ایک خوشخبری اور ہماری ذمہ داری
(الفضل آن لائن لندن کے بارہ میں قارئین کے تاٴثرات)
عوامی اخبار
مکرم عبد السمیع خان۔ سابق ایڈیٹر الفضل ربوہ بیان کرتے ہیں:
آپ نے الفضل کو واقعی عوامی اخبار بنا دیا ہے۔ میں نے دیکھا ہے اسے بوڑھے بھی دیکھتے ہیں اور سارے زمانے کی جن باتوں پہ آپ قلم اٹھاتے ہیں اداریے لکھتے ہیں وہ بہت پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح جوان ہیں بوڑھے ہیں بچے ہیں۔ روزنامہ ہے اس لیے گنجائش بھی زیادہ مل جاتی ہے۔ ماشاللہ بہت اچھا چلا رہے ہیں۔جزاکم اللّٰہ۔
اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے تین سال
مکرم آر آر قریشی تحریر کرتے ہیں:
روزنامہ الفضل آن لائن موٴرخہ 13؍دسمبر 2022ء کو اپنے تین سال مکمل کرنے جا رہا ہے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی نظم کا شعر یک دم ذہن میں آیا۔؎
شریروں پر پڑے ان کے شرارے
نہ ان سے رک سکے مقصد ہمارے
انہیں ماتم ہمارے گھر میں شادی
فسبحان الذی الاخزی الاعادی
الفضل کی خدمات کے بہت سے مختلف پہلو ہیں جس کو الفاظ میں ڈھالنا ناچیز کے لیے مشکل امر ہے۔
الفضل کی خدمات کے چند پہلو کا ذکر کرتا ہوں جو ہر پڑھنے والے کے دل پر ایک گہرا اثر چھوڑتا ہے۔ آپ کے لکھاری بہت زبردست دینی اور دنیاوی معلومات تحریر کرتے ہیں۔ جو پہلے نظر سے نہیں گزری ہوتی۔ قال اللّٰہ و قال الرسول کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کی تحریرات، حضور اقدس کے خطبات جمعہ، عیدین خطبات، نکاح، حضور انور کے دورہ جات کی تفصیل۔ حالیہ امریکہ کی 20 سے زیادہ اقساط پر مشتمل تفصیل پڑھ کر ایمان بھی تازہ ہوئے اور بے حد خوشی بھی ملتی رہی۔ بعض عزیزو اقارب جن کو ہم بھول چکے تھے ملاقات میں ان کا نام اور ذکر پڑھ کر بہت اچھا لگا۔
ادارہ الفضل آن لائن کو خاکسار کی طرف سے تین سال مکمل کرنے پر مبارک باد ہو۔ آپ کو اور تمام کارکنان کو، لکھنے والے مرد و خواتین کو اور جماعت احمدیہ عالمگیر کے لیے بہت مبارک ہو۔ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت اور خدمات ِ دینیہ کے تین سال کا ہر رنگ ہی پیارا ہے۔
سلطان القلم کے سپاہیوں میں مسلسل اضافہ
مکرم انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن سے تحریر کرتے ہیں:
ایڈیٹر صاحب کی طرف سے ایک اعلان ’’ایک خوشخبری اور ہماری ذمہ داری پڑھ کر‘‘ اس عاجز کا دل بھی اس طرف راغب ہوا کہ الفضل آن لائن کے مؤرخہ 13؍دسمبر 2022ء کو تین سال مکمل ہونے پر اپنے تاثرات کا اظہار کروں۔
خدا کے فضل سے الفضل خلافت اولیٰ میں جاری ہوا۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کے محرک تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ نے ہی اس جریدہ کا نام الفضل عطا فرمایا۔ الفضل 1913ء میں جاری ہوا تھا اور اس سے اگلے سال حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کا وصال ہو گیا۔حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قوت قدسیہ اور محنت اور دعاؤں اور آپ کے خاندان کی قربانیوں نے آپ کے باون سالہ دور خلافت میں الفضل نے بہت ترقی کی اور اسی momentum سے اگلی خلافتوں میں ترقی پذیر رہا۔
پاکستان میں الفضل پر پابندی کے بعد ’’گلدستہ علم و ادب‘‘ آن لائن سٹاپ گیپ ارینجمنٹ کے طور پر جاری ہوا جس کے بعد تین سال سے الفضل آن لائن لندن جاری و ساری ہے۔ خدا کے خاص فضل سے آپ کی ادارت میں الفضل آن لائن نے تین سالوں میں بہت ترقی کی ہے۔
بے شمار نئے قلمکار مرد و زن لائم لائٹ میں آئے اور آرہے ہیں۔ یہ سب خلافت کی برکت سے ہے۔ جہاں الفضل سے استفادہ کرنے والوں کی تعداد ہاف ملین تک پہنچ گئی ہے، وہاں حضرت سلطان القلم علیہ الصلوۃ والسلام کے سپاہیوں میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ ذالک فضل اللّٰہ یوتیہ من یشا واللّٰہ ذوالفضل العظیم
دعا ہے کہ خلافت کے سائے میں الفضل آن لائن ہر اعتبار سے ترقی پر ترقی کرتا چلا جائے۔ آمین۔
روحانی و اخلاقی اصلاح اور ترقی کا زینہ
مکرمہ ثمرہ خالد۔ جرمنی سے تحریر کرتی ہیں:
مؤرخہ 13؍دسمبر 2022ء کو روزنامہ الفضل کے اجراء کو تین سال مکمل ہونے جا رہے ہیں۔ تین سال کا سفر کامیابی اور ترقی سے طے کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ پیارے الفضل کو مزید ترقیات سے نوازتا چلا جائے تا یہ ہمیشہ علمی پیاس بجھانے اور روحانی و اخلاقی اصلاح اور ترقی کا وہ زینہ ہو جس پر کشاں کشاں ہر پیر و جواں چڑھے۔ (آمین)
الفضل۔ایک قیمتی سرمایہ
مکرم محمد عمرتماپوری۔ انڈیا سے تحریر کرتے ہیں:
الفضل آن لائن لندن کے تین سالہ سفر کی تکمیل پر آپ کو،آپ کےبورڈ کو اور آپ کی ٹیم وقارئین کو بالخصوص سیدنا حضرت امیر المؤمنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بانی الفضل آن لائن لندن کو پُر خلوص دل سے مبارکباد۔عرض ہے اس کو شرف قبولیت عطا فرمائیں۔ جزاکم اللّٰہ
مغربی دنیا میں اردو زبان و ادب میں الفضل آن لائن لندن کا منظرعام پر آنا اور مسلسل اپنا سفر جاری رکھنا اعزاز ہی نہیں بلکہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ احساس ہوتا ہے کہ ہماری قومی، سماجی، دینی اور ادبی شعور کو نکھارنے، سنوارنے اور چمکانے میں الفضل کا کس قدر ہاتھ اور دخل ہے اور اس ادارے کی جانب سے نایاب کتب کی اشاعت میں جس طرح کے مضامین کے توسط سے آشکار کیا ہے وہ صرف اسی ادارے کا حصہ ہو سکتا ہے۔ یہ ایک قیمتی سرمایہ ہے جسے دستاویزی حیثیت حاصل ہو گئی۔ آئندہ آنے والی نسلیں ممنون احسان رہیں گی۔قرآن کریم، احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور امام جماعت احمدیہ کے اقتباسات کو اس رنگ میں کوَر کیا جا رہا ہے گویا وہ روزمرہ کی ضروریات میں شامل ہیں اور بلاشبہ عین حالات حاضرہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ مضامین کا انتخاب بھی خوب اور برمحل ہے۔
اداریے کےکالم میں ہر اداریہ اپنے اندر ایک سبق رکھتا ہے۔ انسانی ضمیر کو جو اس کے اندر ہے اسے جھنجھوڑتا ہے اور فطرت صحیحہ کی طرف رہنمائی کرتا ہےجس سےصحافت کے معیاری محاکمہ ومحاسبہ کی طرف نشاندہی ہوتی ہے۔
یقین کریں عالمی سطح پر سبق آموز کو (مسلم یونیورسٹی کے طلباء ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں) غیر احمدی دنیا اور غیر مسلم اردو دان طبقہ میں بڑی نمایاں طور پر پزیرائی حاصل ہے۔ بہت سے قارئین اس بات کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ اخبار الفضل بھی پڑھ لیتے ہیں گو یا الفضل میں یہ باب الداخلہ ہے۔
ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی
مکرمہ امۃ القیوم انجم۔ کیلگری کینیڈا سے تحریر کرتی ہیں:
الفضل آن لائن کے تین سال مکمل ہونے پر بہت بہت مبارک ہو۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے اسے جو نام دیا یہ اسم بامسمٰی بن کر اس کا حق ادا کر رہا ہے۔ گویا بزبان حال کہہ رہا ہو۔ ’’ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی‘‘
اللہ تعالیٰ ہمارے اس آن لائن جریدے کو ہر جہت سے نکھارتا چلا جائے۔ آمین۔
الفضل ہمارا، بہت پیارا
مکرمہ نصرت قدسیہ وسیم۔ فرانس سے تحریر کرتی ہیں:
چند دن پہلے الفضل کے ایڈیٹر صاحب کی طرف سے دعوتِ عام تھی کہ ہمارے الفضل آن لائن کوپورے تین سال ہونے والے ہیں اس پر کوئی مضمون، تاثرات، اشعار کچھ لکھیں۔ اس کو پڑھ کر دل میں بہت سے خیال آئے مگر اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا بیان کرنا اور شمار کرنا کچھ مشکل سا لگا کہ کیسے گنتی کروں اور کیا لکھوں۔ انسان خدا تعالیٰ کے کس کس فضل اور احسان کو یاد کرےاور الحمد للّٰہ کہتے ہوئے اس کے فضلوں میں ڈوب جائے۔
میں ایک عام سی قاری ہوں لیکن یادوں کےتعلق بہت پرانا ہے۔بچپن کے زمانے میں والد صاحب کو بلا ناغہ الفضل کا مطالعہ کرتے دیکھا ہے۔ اخبار گھر آتا تو فجر کی نماز کے بعد چائے کی پیالی ہوتی اور والد صاحب کے ہاتھ میں یہ الفضل اخبار ہوتا اور وہ اس کے مطالعہ میں کھوئے ہوئےہوتے۔ تب سے ہی اس کو پڑھنے کا شوق پیدا ہوا۔ کبھی پوچھنا کہ اس میں کیا خاص ہے؟ تو کہتے پڑھ کر دیکھ لو۔ اس زمانے میں اخبار دینے والا صبح صبح ایک آواز دیتا اور اخبار گھر میں دے دیتا۔ اگرکبھی دیر ہو جاتی تو بے چینی سے انتظار ہوتا کہ ابھی نہیں آئی۔ پھر رفتہ رفتہ شعور کے ساتھ اس اخبار میں ایسی دلچسپی ہونے لگی کہ جب بھی کوئی مضمون یا تقریر لکھنی ہوتی تو الفضل سے بھر پور فائدہ حاصل ہوجاتا۔ اب تو اس کا انتظار بھی نہیں کرنا پڑتا اور خدا کے فضل سے صبح صبح یہ فون پر آجاتا ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے میں وعدہ تھا کہ صحیفے نشر کئے جائیں گے اس وقت دنیا میں اَن گنت صحیفے شائع ہوتے ہیں مگر بہت کم ہیں جو تربیتی لحاظ سے لوگوں کو فائدہ دیتے ہیں۔ جتنا اس اخبار سے ہم استفادہ کرتے ہیں۔ خدا اور اس کے رسولؐ کا کلام نئے نئے انداز میں سامنے آتا ہے۔ خلیفہ وقت کی آواز کو ہر ایک تک پہنچانے کا انتظام ہے۔ دنیا کے کونے کونے سے اسلام کی خدمت کے بارے رپورٹ موصول ہوتی ہیں جو اِزدِیاد ایمان کا باعث بنتی ہیں صحافت کے میدان میں دعوت دی جاتی ہے۔ یہ سب خدا تعالیٰ کے افضال ہیں۔
ایک دن الفضل سے ایک اقتباس پڑھا جو دل پر گہرا اثر چھوڑ گیا۔ وہ یہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’میں تو ایک حرف بھی نہیں لکھ سکتا۔ اگر خدا تعالیٰ کی طاقت میرے ساتھ نہ ہو۔بار ہا لکھتے ہوئے دیکھا ہے کہ ایک خدا کی روح ہے جو تیر رہی ہے قلم تھک جاتا ہے مگر اندر کا جوش نہیں تھکتا۔طبیعت محسوس کیا کرتی ہے کہ ایک ایک حرف خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے ‘‘ (ملفوظات جلد2 صفحہ483) کتنا عظیم الشان کلام ہے جو آپ علیہ السلام کی قلم سے تحریر ہوتا ہے اور ہمارے لئے ایک خزانہ ہے۔اس کو پڑ ھ کر دل حمد سے بھر گیا۔ کہ خدا تعالیٰ کے پیارے مہدی کولمحہ لمحہ تازہ کلام نازل ہوتا ہےاور یہ سب ہمارے لئے ہی فائدہ بخش ہے۔ الفضل کے سوسال پورے ہونے پر جب خاص نمبر شائع ہوا تو اس میں لکھا تھا کہ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے الفضل کے اجراء کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل حکیم نورالدین رضی اللہ عنہ سے اس اخبار کے لئے نام تجویز کرنے کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اس کا نام الفضل رکھا اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ نام بتایاہے۔الفضل کی پہلی اشاعت پر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ نے بہت دعا ئیں کیں۔اس اخبارکے ایک صفحہ میں آپ رضی اللہ عنہ تحریر کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ اس لمبی دعامیں سے ایک دعا یہ ہے۔ ’’اے اللہ! لوگوں کے دلوں میں الہام کر کے وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کروڑوں تک وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔‘‘
(صد سالہ جوبلی سووئینر 2013ء صفحہ7)
الفضل وہ اخبار ہے جس پر خدا تعالیٰ کا ایک خاص فضل یہ ہے کہ جب یہ اخبار 1913ء میں قادیان کی بستی سے پہلی بار شائع ہوا تو اپنے ساتھ بہت سارے فضل اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جو خلیفہ بننے کے بعد بھی کچھ عرصہ اس کی ادارت کرتے رہے۔ آپ رضی اللہ عنہ کا الہامی نام جو پیش گوئی میں ہے وہ ’’فضل عمر‘‘ تھا۔ آپ کے بچپن کی بیماری اور تعلیمی واقعات کو پڑھیں تو فضلوں کا ایک جہان ہے جو میں اس چھوٹے سے مضمون میں نہیں بیان کرسکتی۔ مگر ہم سب جانتے ہیں کہ وہ خاص فضل ہمیشہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پر رہا اور ہر خلیفہ وقت کے ساتھ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بلکہ ہر قاری جو الفضل کو پڑھتا ہے اس پر بھی ہوتا ہے کہ اس کے علم کو بڑھا دیتا ہے۔ الفضل خلیفہٴ وقت کی زیرِ نگرانی ترقی پذیر رہا ہے۔ جب حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قادیان سے ربوہ ہجرت ہوئی تو الفضل کی اشاعت بھی قادیان سے ہجرت کرتے ہوئے پہلے لاہور اور پھر ربوہ آگئی۔ پھر 2016ء کو پاکستان کے حالات نے ایک اور کروٹ لی کہ اخبار روزنامہ الفضل کی اشاعت پر پابندی لگ گئی۔ پاکستان میں یہ پابندی اب بھی ہے مگر 2019ء میں خلافت خامسہ کے دور میں الفضل آن لائن نے لندن میں اپنے نئے روپ میں گہرے اندھیرے بادلوں سے نکلتے ہوئے یورپ کے افق پر ظاہر ہوا۔ الحمدللّٰہ آج تین سال کا عرصہ ہوگیا ہے۔دل کی گہرائیوں سے دعا ہے کہ یہ ترقی کرے اور جو دعائیں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کے لئے کیں ہیں وہ سب پوری ہوں آمین۔
؎خلافت کے سایہ میں پروان چڑھا ہے الفضل ہمارا
خلافت کے آنگن میں پھولا پھلا ہے الفضل ہمارا
دنیا کی اخباروں میں وہ بات کہاں جو اس میں ہے
نور امامِ وقت کا ہر سو پھیلاتا ہے الفضل ہمارا
الفضل کے مفید اداریے
مکرمہ مبارکہ شاہین۔ جرمنی سے تحریر کرتی ہیں۔
روزانہ کا شمارہ اس قدر روحانی خوبصورتی لئے ہوتا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ ہر اقتباس، ہر مضمون پہ تبصرہ لکھا جائے لیکن بس اپنی ہی کم مائیگی آڑے آتی ہے۔
کچھ دن پہلے منزہ سلیم صاحبہ نے جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جو پیاری روداد لکھی، پڑھ کر دل باغ باغ ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو پیغام حق پہنچانے کی اپنے فضلوں سے توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
’’ایک تھی بشریٰ‘‘ پڑھ کر دل سے ان کے لئے دعائیں نکلیں۔ واقعی بڑی باکمال خاتون تھیں۔ اتنی خوبصورت نثر لکھنا انہی کا خاصہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات جنت الفردوس میں بلند فرمائے۔ آمین۔
امۃ الباری ناصر صاحبہ کی اپنی تحریریں بھی ماشاءاللّٰہ بےمثال ہوتی ہیں۔
آپ کے روزانہ کے اداریے بھی ماشاءاللّٰہ بہت اعلیٰ ہوتے ہیں۔ روزمرہ زندگی کے اصول بہت خوبصورتی سے ادا کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو، ٹیم کو اور سب پیارے لکھنے والوں کو بہترین جزائے خیر سے نوازے۔آمین۔
الفضل۔ ایک روحانی مائدہ،
ایک چشمہ اور ایک چراغ
مکرمہ خالدہ نزہت۔ آسٹریلیا سے تحریر کرتی ہیں:
الحمدللّٰہ! الفضل ایک ایسا چراغ ہے جس سے ہماری زندگیاں روشن و منور ہیں اور ایسا صاف و شفاف چشمہ ہے جس سے ہم اپنی پیاسی روحوں کو سیراب کر رہے ہیں آسٹریلیا میں تو روز ہم الفضل آسانی سے فون میں کھول کر پڑھ لیتے ہیں مگر اس ’’روحانی مائدہ‘‘ کی اصل قدر و منزلت کا اندازہ اس وقت ہوا جب کچھ عرصہ کے لیے پاکستان جانا ہوا تو تقریبا ً 6 سے 7 ہفتہ کے لیے الفضل روزانہ کی بنیاد پر نہیں پڑھ سکی کیونکہ وہاں یہ app کھل نہیں سکی تھی الحمدللّٰہ! میں نے تو واپس آ کر اپنی ساری پچھلی الفضل کا مطالعہ تو کر لیا ہے مگر وہاں جو پڑھتے ہیں ان کی مشکلات کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
الفضل میں شائع ہونے والے مضامین اور اداریے اور ہر چیز ہی آپ کی ٹیم کی ان تھک محنت اور کوشش کو اجاگر کرتی ہے جیسے کہ 29؍ستمبر کی الفضل میں ’’نماز جمعہ کی اہمیت کے سلسلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے درد ناک انتباہ‘‘ اور مکرمہ بشری سعید عاطف کی نظم ’’خدا کے بعد ماں کو رحمتوں کا سائباں لکھا‘‘ بہت اچھی لگی۔ جزاک اللّٰہ احسن الجزاء۔
(پیش کردہ: عطیة العلیم۔ ہالینڈ)