• 4 مئی, 2024

عائلی زندگی کو حسین بنانے کے گُر

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے حالیہ دورہٴ امریکہ 2022ء میں واقفات نو کی کلاس میں ایک بچی نے سوال کیا

سوال: عام طور پر يہ کہا جاتا ہے کہ جب مختلف نسل يا ثقافت کے لوگ آپس ميں شادي کريں تو انہيں کئي مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ايسي شاديوں کے بارہ ميں احمديت کا نقطہ نظر کيا ہے؟

حضور انور ايدہ اللہ بنصرہ العزيز نے فرمايا:‘‘اگر مختلف نسلي ثقافتوں کے لوگ آپس ميں شادياں کرتے ہيں تو يہ اچھي بات ہےليکن دونوں طرف کو بہت روادار ہونا ہو گا۔بات يہ ہے کہ آنحضور صلي اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ کسي انتخاب سے پہلے تمہيں يہ کوشش کرني ہو گي کہ تم کسي ايسے کو منتخب کرو جو روحاني طور پر اچھا ہوجس کو ديني علم پر عبور حاصل ہو اور وہ ايک پکا مسلمان ہو۔پس جب دونوں فريق مرد اور عورت ان سب باتوں کا خيال رکھيں گےتو پھر وہ زندگي سے لطف اندوز ہوں گے خواہ دونوں مختلف يا ايک ہي نسل يا ثقافت سے ہوں۔ اس بات کو ہميشہ ياد رکھيں کہ کوئي شخص کامل نہيں ہےسب ميں کمزورياں موجود ہيں اگر دونوں روادار ہوں اور اپني آنکھيں، منہ اور کان ايک دوسرے کي برائي سننے سے محفوظ رکھيں گےاور نہ ہي ايک دوسرے کو برا کہيں گےتب ايک اچھي عائلي زندگي گزاريں گے۔جب مختلف ثقافتوں کے لوگ احمديت ميں اکٹھے ہو جائيں گے تو ايک بہت اچھا احمدي ماحول قائم ہو جائے گا اور ہميں اسے قائم کرنے کي کوشش کرني چاہيے۔ يہ بات ہميں اسلام سکھاتا ہے اور ميں اس پر يقين رکھتا ہوں ليکن لوگوں ميں کمزورياں ہوتيں ہيں کبھي کبھي وہ اس طرز پر عمل نہيں کرتے۔ہم عام طور پر مالي حالات،اچھي جاب ديکھتے ہيں يا يہ کہ لڑکي يا لڑکا تعليم يافتہ ہے پس ان سب کو ديکھنے کي بجائے ہميں اس بات پر دھيان دينے کي کوشش کرني چاہيےکہ اس شخص کا ديني پس منظر اچھا ہو اور با عمل مسلمان ہو۔

(روزنامہ الفضل آن لائن 9؍دسمبر 2022ء)

پچھلا پڑھیں

ڈوری برکینا فاسو کا تعارف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2023