• 8 مئی, 2024

غربت ایک کیمیا ہے

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’پس غریبوں کو ہرگز بے دل نہ ہونا چاہئے۔ ان کا قدم آگے ہی ہے، لیکن وہ کوشش کریں کہ تھوڑی بہت جو کسر ہے وہ نکال دیویں کیونکہ بعض وقت ان لوگوں سے غریبی میں بھی بڑے بڑے گناہ صادر ہو جاتے ہیں۔ صبر نہیں کرتے خد ا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جاتے ہیں۔ معاش کی قلت ہو تو چوری، ڈاکہ اور دوسرے جرائم شروع کر دیتے ہیں۔ ایسی حالتوں میں صبر کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی طرف ہرگز مائل نہ ہونا چاہئے۔

غُربت اور کم رزقی دراصل انسان کو انسان بنانے کے لئے بڑی کیمیا ہے؛ بشرطیکہ اس کے ساتھ اور قصور نہ ہوں۔ جیسے مالداروں میں تکبر اور نخوت وغیرہ پیدا ہو کر ان کے اعمال کو تباہ کر دیتے ہیں ویسے ہی ان میں بے صبری موجبِ ہلاکت ہوتی ہے۔ اگر غریب لوگ صبر سے کام لیں تو ان کو وہ حاصل ہو جو اور لوگوں کو مجاہدہ سے حاصل نہیں ہوسکتا۔ خدا تعالیٰ نے اصل میں بڑا احسان کیا ہے کہ انبیاء کے ساتھ غریبی کا حصہ بھی رکھ دیا ہے۔ آنحضرت ﷺ بکریاں چرایا کرتے تھے۔ موسیٰ ؑنے بکریاں چرائیں۔ کیا امراء یہ کام کر سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت ﷺ کا گزر ایک جنگل میں ہوا۔ وہاں کچھ پھل دار درخت تھے۔ چند ایک صحابی جو کہ ہمراہ تھے وہ ان کا پھل توڑ کر کھانے لگے تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ فلاں درخت کا پھل کھائو بہت شیریں ہے۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ یا حضرت آپ کو کیسے علم ہے؟ فرمایا کہ جب میں بکریاں چرایا کرتا تھا تو اس جنگل میں بھی آیا کرتا اور ان پھلوں کو کھایا کرتا تھا۔ اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے یہ تجویز نہیں کیا کہ انبیاء شاہی خاندان سے ہوں؛ ورنہ تکبر اور نخوت کا کچھ نہ کچھ حصہ ان میں ضرور رہ جاتا اور پھر نبوت کے بھی دو حصے کر دیئے۔ ایک مصائب اور شدائد کا اور دوسرا فتح و نصرت کا۔ انبیاء کی زندگی کے ان دو حصوں میں بھی الٰہی حکمت تھی۔ ایک تو یہی تھی کہ ان کے اخلاق میں ترقی ہو۔ اور سچی بات یہی ہے کہ جوں جوں نبوت کا زمانہ گزرتا ہے اور واقعات اور حادثات کی صورت بدلتی جاتی ہے انبیاء کی اخلاقی حالت بھی ترقی کرتی جاتی ہے۔ ابتداء میں ممکن ہے کہ غصہ وغیرہ زیادہ ہو۔ اس لئے نبی کی زندگی کا آخری حصہ بہ نسبت پہلے کے بلحاظ اخلاق کے بہت ترقی یافتہ ہوتا ہے۔ اس سے یہ مراد ہرگز نہیں ہے کہ ابتداء میں ان کے اخلاق عام لوگوں سے ترقی یافتہ نہیں ہوتے بلکہ یہ امر ہے کہ اپنے دائرہ نبوت میں وہ آخری حصہ عمر میں بہت مؤدب ہوتے ہیں؛ ورنہ ان کی ابتدائی زندگی کا حصہ بھی اخلاق میں توکل لوگوں سے اعلیٰ درجہ کا ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ نبی اگر شدائد اور مصائب سے امن میں رہے تو اُن کی صبر کی قوت کا پتہ لوگوں کو کیسے معلوم ہو۔ پھر بہت سے اخلاقِ فاضلہ اس قسم کے ہیں کہ وہ صرف نزولِ مصائب پر ہی حاصل ہوتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ پر خد ا تعالیٰ کا بڑا فضل و احسان تھا کہ آپؐ کو دونوں موقع عطا کئے۔ ہر ایک نبی کا یہ کام نہیں کہ وہ ہر ایک رتبہ کے لوگوں کو ایک کامل نمونہ اخلاق کا پیش کرسکے۔ فقیر ،غریب اور امیر وغیرہ ہر ایک اس چشمہ سے مساوی سیراب ہوں۔ یہ صرف آنحضرت ﷺ کی ہی ذات سے ہے۔ جس نے کُل ضرورتوں کو پورا کرکے دکھایا۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم ص90)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کا پرنٹ سے ڈیجیٹل میڈیا تک کا کامیاب سفر

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جنوری 2020