حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:
برادرا ن و عزیزان و بزرگان۔ اخبار میں وہ مضمون دو جس میں نفسانیہ خواہشات، سوءِظن، تفرقہ و امراء پر اعتراض اور اس میں ناعاقبت اندیشی، خود غرضی، طمع، دین الٰہی سے بیخبری، نفاق جو بدعہدیوں سے پیدا ہوتا ہے اور احکام کی نااہلی، ترک افشاء، سلام (خصوصاً ہندوستان میں تو یہ مبارک دعا معیوب یقین کی گئی) ترک جمعہ … اللہ توفیق دے۔
(الفضل 9؍جون 1913ء صفحہ16)
الفضل تو تریاق ہے
حضرت مصلح موعودؓ تفسیر کبیر میں تحریر فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے ایک مخلص دوست تھے جو اب فوت ہوچکے ہیں۔ ان کے لڑکے نے ایک دفعہ مجھے لکھا کہ میرے والد صاحب میرے نام الفضل جاری نہیں کرواتے۔ میں نے انہیں لکھا کہ آپ کیوں اس کے نام الفضل جاری نہیں کراتے توانہوں نے جواب دیا کہ میں چاہتاہوں کہ مذہب کے معاملہ میں اسے آزادی حاصل رہے اوروہ آزادانہ طورپر اس پر غور کرسکے۔ میں نے انہیں لکھا کہ الفضل پڑھنے سے تو آپ سمجھتے ہیں اس پر اثر پڑے گا اورمذہبی آزادی نہیں رہے گی۔ لیکن کیا اس کا بھی آپ نے کوئی انتظام کرلیا ہے کہ اس کے پروفیسر اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کی کتابیں اس پر اثر نہ ڈالیں۔ اس کے دوست اس پر اثر نہ ڈالیں اور جب یہ سارے کے سار ے اثر ڈال رہے ہیں توکیا آپ چاہتے ہیں کہ اسے زہر توکھانے دیں اور تریاق سے بچایا جائے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد7 صفحہ329)