کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 32
اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔
- اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
- نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
- بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟
اللہ کے حضور ہمارے فرائض
مکاشفات اور الہامات کے ابواب کے کھلنے کے واسطے جلدی نہ کرنی چاہئے اگر تمام عمر بھی کشوف اور الہامات نہ ہوں تو گھبرانا نہ چاہئے اگر یہ معلوم کر لو کہ تم میں ایک عاشقِ صادق کی سی محبت ہے جس طرح وہ اس کے ہجر میں اس کے فراق میں بھوکا مرتا ہے پیاس سہتا ہے نہ کھانے کی ہوش ہے نہ پانی کی پروا، نہ اپنے تن بدن کی کچھ خبر۔اسی طرح تم بھی خدا کی محبت میں ایسے محو ہو جاؤ کہ تمہارا وجود ہی درمیان سے گم ہو جاوے۔پھر اگر ایسے تعلق میں انسان مَر بھی جاوے تو بڑا ہی خوش قسمت ہے۔ ہمیں تو ذاتی محبت سے کام ہے، نہ کشوف سے غرض نہ الہام کی پروا۔دیکھو جس طرح ایک شرابی شراب کے جام کے جام پیتا ہے اور لذت اٹھاتا ہے۔ اسی طرح تم اس کی ذاتی محبت کے جام بھر بھر پیو۔ جس طرح وہ دریا نوش ہوتا ہے اسی طرح تم بھی کبھی سیر نہ ہونے والے بنو جب تک انسان اس امر کو محسوس نہ کر لے کہ میں محبت کے ایسے درجہ کو پہنچ گیا ہوں کہ اب عاشق کہلا سکوں تب تک پیچھے ہرگز نہ ہٹے۔ قدم آگے ہی آگے رکھتا جاوے اور اُس جام کو منہ سے نہ ہٹائے۔ اپنے آپ کو اس کے لیے بیقرار و شیدا و مضطرب بنالو۔ اگر اس درجہ تک نہیں پہنچے تو کوڑی کے کام کے نہیں۔ ایسی محبت ہو کہ خدا کی محبت کے مقابل پر کسی چیز کی پرواہ نہ ہو۔ نہ کسی قسم کی طمع کے مطیع بنو اور نہ کسی قسم کے خوف کا تمہیں خوف ہو چنانچہ کسی کا شعر ہے کہ
؎آنکہ تراشناخت جاں را چہ کُند
فرزند و عیال و خانماں را چہ کُند
دیوانہ کنی و دو جہانش بخشی
دیوانہ تو دو جہاں را چہ کُند
مَیں تو اگر اپنے فرزند کا ذکر کرتا ہوں تو نہ اپنی طرف سے بلکہ مجھے تو مجبوراً کرنا پڑتا ہے۔ کیا کروں اگر اس کے انعامات کا ذکر نہ کروں تو گنہگار ٹھہروں۔ چنانچہ ہر لڑکے کی پہلے اُسی نے خود اپنی طرف سے بشارت دی۔ اب میں کیا کروں۔ غرض انسان کا اصل مدعا صرف یہی چاہئے کہ کسی طرح خدا کی رضا مل جاوے۔
نہ شبم نہ شب پرستم کہ حدیث خواب گویم
مدارِ نجات صرف یہی امر ہے کہ سچا تقویٰ اور خدا کی خوشنودی اور خالق کی عبادت کا حق ادا کیا جاوے۔ الہامات و مکاشفات کی خواہش کرنا کمزوری ہے۔ مرنے کے وقت جو چیز انسان کو لذت دِہ ہوگی وہ صرف خدا تعالیٰ کی محبت اور اس سے صفائی معاملہ اور آگے بھیجے ہوئے اعمال ہوں گے جو ایمان صادق اور ذاتی محبت سے صادر ہوئے ہوئے ہوں گے مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہُ۔
اصل میں جو عاشق ہوتا ہے۔ آخرکار ترقی کرتے کرتے وہ معشوق بن جاتا ہے کیونکہ جب کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کی توجہ بھی اس کی طرف پھرتی ہے اور آخرکار ہوتے ہوتے کشش سے وہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے اور عاشق معشوق کا معشوق بن جاتا ہے۔ جب جسمانی اور مجازی عشق و محبت کا یہ حال ہے کہ ایک معشوق اپنے عاشق کا عاشق بن جاتا ہے تو کیا روحانی رنگ میں جو اس سے زیادہ کامل ہے ایسا ممکن نہیں کہ جو خدا سے محبت کرنے والا ہو آخرکار خدا اس سے محبت کرنے لگے اور وہ خدا کا محبوب بن جاوے۔مجازی معشوقوں میں تو ممکن ہے کہ معشوق کو اپنے عاشق کی محبت کا پتہ نہ لگے مگر وہ خدا تعالیٰ علیم بذات الصدور ہے اس سے انسان مظہر کرامات الٰہی اور مورد عنایات ایزدی ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی چادر میں مخفی ہو جاتا ہے۔ ان مکاشفات اور رؤیا اور الہامات کی طرف سے توجہ پھیر لو اور ان امور کی طرف تم، خودبخود جرأت کر کے درخواست نہ کرو ایسا نہ ہو کہ جلد بازی کرنے والے ٹھہرو۔ اکثر لوگ میرے پاس آتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسا ورد وظیفہ بتا دو کہ جس سے ہمیں الہامات اور مکاشفات ہونے شروع ہو جاویں، مگر میں ان کو کہتا ہوں کہ ایسا کرنے سے انسان مشرک بن جاتا ہے شرک یہی نہیں کہ بتوں کی پوجا کی جاوے بلکہ سخت شرک اور بڑا مشکل مرحلہ تو نفس کے بت کو توڑنا ہوتا ہے۔ تم ذاتی محبت خریدو اور اپنے اندر وہ قلق وہ سوزش وہ گداز وہ رقت پیدا کرو جو ایک عاشق صادق کے اندر ہوتی ہے۔ دیکھو کمزور ایمان جو طمع یا خوف کے سہارہ پر کھڑا ہو وہ کام نہیں آتا۔ بہشت کی طمع یا دوزخ کا خوف وغیرہ امور پر اپنے ایمان کا تکیہ نہ لگاؤ بھلا کبھی کسی نے کوئی عاشق دیکھا ہے کہ وہ معشوق سے کہتا ہو کہ میں تو تجھ پر اس واسطے عاشق ہوں کہ تو مجھے اتنا روپیہ یا فلاں شے دیدے، ہرگز نہیں۔ دیکھو ایسی طبعی محبت پیدا کر لو جیسے ایک ماں کو اپنے بچہ سے ہوتی ہے۔ ماں کو نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیوں بچہ سے محبت کرتی ہے۔ اس میں ایک طبعی کشش اور ذاتی محبت ہوتی ہے۔
دیکھو اگر کسی ماں کا بچہ گم ہو جاوے اور رات کا وقت ہو تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ جوں جوں رات زیا دہ ہوگی اور اندھیرا بڑھتا جاوے گا اس کی حالت دگرگوں ہوتی جاوے گی گویا زندہ ہی مر گئی ہے مگر جب اچانک سے اس کا فرزند مل جاوے تو اس کی وہ حالت کیسی ہوتی ہے۔ ذرا مقابلہ کر کے تو دیکھو، پس صرف ایسی محبت ذاتی اور کامل ایمان سے ہی انسان دارالامان میں پہنچ سکتا ہے۔ سارے رسول خدا تعالیٰ کو اس لیے پیارے نہ تھے کہ ان کو الہامات ہوتے ہیں ان کے واسطے مکاشفات کے دروازے کھولے گئے ہیں، نہیں بلکہ ان کی ذاتی محبت کی وجہ سے وہ ترقی کرتے کرتے خدا کے معشوق اور محبوب بن گئے تھے۔ اسی واسطے کہتے ہیں کہ نبی کی نبوت سے اس کی ولایت افضل ہے۔
اسی لیے ہم نے اپنی جماعت کو بارہا تاکید کی ہے کہ تم کسی چیز کی بھی ہوس نہ رکھو۔ پاک دل اور بےطمع ہو کر خدا کی محبت ذاتی میں ترقی کرو۔ جب تک ذاتی محبت نہیں تب تک کچھ بھی نہیں۔ مگر جو کہتے ہیں کہ ہم کو خدا سے ذاتی محبت ہے اور اس کے نشان ان میں نہیں پائے جاتے یہ ان کا دعویٰ غلط ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مجازی عاشق میں تو عشق کے آثار اور نشانات کھلے کھلے پائے جائیں بلکہ کہتے ہیں کہ عشق چھپائے سے چھپ نہیں سکتا تو کیا وجہ کہ روحانی عشق پوشیدہ رہ جائے۔ اس کے کچھ نشان ظاہر نہ ہوں۔ دھوکا کھاتے ہیں ایسے لوگ ان میں محبت ہی نہیں ہوتی۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ272-275، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
تمہارا دین اسلام ہے اسلام کے معنے ہیں خدا کے آگے گردن رکھ دینا۔ جس طرح ایک بکرا ذبح کرنے کی خاطر منہ کے بل لٹایا جاتا ہے۔ اسی طرح تم بھی خدا کے احکام کی بجاآوری میں بے چون و چرا گردن رکھ دو۔ جب تک کامل طور سے تم اپنے ارادوں سے خالی اور نفسانی ہوا و ہوس سے پاک نہ ہوجاؤ گے تب تک تمہارا اسلام اسلام نہیں ہے۔بہت ہیں کہ ہماری ان باتوں کو قصہ کہانی جانتے ہوں گے اور ٹھٹھے اور ہنسی سے ان کا ذکر کرتے ہوں گے مگر یاد رکھو کہ یہ اب آخری دن ہیں۔ خدا تعالیٰ فیصلہ کرنا چاہتا ہے۔لوگ بےحیائی، حیلہ بازی اور نفس پرستی میں حد سے زیا دہ گزرے جاتے ہیں۔ خدا کے عظمت و جلا ل اور توحید کا ان کے دلوں میں ذرا بھی خیال نہیں گویا ناستک مت ہوگئے ہیں۔ کوئی کام بھی ان کا خدا کے لیے نہیں ہے۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ326-327، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
نفس کے ہم پر حقوق
انسان کو چاہئے کہ ساری کمندوں کو جلادے اور صرف محبت الٰہی ہی کی کمند کو باقی رہنے دے۔ خدا نے بہت سے نمونے پیش کئے ہیں آدم سے لے کر نوح و ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور حضرت محمد مصطفیٰ علیہم الصلوٰۃ و السلام تک کل انبیاء اسی نمونہ کی خاطر ہی تو اس نے بھیجے ہیں تا لوگ ان کے نقش قدم پر چلیں۔ جس طرح وہ خدا تک پہنچے اسی طرح اور بھی کوشش کریں سچ ہے کہ جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا اس کا ہو جاتا ہے۔
یاد رکھو کہ ایسا نہ ہو کہ تم اپنے اعمال سے ساری جماعت کو بدنام کرو۔ شیخ سعدی صاحب فرماتے ہیں:
بد نام کنندہ نکونا مے چند
بلکہ ایسے بنو کہ تا تم پر خدا کی برکات اور اس کی رحمت کے آثار نازل ہوں۔ وہ عمروں کو بڑھا بھی سکتا ہے مگر ایک وہ شخص جس کا عمر پانے سے مقصد صرف ورلی دنیا ہی کے لذائذ اور حظوظ ہیں اس کی عمر کیا فائدہ بخش ہو سکتی ہے؟ اس میں تو خدا کا حصہ کچھ بھی نہیں۔ وہ اپنی عمر کا مقصد صرف عمدہ کھانے کھانے اور نیند بھر کے سونے اور بیوی بچوں اور عمدہ مکان کے یا گھوڑے وغیرہ رکھنے یا عمدہ باغات یا فصل پر ہی ختم کرتا ہے۔ وہ تو صرف اپنے پیٹ کا بندہ اور شکم کا عابد ہے۔ اس نے تو اپنا مقصد و مطلوب اور معبود صرف خواہشات نفسانی اور لذائذ حیوانی ہی بنایا ہوا ہے۔ مگر خدا نے انسان کے سلسلہ پیدائش کی علت غائی صرف اپنی عبادت رکھی ہے وَ مَا خَلَقۡتُ الۡجِنَّ وَ الۡاِنۡسَ اِلَّا لِیَعۡبُدُوۡنِ (الذاریات: 57)۔ پس حصر کر دیا ہے کہ صرف صرف عبادت الٰہی مقصد ہونا چاہئے اور صرف اسی غرض کے لیے یہ سارا کارخانہ بنایا گیا ہے برخلاف اس کے اور ہی اور ارادے، اور اور ہی اور خواہشات ہیں۔
بھلا سوچو تو سہی کہ ایک شخص ایک شخص کو بھیجتا ہے کہ میرے باغ کی حفاظت کر۔ اس کی آب پاشی اور شاخ تراشی سے اسے عمدہ طور کا بنا اور عمدہ عمدہ پھول بیل بوٹے لگا کہ وہ ہرا بھرا ہو جاوے۔ شاداب اور سرسبز ہو جاوے مگر بجائے اس کے وہ شخص آتے ہی جتنے عمدہ عمدہ پھل پھول اس میں لگے ہوئے تھے ان کو کاٹ کر ضائع کردے یا اپنے ذاتی مفاد کے لیے فروخت کرلے اور ناجائز دست اندازی سے باغ کو ویران کردے تو بتاؤ کہ وہ مالک جب آوے گا تو اس سے کیسا سلوک کرے گا؟
(ملفوظات جلد 4 صفحہ334-335، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
بنی نوع کے ہم پر حقوق
چند احباب نے بیعت کی تھی اس پر ان کو چند کلمات بطور نصیحت فرمائے:
پانچوں نما زیں عمدہ طرح سے پڑھا کرو۔ روزہ صدق سے رکھو اور اگر صاحب توفیق ہو تو زکوٰۃ، حج وغیرہ اعمال میں بھی کمربستہ رہو۔ اور ہر قسم کے گناہ سے اور شرک اور بدعت سے بیزار رہو۔ اصل میں گناہ کی شناخت کے اصول صرف دو ہی ہیں-
اوّل۔ حق اللہ کی بجا آوری میں کمی یا کوتاہی۔ دوم۔ حق العباد کا خیال نہ کرنا۔
اصل اصول عبادت بھی یہی ہیں کہ ان دونو حقوں کی محا فظت کما حقہ کی جاوے اور گناہ بھی انہیں میں کوتاہی کرنے کا نام ہے اپنے عہد پر قائم رہو اور جو الفاظ اس وقت تم نے میرے ہاتھ پر بطور اقرار زبان سے نکالے ہیں۔ ان پر مرتے دم تک قائم رہو۔ انسان بعض اوقات دھوکا کھاتا ہے وہ جانتا ہے کہ میں نے اپنے لیے توبہ کا درخت بو لیا ہے اب اس کے پھل کی امید رکھتا ہے یا ایمان میں نے حاصل کر لیا ہے۔ اس کے اب نتائج مترتب ہونے کا منتظر ہوتا ہے مگر اصل میں وہ خدا کے نزدیک نہ تائب اور نہ سچا مومن۔ کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی اور منظوری کی حد تک نہ پہنچی ہوئی ہو وہ چیز اس کی نظر میں ردی اور حقیر ہوتی ہے۔ اس کی کوئی قدر و قمیت خدا کے نزدیک نہیں ہوتی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک انسان جب کسی چیز کے خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جب تک کوئی چیز اس کی پسندیدگی میں نہ آوے تب تک اس کی نظر میں ایک ردی محض اور بے قمیت ہوتی ہے۔ تو جب انسان کا یہ حال ہے تو خدا تو قدوس اور پا ک اور بےلوث ہستی ہے۔ وہ ایسی ردی چیز کو اپنی جناب میں کب منظور کرنے لگا؟
دیکھو یہ دن ابتلاء کے دن ہیں وبائیں ہیں قحط ہے غرض اس وقت خدا کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے۔ ایسے وقت میں اپنے آپ کو دھوکا مت دو اور صاف دل سے اپنی کوئی پناہ بنالو۔
یہ بیعت اور توبہ اس وقت فائدہ دیتی ہے جب انسان صدق دل اور اخلاص نیت سے اس پر قائم اور کاربند بھی ہو جاوے۔ خدا خشک لفاظی سے جو حلق کے نیچے نہیں جاتی ہرگز ہرگز خوش نہیں ہوتا۔ ایسے بنو کہ تمہارا صدق اور وفا اور سوز و گدازآسمان پر پہنچ جاوے۔ خدا تعالیٰ ایسے شخص کی حفاظت کرتا اور اس کو برکت دیتا ہے۔ جس کو دیکھتا ہے کہ اس کا سینہ صدق اور محبت سے بھرا ہوا ہے وہ دلوں پر نظر ڈالتا اور جھانکتا ہے نہ کہ ظاہری قیل وقال پر۔جس کا دل ہر قسم کے گند اور ناپاکی سے معرا اور مبرا پاتا ہے اس میں آ اترتا ہے اور اپنا گھر بناتا ہے مگر جس دل میں کوئی کسی قسم کا بھی رخنہ یا ناپاکی ہے اس کو لعنتی بناتا ہے۔
دیکھو جس طرح تمہارے عام جسمانی حوائج کے پورا کرنے کے واسطے ایک مناسب اور کافی مقدار کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح تمہاری روحانی حوائج کا حال ہے۔ کیا تم ایک قطرہ پانی زبان پر رکھ کر پیاس بجھا سکتے ہو؟
کیا تم ایک ریزہ کھانے کا منہ میں ڈال کر بھوک سے نجات حاصل کر سکتے ہو؟ ہرگز نہیں۔ پس اسی طرح تمہاری روحانی حالت معمولی سی توبہ یا کبھی کسی ٹوٹی پھوٹی نماز یا روزہ سے سنور نہیں سکتی۔ روحانی حالت کے سنوارنے اور اس باغ کے پھل کھانے سے بھی تم کو چاہئے کہ اس باغ کو بھی وقت پر خدا کی جناب میں نمازیں ادا کر کے اپنی آنکھوں کا پانی پہنچاؤ اور اعمال صالحہ کے پانی کی نہر سے اس باغ کو سیراب کرو تا وہ ہرا بھرا ہو اور پھلے پھولے اور اس قابل ہو سکے کہ تم اس سے پھل کھاؤ۔
(ملفوظات جلد 4 صفحہ330-331، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)
(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)