قرآنی انبیاء
بت شکن
قسط 4
ایک بزرگ نبی کے واقعات جو توحید کا قیام کرنا چاہتے تھے :
بتوں کی دکان میں داخل ہونے والا شخص کافی بوڑھا لگ رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اپنی عمر کا ایک لمبا عرصہ گزارنے کے بعد اب تھکا تھکا سا اپنی بقیہ عمر پوری کر رہا ہو۔ دکان میں داخل ہونے کے بعد اس نے تفصیلی نگاہ سے دکان کا جائزہ لیا اور نوجوان دکاندار سے کہا میں ایک بت خریدنا چاہتا ہوں۔ نوجوان نے بوڑھے کی جانب دیکھا اور پوچھا آپ کون سا بت لیں گے؟ وہ جو سامنے پڑا ہے! بوڑھے نے ایک بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
جی بہت اچھا! نوجوان نے کہا اور مستعدی سے وہ بت لا کر بوڑھے کے سامنے رکھ دیا۔ یہ لیجئے جناب! یہ بت بالکل نیا ہے اور ابھی کل ہی بن کر آیا ہے۔ ویسے اگر آپ برا نہ منائیں آپ سے ایک بات کہوں۔ نوجوان نے بات آگے بڑھائی۔ ہاں ہاں برخوردار کیوں نہیں؟ کہو کیا کہنا چاہتے ہو؟ آپ کی عمر کتنی ہے؟ نوجوان نے ملائمت سے سوال کیا۔ میری عمر؟ بوڑھے نے گویا سوال کیا۔ میری عمر ہو گی یہی کوئی ستر سال کے لگ بھگ۔ ستر سال! نوجوان نے بوڑھے کی بات کو دہرایا۔ آپ کی عمر ستر سال ہے اور آپ اس بت کی عبادت کرنا چاہتے ہیں جو ابھی کل بن کر آیا ہے۔ کیا یہ سب کچھ بہت عجیب نہیں ہے؟
نوجوان کی یہ بات سن کر بوڑھےگاہک کا منہ حیرت سے کھلا کاکھلا رہ گیا۔ واقعی یہ بات تو اس نے کبھی سوچی ہی نہ تھی کہ وہ اتنے سالوں سے ان مٹی اور پتھر کے بنے ہوئے بتوں کے آگے کیوں سر جھکا رہا ہے۔ آج اس نوجوان دکاندار کی بات سن کر وہ دہل کر رہ گیا اور بت کو وہیں چھوڑ کر باہر نکل گیا۔
نوجوان ابراہیم کو یہ بات کبھی بھی اچھی نہ لگی تھی کہ وہ بتوں کے آگے سر جھکائے۔ نہ اس نے خود کبھی ایسا کیا تھا اور نہ ہی لوگوں کے ان کاموں کو پسند کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ آج جب اس کے والد نے اسے کچھ دیر کے لئے دکان پر بیٹھنے کو کہا تو بجائے بت بیچنے کے اس نے اس بوڑھے گاہک کو بتوں سے متنفر کر کے روانہ کر دیا تھا اور ابراہیم کو اس بات کی خوشی تھی کہ بوڑھے پر اس کی بات کا اثر ہے۔
پیارے ساتھیو! جانتے ہیں یہ براہیم کون تھے؟ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے پیارے نبی، ابو الانبیاء اور خلیل اللہ تھے اور یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ بچپن سے ہی آپ کیسے عمدہ اور پکے توحید پرست تھے اور کیسی خوبصورت بحث کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی جابجا آپ کے خوبصورت اور دلنشیں طرز استدلال کا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ آپ کی بحث کا انداز بہت خوبصورت اور اعلیٰ درجہ کا ہوتا تھا۔
آپ عراق کے شہر ’’اُور‘‘ میں پیدا ہوئے اور آپ کے والد کا نام ’’آزر‘‘ تھا۔ آپ کی قوم بنیادی طور پر ستارہ پرست تھی۔ یعنی سورج، چاند، اور دیگر ستاروں کو خدا سمجھ کر ان کی عبادت کیا کرتی تھی اور انہیں آسمانی خداؤں کی نشانی کے طور پر زمین پر انہوں نے بت بھی بنا رکھے تھے بتوں کی عبادت کے لئے بڑے بڑے بت خانے موجود تھے جہاں بنا کر لوگ بتوں کے آگے سر جھکاتے اور ان کی عبادت کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ کے والد آزر بھی بہت بڑے مشرک تھے وہ نہ صرف بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے بلکہ انہوں نے اپنا ایک ذاتی بت خانہ بھی بنا رکھا تھا اور بت فروخت بھی کیا کرتے تھے۔
حضرت ابراہیمؑ کو اپنے والد کا یہ مشرکانہ طرز بالکل پسند نہ تھا اور آپ اکثر اپنے والد سے اس بارے میں بحث کیا کرتے تھے اور ایک روز تو آپ نے صاف صاف اپنے باپ کے سامنے اس کے معبودوں کی مخالفت کر دی۔ آپ نے اس سے کہا کہ اے والد! آپ کیوں ان چیزوں کی عبادت کرتے ہیں جو نہ سنتی ہیں، نہ دیکھتی ہیں اور نہ ہی ہماری کسی تکلیف کو دور کرنے پر قادر ہیں۔ دیکھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے ایک خاص علم عطا کیا گیا ہے جو آپ لوگوں کو نہیں ملا۔ پس آپ یہ بت پرستی چھوڑ کر میرے پیچھے چلیں میں آپ کو سیدھا راستہ دکھاتا ہوں۔ اے میرے والد محترم! کیا آپ اس شیطان کی عبادت کریں گے جو اللہ تعالیٰ کا نافرمان ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس شیطانی دوستی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ آپ کو کسی عذاب میں مبتلا کر دے۔ حضرت ابراہیمؑ کی یہ باتیں سننا تھیں کہ غصے کے مارے ان کے والد آپے سے باہر ہو گئے اور کہا کہ اے ابراہیم! تو کل کا بچہ میرے معبودوں اور خداؤں کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ تجھے یہ ہمت کیسے ہوئی کہ باپ کو غلط اور خود
’’حاکم وقت نے یہ فیصلہ کیا کہ بتوں کی بے حرمتی کرنے کے جرم میں اسے آگ میں زندہ جلا دیا جائے۔ چنانچہ ایک بہت بڑے احاطے میں آگ جلائی گئی اور اس عظیم شخص کو رسیوں سے باندھ کر اس آگ میں پھینک دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دیا کہ میرے بندے کے لئے ٹھنڈی ہو جا اور وہ آگ آپ کے لئے ٹھنڈی ہو گئی۔‘‘
کو صحیح کہہ رہا ہے۔ اپنی ان حرکتوں کو چھوڑ دے اور باز آ جا ورنہ میں تجھے اپنے خداؤں کی غیرت میں سنگسار کر دوں گا۔ ابراہیم علیہ السلام کے والد شدید غصے میں تھے اس لئے کہا کہ تو میری نظروں سے دور ہو جا ایسا نہ ہو کہ میں کوئی سخت قدم اٹھا لوں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت حلیم اور نرم مزاج تھے۔ آپ نے جب دیکھا کہ باپ بتوں کی حمایت نہیں چھوڑتا تو آپ نے گھر چھوڑنا مناسب سمجھا۔ آپ نے اپنے والد سے کہا کہ اے والد محترم! خدا کرے کہ آپ ہمیشہ سلامتی سے رہیں۔ آپ میرے والد ہیں۔ میرے لئے قابل احترام ہیں اس لئے میں آپ کے لئے دعائیں ضرور کرتا رہوں گا تا ہم یہ میرے لئے بہت مشکل ہے کہ میں خدا کے بتائے ہوئے راستے کو چھوڑ کر آپ کی پیروی کرنے لگ جاؤں۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ میں آپ کی نگاہوں سے دور چلا جاؤں۔ آپ کے علاقے کو چھوڑ دوں اور اپنے خدائے واحد کی مرضی کے مطابق زندگی گزاروں۔ اس طرح نہ میں آپ کو دیکھ دیکھ کر غمگین ہوں گا اور نہ میری باتوں پر آپ کو غصہ آئے گا۔ چنانچہ آپ نے ہجرت کرنے کا پختہ ارادہ کر لیا۔ لیکن ابھی قوم کو تبلیغ کرنا باقی تھا اس لئے آپ نے اپنی قوم کو بھی بتوں کے خلاف کھلے عام تبلیغ کرنا شروع کر دی۔ آپ نے لوگوں کو بتایا کہ تم لوگ کھلی کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے ہو۔ خدارا اس گمراہی کو چھوڑ دو ایک خدا کی عبادت کرو لیکن قوم تھی کہ سننے کا نام ہی نہ لیتی تھی۔
چنانچہ ایک روز آپ نے ان بتوں کی کمزوری ظاہر کرنے کے لئے ان کے بت خانے میں موجود تمام بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ صرف ایک بڑا بت باقی رہنے دیا تا کہ لوگوں کو بحث میں قائل کر سکیں۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ آپ کا طریق استدلال بہت خوبصورت تھا۔ بہرحال جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ بت خانے میں موجود ایک بت کے سوا تمام بتوں کو کوئی شخص توڑ گیا ہے تو وہ غصے میں بھر گئے اور تحقیق کی جانے لگی کہ کس نے ایسا کیا ہے؟
اکثر لوگوں کو معلوم تھا کہ حضرت ابراہیمؑ بتوں کے مخالف ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آپ نے یہ حرکت کی ہو۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ اے ابراہیم! کیا تم نے ہمارے بتوں کو پاش پاش کیا ہے؟ اگر تم نے ایسا کیا ہے تو بتاؤ تا کہ تمہیں اس کی سزا دی جائے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام تو پہلے ہی تبلیغ کے لئے موقع کی تلاش کر رہے تھے آپ نے جو اتنے بڑے مجمع کو اپنی طرف متوجہ پایا تو فرمایاتم مجھ سے کیوں پوچھتے ہو؟ جیسا کہ تمہارا عقیدہ ہے کہ یہ بت تمہارے خدا ہیں اور یہ بڑا بت تو نہیں ٹوٹا۔ یہ سلامت کھڑا ہے اس سے پوچھو کہ کس نے ان بتوں کو پاش پاش کیا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام در حقیقت ان سے ڈرتے نہ تھے ورنہ اگر آپ کو قوم کی مخالفت کا خوف ہوتا تو بتوں کو توڑنے کی ہمت ہی کیسے کرتے۔ آپ چاہتے یہ تھے کہ اس تدبیر سے قوم کو یہ بات سمجھائیں کہ دیکھو یہ بت جنہیں تم خدا بنائے بیٹھے ہو ان میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ اپنے مجرم کا نام بتا سکیں۔ سو ایسا ہی ہوا۔ تمام قوم یک زبان ہو کر بولی کہ ابراہیم! کیا تجھے معلوم نہیں کہ یہ بت بولا نہیں کرتے۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا پھر تم ایسے بتوں کی عبادت کیوں کرتے ہو جو نہ کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کے لئے فائدہ کا موجب ہیں۔ افسوس ہے تم پر اور تمہارے خداؤں پر۔
قوم یہ بات تو جان چکی تھی کہ حضرت ابراہیمؑ نے ہی بت توڑے ہیں اور نہ ہی آپ نے اس کا انکار کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ یہ ابراہیم مجرم ہے۔ اسے آگ میں ڈالا جائے تا کہ ہم اپنے خداؤں کی رسوائی کا بدلہ لے سکیں۔ چنانچہ حاکم وقت کے سامنے معاملہ پیش ہوا جس کا نام روایات کے مطابق ’’نمبر‘‘ تھا۔ یہ بادشاہ خود بھی مشرک اور بت پرست تھا۔ اس لئے اس نے فوراً حکم جاری کر دیا جس پر بہت بڑے احاطے میں آگ جلائی گئی۔ لکڑیوں کورکھ کر گویا ایک پہاڑی سی بنا دی اور پھر ان لکڑیوں کو آگ لگا دی گئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رسیوں سے باندھ کر اس آگ میں پھینک دیا گیا۔
پیارے ساتھیو! حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی عام انسان تو تھے نہیں کہ اس آگ میں جل کر راکھ ہو جاتے۔ آپ تو خدا تعالیٰ کے ایک نبی تھے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہی اگ میں ڈالے گئے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس آگ کو حکم دیا کہ
’’اے آگ! میرے بندے ابراہیم کے لئے ٹھنڈی ہو جا۔‘‘
چنانچہ معجزانہ طور پر آپ اس آگ میں پھینکے جانے کے باوجود سلامت رہے اور آگ آپ کو ذرا بھی نقصان نہ پہنچا سکی۔ یہ ایک بہت بڑا معجزہ تھا لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم اپنی ہٹ دھرمی پر قائم رہی اور آپ کی بات نہ مانی۔ سو ان کی حالت دیکھ کر آپ نے ہجرت کا پختہ ارادہ کر لیا اور آپ فلسطین کی طرف ہجرت کر گئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے پیارے انبیاء میں سے ایک تھے اور اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آپ کو اپنا دوست (خلیل اللہ) قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھی نبوت عطا کی اور آپ کی اولاد میں نبوت کی اس نعمت کو جاری رکھا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام آپ کے بیٹے تھے اور نبی بھی تھے۔ اس طرح آپ کے دوسرے بیٹے اسحاق علیہ السلام بھی خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور نبیوں کا ایک لمبا سلسلہ حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں جاری رہا۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے محروم نہ رکھا اور تمام نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ آپ کی نسل میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے علمبردار تھے۔ قرآن کریم میں 22 مقامات پر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے۔ آپ نے دنیا میں توحید کے قیام کے لئے جو کوششیں کیں وہ رہتی دنیا تک یاد رکھی جائیں گی۔ آپ کی وفات کے بعد آپ کو جبرون میں مکفیلہ کے غار میں دفن کیا گیا اور اب اس مقام کو آپ کی یاد میں ’’الخلیل‘‘ کہتے ہیں جو بیت المقدس (اسرائیل) کے نزدیک واقع ہے۔
(فرید احمد نوید۔پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)