محبتوں میں پلے پوسے انسان کی کہانی، اپنی ہی زبانی
قسط (اول)
نوٹ از ایڈیٹر
خاکسار کو جب مکرم سعید احمد رفیق نے اپنی ڈائری بغرض اشاعت بھجوائی تو خاکسار نے اس ڈائری کو پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں رہنمائی کے لئے پیش کیا۔ دربارِ خلافت سے جو ہدایات اس میں ترمیم و اصلاح کے حوالہ سے موصول ہوئیں اس کے مطابق اسے ترتیب دے کر خاکسار نے ایک بار پھر اپنے آقا کے حضور ڈائری بذریعہ ڈاک پیش کی جس کے جواب میں حضور نے فرمایا ’’اگر آپ اسے شائع کرنا چاہتے ہیں تو کر دیں‘‘
اب اسے اس غرض سے الفضل آن لائن کا حصہ بنایا جا رہا ہے کہ مربیان، مبلغین اور معلمین کو بھی ڈائری لکھنے کی طرف رغبت ہو۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بھی مربیان و مبلغین کو ڈائری لکھنے کی ہدایت فرما رکھی ہے۔
موصوف نے اس ڈائری کو تیار کرنے میں بڑی محنت کی ہے اور قارئین کے لئے اپنی ڈائری میں دنیوی اور روحانی زندگی سے تعلق رکھنے والے اپنے مختلف واقعات اور حضور انور کے ارشادات کو یکجا کیا ہے۔ مضمون کی طرز پر ان کی یہ ڈائری یقیناً ہر احمدی کے لئے بہت مفید ثابت ہو سکتی ہے۔ اس میں ’’میں‘‘ یا اپنی ہی تعریف کا عنصر نہیں پایا جاتا بلکہ خلافت سے محبت اور وفا کا رنگ جھلکتا ہے۔ جس کی ایک مثال ڈائری کے شروع میں ہی درج ہے یعنی کہ
’’میں چاہتا ہوں کہ قارئین کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ انسان (حضور انور) جس نے مجھے یہ نصائح فرمائیں ہیں کوئی عام انسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا چنا ہوا وہ انسان ہے جو اس نے خلیفہ بنا کر اپنا نور عطا فرمایا ہے۔‘‘
سعید رفیق صاحب نے حضور انور کے ارشادات اور واقعات کو درج کرنے سے پہلے عام طور پر ایک تمہید باندھی ہے جو حضور انور کے ارشاد تک climax اور interest پیدا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر انہوں نے حضرت حمزہؓ کے قاتل وحشی کے بارہ میں حضور انور سے خط کے ذریعہ ایک سوال کیا تھا جس کا جواب حضور انور نے عنایت فرمایا۔ لیکن یہ سارا واقعہ لکھنے سے پہلے آپ نے بڑی اچھی اور دلچسپ تمہید باندھی ہے جس میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ درجہ ثالثہ میں جامعہ کے طلباء حدیث کا مضمون پڑھنا شروع کرتے ہیں۔ فلاں فلاں حدیث مجھے سمجھ نہیں آئی اس لئے حضور انور سے پوچھ لیا۔ اور پھر جس حدیث کے بارہ میں حضور انور سے سوال کیا اس حدیث کا ایک حصہ بھی ڈائری میں درج کیا۔ سیاق و سباق میں بھی اسلامی تاریخ اور دیگر معلومات درج کی ہیں۔ بڑا اچھا اور معلوماتی اور منفرد انداز اپنایا ہے۔
حضور انور نے بعض باتیں مکرم سعید احمد رفیق کے مزاج، شخصیت، ذوق اور ان کے علم کے مطابق کی ہیں، ان باتوں سے حضور انور کی مربیان اور واقفین زندگی سے شفقت اور محبت کا اظہار واضح ہوتا ہے۔
انسان کی زندگی میں کبھی کبھی ایسے لمحات بھی آتے ہیں جو پھر آکر ٹھہر جاتے ہیں۔ کبھی اس کی ساری زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں۔
اور پھر وقت گزر جاتا ہے مگر وہ لمحے وہیں ٹھہر جاتے ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا آغاز یہیں سے ہوا تھا۔ اس سے پہلے کی زندگی تھی ہی نہیں۔ صرف اور صرف ایک سراب تھا۔
میری زندگی کا آغاز بھی کچھ یوں ہی ہوا۔ زندگی کا یہ سفر اکتوبر 2007ء میں شروع ہوا، جب خاکسار نے جامعہ احمدیہ یوکے میں داخلہ لے کر اپنی زندگی وقف کر دی۔ ایک ایسا شخص اس سفر کے آغاز میں مل گیا جس نے دنیوی زندگی کو روحانی اور اخلاقی زندگی بنا دیا۔ اندھیروں سے نکال کر دنیا کی روشنی دکھائی۔ دکھایا کہ انسان کی دنیا کتنی خوبصورت ہے۔
یہ واقعات اور نصائح جو میں آپکے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ایک امانت ہیں جس سے ہر قاری کو ضرور فائدہ پہنچے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ قارئین کو اس بات کا یقین ہو جائے کہ یہ انسان جس نے مجھے یہ نصائح فرمائیں کوئی عام انسان نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا چنا ہوا وہ انسان ہے جس کو اس نے خلیفہ بنا کر اپنا نور عطا فرمایا۔
جب سے مجھے جامعہ احمدیہ میں داخلہ ملا، خاکسار کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ خلیفۂ وقت کی ہر بات کو محفوظ کر لیا جائے۔ لیکن بیت الفتوح میں لگنے والی آگ کے حادثہ میں خاکسار کی ڈائری ایم ٹی اے آرکائیو لائبریری میں پڑی رہ گئی اور بچ نہ سکی۔ عارضی طور پر تو بہت افسوس ہوا کہ مجھے اس کی ڈیجیٹل کاپی محفوظ کر لینی چاہیے تھی، لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا فضل فرمایا کہ اس سے بڑھ کر کئی باتیں محفوظ کرنے کی توفیق ملی جو میں اب آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔
18 فروری 2010ء بروز جمعرات
ایک بُری خواب
کچھ دن پہلے ایک بُراخواب آیا تھا اور بہت گھبراہٹ تھی۔ خاکسار نے وہ خواب حضور انور کی خدمت میں لکھا اور جواب موصول ہوا:
’’آپ کا خط ملا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ایک منذر خواب دیکھنے کے بعد آپ کو بہت گھبراہٹ ہے۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ لاحول پڑھا کریں اور کچھ صدقہ دے دیں۔ اللہ فضل فرمائے۔ آمین۔‘‘
12مئی 2012ء بروزہفتہ
نبی اور خلیفہ بھی انسان ہی ہوتا ہے
جب ایک طالب علم جامعہ کے تیسرے سال میں پہنچ جاتا ہے تو حدیث کا مضمون بھی کورس میں شامل ہو جاتا ہے۔ ایک حدیث نظر سے گزری لیکن ذہن اسی پر کھڑا رہ گیا۔ کوشش کرنے لگا کہ خود سے کوئی جواب مل جائے یا کسی نتیجہ پر پہنچ جاؤں لیکن سوچ گہرائی میں جاکر بیٹھ گئی۔ایک لمبی حدیث ہے۔ اس کا ایک حصہ بیان کر دیتا ہوں۔
’’پھر جب قریش واپس ہوئے تو میں بھی ان کے ساتھ واپس آگیا اور مکہ میں مقیم رہا۔ لیکن جب مکہ بھی اسلامی سلطنت کے تحت آ گیا تو میں طائف چلا گیا۔ طائف والوں نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک قاصد بھیجا تو مجھ سے وہاں کے لوگوں نے کہا کہ انبیاء کسی پر زیادتی نہیں کرتے۔ (اس لیے تم مسلمان ہو جاؤ۔اسلام قبول کرنے کے بعد تمہاری پچھلی تمام غلطیاں معاف ہو جائیں گی) چنانچہ میں بھی ان کے ساتھ روانہ ہوا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور آپؐ نے مجھے دیکھا تو دریافت فرمایا، کیا تمہارا ہی نام وحشی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم ہی نے حمزہ کو قتل کیا تھا؟ میں نے عرض کیا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس معاملے میں معلوم ہے وہی صحیح ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: کیا تم ایسا کر سکتے ہو کہ اپنی صورت مجھے کبھی نہ دکھاؤ؟ انہوں نے بیان کیا کہ پھر میں وہاں سے نکل گیا۔‘‘
(بخاری کتاب المغازی باب قتل حمزہ)
یہ واقعہ خود ہی وحشی بیان کرتے ہیں۔ وحشی وہ انسان ہے جس نے جنگ احد کے موقع پرآنحضرت ﷺ کے محبوب چچا حضرت حمزہ ؓ کو قتل کر دیا تھا۔ وحشی ایک غلام تھا اور اسکو لالچ دیا گیا تھا کہ اگر حضرت حمزہ ؓ کو قتل کر دے گا تو اسکو آزادی مل جائے گی۔ بہر حال فتح مکہ کے موقع پر وحشی نے آکر بیعت کر لی تھی اورآنحضرتﷺ نے اسکو پہچان بھی لیا تھا جس کا اوپر حدیث میں ذکر ملتا ہے۔ جس بات نے خاکسار کو سوچ میں ڈالا ہوا تھا وہ یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ نے وحشی کو دیکھنا نا پسند فرمایا جبکہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک نبی ایسا فرما رہا ہے۔ چنانچہ خاکسار نے حضور انور کی خدمت میں لکھا اور جواب موصول ہوا:
’’آپ کا خط ملا۔ آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے قاتل وحشی کے بارہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے جس ارشاد کا آپ نے ذکر کیا ہے اس کے بارہ میں یاد رکھیں کہ آپ بشر بھی تو تھے۔ باقی آئندہ جب موقعہ ملے گا تو اس بارہ میں زبانی بات کریں کے۔ اِنْ شَآءَ اللّٰہُ۔ اللہ تعالیٰ آپ کے ذہن کو جلا بخشے اور علم و عمل میں برکت دے۔ آمین۔‘‘
مجھے حضور انور کے خط سے بہت تسلی ملی۔ ہاں کبھی کبھی ہم سب واقعی بھول جاتے ہیں کہ نبی اور خلیفہ بھی انسان ہی ہوتے ہیں۔ جب آنحضرتﷺ سے بھی نشان نمائی کا مطالبہ کیا گیا تو ان کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ انہیں بتا دو کہ میں تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں۔ بےشک اللہ تعالیٰ ان کو اس دنیا میں سے چنتا ہے۔ اپنا محبوب بناتا ہے۔ ان سے باتیں کرتا ہے۔ لیکن بالآخر وہ انسان ہماری طرح کے ہی ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے طرح کھاتے، پیتے،سوتے، جاگتے ہیں۔ لیکن وہ ہوتا سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لئے ہے۔ ان کو بھی تھکاوٹ ہوتی ہے۔ ان کو بھی نیند آتی ہے۔ ان کے بھی جذبات ہوتے ہیں۔
24فروری 2013ء بروز اتوار
پڑھائی کی پریشانی
جامعہ کی پڑھائی کے دوران ایسے مواقع بھی آتے تھے کہ پڑھائی ٹھیک سے کی نہیں جاتی تھی اور نمبر کچھ کم آتے تھے۔ فکر یہ رہتی تھی کہ اس سے تو حضور انور کو خوش نہیں کرسکتا۔ اس لئے حضور انور کی خدمت میں خط لکھا جس کا جواب موصول ہوا:
’’آپ کا خط ملا۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور آپ کو امتحان میں کامیابی عطا فرمائے۔ آپ کے اچھے نمبر اگر نہیں آتے تو کوئی فکر کی بات نہیں۔ آپ کے پاس ہونے پر ہی خوشی ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اپنے فضلوں سے نوازے اور ہمیشہ خوشیوں کے سامان پیدا فرماتا رہے۔ آمین۔‘‘
24جولائی 2013ء بروز بدھ
مزاح
آج پھر حضور انور سے ملاقات تھی۔ حضور انور کی یہ عادت مبارکہ ہے کہ اکثر باتوں باتوں میں مذاق فرماتے ہیں۔ اگر تاریخ میں دیکھا جائے تو انبیاء اور دوسرے خلفاء کی بھی یہ عادت مبارکہ تھی جو کہ میں یہاں بیان کر دینا چاہتا ہوں۔
- حضرت محمود بن ربیع ؓ نے کم سنی میں حضور ؐکے محبت بھرے مزاح کی ایک بات عمر بھر یادرکھی۔ وہ فرماتے تھے کہ میری عمرپانچ سال تھی حضورؐ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے۔ آپؐ نےہمارے کنویں سے پانی پیا اور ڈول سے پانی منہ میں لے کر اس کی ایک پچکاری میرے اوپر پھینکی تھی۔
(بخاری کتاب العلم 1باب مَتَى يَصِحُّ سَمَاعُ الصَّغِيرِ)
- بیان کیا مفتی محمد صادق صاحب نے کہ ايک دفعہ جب ميں حضرت مسيح موعودؑ کی خدمت ميں حاضر تھا تو آپ کے کمرہ کا دروازہ زور سے کھٹکا اور سيد آل محمد صاحب امروہوی نے آواز دی کہ حضور ميں ايک نہايت عظيم الشان فتح کی خبر لا يا ہوں۔ حضرت صاحب نے مجھ سے فرمايا کہ آپ جاکر ان کی بات سن ليں کہ کيا خبر ہے۔ ميں گيا اور سيد آل محمد صاحب سے دريافت کيا انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ مولوی سيد محمد احسن صاحب امروہوی کا فلاں مولوی سے مباحثہ ہوا تو مولوی صاحب نے اُسے بہت سخت شکست دی۔اور بڑا رگيدا۔ اور وہ بہت ذليل ہوا وغيرہ وغيرہ۔ اور مولوی صاحب نے مجھے حضرت صاحب کے پاس روانہ کيا ہے کہ جاکر اس عظيم الشان فتح کی خبر دوں۔ مفتی صاحب نے بيان کيا کہ ميں نے واپس آکر حضرت صاحب کے سامنے آل محمد صاحب کے الفاظ دہرا ديے۔ حضرت صاحب ہنسے اور فرمايا۔(کہ ان کے اس طرح دروازہ کھٹکھٹانے اور فتح کا اعلان کرنے سے) ’’ميں سمجھا تھا کہ شايد يورپ مسلمان ہو گيا ہے‘‘۔ مفتی صاحب کہتے تھے کہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت اقدسؑ کو يورپ ميں اسلام قائم ہو جانے کا کتنا خيال تھا۔‘‘
(سيرت المہدی جلداوّل روايت نمبر302)
- حضرت سیّدہ مریم صدیقہ چھوٹی آپاؒ نے متعدد واقعات بیان فرمائے ہیں۔ آپؒ فرماتی ہیں:
ایک دفعہ میرا اور حضور(حضرت مصلح موعود ؓ) کا کھانا پکانے کا مقابلہ ہوا۔ کھانا تیار ہونے پر مَیں نے حضورؓ کو کہا کہ میری sauce آپ کی sauce سے زیادہ اچھی ہے۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ تم نے بالکل ٹھیک کہا۔ واقعی تمہاری ساس (حضرت امّاں جانؓ) میری ساس سے زیادہ اچھی ہیں۔
(گلہائے محبت صفحہ 95)
- اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ بھی اردو کلاس یا ملاقاتوں میں کوئی نہ کوئی لطیفہ سناتے تھے۔ ایک دفعہ جرمن ملاقات میں حضور نے ایک لطیفہ سنایا کہ ایک بچے سے اسکے باپ نے کہا کہ دیکھو! تم جب شرارتیں کرتے ہو تو میرے بال کچھ سفید ہو جاتے ہیں۔تو تم شرارتیں کم کیا کرو۔تو اس بچے نے کہا۔ اچھا ! اب مجھے سمجھ آئی ہے کہ میرے دادا کے سارے بال کیوں سفید تھے۔
چنانچہ میری اس ملاقات میں کچھ ایسا نظارہ دیکھنے کو ملا۔ میں ابھی ملاقات کے لیے دفتر میں حاضر ہوا ہی تھاکہ یوں گفتگو کا آغاز ہوا:
حضورانور نے فرمایا: چینی جاپانی۔ جاپانی چینی۔۔۔۔۔۔۔ دیکھو میں نے تمہارے نام پر شعر بنا دیا ہے۔
حضور انور کی بہت خوبصورت عادت ہے کہ جلدہی کسی بھی جملہ کا مصرعہ بنا دیتے ہیں۔ لیکن ایک دم سے اسے یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ ’’چینی جاپانی‘‘ کا نام حضور انور نے2007ء میں خاکسار کی پہلی جامعہ کی نشست میں جو کہ حضور انور کے ساتھ ہوئی تھی عطا فرمایا تھا۔ اس لیے کہ خاکسار کی شکل چینی جاپانیوں جیسی لگتی ہے۔ میرے ساتھ کئی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ میں کسی پروگرام میں بیٹھا ہوتا ہوں جس پر مجھ سے آکر پوچھا جاتا ہے کہ آپکو ترجمہ کی ضرورت ہے۔
اس ملاقات میں مَیں کچھ تصاویر ساتھ لے گیا تھا جس پر حضور انور سے دستخط کروانے تھے۔ ان میں سے ایک تصویر میرے ایک استادمکرم حافظ اعجاز احمد کی تھی۔ خاکسار ان کو بطور تحفہ اپنی اور ان کی ایک تصویر دینا چاہتا تھا جس پر حضور انور کے دستخط بھی ہوں۔ چنانچہ جب میں نے حضور انور کو تصویر دی اور بتایا کہ یہ میں نے اعجاز صاحب کو دینی ہے تو حضور انور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’ان سے 5 پونڈ لے لینا۔‘‘
دلچسپ قصے کہانیاں
ایک موقع پر مجھے یہ سعادت نصیب ہوئی اور میں نے حضور انور سے پہیلی پوچھنے کی جسارت کر دی۔ کہ حضور!
دو باپ اور دو بیٹے ایک restaurant میں کھانا کھانے جاتے ہیں۔ لیکن گلاس وہاں صرف تین ہیں۔ وہ پانی کیسے پئیں گے؟ حضورانور نے فوراً اسکا جواب بتا دیا۔ یعنی اصل میں وہ تین افراد ہی ہیں۔ جیسے بکر، بکر کے ابو اور بکر کے دادا۔ بکر اپنے ابو کا بیٹا ہے اور بکر کا باپ بکر کے دادا کا بیٹا۔ اسی طرح بکر کا باپ بکر کا باپ ہوا اور بکر کا دادا بکر کے ابو کا باپ۔ اس طرح سے دو باپ اور دو بیٹے پورے ہو گئے۔
اس کے بعد حضور نے مجھ سے پہیلی ڈال دی
اور فرمانے لگے۔ مرغہ چلتے چلتے رک گیا۔ چاقو پھیرا تو چل پڑا؟ (میں سوچنے لگ گیا) حضور انور: عجیب بات ہے نا؟ مرغہ پر چاقو پھیرا اور وہ چل پڑا۔ (میں نے سوچا تو بہت لیکن جواب نہ آیا۔ بالآخر حضور نے خود ہی جواب دے دیا)
پنسل۔پنسل کو sharpener سے گھڑیں تو وہ پھر سے چل پڑتی ہے۔
مینڈک، چھپکلیاں اور مچھر
ایک دن حضورانور نے مجھ سے پوچھا۔ تم کو زیادہ کیا پسند ہے؟ فیلڈ میں جانا یا پڑھنے لکھنے کا کام یا پھر دفتر؟
خاکسار نے عرض کیا کہ پڑھانے کا۔
فرمایا۔ تم پڑھا لو گے؟ تبلیغ کا تمہیں شوق نہیں؟ اس میں زیادہ بولنا پڑتا ہے۔ میرے خیال سے پڑھانے کا کام ہی ٹھیک ہے۔ تم کو جامعہ کا teacher نہ بنا دیں؟
خاکسار: جیسے آپ فرمائیں۔
فرمایا۔ لیکن ایک دفعہ تو افریقہ جانا پڑے گا۔ وہاں کیڑے مچھر وغیرہ کاٹیں گے۔
خاکسار کو 2011ء میں پہلی دفعہ پاکستان جانے کا موقع ملا۔ اس وقت تھی بھی سخت گرمی اور رمضان المبارک کا مہینہ چل رہا تھا۔ میرے لئے ایک نئی دنیا تھی اور مینڈک اور چھپکلیوں سے خوب واسطہ پڑا۔ بسترپر لیٹا ہوتا تھا کہ اچانک چھپکلیاں دیواروں پر بھاگتی نظر آتیں۔ اسی طرح شام کے وقت مینڈک بھی نکلنا شروع ہو جاتے تھے۔ پتہ نہیں کہاں سے اتنے زیادہ جمع ہو جاتے تھے۔ کئی دفعہ صحن کی طرف کا دروازہ کھلا ہوتا تھا اور وہ گھر کے اندر آجاتے۔ بہرحال خاکسار نے حضور انور سے خطوط کے ذریعہ رابطہ جاری رکھا اور ان ساری باتوں کا ذکر کرتا رہتا۔
پاکستان سے جرمنی واپسی پر مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے نیشنل اجتماع میں شرکت کی توفیق ملی جو کہ حضور انور کی تشریف آوری سے پر رونق تھا۔ خاکسار اپنے جامعہ کے کچھ دوستوں کے ساتھ راہداری کے ایک طرف کھڑا ہوا تھا۔ حضور انور ادھر سے گزرنے والے تھے۔ چنانچہ جب حضور انور تشریف لائے تو دور سے سلام کرنے کی سعادت ملی۔ حضور انور ابھی کچھ ہی قدم خاکسار سے آگے نکلے ہوں گے کہ ایک دم کھڑے ہو گئے۔ حضور انور نے اپنا رخ خاکسار کی طرف کیا اور پاس بلانے کا اشارہ فرمایا۔ خاکسار جلدی سے حضور انور کے پاس گیا۔ حضور انور نے خاکسار کےکندھے پر ہاتھ رکھا اور فرمایاکہ ’’تم ابھی سے چھپکلیوں مینڈکوں سے ڈرنے لگ گئے ہو تو افریقہ جا کر کیا کرو گے؟‘‘
اسی طرح خاکسار کو حضور انور سے خط بھی موصول ہوا۔
’’آپ کے خط ملے۔ آپ نے لکھا ہے کہ پاکستان میں موسم بہت گرم ہے اور چھپکلیوں سے ڈر لگتا ہے۔ آپ ابھی سے ڈر گئے تو افریقہ کے جنگلوں میں کس طرح رہو گے؟ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ تمہیں ہمت عطا کرے اور اخلاص اور بہادری کے ساتھ اپنا وقف نبھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔‘‘
پھر کچھ دنوں بعد 24 ستمبر 2011ء کو جامعہ احمد جرمنی کی حضور انور کے ساتھ ایک نشست تھی۔ حضورانور نے فرمایا کہ ’’جامعہ یوکے میں جرمنی کا ایک لڑکا پڑھ رہا ہے۔ وہ پاکستان گیا تو کہتا ہے کہ وہاں چھپکلیاں بہت تھیں۔ کمرے کی چھت پر چھپکلیاں پھر رہی تھیں۔ میں اُن کو دیکھ کر ڈرتا رہا۔ اس کے بعد جامعہ احمدیہ ربوہ کی مسجد میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آجکل وہاں گرمیاں ہیں تو اس موسم میں مینڈک باہر سے آجاتے ہیں۔ اچھلتے ہوئے مسجد میں بھی آگئے ہوں گے۔ میرا خیال ہے باہر صحن میں نماز پڑھ رہا ہوگا۔ کہتا ہے کہ ایک مینڈک میرے سامنے آگیا۔ میری جان نکل رہی تھی۔ کبھی میں دائیں ہوں اور کبھی بائیں ہوں۔ نماز کی طرف توجہ کم تھی۔ مینڈک کی طرف زیادہ تھی۔ حضور انور نے فرمایا کہ افریقہ میں نماز پڑھتے ہوئے، سجدہ کرنے لگو تو بچھو بھی سامنے آجاتے ہیں۔ اس لئے ہمت کرنی پڑے گی۔
(الفضل انٹرنیشنل 18 نومبر 2011)
حضور انورمجھے کافی عرصہ تک یہ بات یاد کر واتےرہے۔ ایک دفعہ پرائیویٹ سیکرٹری آفس میں حضور انور کی تشریف آوری ہوئی جہاں پر خاکسار کو ہر اتوار (جامعہ میں چھٹی کے دن) خدمت کا موقع ملتا رہا۔ حضور انور نے فرمایا ’’میں ڈڈو بند کر کے ڈبے میں لاؤں؟‘‘ ساتھ حضور خوب مسکرائے۔ ہاں یہی ہیں وہ پل جو میری زندگی بن گئے۔
پھر خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب جامعہ مکمل کرنے کے بعد ہماری فارغ التحصیل کلاس پاکستان کچھ ٹریننگ اورشعبہ جات کا تعارف حاصل کرنے گئی ہوئی تھی۔ ہماری رہائش تحریک جدید کے گیسٹ ہاؤس میں تھی۔ ہر روز جب سونے کے لئے لیٹ جاتا تھا اور بتی بند ہو جاتی تو بھنبھناہٹ کی آواز آنا شروع ہو جاتی تھی۔ یہ کچھ اور نہیں بلکہ پاکستان کے مچھرتھے جو کاٹ کر بھاگ جاتے تھے۔ اس لئے سونے سے پہلے میں کوشش کرتا تھا کہ کمرے میں انکا نام و نشان نہ رہے۔ بحرحال کوئی نہ کوئی رہ جاتا تھا جو کاٹنے میں دیر نہیں کرتا تھا۔ اگلے دن اس جگہ پر بہت خارش ہونے لگتی تھی۔ خاکسار نے اس کا بیان حضور انور سے ایک خط میں کیا جس پر جواب موصول ہوا۔
’’آپ کا خط ملا جس میں آپ نے لکھا ہے کہ آپ کو مچھر پوری رات تنگ کرتے رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ ولایتی خون کا مزہ مچھروں کو بھی اچھا لگا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ہر مشکل سے بچائے اور ہمیشہ اپنی رحمت اور فضل کے حصار میں رکھے۔ آمین۔‘‘
15 دسمبر 2013ء
گھڑیاں
آج خاکسار کو حضورانور نے مغرب سے پہلے تقریباً 15:50پریاد فرمایا۔ حضور شاید نماز کی تیاری فرما رہے تھے اس لیے شیروانی کے بٹن کھلے تھے اور نیلے رنگ کا سویٹر پہنا ہوا تھا۔ میں قریب جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس دوران حضور کی نظر میری گھڑی پر پڑی۔ اور دریافت فرمایا۔ یہ ابو نے لے کر دی ہے؟
جی حضور! جب میں اولیٰ میں پڑھتا تھا۔
حضورانور: کونسی ہے؟
خاکسار: Fossil کی۔ ( حضور کافی غور سے دیکھ رہے تھے۔ خاکسار نے اتار کر حضور کو دے دی۔)
پوچھا: Swiss کمپنی ہے؟
خاکسار: شاید جرمن ہے۔ نہیں پتہ نہیں۔
حضورانور: American طرز پر بنی ہوئی ہے۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ جب بعد میں جا کر انٹرنٹ پر چیک کیا تو Fossil واقعی ایک امریکن کمپنی ہے۔ حضورانور نے بالکل ٹھیک فرمایا تھا۔ اس سے اندازہ ہوا حضورانور کو گھڑیوں کے بارے میں بھی بہت معلومات ہیں۔ حضور انورکو دیکھنے سے ہی ایک گھڑی کا پتہ لگ گیا۔
سر کے بال
آج باتوں باتوں میں بالوں کے بارہ میں بات شروع ہو گئی۔ میرے دادا ابو اور والد صاحب کے سر کے بال بہت کم ہیں اور اسی طرح خاکسار کے بھی۔
حضورانور: فرماتے ہیں جس کے سر کے درمیانی حصے کے بال نہ ہوں He is a scholar ۔۔ جس کے سر کے اگلے حصے کے بال نہ ہوں He is a good thinker۔
اور جس کے سارے بال نہ ہوں He thinks he is a good thinker۔
06 مارچ 2014ء بروز جمعرات
نماز کے لئے تکبیر
شاہد کے امتحان ختم ہوئے تو میں لندن آگیا اور ہر روز پرائیویٹ سیکرٹری آفس خدمت کے لئے حاضر ہوتا تھا۔ ہر روز حضور انور سے ملنے کی چاہت ہوتی تھی۔ چنانچہ آج حضور نے یاد فرما لیا۔
حضورانور: مولوی سعید کہوں یا مولوی مون یا مولوی چینی جاپانی؟
حضورانور: کیسے تھے امتحان؟
خاکسار: کافی مشکل تھے۔ عربی قواعد، عربی ادب اور انگریزی کا بہت مشکل تھا۔
حضورانور: چلو ’’مولوی‘‘ بن تو گئے ہو اور کیا چاہئے؟
حضورانور: اچھا تکبیر سناؤ۔ ( پہلے تو شرما رہا تھا۔ پھر میں نے کہنا شروع کی)
خاکسار: اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ (جب میں اشھد ان لاالہ الاللّٰہ پر پہنچا تو فرمایا)
تم آخری لفظ کھا لیتے ہو۔ (اس پر حضور انور نے خود تکبیر پڑھ کر سنائی۔ حضور کی زبان مبارک سے تکبیر سننا بھی ایک بہت بڑی سعادت تھی)۔
حضور : اب دوبارہ کہو؟ (میں نے اس طریق پر جس پر حضور انور نے تکبیر پڑھی تھی کوشش کی لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا)
خاکسار: میں پریکٹس کروں گا۔
تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے
ہماری پوسٹنگ کا وقت قریب آتا جا رہا تھا۔ جامعہ کا عرصہ ٔ تعلیم مکمل ہونے کو تھا۔ پھر کچھ ٹریننگ ہونی تھی اور اسکے بعد کسی نے کہیں اور کسی نے کہیں ہونا تھا۔ خلیفۂ وقت کی قربت میں جو وقت گزارا وہ بار بار یاد آتا تھا۔ اور دل میں یہ خیال گزرتا تھا کہ خدا جانتا ہے کہ اب کتنی دور چلے جانا ہے۔ لیکن پھریہی تو وقف ہے!
خاکسار نے حضورانور سے حضرت مصلح موعودؓ کے دعا کرنے والے اس اقتباس کے بارے میں وضاحت کی درخواست کی۔
’’تمہارے لئے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ’تمہاری محبت رکھنے والا‘ تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ’تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا‘ تمہارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے‘‘
(انوار العلوم جلد2 کتاب برکات خلافت صفحہ158)
حضورانورنے فرمایا : ہاں مجھے بھی یاد ہے اور میں بھی دعا کرتا ہوں۔
کندھے میں چوٹ
اس ملاقات میں خاکسار نے اپنے ایک استاد کے لئے دعا کے لئے درخواست کی کہ بیڈمنٹن کھیلتے ہوئے انکا کندھے کا پٹھا کھنچ گیا ہے۔
فرمایا: ان سے کہنا Arnica اور Ruta 200 میں تین دن لیں
ہائیکنگ
حضورانور نے مجھ سے ایک بار دریافت فرمایا کہ کیا تم ہائیک پر جا رہے ہو فرانس۔ Alps پر؟
خاکسارنے ہاں میں جواب دیا
حضورانور نے فرمایا۔ میں نے ان کو کہہ دیا ہے کافی خطرناک ہے۔ ایک فیملی اسکے (پتھروں) کے نیچے آ گئی تھی۔ بیوی بچے تو بچ گے تھے لیکن آدمی نہ بچ سکا۔
خاکسار نے حضور سے کبھی Hike کرنے کا سوال کیا ؟ تو
حضورانور نے فرمایا۔ نہیں میں شکار کرتا تھا۔
میرے ابا نے مجھے شکار کرنا سکھایا۔ میں نے خلیفہ ثالثؒ کے ساتھ بھی شکارکھیلا ہوا ہے۔ انکا نشانہ بہت اچھا تھا۔ اور خلیفہ رابعؒ کے ساتھ بھی۔
عربی زبان
خاکسار نے حضورانور سے سوال کرنے کی اجازت چاہی جوحضرت مسیح موعود ؑ کے بارہ میں تھا۔
اجازت ملنے پر خاکسارنے عرض کی کہ آپ کو جو ایک رات میں 40000 عربی کے مادے سکھائے گئے تھے؟
حضورانور نے فرمایا 40000 مادے یا کچھ کہتے ہیں کہ 40000 الفاظ کیونکہ عربی کے اتنے مادے نہیں ہوتے۔ انکو کہا گیا تھا کہ آپ تقریریں کریں۔ لیکن آپ نے کہا مجھے تو عربی نہیں آتی۔
خاکسار نے عرض کی کہ حضور علیہ السلام کو پہلے سے عربی بھی آتی تھی؟ کیونکہ میں نے براہینِ احمدیہ میں پڑھ رہا تھا۔ اس میں انہوں نے عربی لکھی ہوئی ہے۔
حضورانور: ہاں۔ اس سے پہلے تھوڑی بہت لکھتے تھے۔
22 مارچ 2014ء بروز ہفتہ
سعید کیا یاد کرے گا؟
آج بھی خاکسار کچھ اور کلاس فیلوز کے ساتھ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں حاضر تھا۔ بیلجیم سے نومبا ئعین کا وفد بھی آیا ہوا تھا حضور انور جب ملاقات سے فارغ ہو کر واپسی اپنے دفتر تشریف لے جا رہے تھے تو سب سے پہلےبرادرم لقمان باجوہ پر نظر پڑی۔ لقمان باجوہ صاحب بھی مربی ہیں اور آج کل گواڈیلوپ جو کہ سینٹرل امریکہ میں ایک جزیرہ ہے خدمت بجا لا رہے ہیں۔ چنانچہ حضور انور لقمان کی طرف متوجہ ہوئے۔
لقمان پاس ہو گئے تھے؟
لقمان: جی حضور۔ پھر حضور نے میری طرف شفقت نظر فرمائی اور پوچھا۔
ان سب کو مٹھائی کھلائی ہے پاس ہونے کی؟
نہیں حضور! ابھی کھلانی ہے۔
حضور انور نے فرمایا۔چلو! میں تمہیں چاکلیٹ دیتا ہوں۔ ان سب کو اور دوستوں کو کھلا دینا۔ (آج بھی مجھے جب اتنے سالوں کے بعد یہ تحریر لکھنی کی توفیق مل رہی ہے وہ مسکراہٹ اور خوشی جو حضور انور کے چہرہ مبارک پر میرے پاس ہونےکی تھی یاد ہے۔)
حضورانور خاکسار کو اپنے ساتھ دفتر میں لے گئے۔ تب حضورانور نے دو پیکٹ چاکلیٹ کے الماری سے نکال کر دئیے اور میری طرف شفقت کی نظر فرمائی۔
خاکسار نے حضور کا شکریہ ادا کیا۔
حضورانور نے مجھ سے دریافت فرمایا کہ عربی میں تمہارے کم نمبر آئے تھے۔ قواعد تھا یادوسرا؟
خاکسار نے عرض کی کہ ادب تھا۔ (جامعہ کے شاہد کے امتحانات میں دو طرح کے عربی کے امتحان دینے ہوتے ہیں۔ ایک قواعد کا اور دوسرا ادب کا۔)
حضورانور: قواعد میں تو چاریاپانچ فیل ہوئے تھے۔
خاکسار: میرے 63 آگئے تھے۔
حضورانور: اس کا مطلب ہے اچھا رٹا مار لیتے ہو؟
تمہارے تین چار نمبر رہتے تھے۔ میں نے سوچا پاس کر دیتا ہوں۔ سعید کیا یاد کرے گا۔
05 اپریل 2014 بروز ہفتہ
اپریل کی چھٹیاں
ہماری جامعہ کی آخری کلاس میں آخری چھٹیاں آج سے شروع تھیں۔ میری بہت خواہش تھی کہ حضور انورسے جانے سے پہلے ایک دفعہ ملوں۔ میں نے خط میں حضور انور سے اس کا اظہار بھی کیا تھا۔ خیر آج شام کو میری جرمنی کے لئے فلائٹ تھی۔ میں جامعہ کی وین میں تھا اور ائیرپورٹ کی طرف روانہ تھا۔ رستہ میں وین مسجد فضل رکنی تھی کیو ں کہ کچھ لڑکوں نے ادھر اترنا تھا۔ چنانچہ رستہ میں فون کے ذریعہ مجھے پیغام ملا کہ حضورانور خاکسار کو یاد فرما رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ لگتا ہے سعید! اپنی بیگم سے زیادہ اداس ہو جاتا ہے۔ اب اس وقت تو ذہن میں کافی سوال اٹھنے لگے کہ اگر میں مسجد فضل رک گیا تو وین تو نکل جائے گی اور میں ائیرپورٹ کیسے پہنچوں گا؟ یا ہو سکتا ہے کہ میری فلائٹ ہی نکل جائے۔ لیکن میرے خلیفہ نے مجھے یاد فرمایا تھا۔ میں ایسے نہیں جا سکتا تھا۔ اس لئے میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے مسجد فضل اتر گیا۔ ائیرپورٹ جانے کے لئے میں نے اپنے ماموں سے درخواست کی کہ انتظام کر دیں۔ انہوں نے ٹیکسی کا انتظام کر دیا۔ پی ایس آفس حاضر ہو گیا۔ ابھی حضور انور دفتر تشریف نہیں لائے تھے۔ جیسے ہی حضور انورکی تشریف آوری ہوئی مکرم منیراحمد جاوید صاحب نے مجھے اندر بھیج دیا۔
حضور انور: تم جا رہے ہو؟
خاکسار: جی آج۔
حضور انور: ابھی چھٹی ہوئی ہے جلدی سے جا بھی رہے ہو۔ میں نے کل بلایا تھا۔ کہتے ہیں تم تھے نہیں۔ اس سے ایک دن پہلے تم مجھے نماز پر نظر آئے تھے۔
حضور انور: کب جانا ہے؟
خاکسار: 7:45 پر فلائٹ ہے۔
حضور انور: اچھا لیٹ نہیں ہو جاؤ گے؟
خاکسار: نہیں گاڑی پر جانا ہے۔
حضور انور: گاڑی ہے۔ ہیلی کاپٹر تو نہیں ہے۔ لگتا ہے تم امی ابا سے اداس ہو جاتے ہو۔ بیگم سے بھی۔
خاکسار: نہیں حضور۔ میں آپ سے اداس ہو جاتا ہوں۔ (حضور مسکرانے لگے)۔
حضور انور: پاکستان سے لڑکے آگئے ہیں۔ کیا کہتے ہیں؟
خاکسار: آپ نے ان کو باہر سے کھانا منع فرما دیا تھا۔ حضور مسکرانے لگے۔ (ہر سال جماعت کے نظام کا تعارف حاصل کرنے کے لئے جامعہ کے طلباء کو حضور انور پاکستان بھجوا دیتے ہیں۔ اس سال بھی جامعہ یوکے کا دوسرا بیچ گیا تھا۔ ایک لڑکے نے باہر سے کھانا کھا لیا جس کی وجہ سے کافی بیمار ہو گیا تھا۔ اس پر حضور انور نے طلبہ جامعہ یوکے اور کینیڈا کو پاکستان میں باہر سے کچھ کھانا منع فرما دیا تھا)
حضور انور نے فرمایا کہ تمہارا تو میں باربی کیوکروا دوں گا۔
17 اپریل 2014ء بروز جمعرات
ہائیکنگ
ہائیکنگ سے واپس آکر حضور انور سے ملاقات کا شرف ملا۔
حضورانور: ہائیک پر گئے تھے؟( خاکسار کو جامعہ کے طلباء کے ساتھ فرانس کے الپس میں ہائیکنگ پر جانے کا موقع ملا تھا)
خاکسار: جی حضور۔
حضورانور: 75 کلو میٹر چلے تھے؟
خاکسار: 75 میل، حضور۔
حضور: اچھا وزن کم ہوا؟
خاکسار: جی حضور 3 یا 4کلو۔
اس کا ذکر خاکسار نے حضور انور سے خط میں بھی کیا تھا۔ چنانچہ حضور کا خط موصول ہوا کہ
’’آپ کا ہائیکنگ کے حوالہ سے خط ملا۔ آپ نے ماشاء اللہ بڑی ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔ مربی کو اتنا ہی با ہمت ہونا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو آئندہ بھی اپنے ہر نیک عزم میں استقلال عطا فرمائے اور اخلاص و وفا میں بڑھاتا رہے۔ آمین‘‘
نیند کی مشکل
اکثر دیکھا ہے کہ حضور انورکو ہماری بعض ایسی چیزوں کا بھی خیال ہوتا ہے جس کے بارہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ اس کا حضور انور سے ذکر کرنا ضروری نہیں ہے۔ لیکن حضور انور اتنی باریکی سے محبت فرماتے ہیں کہ بعض اوقات ایسے چیزوں کے بارہ میں پوچھ لیتے ہیں۔
حضورانور: نیند ٹھیک آتی ہے؟
خاکسار: نہیں۔ رات کو کئی دفعہ اٹھ جاتا ہوں۔
حضورانور: پھر نفل وغیرہ پڑھنے تھے۔
خاکسار: جی حضور پڑھتا ہوں۔
حضورانور: استغفار کیا کرو اور لاحول پڑھا کرو۔
اور حضور نے ایک ہومیوپیتھک دوائی لکھ کر دی جسکا نام Passiflora ہے۔ اس کے ساتھ یہ ہدایت دی کہ سونے سے پہلے پانی میں دس قطرے ڈال کر پیا کروں۔ خاکسار اپنے ذاتی تجربہ سے یہ بتا سکتا ہے کہ یہ دوائی ہر اس شخص کو مدد دے سکتی ہے جس کو رات کو نیند نہیں آتی۔
29 اپریل 2014ء بروز منگل
ہائیکنگ کی تصاویر
میں نے ہائیکنگ کی کچھ تصاویر حضور کو دکھانی تھیں۔ اس لئے میں فیصل محمود خان (آج کل ایم ٹی اے ٹرانسلیشن میں خدمت کی توفیق پا رہے ہیں) کا آئی پیڈ ساتھ لے کر گیا۔
حضورانور نے جاتے ہی مجھے یوں مخاطب ہو کر فرمایا۔ سعید چینی! بیٹھ جاؤ۔ نیزآئی پیڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پوچھا۔ یہ کیا ہے؟
خاکسار نے عرض کی کہ ہائیکنگ کی تصویریں حضور کو دکھانی تھی۔
حضورانور: اچھا یہ تم نے اتنا مہنگا لیا ہوا ہے۔ فضول خرچی کی ہے۔
خاکسار: میرا نہیں ہے۔
حضورانور: کس کا ہے؟
خاکسار: فیصل خان کا۔
حضورانور: ایاز (محمود خان) کا بھائی؟
خاکسار: جی۔
حضورانور: اچھا چلو دکھاؤ؟ (خاکسار نے آئی پیڈ پیش کرنے کے لیے حضور کی طرف بڑھایا)
حضورانور: ادھر آکر دکھاؤ۔ (خاکسار جلدی سے حضور انور کے پاس جا کر کھڑا ہوگیا اور آئی پیڈ پر تصاویر دکھانے لگا۔ حضور اپنے دست مبارک سے تصاویر آگے کرتے رہے۔)
خاکسار: یہ Mont Blanc کی ہے۔
کرتےہوئے)
حضورانور: یہ تم انگڑائی لے رہے ہو؟
خاکسار: جی حضور۔
خاکسار عرض کرتا ہے کہ کئی دفعہ حضور انور کو کچھ تصاویر دکھانے کا موقع ملا ہے۔ حضور ہمیشہ پوری توجہ اور شوق سے ملاحظہ فرماتے ہیں۔ تصاویر کے بارہ میں اکثر سوالات بھی کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ تقریباً ہر تصویر کے بارہ میں کوئی نہ کوئی تبصرہ بھی فرماتے ہیں۔
(باقی کل اِنْ شَآءَ اللّٰہُ)
(سعید احمد رفیق۔ مربی سلسلہ اِسلام آباد، یوکے)