• 14 مئی, 2025

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 23)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 23

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

خدا تعالیٰ سے زیادہ پیار اور رحم اور محبت کرنی کوئی نہیں جانتا۔ لیکن اخلاص ضروری ہے۔ کوئی دل سے اس کا ہو۔ پھر دیکھے کہ آیا مخلص کی دست گیری اور کفالت اس کی خُوبی ہے کہ نہیں۔ لیکن جو اُسے آزماتا ہے وہ خود آزمایا جاتا ہے۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک شخص آیا اور اسلام لایا۔ بعد ازاں اندھا ہو گیا اور کہنے لگا کہ اسلام قبول کرنے سے یہ آفت مجھ پر آئی ہے۔ اس لئے کافر ہوگیا۔ آنحضرت صلے اللہ علیہ و سلم نے اُسے بہت سمجھایا لیکن نہ مانا۔ حالانکہ اگر وہ مسلمان رہتا تو خدا تعالیٰ تو اس امر پر قادر تھا کہ اسے دوبارہ بینائی بخش دیتا لیکن کافر ہو کر دنیا سے تو اندھا تھا دین سے بھی اندھا بن گیا۔ مجھے فکر ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کو آزماتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ وہ خود آزمائے جاویں۔ پیغمبر خدا صلے اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں کہ جو مجھ پر ایمان لاوے، اول وہ مصائب کے لئے تیار رہے مگر یہ سب کچھ اوائل میں ہوتا ہے۔ اگر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر فضل کر دیتا ہے کیونکہ مومن کے لئے دو حالتیں ہیں۔ اوّل تو یہ کہ جب ایمان لاتا ہے تو مصائب کا ایک دوزخ اس کے لئے تیار کیا جاتا ہے جس میں اُسے کچھ عرصہ رہنا پڑتا ہے اور اس کے صبر اور استقلال کا امتحان کیا جاتا ہے اور جب وہ اس میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو دوسری حالت یہ ہے کہ اس دوذخ کو جنّت سے بدل دیا جاتا ہے۔ جیسے کہ بخاری میں حدیث ہے کہ مومن بذریعہ نوافل کے اللہ تعالیٰ سے یہاں تک قُرب حاصل کرتا ہے کہ وہ اس کی آنکھ ہوجاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔ اور کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سُنتا ہے۔ اور ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتا ہے۔ اور ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے اور ایسے لوگوں کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیّاً فَاٰذَنْتُ لَہُ لِلْحَرْبِ۔ کہ جو شخص میرے ولی کی عداوت کرتا ہے وہ جنگ کے لئے تیار ہو جاوے۔ اس قدر غیرت خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کے لئے ہوتی ہے۔ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے کہ مجھے کسی شئے میں اس قدر تردد نہیں ہوتا جس قدر کہ مومن کی جان لینے میں ہوتا ہے اور اسی لئے وہ کئی دفعہ بیمار ہوتا ہے اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی جان لینا چاہتا ہے مگر پھر اسے مہلت دے دیتا ہے کہ اور کچھ عرصہ دنیا میں رہ لیوے۔

اس جماعت کو تیار کرنے سے غرض یہی ہے کہ زبان، کان، آنکھ اور ہر ایک عضو میں تقویٰ سرایت کر جاوے۔ تقویٰ کا نور اس کے اندر اور باہر ہو۔ اخلاق حسنہ کا اعلیٰ نمونہ ہو۔ اور بیجا غصّہ اور غضب وغیرہ بالکل نہ ہو۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ جماعت کے اکثر لوگوں میں غصہ کا نقص اب تک موجود ہے تھوڑی تھوڑی سی بات پر کینہ اور بُغض پیدا ہو جاتا ہے۔ اور آپس میں لڑ جھگڑ پڑتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا جماعت میں سے کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ اور مَیں نہیں سمجھ سکتا کہ اس میں کیا دقّت پیش آتی ہے کہ اگر کوئی گالی دے تو دوسرا چُپ کر رہے اور اس کا جواب نہ دے۔ ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیئے کہ ابتداء میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے دردِ دل سے دُعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح کر دیوے۔ اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔ جیسے دنیا کے قانون ہیں ویسے خدا کا بھی قانون ہے۔ جب دنیا اپنے قانون کو نہیں چھوڑتی تو اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو کیسے چھوڑے۔ پس جب تک تبدیلی نہ ہوگی تب تک تمہاری قدر اس کے نزدیک کچھ نہیں۔ خدا تعالیٰ ہرگز پسند نہیں کرتا کہ حلم اور صبر اور عفو جو کہ عمدہ صفات ہیں ان کی جگہ درندگی ہو۔ اگر تم ان صفات حسنہ میں ترقی کرو گے تو بہت جلد خدا تک پہنچ جاؤ گے۔ لیکن مجھے افسوس ہے کہ جماعت کا ایک حصّہ ابھی تک ان اخلاق میں کمزور ہے۔ ان باتوں سے صرف شماتت اعداء ہی نہیں ہے بلکہ ایسے لوگ خود بھی قرب کے مقام سے گرائے جاتے ہیں۔

یہ سچ ہے کہ سب انسان ایک مزاج کے نہیں ہوتے۔ اسی لئے قرآن شریف میں آیا ہے۔ کُلٌّ یَّعۡمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ (بنی اسرائیل: 85)۔ بعض آدمی ایک قسم کے اخلاق میں اگر عمدہ ہیں تو دوسری قسم میں کمزور۔ اگر ایک خُلق کا رنگ اچھا ہے تو دوسرے کا بُرا۔ لیکن تاہم اس سے یہ لازم نہیں آتا۔ کہ اصلاح نا ممکن ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ126۔ 128، 1984ء مطبوعہ لندن)

سچ یہ ہے کہ یہ مقام انسان کی اپنی قوت سے نہیں مِل سکتا۔ ہاں اس میں کلام نہیں کہ انسان کا فرض ہے کہ وہ مجاہدات کرے لیکن اس مقام کے حصول کا اصل اور سچا ذریعہ دُعا ہے۔ انسان کمزور ہے۔ جب تک دُعا سے قوت اور تائید نہیں پاتا۔ اس دشوار گزار منزل کو طے نہیں کر سکتا۔ خود اللہ تعالیٰ انسان کی کمزوری اور اس کے ضعفِ حال کے متعلق ارشاد فرماتا ہے

خُلِقَ الۡاِنۡسَانُ ضَعِیۡفًا

یعنی انسان ضعیف اور کمزور بنایا گیا ہے۔ پھر باوجود اس کی کمزوری کے اپنی ہی طاقت سے ایسے عالی درجہ اور ارفع مقام کے حاصل کرنے کا دعویٰ کرنا سراسر خام خیالی ہے۔ اس کے لئے دعا کی بہت بڑی ضرورت ہے۔ دعا ایک زبردست طاقت ہے جس سے بڑے بڑے مشکل مقام حل ہو جاتے ہیں اور دشوار گزار منزلوں کو انسان بڑی آسانی سے طَے کر لیتا ہے کیونکہ دعا اس فیض اور قوت کو جذب کرنے والی نالی ہے جو اللہ تعالیٰ سے آتا ہے۔ جو شخص کثرت سے دعاؤں میں لگا رہتا ہے وہ آخر اس فیض کو کھینچ لیتا ہے اور خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو کر اپنے مقاصد کو پا لیتا ہے۔ ہاں نری دُعا خدا تعالیٰ کا منشا نہیں ہے بلکہ اول تمام مساعی اور مجاہدات کو کام میں لائے۔ اور اس کے ساتھ دُعا سے کام لے۔ اسباب سے کام لے۔ اسباب سے کام نہ لینا اور نری دُعا سے کام لینا یہ آداب الدعا سے ناواقفی ہے اور خدا تعالیٰ کو آزمانا ہے اور نرے اسباب پر گِر رہنا اور دُعا کو لاشئی محض سمجھنا یہ دہریت ہے۔ یقیناً سمجھو کہ دعا بڑی دولت ہے۔ جو شخص دُعا کو نہیں چھوڑتا۔ اس کے دین اور دُنیا پر آفت نہ آئیگی۔ وہ ایک ایسے قلعے میں محفوظ ہے جس کے اِرد گرد مسلح سپاہی ہر وقت حفاظت کرتے ہیں۔ لیکن جو دعاؤں سے لاپروا ہے وہ اس شخص کی طرح ہے جو خود بے ہتھیار ہے اور اس پر کمزور بھی ہے اور پھر ایسے جنگل میں ہے جو درندوں اور مُوذی جانوروں سے بھرا ہؤا ہے۔ وہ سمجھ سکتا ہے کہ اسکی خیر ہرگز نہیں ہے۔ ایک لمحہ میں وہ مُوذی جانوروں کا شکار ہو جائے گا اور اس کی ہڈی بوٹی نظر نہ آئے گی۔ اس لئے یاد رکھو کہ انسان کی بڑی سعادت اور اس کی حفاظت کا اصل ذریعہ ہی یہی دُعا ہے۔ یہی دعا اس کے لئے پناہ ہے۔ اگر وہ ہر وقت اس میں لگا رہے۔

یہ بھی یقیناً سمجھو کہ یہ ہتھیار اور نعمت صرف اسلام ہی میں دی گئی ہے۔ دوسرے مذاہب اس عطیہ سے محروم ہیں۔ آریہ لوگ بھلا کیوں دعا کریں گے جبکہ اُن کا یہ اعتقاد ہے کہ تناسخ کے چکر میں سے ہم نِکل ہی نہیں سکتے ہیں اور کسی گناہ کی معافی کی کوئی امید ہی نہیں ہے۔ ان کو دعا کی کیا حاجت اور کیا ضرورت اور اس سے کیا فائدہ؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آریہ مذہب میں دعا ایک بے فائدہ چیز ہے اور پھر عیسائی دعا کیوں کریں گے جبکہ وہ جانتے ہیں کہ دوبارہ کوئی گناہ بخشا نہیں جائے گا کیونکہ مسیح دوبارہ تو مصلوب ہو ہی نہیں سکتا۔ پس یہ خاص اکرام اسلام کے لئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ امت مرحومہ ہے۔ لیکن اگر آپ ہی اس فضل سے محروم ہو جاویں اور خود ہی اس دروازہ کو بند کر دیں تو پھر کس کا گناہ ہے۔ جب ایک حیات بخش چشمہ موجود ہے اور ہر وقت اس میں سے پانی پی سکتا ہے۔ پھر اگر کوئی اس سے سیراب نہیں ہوتا ہے تو خود طالب موت اور تشنہ ہلاکت ہے۔ اس صورت میں تو چاہیئے کہ اس پر منہ رکھ دے اور خوب سیراب ہو کر پانی پی لیوے۔ یہ میری نصیحت ہے جس کو میں ساری نصائح قرآنی کا مغز سمجھتا ہوں۔ قرآن شریف کے 30 سپارے ہیں اور وہ سب کے سب نصائح سے لبریز ہیں۔ لیکن ہر شخص نہیں جانتا کہ ان میں سے وہ نصیحت کونسی ہے جس پر اگر مضبوط ہو جاویں اور اس پر پُورا عملدرآمد کریں تو قرآن کریم کے سارے احکام پر چلنے اور ساری منہیات سے بچنے کی توفیق مل جاتی ہے۔ مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ وہ کلید اور قوت دُعا ہے۔ دُعا کو مضبوطی سے پکڑ لو۔ میں یقین رکھتا ہوں اور اپنے تجربہ سے کہتا ہوں کہ پھر اللہ تعالیٰ ساری مشکلات کو آسان کر دے گا لیکن مشکل یہ ہے کہ لوگ دُعا کی حقیقت سے ناواقف ہیں۔ اور وہ نہیں سمجھتے کہ دعا کیا چیز ہے۔ دعا یہی نہیں ہے کہ چند لفظ منہ سے بڑبڑا لئے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں۔ دعا اور دعوت کے معنی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی مدد کے لئے پکارنا۔ اور اس کا کمال اور مؤثر ہونا اس وقت ہوتا ہے۔ جب انسان کمال اور دردِ دل اور قلق اور سوز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف رجُوع کرے اور اس کو پکارے ایسا کہ اس کی روح پانی کی طرح گداز ہو کر آستانہء الُوہیت کی طرف بہہ نِکلے یا جس طرح پر کوئی مصیبت میں مبتلا ہوتا ہے اور وہ دوسرے لوگوں کو اپنی مدد کے لئے پکارتا ہے تو دیکھتے ہو کہ اس کی پکار میں کیسا انقلاب اور تغیر ہوتا ہے۔ اس کی آواز ہی میں وہ درد بھرا ہوا ہوتا ہے جو دوسروں کے رحم کو جذب کرتا ہے۔ اسی طرح وہ دُعا جو اللہ تعالیٰ سے کی جاوے۔ اس کی آواز، اس کا لب و لہجہ بھی اور ہی ہوتا ہے۔ اس میں وہ رقّت اور درد ہوتا ہے جو الُوہیت کے چشمہ رحم کو جوش میں لاتا ہے اس دعا کے وقت آواز ایسی ہو کہ سارے اعضاء اس سے متاثر ہو جاویں اور زبان میں خشوع خضوع ہو۔ دل میں درد اور رقّت ہو۔ اعضاء میں انکسار اور رجُوع الی ﷲ ہو۔ اور پھر سب سے بڑھ کر اﷲ تعالیٰ کے رحم و کرم پر کامل ایمان اور پوری امید ہو۔ اس کی قدرتوں پر ایمان ہو۔ ایسی حالت میں جب آستانہء الُوہیت پر گرے گا۔ نامراد واپس نہ ہوگا۔ چاہیئے کہ اس حالت میں بار بار حضور الٰہی میں عرض کرے کہ میں گنہگار اور کمزور ہوں۔ تیری دستگیری اور فضل کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ تو آپ رحم فرما اور مجھے گناہوں سے پاک کر۔ کیونکہ تیرے فضل و کرم کے سوا کوئی اَور نہیں ہے جو مجھے پاک کرے۔ جب اس قسم کی دعا میں مداومت کرے گا اور استقلال اور صبر کےساتھ اﷲ تعالیٰ کے فضل اور تائید کا طالب رہے گا تو کسی نامعلوم وقت پر ﷲ تعالیٰ کی طرف سے ایک نُور اور سکینت اس کے دل پر نازل ہوگی جو دل سے گناہ کی تاریکی دور کر دیگی۔ اور غیب سے ایک قوت عطا ہوگی جو گناہ سے بیزاری پیدا کر دے گی اور وہ اُن سے بچے گا۔ اس حالت میں دیکھے گا کہ میرا دل جذبات اور نفسانی خواہشوں کا ایسا اسیر اور گرفتار تھا کہ گویا ہزاروں ہزار زنجیروں میں جکڑا ہوا تھا جو بے اختیار اُسے کھینچ کر گناہ کی طرف لیجاتے تھے اور یا یک دفعہ وہ سب زنجیر کٹ گئے ہیں اور آزاد ہو گیا ہے اور جیسےپہلی حالت میں وہ محسوس اور مشاہدہ کرے گا کہ وہی رغبت اور رجُوع اﷲ تعالیٰ کی طرف ہے۔ گناہ سے محبت کی بجائے نفرت اور اﷲ تعالیٰ سے وحشت اور نفرت کی بجائے محبت اور کشش پیدا ہوگی۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ192۔ 195، 1984ء مطبوعہ لندن)

نفس کے ہم پر حقوق

اب واضح رہے کہ جس حال میں وہ بلائیں جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں۔ اور جن کا نتیجہ جہنّمی زندگی اور عذاب الٰہی ہے ان بلائوں سے جو ترقی درجات کے طور پر اخیار و ابرار کو آتی ہیں الگ ہیں۔ کیا کوئی ایسی صورت بھی ہے جو انسان اس عذاب سے نجات پاوے۔ اس عذاب اور دُکھ سے رہائی کی بجُز اس کے کوئی تجویز اور علاج نہیں ہے کہ انسان سچے دل سے توبہ کرے۔ جب تک سچّی توبہ نہیں کرتا، یہ بلائیں جو عذاب الٰہی کے رنگ میں آتی ہیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑ سکتی ہیں کیونکہ اﷲ تعالیٰ اپنے قانون کو نہیں بدلتا جو اس بارے میں اس نے مقرر فرما دیا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) یعنی جب تک کوئی قوم اپنی حالت میں تبدیلی پیدا نہیں کرتی۔ اﷲ تعالیٰ بھی اس کی حالت نہیں بدلتا۔

خدا تعالیٰ ایک تبدیلی چاہتا ہے اور وہ پاکیزہ تبدیلی ہے۔ جب تک وہ تبدیلی نہ ہو عذاب الٰہی سے رستگاری اور مخلصی نہیں ملتی۔ یہ خدا تعالیٰ کا ایک قانون اور سنت ہے اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہوتی کیونکہ خود اللہ تعالیٰ نے ہی یہ فیصلہ کر دیا ہے۔ وَ لَنۡ تَجِدَ لِسُنَّۃِ اللّٰہِ تَبۡدِیۡلًا (الاحزاب: 63) سنت ﷲ میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ پس جو شخص چاہتا ہے کہ آسمان میں اس کیلئے تبدیلی ہو یعنی وہ ان عذابوں اور دکھوں سے رہائی پائے جو شامت اعمال نے اس کے لئے تیار کئے ہیں۔ اس کا پہلا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے اندر تبدیلی کرے۔ جب وہ خود تبدیلی کر لیتا ہے تو ﷲ تعالیٰ اپنے وعدہ کے موافق جو اس نے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ (الرعد: 12) میں کیا ہے۔ اس کے عذاب اور دُکھ کو بدلا دیتا ہے اور دُکھ کو سُکھ سے تبدیل کر دیتا ہے۔ جب انسان کے اندر تبدیلی کرتا ہے تو اس کے لئے ضرور نہیں ہے کہ وہ لوگوں کو بھی دکھاتا پھرے۔ وہ رحیم کریم خدا جو دلوں کا مالک ہے اس کی تبدیلی کو دیکھ لیتا ہے کہ یہ پہلا انسان نہیں ہے اس لئے وہ اس پر فضل کرتا ہے۔ تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ ایک شخص نماز، روزہ اور دوسرے اشغال اذکار سے ریا کرتا تھا تاکہ لوگ اُسے ولی سمجھیں۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام لوگ اُسے ریاکار سمجھتے تھے۔ یہاںتک کہ بچّے بھی جس راستہ سے وہ گزرتا تھا اس کو ریاکار اور فریبی کہا کرتے تھے۔ ایک وقت تک اس کی حالت ایسی ہی رہی۔ آخر اُس نے سوچا کہ اس طریق سے کوئی فائدہ تو نہیں ہوا بلکہ حالت بدتر ہی ہوئی ہے اس لئے اس کو چھوڑ دینا چاہیئے۔ پس اس نے چھوڑ دیا اور ملامتی فرقہ کا سا طریق اختیار کر لیا۔ مسلمانوں میں ملامتی ایک فرقہ ہے جو اپنی نیکیوں کو چھپاتا ہے اور بدیوں کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ انہیں بُرا کہیں۔ اسی طرح پر وہ اپنی نیکیوں کو چھپانے لگا اور اندر ہی اندر اﷲ تعالیٰ سے سچّی محبت کرنے لگا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لکھا ہے کہ جس کوچہ سے گزرتا عام لوگ اور بچّے بھی اُسے کہتے کہ بڑا نیک ہے۔ ولی ہے۔ بزرگ ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے محبّت کرنا مُشک اور عطر کی طرح ہے جو کسی طرح سے چُھپ نہیں سکتا۔ یہی تاثیریں ہیں سچّی توبہ میں۔ جب انسان سچے دل سے توبہ کرتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اس کے پہلے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔ پھر اُسے نیک اعمال کی توفیق ملتی ہے۔ اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ خدا اس کے دوستوں کا دوست اور اس کے دشمنوں کا دشمن ہو جاتا ہے اور وہ تقدیر جو شامتِ اعمال سے اس کے لئے مقرر ہوئی ہے وہ دُور کی جاتی ہے۔ اس امر کے دلائل بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ انسان اپنی اس مختصر زندگی میں بلاؤں سے محفوظ رہنے کا کس قدر محتاج ہے اور چاہتا ہے کہ ان بلاؤں اور وباؤں سے محفوظ رہے جو شامتِ اعمال کی وجہ سے آتی ہیں اور یہ ساری باتیں سچی توبہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ پس توبہ کے فوائد میں سے ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اس کا حافظ و نگران ہو جاتا ہے اور ساری بلاؤں کو خدا دُور کر دیتا ہے اور اُن منصوبوں سے جو دشمن اس کے لئے تیار کرتے ہیں اُن سے محفوظ رکھتا ہے اور اس کا یہ فضل اور برکت کسی سے خاص نہیں بلکہ جس قدر بندے ہیں خدا تعالیٰ کے ہی ہیں۔ اس لئے ہر ایک شخص جو اُس کی طرف آتا ہے اور اس کے احکام اور اوامر کی پیروی کرتا ہے وہ بھی ویسا ہی ہوگا جیسے پہلا شخص توبہ کر چکا ہے۔ وہ ہر ایک سچّی توبہ کرنے والے کو بَلاؤں سے محفوظ رکھتا ہے اور اس سے محبت کرتا ہے۔ پس یہ توبہ جو آج اس وقت کی گئی ہے یہ مبارک اور عید کا دن ہے اور یہ عید ایسی عید ہے جو کبھی میسّر نہیں آئی ہوگی۔ ایسا نہ ہو کہ تھوڑے سے خیال سے ماتم کا دن بنا دو۔ عید کے دن اگر ماتم ہو تو کیسا غم ہوتا ہے کہ دوسرے خوش ہوں اور اس کے گھر ماتم ہو۔ موت تو سب کو نا گوار معلوم ہوتی ہے۔ لیکن جس کے گھر عید کے دن موت ہو وہ کِس قدر ناخوشگوار ہوگی۔

قاعدہ کی بات ہے کہ جب انسان ایک نعمت کی قدر نہیں کرتا وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ دیکھو جن چیزوں کی تم قدرکرتے ہو اُن کو صندوقوں میں بڑی حفاظت سے رکھتے ہو۔ اگر ایسا نہ کرو تو وہ ضائع ہو جاتی ہے۔ اسی طرح اس مال کا جو ایمان کا مال ہے چورشیطان ہے۔ اگر اس کو بچا کر دل کے صندوقوں میں احتیاط سے نہ رکھو گے تو چور آئے گا اور لے جائے گا۔ یہ چور بہت ہی خطرناک ہے۔ دوسرے چور جو اندھیری راتوں میں آکر نقب لگاتے ہیں وہ اکثر پکڑے جاتے ہیں اور سزا پاتے ہیں۔ لیکن یہ چور ایسا ہے کہ اس کی عمر نہیں ہے اور ابھی پکڑا نہ جائے گا۔ یہ اس وقت آتا ہے جب گُناہ کی تاریکی پھیل جاتی ہے کیونکہ چور اور روشنی میں دشمنی ہے۔ جب انسان اپنا مُنہ خدا کی طرف رکھتا ہے اور اسی کی طرف رجُوع اور توجہ کرتا ہے تو وہ روشنی میں ہوتا ہے۔ اور شیطان کو کوئی موقعہ اپنی دستبرد کا نہیں ملتا۔

پس کوشِش کرو کہ تمہارے ہاتھوں میں ہمیشہ روشنی رہے۔ اگر غفلت بڑھ گئی تو یہ چور آئے گا اور سارا اندوختہ لے جائے گا اور برباد ہو جاؤ گے۔ اس لئے اس اندوختہ کو احتیاط اور اپنی راستبازی اور تقویٰ کے ہتھیاروں سے محفوظ رکھو۔ یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ اس کے ضائع ہونے سے کچھ حرج نہ ہو بلکہ اگر یہ اندوختہ جاتا رہا تو ہلاکت ہے اور ہمیشہ کی زندگی سے محروم ہو جاؤ گے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ153۔ 156، 1984ء مطبوعہ لندن)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

کسِ و کہا جاوے کہ تم پیچھے ہٹو۔ جو آتا ہے اخلاص اور محبت لے کر آتا ہے۔ سینکڑوں کوس کے سفر کر کے یہ لوگ آتے ہیں۔ صرف اس لئے کہ کوئی دم صحبت حاصل ہو اور انہیں کی خاطر خدا تعالیٰ نے سفارش کی ہے اور فرمایا ہے۔ وَلَا تُصَعِّرْ لِخَلْقِ اللّٰہِ وَ لَا تَسْئَمْ مِّنَ النَّاسِ۔ یہ صرف غریبوں کے حق میں ہے کہ جن کے کپڑے میلے ہوتے ہیں اور ان کو چنداں علم بھی نہیں ہوتا۔ خدا تعالیٰ کا فضل ہی ان کی دستگیری کرتا ہے۔ کیونکہ امیر لوگ تو عام مجلسوں میں خود ہی پوچھے جاتے ہیں اور ہر ایک اُن سے با اخلاق پیش آتا ہے۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے غریبوں کی سفارش کی ہے جو بیچارے گمنام زندگی بسر کرتے ہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ91 ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

ہر ایک سے نیک سلوک کرو۔ حکام کی اطاعت اور وفاداری ہر مسلمان کا فرض ہے۔ وہ ہماری حفاظت کرتے ہیں اور ہر قسم کی مذہبی آزادی ہمیں دے رکھی ہے۔ میں اس کو بڑی بےایمانی سمجھتا ہوں کہ گورنمنٹ کی اطاعت اور وفاداری سچے دل سے نہ کی جاوے۔

برادری کے حقوق ہیں۔ اُن سے بھی نیک سلوک کرنا چاہیئے۔ البتہ اُن باتوں میں جو اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے خلاف ہیں، اُن سے الگ رہنا چاہیئے۔

ہمارا اصول تو یہ ہے کہ ہر ایک سے نیکی کرو اور خدا تعالیٰ کی کل مخلوق سے احسان کرو۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ103،ایڈیشن 1984ء مطبوعہ لندن)

میری تو یہ حالت ہے کہ اگر کِسی کو درد ہوتا ہو اور مَیں نماز میں مصروف ہوں۔ میرے کان میں اس کی آواز پہنچ جاوے تو مَیں تو یہ چاہتا ہوں کہ نماز توڑ کر بھی اگر اس کو فائدہ پہنچا سکتا ہوں تو فائدہ پہنچاؤں اور جہانتک ممکن ہے اس سے ہمدردی کروں۔ یہ اخلاق کے خلاف ہے کہ کسی بھائی کی مصیبت اور تکلیف میں اس کا ساتھ نہ دیا جاوے۔ اگر تم کچھ بھی اس کے لئے نہیں کر سکتے تو کم از کم دعا ہی کرو۔

اپنے تو درکنار میں تو یہ کہتا ہوں کہ غیروں اور ہندوؤں کے ساتھ بھی ایسے اخلاق کا نمونہ دکھاؤ اور اُن سے ہمدردی کرو۔ لاابالی مزاج ہرگز نہیں ہونا چاہیئے۔

ایک مرتبہ میں باہر سَیر کو جا رہا تھا۔ ایک پٹواری عبد الکریم میرے ساتھ تھا۔ وہ ذرا آگے تھا اور مَیں پیچھے۔ راستے میں ایک بُڑھیا کوئی 70 یا 75 برس کی ضعیفہ ملی۔ اس نے ایک خط اُسے پڑھنے کو کہا مگر اُس نے اُسے جھڑکیاں دے کر ہٹا دیا۔ میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ اس نے وہ خط مجھے دیا۔ میں اُسے لے کر ٹھہر گیا اور اس کو پڑھ کر اچھی طرح سمجھا دیا اس پر اسے سخت شرمندہ ہونا پڑا۔ کیونکہ ٹھہرنا تو پڑا اور ثواب سے بھی محروم رہا۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ105۔ 106،ایڈیشن1984ء مطبوعہ لندن)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

اعلان نکاح

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 دسمبر 2021