• 28 اپریل, 2024

آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ دیکھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
…پھر ایک روایت ہے حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ؐ نے فرمایا جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ رفع کرے گا یعنی اس کو ایک درجہ بلند کرے گا۔ جس نے عاجزی اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کو بلند کرے گا یہاں تک کہ اسے علییّن میں جگہ دے گا۔ بہت اونچے مقام پر لے جائے گا اور جس نے اللہ کے مقابل پر ایک درجہ تکبّر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ نیچے گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کر دے گا (مسند احمد بن حنبل باقی مسند المکثرین من الصحابۃ جلد ۳ صفحہ ۷۶)۔ یعنی انتہائی نچلے درجے پر جہنم کے بھی نچلے درجے میں لے جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کواسفل السافلین میں گرنے سے بچائے۔

حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ آنحضورؐ نے فرمایا ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے۔ ایک زنجیر ساتویں آسمان تک جاتی ہے اور دوسری زنجیر ساتویں زمین تک جاتی ہے۔ جب انسان تواضع یا عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں آسمان تک لے جاتا ہے اور جب وہ تکبّر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں زمین تک لے جاتا ہے۔ انتہائی نیچے گرا دیتا ہے۔

(کنزالعمال حدیث ۵۷۴۵)

پھر ایک روایت میں آتا ہے آنحضرتﷺ نے فرمایا جس نے دنیا میں اپنا سر بلند کیا اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن کاٹ دے گا۔ اور جس نے خدا کی خاطر دنیا میں تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی طرف ایک فرشتہ بھجوائے گا جو اسے مجمعے میں سے اپنی طرف کھینچ لے گااور کہے گا کہ اے صالح بندے اللہ تعالیٰ کہتا ہے میری طرف آ، میری طرف آ، کیونکہ تو ان لوگوں میں سے ہے جن کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

(کنزالعمال ۵۷۴۶)

حضرت عا ئشہؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرتﷺ نے مجھے فرمایا کہ اے عائشہ اے عائشہ !عاجزی اختیار کر کیونکہ اللہ تعالیٰ عاجزی اختیار کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ اور تکبّر کرنے والوں سے نفرت کرتا ہے۔

(کنزالعمال۵۷۳۴)

اب حضرت عائشہؓ کو حالانکہ ان کا بھی ایک مقام تھا اور بڑی عاجزی تھی ان میں بھی۔ آپؐ نصیحت فرمارہے ہیں کہیں ہلکی سی کوئی چیز دیکھی ہو شائد۔ تو آج کل اگر کسی کو نصیحت کرو تو وہ کہتا ہے کیا ہم تو بڑے عاجز ہیں۔ کیاتم دیکھتے نہیں ہم میں عاجزی۔

پھر حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ تواضع انسان کو صرف بلندی میں ہی بڑھاتی ہے۔ پس تواضع اختیار کرو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں رفعتیں عطا کرے گا۔

(کنزالعمال حدیث نمبر ۵۷۴۰)

پھر آپﷺ نے فرمایا کہ جس نے عاجزی اور انکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ ایمان کی پوشاکوں میں سے جو پوشاک چاہے پہن لے۔

(ترمذی کتاب الصفۃ القیامۃ باب ما جاء فی صفۃ اوانی الحوض)

اب صرف اس سے یہی مراد نہیں۔ اصل میں تو نیّت مراد ہے۔ اب دیکھیں کہ آج کل بھی شادی بیاہوں میں صرف ایک دو دفعہ پہننے کے لئے دلہن کے لئے یا دولہا کے لئے بھی اور رشتہ داروں کے لئے بھی کتنے مہنگے جوڑے بنوائے جاتے ہیں جو ہزاروں میں بلکہ لاکھوں میں چلے جاتے ہیں، صرف دکھانے کے لئے کہ ہمارے جہیز میں اتنے مہنگے مہنگے جوڑے ہیں یا اتنے قیمتی جوڑے ہیں یا ہم نے اتنا قیمتی جو ڑا پہنا ہو اہے۔ صرف فخر اور دکھاوا ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلے تو یہ ہوتا تھاپرانے زمانے میں کہ قیمتی جوڑا ہے تو آئندہ وہ کام بھی آجاتا تھا۔ کام سچا ہوتا تھا اچھا ہوتا تھا پھر اب تو وہ بھی نہیں رہا کہ جو اگلی نسلوں میں یااگلے بچوں کے کام میں آجائیں ایسے کپڑے۔ یونہی ضائع ہو جاتے ہیں، ضائع ہو رہے ہوتے ہیں۔ پھر فیشن کے پیچھے چل کر دکھاوے اور فخر کے اظہار کی رو میں بہہ کر قرآن کریم کے اس حکم کی بھی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں کہ اپنی زینتوں کو چھپاؤ۔ فیشن میں بس ایسے ایسے عریاں قسم کے لباس سل رہے ہوتے ہیں کسی کو کوئی خیال ہی نہیں ہوتا۔ تو احمدی بچوں اور احمدی خواتین کو ایسے لباسوں سے جن سے ننگ ظاہر ہوتا ہو پرہیز کرنا چاہئے۔ اور پھر فخر کے لئے لباس پہنیں گے تو دوسری برائیاں بھی جنم لیں گی۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی بچی ہر احمدی عورت کو ایمان کی پوشاک ہی پہنائے اور دنیاوی لباس جو دکھاوے کے لباس ہیں ان سے بچائے رکھے۔ اسی طرح مرد بھی اگر دکھاوے کے طور پر کپڑے پہنتے ہیں، لباس پہن رہے ہیں تو وہ بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔ صاف ستھرا اچھا لباس پہننا منع نہیں۔ اس سوچ کے ساتھ یہ لباس پہننا منع ہے کہ اس میں فخر کا اظہار ہوتا ہو، دکھاوا ہوتا ہو۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا تواضع میں یہ بات بھی شامل ہے کہ انسان اپنے بھائی کا جوٹھا پی لے۔ اور جس نے اپنے بھائی کا جوٹھا پی لیا اللہ تعالیٰ اس کے ستّر درجے بڑھائے گا۔ اس کے ستّر گناہ معاف کردے گا اور اس کے لئے ستّر نیکیاں لکھی جائیں گی۔

(کنزالعمال۵۷۴۸)

بعض لوگ اس لئے کراہت کرتے ہیں کہ جوٹھا ہے یا فلاں میرے ہم پلہ نہیں۔ اس لئے اس کا جوٹھا نہیں پینا، دوسرے کا پی لینا ہے۔ اس میں بھی ایک قسم کا تکبّر ہے۔ اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی ہے ہمارے ایک بزرگ تھے ان کے بچے نے آکر شکایت کی کہ ابّا !فلاں بھائی نے یا بہن نے میرا پانی پی کر جوٹھا کر دیا ہے۔ تو انہوں نے کہا بچے ایسی باتیں نہیں کیا کرتے۔ اور اسی پانی کو پی لیا دیکھو اس کا جوٹھا میں نے پی لیا۔ جوٹھا کوئی نہیں ہوتا۔ تو بچے نے اور رونا شروع کردیا کہ اب آپ نے بھی جوٹھا کر دیا۔ تو بہرحال یہ جوٹھ کوئی نہیں ہوتا۔ سوائے اس کے کہ کوئی بیماری ہو اور چھوت لگنے والی ہو اس میں احتیاط ضروری ہے۔ پھر ایک دفعہ کسی نے آنحضرتﷺ کو یاخَیْرُ الْبَرِیَّہ کہہ دیا (یعنی اے مخلوق کے بہترین وجود) تو آپ ؐ نے فرمایا وہ تو ابراہیم علیہ السلام تھے۔ عاجزی کی انتہا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۸)

پھر ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک شخص نے آکر آنحضرتﷺ کو مخاطب کر کے فرمایا۔ اے محمدﷺ۔ ہم میں سے سب سے بہترین اور اے ہم میں سے سب سے بہترین لوگوں کی اولاد۔ اے ہمارے سردار اور اے ہمارے سرداروں کی اولاد۔ آپ ؐ نے سنا تو فرمایا۔ کہ دیکھو! تم اپنی اصلی بات کہو اور کہیں شیطان تمہاری پناہ نہ لے۔ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ کا رسول ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ تم لوگ میرا مقام اس سے بڑھا چڑھا کر بتاؤ جو اللہ نے مقرر فرمایا ہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد نمبر ۳ صفحہ ۳۴۹ مطبوعہ مصر)

آج کل یہاں کسی کی تعریف کردیں تو پھولے نہیں سماتا بلکہ فخر ہو رہا ہوتا ہے چاہے وہ اس مقام کا ہو بھی یا نہ۔ اور آنحضرتﷺ کا اسوۂ حسنہ دیکھیں۔ ایک دفعہ حضور اکرمﷺ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ کہ تم میں سے کسی کو اس کے اعمال جنّت میں لے کر نہیں جائیں گے۔ صحابہ ؓ نے تعجب سے عرض کیا۔ یارسول اللہ !کیا آپ کے عمل بھی؟۔ توآپ نے فرمایا ہاں۔ مجھے بھی اگر خدا کی رحمت اور فضل ڈھانپ نہ لیں تو میں بھی جنّت میں نہیں جاسکتا۔

(مسلم کتاب صفات المنافقین واحکامھم باب لن یدخل احد الجنۃ بعملہ)

اب دیکھیں عاجزی کی کتنی انتہا ہے حالانکہ کائنات کو آپ کی خاطر پیدا کیا گیا۔ اور آپ کی عاجزی اس حدتک ہے اس انتہا تک ہے۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء)

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

آج کی دعا

اگلا پڑھیں

اتمامِ حجّت