو وہ اصل کام جو خدا تعالیٰ نے مجھے سپرد کیا ہے رہ جاتا ہے۔ اس لئے جہاں مَیں ان کی گالیوں کی پرواہ نہیں کرتا مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو مناسب ہے کہ ان کی گالیاں سن کر برداشت کریں اور ہرگز ہرگز گالی کا جواب گالی سے نہ دیں کیونکہ اس طرح پر برکت جاتی رہتی ہے۔ وہ صبر اور برداشت کا نمونہ ظاہر کریں اور اپنے اخلاق دکھائیں۔ یقیناً یاد رکھو کہ عقل اور جوش میں خطرناک دشمنی ہے۔ جب جوش اور غصہ آتا ہے تو عقل قائم نہیں رہ سکتی۔ لیکن جو صبر کرتا ہے اور بردباری کا نمونہ دکھاتا ہے اس کو ایک نور دیا جاتا ہے جس سے اس کی عقل و فکر کی قوتوں میں ایک نئی روشنی پیدا ہو جاتی ہے اور پھر نور سے نور پیدا ہوتا ہے۔ غصہ اور جوش کی حالت میں چونکہ دل و دماغ تاریک ہوتے ہیں اس لئے پھر تاریکی سے تاریکی پیدا ہوتی ہے۔‘‘
(ملفوظات جلد 3 صفحہ 180 ایڈیشن 1985ء)
’’دیکھو مَیں اس امر کے لئے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص بڑے جوش سے مخالفت کرتا ہے اور مخالفت میں وہ طریق اختیار کرتا ہے جو مفسدانہ طریق ہو جس سے سننے والوں میں اشتعال کی تحریک ہو۔ لیکن جب سامنے سے نرم جواب ملتا ہے اور گالیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاتا تو خود اسے شرم آ جاتی ہے اور وہ اپنی حرکت پر نادم اور پشیمان ہونے لگتا ہے۔مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کر لیتا ہے۔ یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب مَیں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہو کر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو مَیں ہرگز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے۔ بلکہ مَیں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہاں تک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہو کر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہےنہایت کار اشتعال اور جوش کی یہ وجہ ہو سکتی ہےکہ مجھے گندی گالیاں دی جاتی ہیں۔ تو اس معاملے کو خدا کے سپرد کر دو۔ تم اس کا فیصلہ نہیں کر سکتے۔ میرا معاملہ خدا پر چھوڑ دو۔ تم ان گالیوں کو سن کر بھی صبر اور برداشت سے کام لو۔ تمہیں کیا معلوم ہے کہ میں ان لوگوں سے کس قدر گالیاں سنتا ہوں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ گندی گالیوں سے بھرے ہوئے خطوط آتے ہیں اور کھلے کارڈوں میں گالیاں دی جاتی ہیں۔ بے رنگ خطوط آتے ہیں جن کا محصول بھی دینا پڑتا ہے اور پھر جب پڑھتے ہیں تو گالیوں کا طومار ہوتا ہے۔ ایسی فحش گالیاں ہوتی ہیں کہ مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ کسی پیغمبر کو بھی ایسی گالیاں نہیں دی گئی ہیں اور مَیں اعتبار نہیں کرتا کہ ابو جہل میں بھی ایسی گالیوں کا مادہ ہو۔ لیکن یہ سب کچھ سننا پڑتا ہے۔ جب مَیں صبر کرتا ہوں تو تمہارا فرض ہے کہ تم بھی صبر کرو۔ درخت سے بڑھ کر تو شاخ نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ کب تک گالیاں دیں گے۔ آخر یہی تھک کر رہ جائیں گے۔ ان کی گالیاں، ان کی شرارتیں اور منصوبے مجھے ہرگز نہیں تھکا سکتے۔ اگر مَیں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتا تو بیشک مَیں ان کی گالیوں سے ڈر جاتا۔ لیکن مَیں یقیناً جانتا ہوں کہ مجھے خدا نے مامور کیا ہے پھر میں ایسی خفیف باتوں کی کیا پروا کروں۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔ تم خود غور کرو کہ ان کی گالیوں نے کس کو نقصان پہنچایا ہے؟ ان کو یا مجھے؟ ان کی جماعت گھٹی ہے اور میری بڑھی ہے۔ اگر یہ گالیاں کوئی روک پیدا کر سکتی ہیں تودو لاکھ سے زیادہ جماعت کس طرح پیدا ہو گئی یہ لوگ ان میں سے ہی آئے ہیں یا کہیں اَور سے؟انہوں نے مجھ پر کفر کے فتوے لگائے لیکن اس فتویٔ کفر کی کیا تاثیر ہوئی؟ جماعت بڑھی اگریہ سلسلہ منصوبہ بازی سے چلایا گیا ہوتا تو ضرور تھا کہ اس فتویٰ کا اثر ہوتا۔اور میری راہ میں وہ فتویٰ کفر بڑی بھاری روک پیدا کر دیتا۔ لیکن جو بات خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو انسان کا مقدور نہیں ہے کہ اسے پامال کر سکے۔ جو کچھ منصوبے میرے مخالف کئے جاتے ہیں پہچان کرنے والوں کو حسرت ہی ہوتی ہے۔ مَیں کھول کر کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو میری مخالفت کرتے ہیں ایک عظیم الشان دریا کے سامنے جو اپنے پورے زور سے آ رہا ہے اپنا ہاتھ کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ اس سے رک جاوے۔ مگر اس کا نتیجہ ظاہر ہے کہ وہ رک نہیں سکتا۔ یہ ان گالیوں سے روکنا چاہتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ کبھی نہیں رکے گا۔ کیا شریف آدمیوں کا کام ہے کہ گالیاں دے۔ مَیں ان مسلمانوں پر افسوس کرتا ہوں کہ یہ کس قسم کے مسلمان ہیں جو ایسی بے باکی سے زبان کھولتے ہیں۔ مَیں اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ایسی گندی گالیاں میں نے تو کبھی کسی چوڑے چمار سے بھی نہیں سنی ہیں جو اِن مسلمان کہلانے والوں سے سنی ہیں۔ ان گالیوں میں یہ لوگ اپنی حالت کا اظہار کرتے ہیں اور اعتراف کرتے ہیں کہ وہ فاسق و فاجر ہیں۔ خدا تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے اور ان پر رحم کرے۔‘‘
(ملفوظات جلد 7 صفحہ 203-205 ایڈیشن 1985ء)
ایام قیام لاہور میں حضور کو بہت ہی مصروفیت رہا کرتی تھی۔ کیونکہ حضور کے لاہور پہنچتے ہی سارے شہر میں ہلچل مچ گئی اور ایک شور بپا ہو گیا۔ جس کی وجہ سے ہر قسم کے لوگ اس کثرت سے آتے رہتے تھے کہ خلق خدا کا تانتا بندھا رہتا اور رجوع کا یہ عالم تھا کہ باوجود مخالفانہ کوششوںاور سخت روکوں کے لوگ جوق در جوق لوہے کی طرح اِس مقناطیس کی طرف کھنچے چلے آتے۔ مولویوں کے فتووں کی پرواہ کرتے نہ ان کی دھمکیوں سے ڈرتے۔ اپنے بھی آتے اور بیگانے بھی۔ دوست بھی اور دشمن بھی۔ موافق بھی اور مخالف بھی۔ محبت سے بھی اور عداوت سے بھی۔ علماء بھی آتے اور امراء بھی۔ الغرض عوام اور خواص، عالم اور فاضل، گریجوایٹ اور فلاسفر، ہر طبقہ اور ہر رتبہ کے لوگ جمع ہوتے اپنے علم و مذاق کے مطابق سوالات کرتے اور جواب پاتے تھے۔اس اقبال اور رجوع خلق کو دیکھ کر مولوی لوگوں کے سینے پر سانپ لوٹنے لگے۔ وہ اس منظر کو برداشت نہ کر سکے اور آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے بالمقابل ایک اڈا قائم کیا جہاں ہر روز مخالفانہ تقریریں کرتے۔ گالی گلوچ اور سب و شتم کا بازار گرم رکھتے۔ افتراء پردازی اور بہتان طرازی کے ایسے شرمناک مظاہرے کرتے کہ انسانیت ان کی ایسی کرتوتوں پر سر پیٹتی اور اخلاق و شرافت کا جنازہ اٹھ جاتا۔ توہین و دل آزاری اتنی کرتے کہ قوت برداشت اس کی متحمل نہ ہو سکتی۔ مجبور ہو کر، تنگ آکر بعض دوستوں نے حضرت کے حضور اپنے درد کا اظہار کیا تو حضورؑ نے یہی نصیحت فرمائی کہ:
’’گالیاں سن کے دعا دو پا کے دکھ آرام دو ‘‘
صبر کرو اور ان کی گالیوں کی پرواہ نہ کیا کرو۔ برتن میں جو کچھ ہوتا ہے وہی نکلتا ہے۔ دراصل ان کو سمجھ نہیں کیونکہ اس طرح تو وہ آپ ہماری فتح اور اپنی شکست کا ثبوت بہم پہنچاتے ہماری صداقت اور اپنے بطلان پر مہر تصدیق لگاتے ہیں۔ منہ پھیر کر، کان لپیٹ کر نکل آیا کرو۔
کہتے ہیں ’’ صبر گرچہ تلخ است لٰکن بَرِشیریں دارد ‘‘
صبر کا اجر ہے حضور پرنور کی یہ نصیحت کارگر ہوئی۔ غلاموں نے کانوں میں روئی ڈال کر، کلیجوں پر پتھر باندھ کر یہ سب و شتم سنا اور برداشت کیا۔ اف تک نہ کی اور اپنے آقا نامدار کی تعلیم پر ایسی طرح عمل کر کے دکھایا کہ جس کی مثال قرونِ اولیٰ کے سوا بہت ہی کم دنیا میں پائی جاتی ہے۔ چنانچہ اس کے خوش کن نتائج اور ثمرات شیریں بھی ملنے شروع ہو گئے اور باوجود مخالفوں کی مخالفت کے علیٰ رغم انف، سلیم الطبع اور شریف المزاج انسانوں نے اس زمانہ میں اس کثرت سے بیعت کی کہ ہمارے اخبارات ان اسماء کی اشاعت کی گنجائش نہ پا سکے اور اعلان کیا کہ ’’ بقدر گنجائش اِنْ شَاءَ اللّٰہُ بتدریج اسماء بیعت کندگان شائع کئے جاتے رہیں گے۔‘‘
(سیرت المہدی حصہ دوم صفحہ388۔389)
(امة الباری ناصر۔امریکہ)