• 9 مئی, 2024

فقہی کارنر

اضطرار میں پردہ کی رعایت

حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
اگر کسی موقعہ پر انتہائی مجبوری کی وجہ سے مردار یا سوٴر کا گوشت استعمال کر لیا جائے تو جن زہریلے اثرات کی وجہ سے شریعت نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ بہر حال ایک مومن کے لئے خطر ناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان نتائج کا تدراک اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ انسان غفور اور رحیم خدا کا دامن مضبوطی سے پکڑ لے اور اُسے کہے کہ اے خدا! مَیں نے تو تیری اجازت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی جان بچانے کے لئے اس زہریلے کھانے کو کھا لیا ہے لیکن اب تو ہی اپنا فضل فرما اور اُن مہلک اثرات سے میری رُوح اور جسم کو بچا جو اُس کے ساتھ وابستہ ہیں۔ اسی حکمت کے باعث آ خر میں اِنَّ اللّٰہَ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ کہا گیا ہے تا کہ انسان مطمئن نہ ہو جائے بلکہ بعد میں بھی وہ اُس کی تلافی کی کوشش کرتا رہے اور خدا تعالیٰ سے اُس کی حفاظت طلب کرتا رہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے غالباً شریعت کی اسی رخصت کو دیکھتے ہوئے ایک دفعہ فر مایا کہ اگر کسی حاملہ عورت کی حالت ایسی ہو جائے کہ مرد ڈاکٹر کی مدد کے بغیر اُس کا بچہ پیدا نہ ہو سکتا ہو اور وہ ڈاکٹر کی مدد نہ لے اور اُسی حال میں مر جائے تو اُس عورت کی موت خود کشی سمجھی جائے گی۔ اسی طرح اگر انسان کی ایسی حالت ہو جائے کہ وہ بھوک کے مارے مرنے لگے اور وہ سوٴر یا مردار کا گوشت کسی قدر کھا لے تو اُس پر کوئی گناہ نہیں۔

(تفسیر کبیر جلد2 صفحہ345-346)

(داؤد احمد عابد۔ استاد جامعہ احمدیہ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 دسمبر 2022