(اطفال کارنر)
تقریر
عورتوں پر احسانات
ابتداء سے ہی انسانی معاشرہ میں عورتوں کو حقیر اور کمتر سمجھا جاتا رہا ہے۔ مرد کے لیے ایک مشغلہ اور دل لگی کے کھلونے کے سوا عورت کی کوئی حیثیت نہیں رہی۔ عورت کے وجود کو شیطانی بھار سمجھا جاتا تھا۔ کسی مذہب میں باطل کی بیٹی کہا گیا۔ کسی تہذیب میں عورت کو ایک بچھو یا شیطان کا دروازہ یا گناہ کے رستہ کے نام سے یاد کیا گیا۔ اس کے وجود کی تذلیل و تحقیر کی گئی۔ کسی کے ہاں بچی پیدا ہو جاتی تو اس کا منہ کالا کیا جاتا اور بچی کو زندہ دفنا دیا جاتا۔ جنگوں میں حریف کی عورتوں کو غلام اور لونڈیاں بنایا جاتا۔ انہیں منڈیوں میں فروخت کیا جاتا۔
مگر جب ’’نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ آیا اور مقدسوں کے تاجدار حضرت محمد ﷺ کی دلکش اور سکینت بخش شیریں آواز میدانوں اور پہاڑوں میں گونجی کہ
اے عورت! اُٹھ اب تیری تکالیف دور ہو چکی ہیں۔ تیری بد نصیبیوں کا زمانہ گذر گیا۔ تیرے حقوق تجھے حاصل ہوں گے۔ آج سے تو عزت و احترام کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ اگر تو ماں ہے تو جنت تیرے قدموں میں تلاش کی جائے گی۔ اور گناہ کی بخشش ماں یا خالہ کی خدمت و احترام سے باندھ دی گئی ہے۔
اور اگر تو بیوی ہے تو خاوند کا تیرے ساتھ حسن سلوک فرض کردیا گیا ہے۔ اور ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ کہہ کر تمہیں خاوند کا ستر اور لباس قرار دیا جا رہا ہے اور اگر تم بیٹی ہو تو اُٹھو ! خداوند کریم کا شکر ادا کرو اور سیّدنا حضرت محمد ﷺ کے اس احسان پر درود پڑھ کر تیری اچھی تعلیم و تربیت کے ساتھ والد پر جنت کی خوشخبری کی نداء دی جا رہی ہے اور اے عورت !اگر تو بہن ہے تو خوش ہو اور خوشی سے اچھل کہ تجھے وراثت میں بھائیوں کے ساتھ حصہ دار بنایا جا رہا ہے۔
پس اے عورت! آج اسلام میں عبادات ہوں، علم، عمل، جزا و سزا، خدا تعالیٰ سے پیار، عزت و توقیر الغرض معاشرہ اور تہذیب میں کوئی شعبہ ہو۔ اعزازو اکرام، جزا و سزا میں عورت و مرد برابر ہیں۔ اور زندگی کے ہر شعبہ میں برابر کے حقدار ہیں۔ اُٹھ ! تیرے لیے بھی اُ سی طرح جنت الفردوس کا دروازہ کھلا ہے جس طرح مرد کے لیے۔
؎رکھ پیش نظر وہ وقت بہن جب زندہ گاڑی جاتی تھی
گھر کی دیواریں روتی تھیں جب دنیا میں تو آتی تھی
وہ رحمت عالم آتا ہے،تیرا حامی ہو جاتا ہے
تو بھی انسان کہلاتی ہے سب حق تیرے دلواتا ہے
(فرخ شاد)