• 6 مئی, 2024

الفضل کوعلمی لبادہ پہنا کر سجانے اور سنوارنے والے ایڈیٹرز

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ

اخبار الفضل کا اجراء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمدخلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 18؍جون 1913ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے دورمبارک میں فرمایا۔ آپؓ اس کے بانی مدیر تھے۔ آپؓ کی قیمتی اور پر معارف تحریرات الفضل کی زینت ہوا کرتی تھیں۔ آپؓ کے پرمغز اداریئے اور علمی وتربیتی مضامین الفضل کا گرانقدر سرمایہ ہیں۔

آغاز میں الفضل ذاتی تھا پھر اس تاریخی اخبار کو آپؓ نے جماعت کے سپرد فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت اس روحانی نہر میں ڈالی کہ آج الفضل اردو صحافت میں تاریخی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور یہ مسلسل شائع ہونے والا سب سے پرانا اخبار ہے۔ اب اس نے آن لائن کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ انٹرنیٹ کے ذریعے دنیا کے کونے کونے میں پڑھا جاتا ہے اور اپنے 109 سال پورے کر رہا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ آن لائن ہوئے اس کو تین سال ہوچکے ہیں۔ الحمد للّٰہ

حضرت مرزا بشیر احمدؓ ایم اے

اخبار الفضل کی تاریخ میں حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب کی شخصیت ایک زریں باب کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ آپ نے الفضل کی آبیاری اپنی ادارت اور ٹھوس تحریرات کے ساتھ کی۔

آپؓ کا اخبار الفضل کے ساتھ مضامین اور علمی و ٹھوس تحریرات شائع کرانے کے حوالے سے تا حیات تعلق رہا۔ آپؓ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے 1914ء میں مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد الفضل کے ایڈیٹر کے طور پر کچھ عرصہ فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اس کے بعد تا دم آخر آپؓ اپنی جاندار تحریرات سے الفضل کی زینت میں اضافہ کرتے رہے۔ آپؓ نے تقریباً ہر موضوع پر قلم اٹھایا خاص طور پر یاد رفتگان کے تحت مرحومین کے حالات قلمبند فرمائے اور جماعت کے لٹریچر میں قیمتی اضافہ فرمایا۔

آپؓ 20؍اپریل 1893ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ آپؓ کی پیدائش کو حضرت مسیح موعود نے اپنے نشانات میں سے ایک نشان قرار دیا۔

1914ء میں الفضل کے ایڈیٹر بنائے گئے۔ 1918ء میں ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر بنے۔ آپ غیر معمولی تحقیقی ذوق کے حامل تھے۔ اسلام اور احمدیت کی سربلندی کے لئے آپ نے اپنا قلم اٹھایا اور جماعتی روایات اور شخصیات کو تاریخ احمدیت میں محفوظ کر دیا۔ الفضل سمیت جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع ہونے والے علمی اور تحقیقی مضامین کے علاوہ آپؓ نے تقریباً 24 قیمتی کتب اور رسائل کا خزانہ اپنے پیچھے چھوڑا۔ آپؓ کی سیرت پر محترم مولانا شیخ عبدالقادر صاحب (سابق سوداگر مل) نے حیات بشیر کے نام سے ایک مبسوط کتاب لکھی۔

آپؓ حضرت مصلح موعودؓ کے سلطان نصیر تھے۔ آپؓ نے تحریر و تقریر اور اپنی انتظامی صلاحیتوں کے ذریعہ احمدیت کی مثالی خدمت کی۔ 2؍ستمبر 1963ء کو آپؓ نے لاہور میں انتقال فرمایا اور اگلے روز بہشتی مقبرہ ربوہ میں اپنی مقدس والدہ کے قدموں میں دفن ہوئے۔ آپؓ کی اولاد میں پانچ بیٹے اور چار بیٹیاں آپ کی یادگار تھے۔

حضرت قاضی محمد ظہورالدین اکملؓ

آپؓ 25؍مارچ 1881ء کو گجرات کے موضع گولیکی میں پیدا ہوئے۔ آپ کا گھرانہ علم دوست تھا، گویا علم کی گود میں ایک ہونہار بچے کی پرورش ہوئی۔ 1897ء میں بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ حضرت مفتی محمد صادقؓ کے ماتحت آپ نے اخبار البدر میں کام کیا۔ الفضل کے اجراء کے ساتھ ہی آپ کی الفضل کے لئے خدمات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ الفضل کی ابتداء سے بانیٴ الفضل سیدنا محمودؓ کے ساتھ الفضل کی گرانقدر معاونت کرنے والی شخصیت آپ کی ہے جو اخبار کے انتظام و انصرام اور اس کی مجلس ادارت کے سرگرم رکن تھے۔

الفضل کے لیے آپؓ کی خدمات کا تذکرہ خود حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا۔ یہ خراج تحسین آپؓ اور آپ کی نسلوں کے لیے ایک اعزاز سے کم نہیں۔

الفضل کے لئے آپ کی خدمات تاریخی ہیں۔ آپؓ الفضل کے مینیجر، اسسٹنٹ ایڈیٹر اور ایڈیٹر بھی رہے اور سالہاسال تک الفضل کے لئے اپنی خدمات بجالاتے رہے۔

الفضل کے علاوہ بھی محترم قاضی اکمل صاحب نے صحافتی خدمات بجالائیں۔ آپ 1914ء سے 1922ء تک رسالہ تشحیذالاذہان کے ایڈیٹر رہے۔ 1922ء میں اس رسالہ کو ریویو آف ریلیجنز اردو میں مدغم کر دیا گیا تو آپ اردو ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ ایک لمبا عرصہ تک رسالہ مصباح کے ایڈیٹر بھی رہے۔ 32 سال تک قلمی جہاد کی خدمات بجالانے کے بعد آپ 1938ء میں صدرانجمن احمدیہ کی ملازمت سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مضمون نویسی اور قلمی جہاد جاری رہا۔ آپ کی تصانیف کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے اور مضامین سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ آپ ایک منجھے ہوئے شاعر تھے آپ کا شعری مجموعہ بھی شائع شدہ ہے۔27؍ستمبر 1966ء کو آپؓ نے ربوہ میں وفات پائی۔

حضرت ماسٹر احمد حسین فرید آبادیؓ

حضرت ماسٹر احمد حسین فرید آبادیؓ حضرت مسیح موعود کےصحابی تھے۔۔ آپؓ تعلیم مکمل کرنے اور کچھ عرصہ ملازمت کے بعد فن صحافت سے منسلک ہو گئے۔ ’’چودھویں صدی‘‘ راولپنڈی اخبار کے اسسٹنٹ ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس کے علاوہ اخبار وکیل امرتسر، تاج الاخبار، اخبار الحق دہلی سے بھی منسلک رہے۔ پیشگوئی لیکھرام کے مصدقین میں آپؓ کا نام حضرت مسیح موعود نے 61ویں نمبر پر تریاق القلوب میں تحریر فرمایا۔

(روحانی خزائن جلد15 صفحہ181)

آپ پُر جوش داعی الی اللہ تھے اور اپنے پیشہ صحافت کو بھی تبلیغ کے لئے استعمال کرتے رہے۔ لاہور سے جب پیغام صلح جاری ہوا تو اس کے اولین مدیر آپؓ مقرر ہوئے۔

حضرت خوا جہ غلام نبی صاحب ایڈیٹر الفضل کی روایت ہے کہ الفضل کو ایڈیٹر کی ضرورت تھی (خواجہ صاحب ابتداء سے ہی اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کررہے تھے)۔ حضرت مصلح موعودؓ نے مجھے ارشاد فرمایا کہ ماسٹر احمد حسین صاحب کو جو دہلی میں ہیں ان کو لکھیں کہ الفضل کی ایڈیٹری کے لئے 45روپے ماہوار پر آ سکیں تو آجائیں۔ چنانچہ میں نے لکھا اور وہ آگئے اور الفضل میں (1915ء میں) بطور ایڈیٹر کام کرنے لگے۔ آپؓ بڑی عمر کے اور کمزور صحت کے تھے چند ماہ (تقریباً سال) یہ ذمہ داری نبھاسکے اور پھر فراغت کے بعد قادیان کے ہی ہور ہے اور یہاں کتابوں کی دکان کھولی۔

حضرت ماسٹر احمد حسین صاحب فرید آبادیؓ نے 31؍جنوری 1922ء کو وفات پائی۔ آپ تحریر میں مہارت رکھتے تھے۔تعلیم و تربیت کے حوالہ سے آپ کے بہت سے مضامین اور کتابچے شائع شدہ ہیں۔

حضرت مولوی محمد اسماعیل حلالپوری

حضرت مولانا محمد اسماعیل حلالپوری جنوری 1916ء میں چند روز کے لئے اخبار الفضل کے ایڈیٹر رہے۔ یہ چند روزہ سعادت آپ کو مدیران الفضل میں شامل کر گئی۔

حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب حلالپوری 6؍نومبر 1883ء کو حلالپور (ضلع سرگودھا) میں پیدا ہوئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت 1904ء میں کی۔ حضورؑ کی زندگی کے آخری ایام میں 17؍فروری 1908ء کو آپ بیعت کرکے جماعت میں داخل ہوئے۔

آپ کو مختلف عہدوں پر جماعتی خدمات کی توفیق ملی۔ حضرت مصلح موعودؓ کے سفروں میں ہمرکاب رہے۔ حضرت مصلح موعودؓ کے ابتدائی دور میں دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے نام سے شعبہ نہ تھا تاہم آپ ملاقات اور ڈاک کے لئے افسر ڈاک مقرر ہوئے۔ ابتدائی ممبران افتاء میں آپ شامل تھے۔ مدرسہ احمدیہ میں مدرس، جامعہ احمدیہ کے ابتدائی اسٹاف ممبر اور نامور علماء دین میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ 28؍جنوری 1940ء کو آپ کی قادیان میں وفات ہوئی۔ آپ کی اولاد میں محترم مولانا محمد احمد جلیل صاحب مرحوم سابق مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ بھی شامل ہیں۔

محترم خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی

محترم خوا جہ غلام نبی صاحب بلانوی کو اخبار الفضل کے سب سے لمبا عرصہ یعنی تقریباً تیس سال ایڈیٹر رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپ ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ مینیجر الفضل کے فرائض بھی ایک عرصہ تک ادا کرتے رہے۔ آپ الفضل کے ساتھ ابتداء میں ہی منسلک ہوگئے تھے۔ اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام کا آغاز کیا اور پھر 1916ء میں آپ نے الفضل کی ادارت سنبھالی اور 1946ء تک اس منصب پر فائز رہے۔

محترم خواجہ غلام نبی صاحب 1894ء میں پیدا ہوئے۔ آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے ہاتھ پر بیعت کر کے احمدیت قبول کی۔ 1914ء میں الفضل سے منسلک ہوئے اور خدمات کا یہ سلسلہ 1946ء تک رہا۔آپ کی تربیت حضرت مصلح موعودؓ اور کبار صحابہؓ نے کی۔ آپ فن مضمون نویسی کے ماہر ہوگئے اور زبردست تحریرات کے ذریعہ الفضل کی آبیاری کرتے رہے۔ آپ کے بیٹے خوا جہ منیر احمد آف جرمنی نے آپ کی سوانح حیات ’’چھتیس سال قادیان میں‘‘ شائع کی۔ 18؍اپریل 1956ء کو آپ نے وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں مدفون ہوئے۔

20؍اپریل 1956ء کے خطبہ جمعہ میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا ذکر خیر ان الفاظ میں فرمایا:
’’الفضل کے ابتدائی اسسٹنٹ ایڈیٹر درحقیقت وہی تھے۔ ایڈیٹر میں خود ہوا کرتا تھا اور اسسٹنٹ ایڈیٹر وہ تھے۔ان کی تعلیم زیادہ نہیں تھی صرف مڈل پاس تھے مگر بہت ذہین اور ہوشیار تھے۔ میری جس قدر پہلی تقریریں ہیں وہ ساری کی ساری انہی کے ہاتھ کی لکھی ہوئی ہیں وہ بڑے اچھے زود نویس تھے اور ان کے لکھے ہوئے لیکچروں اور خطبات میں مجھے بہت کم اصلاح کرنی پڑتی تھی۔ پھر وہ اخبار کے ایڈیٹر ہوئے اور ایسے زبردست ایڈیٹر ثابت ہوئے کہ درحقیقت پیغامیوں سے زیادہ تر ٹکر انہوں نے ہی لی ہے۔’’پیغام صلح‘‘ کے وہ اکثر جوابات لکھا کرتے تھے۔ اسی طرح وہ میرے ابتدائی خطبات وغیرہ بھی لکھتے رہے جو انہی کی وجہ سے محفوظ ہوئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کا جماعت پر ایک بہت بڑا احسان ہے اور جماعت ان کے لئے جتنی بھی دعائیں کرے اس کے وہ مستحق ہیں۔‘‘

(الفضل 15؍مئی 1956ء صفحہ4)

محترم شیخ روشن دین تنویر

ربع صدی تک روزنامہ الفضل قادیان، لاہور اور ربوہ کی ادارت کے فرائض سرانجام دینے والے محترم مولانا روشن دین تنویر 20؍اپریل 1892ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ لاہور لاء کالج سے ایل ایل بی کیا اور وکالت شروع کر دی۔ابتداء میں آپ احمدیت کے مخالف تھے۔ 1939ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں شامل ہوئے تو آپ یکسر تبدیل ہوئے اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی کتاب انقلاب حقیقی کے مطالعہ نے کایا پلٹ دی اور 1940ء میں بیعت کرکے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے۔ آپ بلند پایہ شاعر تھے اس کے ساتھ ساتھ مضمون نگاری میں غیرمعمولی مقام حاصل کیا۔ اپنے قلم کو احمدیت کے لئے وقف کر دیا۔ آپ 1946ء میں ہجرت کرکے قادیان آگئے اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو الفضل کا ایڈیٹر مقرر فرمایا۔ 25 سال تک آپ الفضل کے ایڈیٹر کے طور پر خدمات بجالاتے رہے۔ 18؍نومبر 1946ء سے 3؍مئی 1971ء تک آپ مدیر الفضل رہے۔ گویا آپ الفضل کو بطور ایڈیٹر قادیان سے بذریعہ لاہور، ربوہ لے کر آئے۔ الفضل اور عملہ الفضل ہی کو آپ اپنا خاندان تصور کرتے تھے۔ احمدیت کی وجہ سے رشتہ داروں نے انقطاع کرلیا تھا۔ آپ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ ایک وکیل، ایک انشاء پرداز، مصنف، شاعر، صحافی اور ایک قابل منتظم تھے۔قبول احمدیت کے صرف چھ سال بعد ہی مؤقر روزنامہ الفضل کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ آپ نے 1972ء میں وفات پائی۔

محترم مسعود احمد خان دہلوی

آ پ کی الفضل کے لئے تقریباًنصف صدی کی خدمات ہیں۔الفضل کے نازک اور پر آشوب ادوار آپ نے مشاہدہ کئے اور مردانہ وار مقابلہ کیا۔ آپ الفضل کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، پرنٹر، پبلشر، ایڈیٹر اور بانی صدر الفضل بورڈ کے طور پر 1946سے 1988ء تک خدمات بجالاتے رہے اور چار خلفائے احمدیت کی تربیت، راہنمائی، رفاقت اور شفقتوں کے مورد بنے رہے۔

محترم دہلوی صاحب 16؍فروری 1920ء کو دہلی کے ایک علمی اور مذہبی احمدی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد حضرت ماسٹر محمد حسن آسان دہلویؓ اور آپ کے دادا حضرت مولوی محمود حسینؓ (یکے از صحابہ 313) دونوں صحابہ حضرت مسیح موعودؑ تھے۔ آپ نے اپنی تعلیم دہلی سے حاصل کی۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء میں وقف کی تحریک فرمائی تو آپ کے والد صاحب نے اپنے بچوں کو وقف کر دیا۔ چنانچہ آپ نے 1944ء میں اپنے دوسرے تین بھائیوں کے ساتھ وقف کافارم پر کر دیا۔ آپ کو 1946ء میں خدمت کے لئے بلایا گیا اور حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کا تقرر الفضل میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر فرمایا اور ساتھ ہی جرنلزم میں ڈپلومہ کرنے کا ارشاد بھی فرمایا۔ اس طرح آپ کی الفضل میں خدمات کےدور کا آغاز ہوا۔

الفضل میں آپ کا تقرر ہوا تو محترم خواجہ غلام نبی ایڈیٹر تھے۔ان کے ساتھ تین ماہ کام کا موقع ملا پھر محترم شیخ روشن دین تنویر ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ آپ نے ربع صدی تک 1946ء تا 1971ء بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر ان کے ساتھ گزارے۔ قیام پاکستان کے بعد الفضل قادیان سے لاہور آگیا۔ جب الفضل لاہور سے ربوہ منتقل ہوا تو اس کے لئے نیا ڈیکلریشن لینا تھا۔اس کے پرنٹر و پبلشر محترم دہلوی صاحب بنے تھے۔ اس ڈیکلریشن کے حصول کی ساری کارروائی آپ نے مکمل کی۔ ربوہ میں آپ کے ساتھ محترم شیخ خورشید احمد صاحب نائب ایڈیٹر تھے۔ پھر آپ 1971ء میں الفضل کے ایڈیٹر بنائے گئے اور یہ سلسلہ 1988ء میں آپ کی ریٹائر منٹ پر ختم ہوا۔ صحافت اور الفضل آپ کی شناخت بن گیا۔

آپ صدر الفضل بورڈ،ایڈیٹر الفضل، اس کے پرنٹر و پبلشر بھی تھے یوں ان عہدوں پر ایک وقت میں رہنے کا منفرد اعزاز آپ کے پاس ہے۔ آپ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے ساتھ 1975ء، 1976ء اور 1980ء میں غیر ملکی دورہ جات یورپ، افریقہ اور امریکہ میں ہم سفر ہونے کی سعادت ملی۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے پہلے دورہ یورپ 1982ء میں آپ وفد میں شریک سفر تھے اور مسجد بشارت سپین کے افتتاح میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ ان دورہ جات کی رپورٹنگ الفضل کے لئے آپ تیار کرکے بھجواتے رہے۔

1988ء میں ریٹائرمنٹ کے بعد آپ جرمنی چلے گئے۔ آپ کی خود نوشت سوانح ’’سفر حیات‘‘ کے نام سے شائع شدہ ہے۔ آپ نے موٴرخہ 3؍نومبر 2011ء کو 91سال کی عمر میں ربوہ میں انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ میں قطعہ علماء میں دفن ہوئے۔

محترم مولانا نسیم سیفی

الفضل کے ایڈیٹر اور اس کے لئے اسیر رہنے کا اعزاز حاصل کرنے والے اور بندش الفضل کے بعد اس کے نئے دور کے مدیر محترم مولانا نسیم سیفی 28؍نومبر 1989ء سے 10؍مارچ 1998ء تک الفضل کے لئے بحیثیت ایڈیٹر خدمات بجالاتے رہے اور اپنے دور ادارت کے دوران اسیر راہ مولیٰ بھی رہے

محترم مولانا نسیم سیفی صاحب 1917ء میں پیدا ہوئے۔ آپ صحابی حضرت مسیح موعودؑ حضرت ماسٹر عطاء محمد صاحبؓ سابق استاد جامعہ احمدیہ ربوہ کے بیٹے تھے۔ آپ نے گریجوایشن کرنے کے بعد کچھ عرصہ سرکاری ملازمت کی اور پھر حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک وقف پر لبیک کہتے ہوئے اپنی زندگی وقف کردی۔ وقف کے بعد آپ کو 1945ء میں اعلائے کلمہ اسلام کی خاطر نائیجیریا بھجوا دیا گیا۔ افریقہ میں لمبا عرصہ خدمات سرانجام دیں۔ آپ وہاں امیر ومشنری کے علاوہ رئیس المربیان مغربی افریقہ بھی رہے۔

افریقہ قیام کے دوران آپ نے اپنی خداداد صحافتی خدمات کو بھی خوب نکھارا۔ نائیجیریا میں The Truth رسالہ کی ادارت کی اور سیرالیون میں Views & Reviews نکالا۔ پاکستان آئے تو رسالہ تحریک جدید نکالا اور سالہا سال تک اس کی ادارت کی۔ اس میں آپ نے بیشمار مربیان کے حالات و واقعات کے علاوہ لاتعداد تصاویر کو بھی محفوظ کیا۔

آپ نے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شاعری کی اور مجموعہ ہائے کلام بھی شائع ہوئے۔ صحافتی زندگی کا ایک لمبا سفر آپ نے طے کیا اور اردو انگریزی دونوں زبانوں اور افریقہ و پاکستان میں آپ کی صحافتی خدمات نصف صدی تک جاری رہیں۔

آپ کی صحافت کا آخری دور روزنامہ الفضل سے وابستہ ہے۔ یہ تحریر پر قدغنوں کا دور تھا۔ اس دور کے تقاضوں کے مطابق آپ نے یہ ذمہ داری سنبھالی اور اخبار کو لوگوں میں مقبول کیا۔ اس دور میں تقریباً 60 کے قریب مقدمات آپ پر بنے لیکن آپ ایک شیر کی طرح مقابلہ کرتے رہے۔ 1994ء ماہ فروری میں آپ کو تقریباً ایک ماہ تک اسیر راہ مولیٰ رہنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔

آپ کی تصانیف کی تعداد 40 سے متجاوز ہے۔ اس میں اردو انگریزی دونوں زبانوں میں کتب نثر ونظم شامل ہیں۔ آپ نے احادیث اور ملفوظات کے انگریزی میں تراجم بھی شائع کئے۔ تصانیف کے علاوہ اخبارات و رسائل کی صورت میں بیشمار علمی و ادبی خزانہ چھوڑا ہے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے چار بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ جو اللہ کے فضل سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اعلیٰ عہدوں پر ہے۔

محترم مولانا نسیم سیفی صاحب نے 19؍مارچ 1999ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعہ بزرگان میں مدفون ہوئے۔

محترم عبدالسمیع خان

آپ کی ادارت کا عرصہ تقریباً 18 سال بنتا ہے۔ آپ بہت دلجمعی اور محنت شاقہ کے ساتھ الفضل کی خدمت کے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ آپ نے 11؍مارچ 1998ء سے دسمبر 2016ء تک روزنامہ الفضل کی ادارت سنبھالی اور الفضل کے علمی معیار اور اس میں تنوع پیدا کرنے کے لئے مصروف عمل رہے۔ آپ نے تحقیقی، علمی اور تاریخی معلومات پر مشتمل متعدد مضامین، آرٹیکلز اور اداریے رقم کئے اور جماعت کے اس ترجمان اخبار کو ترقیات کی بلند و بالا منازل پر پہنچا دیا۔

آپ 9؍نومبر 1959ء کو مکرم عبدالرشید خان کے ہاں خوشاب میں پیدا ہوئے۔ اعلیٰ اعزاز کے ساتھ پرائمری اور میٹرک پاس کیا اور زندگی وقف کرکے 1975ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے۔ 1982ء میں شاہد کی ڈگری بھی اعزاز کے ساتھ حاصل کی۔ ہر کلاس میں اول آیا کرتے تھے۔ شاہد کے بعد حدیث کے استاد کے طور پر عملی زندگی کا جامعہ احمدیہ میں آغاز کیا۔ ماہنامہ تشحیذ الاذہان اور خالد کے نائب مدیر اور پھر 1985ء تا 1988ء ماہنامہ خالد کے ایڈیٹر رہے۔ اس دور میں آپ پر مقدمہ بھی دائر ہوا۔ خدام الاحمدیہ میں آپ مہتمم تعلیم، تربیت اور اصلاح و ارشاد رہے۔ انصاراللہ پاکستان میں آپ 8 سال سے زائد عرصہ تک قائد تعلیم القرآن کے طور پر خدمات بجا لا تے رہے اسی طرح آپ مجلس افتاء اور تدوین فقہ کمیٹی کے ممبر بھی تھے۔ متعدد کتب کے مصنف ہیں۔

بطور ایڈیٹر الفضل آپ کا بڑا کارنامہ یہ رہا ہے کہ الفضل کے سالانہ نمبرز کی اشاعت مختلف اہم اور مفید موضوعات پر مبنی باقاعدگی سے ہر سال ہوتی رہی اور یہی نہیں بلکہ آپ کے دور میں ہی الفضل کو جدید کمپیوٹر گرافکس اور ڈیزائننگ کے ساتھ خوبصورت تاریخی تصاویر سے مزین کیا جاتا رہا۔ خاص طور پر سالانہ نمبرز کو اہتمام کے ساتھ نایاب فوٹوز سے سجایا جاتا رہا۔ سالانہ نمبرز کے بعض عناوین یہ ہیں۔ سیرت صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم، توحید باری تعالیٰ، انٹرنیشنل جلسہ سالانہ جرمنی2001ء، جلسہ سالانہ برطانیہ2002ء، سیدنا طاہر نمبر، دورہٴ افریقہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 2004ء، نظام وصیت، دورہٴ مشرق بعید2006ء، قرآن نمبر، خلافت نمبر، نماز نمبر، صفائی وقار عمل اور شجرکاری نمبر، خدمت خلق نمبر اور صبرو استقامت نمبر۔ ان کے علاوہ احادیث نبوی ؐ۔ تاریخ احمدیت۔ اور بے شمار مذہبی موضوعات پر مشتمل کئی قسط وار سلسلے رقم کیے اور ادارت میں جاری رکھے۔ ان میں سے بعض کو بعد میں کتابی شکل دے کر جماعتی لٹریچر کا حصہ بنا دیا گیا۔ آپ کا دورِ ادارت الفضل کا علمی معیار بڑھانے کے حوالے سے بہت بھرپور اور تاریخی تھا، آپ کے اندر جدت اور نئے سے نئے خیالات کے ساتھ صحافت کا ملکہ قدرت ودیعت کیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے علم و معرفت میں اضافہ کرے اور صحت و سلامتی کے ساتھ مقبول خدمت دین بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

محترم حنیف احمد محمود

موٴرخہ 23؍فروری 2018ء کو محترم حنیف احمد محمود کو روزنامہ الفضل ربوہ کی ایڈیٹرشپ کا قلمدان حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی طرف سے سپرد کیا گیا۔یہ وہ دور تھا جب الفضل پر حکومت پنجاب پاکستان کی طرف سے جبری پابندی کو دو سال ہو چکے تھے۔ ایسے وقت میں جب اخبار ہی شائع نہ ہو اور ایک اخبار کے دفتر کا کام بند ہوجائے تو عملہ بےکار ہوجاتا ہے، لیکن آپ نے ایڈیٹر بنتے ہی سب کو مصروف کردیا اور علمی و تحقیقی امور سپرد کیے، اس طرح کچھ گہما گہمی ہوگئی۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مؤرخہ 13؍دسمبر 2019ء کو لندن سے آپ کی زیر ادارت اور نگرانی جماعت احمدیہ کے ترجمان اخبار روزنامہ الفضل لندن کا آن لائن اجراء فرمایا اور اس کی ویب سائٹ لانچ کر کے اس کے ایک اور سنگ میل کی بنیاد رکھی جو اب دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں دیکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ الحمد للّٰہ رب العالمین۔ اس طرح اردو صحافت کی تاریخ میں یہ مسلسل جاری رہنے والا اخبار 109سال کا سنگ میل عبور کرچکا ہے۔ 28؍مئی 2021ء کو حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر مکرم حنیف احمد محمود نے لندن سے اپنی ذمہ داریاں نبھانی شروع کیں۔ اس سے قبل لندن میں مقیم ٹیم اخبار کو الفضل انٹرنیشنل کی ٹیم کی معاونت سے چلاتی رہی۔

الفضل آن لائن جاری ہونے سے قبل الفضل کے متبادل کے طور پر روزنامہ گلدستہ علم و ادب بھی لندن سے عرصہ ڈیڑھ سال جاری رہا۔ اس دوران میں جب الفضل آن لائن جاری ہوا تو گلدستہ علم و ادب بھی ساتھ کچھ عرصہ جاری رکھا گیا۔ یوں موصوف کو ایک ہی وقت میں دو روزناموں کی ادارت کی سعادت نصیب ہوئی۔

روزنامہ الفضل کو آن لائن ہوئے تین سال کا عرصہ ہوچکا ہے۔ آپ کی ادارت میں الفضل بہت سے سنگ میل طے کرتے ہوئے ترقیات کی منازل کی طرف رواں دواں ہے۔آپ نے اس عرصہ میں کئی علمی موضوعات پر مشتمل قسط وار مضامین کو کتابی شکل دے کر قارئین کے لیے روحانی مائدے کی نئی قسم دریافت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت و سلامتی والی فعال اور خدمت دین سے بھرپور زندگی عطا فرمائے، آمین

آپ کے والد کا نام محترم چوہدری نذیر احمد سیالکوٹی ہے۔ آپ 18؍دسمبر 1953ء کو ربوہ میں پیدا ہوئے۔ آپ نے میٹرک 1970ء میں تعلیم الاسلام ہائی اسکول سے پاس کیا۔ آپ شروع سے ہی خدمات سلسلہ میں آگے رہے، آپ کو اپنے محلہ دارالصدر جنوبی میں مجلس اطفال الاحمدیہ اور مجلس خدام الاحمدیہ میں مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی۔ آپ نے جامعہ احمدیہ ربوہ سے شاہد کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد عربی فاضل کی سند بھی اچھے نمبروں سے حاصل کی۔ آپ نے پاکستان میں مختلف اوقات میں مندرجہ ذیل جگہوں پر خدمات کی توفیق پائی۔

آپ کو 20؍جولائی 1983ء کو سیرالیون خدمات سلسلہ کے لیے بھجوایا گیا۔ بدو ملہی ضلع سیالکوٹ حال نارووال۔ پیر محل ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ۔ دارالذکر لاہور بطور مربی ضلع۔ سِول کوارٹرز پشاور بطور مربی ضلع۔ بیت الذکر اسلام آباد F/7-3 بطور مربی ضلع۔ نظارت اصلاح و ارشاد مرکزیہ میں بطور نائب ناظر۔ ایڈیٹر گلدستہ علم وادب۔ ایڈیٹر روزنامہ الفضل آن لائن 23؍فروری 2018ء تا حال۔

آپ کے علمی کارناموں میں تحقیقی و معلوماتی نیز انتہائی دلچسپ حقائق و معارف پر مشتمل 31 تصانیف شامل ہیں۔

آپ کی نوکِ قلم سے لکھے گئے اداریوں کی تعداد کا اندازہ لگانا خاکسار کے لیے کچھ مشکل ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ میرے ناقص صحافتی علم کے مطابق اتنے متنوع موضوعات اور انوکھے خیالات، مفید معلومات اور حقائق پر مشتمل اداریے نہیں دیکھے۔ مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے بزرگوں کی شب گزیدہ دعاؤں کی وجہ سے تحریر اور تقریر کا ملکہ عطا فرمایا ہے، جس کی وجہ سے آپ نے حضرت سلطان القلم ؑ کا غلام ہونے کا حق ادا کردیا ہے۔

آپ کو اللہ تعالیٰ نے تین بیٹیوں اور ایک بیٹے سے نوازا۔ آپ کے بیٹے سعید الدین احمد صاحب واقف زندگی، ایم ایس سی۔ اسلام آباد ٹلفورڈ، یوکے میں آجکل جماعت کے شعبہ فنانس میں خدمات بجا لا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ محترم حنیف احمد محمود کی استعدادوں اور علم و معرفت اور لکھنے کی قوت میں اضافہ فرمائے، نیز بھرپور صحت سے نوازے۔ آمین

اللہ تعالیٰ ہمارے پیارے اخبار الفضل کو دن دوگنی اور رات چوگنی ترقیا ت عطا فرمائے۔ نیز اللہ کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں الفضل کے حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کی دعائیں اور خواہشات پوری ہوتے دیکھیں۔ آمین

(ابو سدید)

پچھلا پڑھیں

’’جس کا کام اسی کو ساجھے‘‘

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 دسمبر 2022