• 7 مئی, 2024

توہین رسالت کی سزا قتل۔ درست یا غلط

توہین رسالت کی سزا قتل۔ درست یا غلط
حضرت مسیح موعودؑ نیز خلفائے احمدیت کے ارشادات و عملی اقدامات کی روشنی میں

اسلام دین فطرت ہے اور قرآن کریم عین انسانی فطرت کے مطابق تعلیم دیتا ہے رسول کریمﷺ کا اسوہ اس پر شاہد ہے آپؐ نے کوئی ایک حکم بھی ایسانہیں دیا جسے انسانی فطرت قبول نہ کرتی ہو۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ دشمنانِ اسلام ہمیشہ ہی اسلام کی حسین تعلیم پر اعتراض کرتے چلے آئے ہیں اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہے ہیں کہ کسی نہ کسی ضعیف یا محرف و مبدل روایت کا سہارا لے کر اسلام پر حملہ آور ہوں اور اسلام کو بدنام کریں۔اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض علماء اسلام نے بھی بعض ضعیف روایات کو لے کر اسے اسلامی تعلیمات کے رنگ میں پیش کیا اور بعض مستشرقین کےخیالات سے متأثر ہو کر ان کی بیان کردہ روایات اور واقعات کو اپنی کتب اور تفاسیر میں جگہ دی پھر وہی روایات اور واقعات اسلامی تاریخ کا حصہ بن گئے۔آگے چل کر یہی واقعات دور حاضر میں علمائے اسلام کی جانب سے لکھی جانے والی کتب کا حصہ بن گئے اور اسلام کی حسین تعلیم پر اپنے بد نما داغ چھوڑ گئے۔جس سے دشمنان ِ اسلام کو اسلام کی حسین تعلیم پر اعتراض کرنے کا خوب موقعہ حاصل ہوا۔

دیکھا جائے تو پاکستان میں توہین رسالت کی سزا کے لئے دفعہ 295-C کا اضافہ بھی ایسی ہی بے بنیاد اور وضعی روایات کا نتیجہ ہےجس کی اصل قرآن مجید میں موجود نہیں۔یہی وجہ ہے کہ توہینِ رسالت کرنے والے اور شاتمِ رسول کی سزا قتل کے نظریہ کے پیش نظر بہت سی کتب لکھی گئی ہیں۔ سب سے اہم کتاب جس کے حوالے اکثر علماء اپنی کتب میں پیش کرتے ہیں وہ امام ابن تیمیہؒ کی کتاب ’’الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول‘‘ ہے ایک کتاب ’’شاتمِ رسولﷺ کی شرعی سزا‘‘ تالیف پیرزادہ شفیق الرحمٰن شاہ الدّراوی صاحب کی ہے۔ ایک کتاب ’’تحفّظ ناموسِ رسالت‘‘ کے عنوان سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب کی طرف سے لکھی ہوئی ہےاسی طرح ایک کتاب ’’شانِ مصطفٰی ﷺاور گستاخِ رسول کی سزا‘‘ کے عنوان سےجناب قادری محمد یعقوب شیخ صاحب کی طرف سے تصنیف شدہ ہے۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب اس مضمون پر شائع شدہ ہیں ان کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان تمام مصنفین کا موقف ایک ہی ہے اور ایک ہی طرح کے حوالے انہوں نے پیش کئے ہیں اور ایک ہی نظریہ کو پیش کیا ہے اور ان تمام مصنفین نے امام ابن تیمیہ کی کتاب کو بنیاد بنایا ہے۔ اس عنوان پر لکھنے والوں نے اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ شاتمِ رسولﷺ اور توہین رسالت کرنے والوں کی سزا لازمی طور پر قتل ہے۔ اسی لئے غالباً انہیں کتب کو بنیاد بنا کر اور ایسے علماء کے فتوؤں کا سہارا لے کر حکومت ِپاکستان نے تعزیرات پاکستان میں توہین رسالت کرنے والے اور شاتم ِرسول کے لئے قتل کی سزا رکھی ہے اور دفعہ 295-C کا اضافہ کیا گیا۔

قرآن کریم میں تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے اور کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ کسی ایک نبی کا بھی انکار کرے۔ اسی طر ح کسی نبی کے درمیان اس پر ایمان لانے اور اس کی تکریم کرنے کے لحاظ سے تفریق نہیں کی جا سکتی۔ہاں یہ بات اپنی جگہ ہے کہ انبیاء کو ان کے مرتبہ اور مقام کے لحاظ سےایک دوسرے پر فضیلت دی گئی ہے۔جہاں تک ایک دوسرے پر فضیلت کی بات ہے تو اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ قر آن کریم میں بیان فرماتا ہے:

تِلۡکَ الرُّسُلُ فَضَّلۡنَا بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ ۘ مِنۡہُمۡ مَّنۡ کَلَّمَ اللّٰہُ وَرَفَعَ بَعۡضَہُمۡ دَرَجٰتٍ

(البقرہ: 254)

یعنی: یہ رسول ہیں جن میں سےہم نے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی تھی اور ان میں سے بعض ایسے ہیںجن سے اللہ نے کلام کیا اور اس میں سے بعض کے درجات بلند کئے۔

اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انبیاء باوجود اس کے کہ درجات کے لحاظ سے بعض بعض پر فضیلت تو رکھتے ہیں لیکن عزّت و تکریم کے لحاظ سے ناموس کے لحاظ سے سب برابر ہیں اور جب بھی ناموس رسالت کی بات آئے گی تو قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق کسی ایک نبی کے ناموس کی بات نہیں آئے گی بلکہ تمام انبیاء کی ناموس کا خیال رکھنا ہوگا، قرآن کریم ہمیں یہی حکم دیتا ہے اور یہی قرآن کریم کی کاملیت اور افضلیت کا ثبوت ہے۔

نیز فرماتا ہے:

یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ ﴿۳۱﴾

(یٰس:31)

یعنی۔ ہائے افسوس (انکار کی طرف مائل) بندوں پر جب کبھی بھی ان کے پاس کوئی رسول آتا ہے وہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھنے لگ جاتے ہیں (اور تمسخر کرنے لگتے ہیں)۔

ان آیات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی اور رسول دنیا میں آتے ہیں ان کے ساتھ اس زمانہ کے لوگ ہمیشہ ہی ہنسی ٹھٹھا اور مذاق کرتے ہیں اوران کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ لوگ جو ان انبیاء پر ایمان نہیں لاتے وہ ہمیشہ ہی ان سے ایسا ہی سلوک کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے انبیاء کبھی بھی ایسے لوگوں پر تیش میں نہیں آتے اور انہیں برا بھلا نہیں کہتے بلکہ وہ اس کام میں ہمیشہ لگے رہتے ہیں جس کا ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے۔

ہر نبی کے دور میں نبی کے دشمن بھی پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن کسی بھی نبی نے ان کی ہنسی اور دشمنی کا بدلہ ہنسی اور دشمنی کرکے نہیں دیا بلکہ ان کو انجام تک پہنچانے کے لئے اللہ کے حضور ہی چھوڑ دیا کہ وہ خود ہی ان لوگوں سے نپٹ لےاور ایسا ہی ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کرنے والوں کو خود ہی پکڑلیا اور وہ لوگ عبرتناک انجام تک پہنچے۔

اس زمانے میں عیسائی مشنریزتو اسلام کے خلاف کام کر ہی رہے تھے، ان کی دیکھا دیکھی آریہ سماج نے بھی جو کہ ہندوؤں کی ایک شاخ ہے، اسلام اور آنحضرتﷺ کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا۔ آریہ سماجی پنڈت دیانند نے ایک کتاب ستیارتھ پرکاش لکھی جس میں چودھواں ادھیائے (Chapter) اسلام کے خلاف لکھا جس میں قرآن کریم کی آیات کو لے کر ان کے غلط مفہوم کو بیان کر کے اسلام اور حضرت محمد مصطفٰےؐ پر شدید حملے کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی کتب شائع ہو کر منظر عام پر آچکی تھیں۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے موجودہ دور میں ناموسِ رسالت پر حملہ کرنے والوں کا جس طریق سے جواب دیا اس کی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جا سکتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والوں کو اسی طریق سے جواب دیا جس طریق سے انہوں نے اسلام اور آنحضرتﷺ کی شان پر حملہ کیا تھا۔

توہین رسالت کرنے والوں کو جواب دینے کا یہی وہ اصول ہے جو خود رسول کریمﷺ نے بھی اختیار فرمایا۔کعب بن اشرف نے جب رسول کریمﷺ اور اسلام کے خلاف ہجو پر مبنی اشعار کہے تو آپ نے اس کا جواب دینے کے لئے حضرت حسان بن ثابتؓ کو بلایا اور فرمایا کہ کعب کےان اشعار کا جواب دیں تو حضرت حسان بن ثابتؓ نے ان اشعار کا جواب اشعار ہی میں دیا۔

حضرت مسیح موعودؑ کاپنڈتوں اور پادریوں سے مقابلہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین رسالت کرنے والے پنڈتوں اور پادریوں کو قرآنی تعلیم کے مطابق ہی دعوت دی اور عدل اور انصاف کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اُسے اُسی میدان میں بلایا جس میدان میں یہ شخص کھڑا ہو کر توہین رسالت کرتا تھا۔ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدؐ کے اس فتح نصیب جرنیل کے ذریعہ سے وہ عزت بخشی جس کے آپؐ ہی حقدار تھے اور توہین رسالت کرنے والے کو ذلت اور رسوائی کا منہ دیکھنا پڑا۔

آپؑ نے ایسے لوگوں کی توہین کا جواب،قرآن کریم کے اسلوب اور رسول کریمﷺ کی سنّت کے مطابق دیا اور ہر میدان میں انہیں چیلنج کیا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے توہین کرنے والوں کا مقابلہ کر کے انہیں ہر میدان میں شکست فاش دیکر مسلمانوں کو سمجھا دیا کہ آئندہ جب بھی کوئی بد باطن دریدہ دہن اور عقل کا اندھا ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰےؐ کے خلاف زبان درازی کرے تو کیسے جواب دیا جانا چاہئے۔

آپؑ فرماتے ہیں:
’’اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریمﷺ کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا۔کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندان کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسولؐ کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی کریمﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا ہےاور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہےکہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللّٰہ ثم واللّٰہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اوراس توہین سے جو ہمارے رسول کریمؐ کی کی گئی دکھا۔‘‘

(آئینہ کمالاتِ اسلام، روحانی خزائن جلد5 صفحہ50۔51)

نیز ایک مقام پر فرماتے ہیں:
’’میرے دل کو کسی چیز نے اتنی تکلیف نہیں دی جتنی ان دشمنوں کے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے استہزا کرنے نے دی ہے۔خدا کی قسم اگر میرے سارے لڑکے اور اولاد اور پوتے میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دیے جائیںاور میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیے جائیں اور میری آنکھیں نکال دی جائیں اور مجھے میرے تمام مرادوں اور معین و مددگاروں سے محروم کر دیا جائے تو تب بھی یہ تمام امور مجھ پر اُن کے آپؐ سے استہزا سے زیادہ گراں نہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام ترجمہ عربی عبارت، روحانی خزائن جلد5 صفحہ15)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ’’فصل الخطاب‘‘ عیسائیوں کے بالمقابل حضرت اقدس مسیح موعودؑ کی ایماء پر لکھی۔ مختصر تفصیل یوں ہے کہ ایک حافظ صاحب نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات پادری تھامس ٹاول سے کروائی جو کہ ایک انگریز تھا۔آپؓ اس پادری کے سامنے شیر خدا بن کر کھڑے ہوگئے اور اسے کہا کہ اس نے اسلام پر جو بھی اعتراض کرنا ہے کرے میں اس کا جواب دوں گا۔ اس پر اس پادری نے آپؓ سے لکھ کر سوال کئے جس کا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے لکھ کر ہی جواب دیا جو چار جلدوں پر مشتمل تھا۔آپ کا دیا ہوا یہی جواب بعد میں ’’فصل الخطاب‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔

حضرت مصلح موعودؓ کا اسلوب دفاع

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رنگیلا رسول اور رسالہ ورتمان میں حضرت رسول کریمﷺ کی تضحیک پر جماعت احمدیہ کا دفاع فرمایا۔ آپ نے ایک پوسٹر شائع کیا جس میں مسلمانوں کو بیدار ہونے کی اپیل کی گئی تھی۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے حملوں اور بد زبانیوں کے پیش نظر تمام مسلمانوں اور اپنی جماعت کے افراد کو ان کا جواب دینے کی طرف توجہ دلائی اور مسلمانان ہند کو تین باتوں پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

  1. دشمن کے مقابلہ کے وقت ہم آپس میں متحد ہو جائیں اور ایک دوسرے کے مددگا ربن جائیں۔
  2. مسلمان اپنے ماحول کے حالات سے باخبر رہیں اور جس جگہ وہ ہندوؤں کے حملہ کا دفاع نہیں کر سکتے وہ ہمیں اطلاع دیں۔ہم اپنے آدمی بھیج دیں گے۔
  3. جہاں جہاں آریوں اور عیسائیوں کا زور ہو، وہاں مسلمان تبلیغی جلسے کرکے ہمارے واعظ بلوائیں۔

اس اعلان کے بعد مسلمانوں نے اپنے جلسوں میں احمدی واعظین کو بلانا شروع کیا اور احمدی واعظین بھی بلا تامل ہر جگہ پہنچ جاتے جہاں انہیں بلایا جاتا۔ اس طرح پورے ہندوستان میں ایک شور برپا ہو گیا۔اس پوسٹر کے شائع ہو جانے پر پورے ملک کے مسلمانوں میں رسول کریمﷺ کے تئیں ایک جذبہ اور جوش پیدا ہو گیا اور حکومت کو بڑی کوشش سے امن قائم کرنا پڑا اس پر حکومت نے ’’ورتمان‘‘ کا وہ پرچہ ضبط کیا اور اس کے ایڈیٹر اور مضمون نگار پر مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔ اسی طرح ’’رنگیلا رسول‘‘ کے مصنف راجپال پر بھی مقدمہ چلایا گیا۔ اسی طرح شدھی تحریک میں بے مثال کام کیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا اسلوب دفاع

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے دور خلافت میں بین الاقوامی کسر صلیب کانفرنس کے انعقاد کا اعلان ہوا۔اس کانفرنس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے بڑے پیارے انداز میں اسلام کی حقانیت ثابت کرتے ہوئے حضرت مسیحؑ کی صلیبی موت سے نجات اور کفن مسیح پر مذہبی اور تاریخی رنگ میں روشنی ڈالی۔

آپ نے اس کانفرنس میں تمام دنیا کو مخا طب کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں آپ کو محمدﷺ کی پیروی کے لئے بلاتا ہوں۔ وہ راہیں جن پر چل کر آپؐ نے اپنے رب کو پایا اور جس کے نتیجہ میں آپؐ کو دونوں جہان کی نعمتیں ملیں ان پر آج بھی آپ کے قدموں کے نشان موجود ہیں۔ان نقوش ِپا کی پیروی کریں۔اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ خدا کی محبت جیتنے والے ہونگے اور آپ اس کی وہ آواز سننے والے ہوںگے جو آپ کو تسلی دے گی۔ ’’جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو‘‘ اس فانی دنیا کی غیر حقیقی خوشیوں اور مسرتوں کا مقابلہ خدا کی محبت سے نہیں کیا جا سکتا۔میں آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ خدا کی محبت کے حصول کے لئے کوشاں ہوں۔وہ دروازہ صدیوں سے لاکھوں دستک دینے والوں کے لئے کھولا جاتا رہا ہے۔آپ کیوں مایوس ہوتے ہیں کہ یہ آپ کے لئے کھولا نہ جائے گا۔آگے آئیں !اور مسیح موعود کے جانشین کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اسلام قبول کریں کیونکہ اسلام میں ہی آپ کی اور آپ کی آنے والی نسلوں کی بھلائی ہے۔ اگر آپ اس آواز پر دھیان نہ دیں گے تو ایک خطرناک تباہی آپ کی منتظر ہے۔وہی تباہی جس کے متعلق آج سے گیارہ سال قبل میں نے آپ کو خبردار کیا تھا۔‘‘

(ضمیمہ خالد جون 1978ء صفحہ32)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے مبارک دورِ خلافت میں ناموسِ رسالت کے حملوں کا دفاع

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نےسلمان رشدی کی کتاب Satanic Verses کادندان شکن جواب دیا۔ حضور انورؒ نے مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسے مواقع پر مسلمانوں کی طرف سے جس قسم کا ردعمل ظاہر کیا جاتا ہے وہ غیراسلامی ہے مسلمانوں کو ایسے وقت میں صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور اس پر رد عمل اس صورت میں ظاہر ہونا چاہئے جو صحیح اور درست طریق ہے کہ ہم رسول کریمﷺ کی سیرت کے ہر پہلو کو دنیا والوں کے سامنے رکھیں اور آپؐ کی حسین تعلیم کو دنیا والوں کو بتائیں تا ہر شخص رسول کریمﷺ کی اصل اور حقیقی تعلیم سے واقف ہو سکے اور ایسی غلط روایات کی بیخ کنی کی جائے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔اسی طرح اس کتاب کاجواب تیار کیا جانا چاہئے پھر اسے ہر شخص تک پہنچانے کا انتظام کیا جائے۔اس کے علاوہ آپ نے فرمایا کی ہمیں چاہئے کہ ہم لوگ رسول کریمﷺ پر کثرت سے درود بھیجیں۔ اسی طرح آپؒ نے فرمایا کہ مسلمانوں کے اس غلط رد عمل سے جو اختیار کیا گیا ہے اس کتاب کو مزید شہرت حاصل ہوئی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں احمدیوں کو اب یہ تلقین کرتا ہوں کہ صورت حال کے تجزیہ کے نتیجہ میں وہ ایسی مؤثر اور دیر پا کارروائی کریں جو آئندہ نسلوں تک پھیل جائے۔اگلی صدی،اُس سے اگلی صدی۔ اُس سے اگلی صدی۔اب یہ ایک صدی کا معاملہ نہیں ہے۔ محمد مصطفٰےﷺ کا سارا زمانہ غلام ہے اپنے پہلے زمانے کے بھی وہ بادشاہ تھے اور آئندہ زمانوں کے بھی وہی بادشاہ ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے جماعت احمدیہ ایسی کوشش میں وقف ہو جائے جس کے نتیجہ میں دشمن کے ہر ناپاک حملے کو ناکام بنایا جائے۔پس میں جماعت کی ان نسلوں کو خصوصیت سے مخاطب ہوں جو ان ملکوں میں پیدا ہوئے ہیں۔۔۔جہاں جہاں بھی احمدی خدا کے فضل سے موجود ہیں اور مقامی طور پر ایسی پرورش انہوں نے پائی ہے اور ایسی تعلیم حاصل کی ہے کہ اس ملک کے اہل زبان شمار کئے جا سکتے ہیں۔ان کو محمد مصطفیٰ ﷺ کے لئے وقف ہو جانا چاہئے اور اس نیت سے ادب اور کلام پر دسترس حاصل کرنی چاہئے اور قادر الکلام بننا چاہئے کہ خود انہی کے ہتھیاروں سے انہی کے انداز سے ہم ان کے متعلق جوابی کاروائی کریں اور اسلام کا دفاع کریں گے اور حضرت محمد مصطفیٰﷺ کے تقدس کی حفاظت کریں گے۔‘‘

اسی طرح حضورؒ نے اس کتاب کا مکمل جائزہ لینے کے لئے ایک بورڈ بھی قائم کرنے کا اعلان فرمایا۔اس کتاب کا جواب بھی شائع کیا گیا جسے مکرم ارشد احمدی صاحب نے تیار کیا تھا۔

(پورے مضمون کے لئے دیکھیں خطبات طاہر جلد8 صفحہ111-132)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دورِ خلافت میں ناموسِ رسالت کے حملوں کا دفاع

اسلام کے دشمنوں کا ہمیشہ سے یہ طریق رہا ہے کہ وہ مختلف پیرایہ میں اسلام اور رسول پاکﷺ پر حملے کرتے رہے ہیں۔زمانہ کے ساتھ ساتھ ان کے حملوں کا طریق بھی بدلتا رہا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے دور میں اسلام اور رسول مقبولﷺ کی توہین کا ایک نیا طریق سامنے آیا وہ اس طرح کہ ڈنمارک کے اخبارات میں آنحضرتﷺ کے حوالے سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کی گئی۔ان خاکوں کا شائع ہونا تھا کہ یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ساری دنیا میں پھیل گئی اور مسلمانوں نے اس کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ مسلم ممالک میں فسادات پھوٹ پڑے۔ہر ملک میں ڈنمارک کی ایمبیسیوں پر حملےہونے لگے املاک جلائی گئیں جلوس نکالے گئے۔ اسی طرح ڈنمارک کی بنی ہوئی چیزوں کا بائیکاٹ کیا گیا۔لیکن کسی نے بھی وہ راہ اختیار نہ کی جس سے اسلام کی صحیح اور حقیقی تعلیم دنیا والوں تک پہنچتی۔مسلمانوں کے اس رویہ سے اسلام کو اور نقصان پہنچا اور یہ پیغام دنیا والوں کو پہنچاکہ اسلام دہشت گردی کا مذہب ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں یہی بات دنیا والوں کے سامنے پیش کرنا چاہتی تھیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اسلام کا اصلی چہرہ دنیا والوں کے سامنے پیش کیا جاتا جو کہ رسول مقبولﷺ کی حسین سیرت کو پیش کر کے دکھایا جا سکتا تھا یہ وہ موقعہ تھا کہ اسلام کی صبر کی تعلیم پرعمل کیا جاتا اور دشمنِ اسلام کو آنحضرتﷺ کی تعلیمات وقرآن کریم کی تعلیمات کو پیش کر کے رسول کریمﷺ کی زندگی کے واقعات پیش کئے جاتے کہ آپﷺ نے دشمنوں کے ایسے سلوک پر کیا نمونہ پیش کیا۔لیکن افسوس کہ ایسا کرنے کی جماعت احمدیہ کے سوا کسی اور کو توفیق نصیب نہیں ہوئی۔

حضور انور ایدہ اللہ نے اپنے خطبات کے ذریعہ ایسے موقعہ پر ناموس رسالت پر حملوں کے دفاع کے طریق سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ:
’’ہمارا رد عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرتﷺ کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے۔قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے۔ آنحضرتﷺ کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کاروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں‘‘ اس کے بعد آپ نے عبد اللہ آتھم اور پنڈت لیکھرام کی مثالیں بیان فرمائیں کہ یہ کس طرح اسلام اور رسول پاکﷺ پر حملے کیا کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلے تو ان لوگوں کو سمجھایا کہ وہ ایسی حرکتوں سے باز آجائیں لیکن جب وہ اپنی شوخی میں بہت بڑھ گئے تو آپ نے ان کی بد زبانیوں کے مقابلہ پر اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے اس سے مدد چاہی اور اللہ تعالیٰ نے ان دونوں کو عبرت کا نشان بناتے ہوئے پکڑا۔ حضور انور نے فرمایا کہ یہ وہ اسلوب ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سمجھائے ہیں۔ حضور انور ایدہ اللہ نے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ اس موقعہ پر بھی ہمارا رد عمل اسی طرح کا ہے جماعت کسی ایجیٹیشن میں حصہ نہیں لیتی البتہ ہمارے ایک مبلغ نے اس اخبار کے لئے جس میں یہ کارٹون شائع کئے گئے تھے ایک تفصیلی مضمون لکھا اور اسے بھیجا اور کارٹون کی اشاعت پر احتجاج کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے بارے میں لکھا کہ ہم جلوس وغیرہ میں حصہ نہیں لیتے لیکن ہم قلم کے جہاد میں یقین رکھتے ہیں اور اسے بتایا کہ ضمیر کی آزادی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ کسی کی دلآزاری کی جائے۔ چنانچہ اخبار نے یہ مضمون شائع بھی کیا جس کا مثبت درعمل ظاہر ہوا۔اس کے ساتھ ہی حضور انور نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ مضامین لکھنے والے رسول کریمﷺ کی سیر ت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کریں تا کہ عوام الناس رسول پاکﷺ کی اصل سیرت سے روشناس ہو سکیں۔

(دیکھیں خطبات مسرور جلد4 صفحہ75-88)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 24؍فروری 2006ء کے اپنے خطبہ میں بھی مسلمانوں اور افراد جماعت کو ان کارٹونوں کے سلسلہ میں ہدایات فرمائیں۔آپ نے فرمایا کہ مسلمان ممالک کی طرف سے انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ردعمل آرہا ہے اور یہ ممالک یہ بات کہہ رہے ہیں کہ مغربی ممالک پر دباؤ ڈالاجائے کہ وہ معافی مانگیں اور اس بات پر بھی زور ڈالاجائے کہ ایک ایسا قانون پاس کیا جائےتاکہ آزادئ صحافت اور آزادئ ضمیر کے نام پر انبیاء تک نہ پہنچا جائے۔کیونکہ اگر اس سے باز نہ آئے تو دنیا میں امن کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔آپ نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسلامی ممالک کو اتنی مضبوطی دے اور اس کی توفیق بھی عطا کرے۔اس کے ساتھ ہی ایک ایرانی اخبار کے غیر اسلامی رد عمل کا بھی ذکر فرمایا جس میں اس نے کہا ہے کہ ہم جنگ عظیم دوم کے موقعہ پر یہود پر ہوئے مظالم پر کارٹونوں کا اخبارات میں مقابلہ کروائیں گے۔ جس پر کارٹون شائع کرنے والے اخبار نےاسے برا مناتے ہوئے لکھا ہے کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے۔حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ اپنی غلطی کا اقرار کرتے اور یہ کہتے کہ ہم ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے دنیا میں فساد کی فضاء قائم ہوتی ہے اور ہمیں چاہئے کہ ہم کسی بھی نبی اور بانئ مذہب کے بارے میں ایسا کام نہ کریں۔نیز حضور انور ایدہ اللہ نے فرمایا کہ ہمیں ایسا کوئی بھی کام نہیں کرنا چاہئے جس سے غیروں کو حضور اکرمﷺ کی ذات پر توہین آمیز حملے کرنے کا موقعہ مل سکے۔آپ نے فرمایا کہ ایسے موقعہ پر ہمیں جری اللہ کے پیچھے کھڑا ہونا ضروری ہےجیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ:
’’یہ زمانہ کیسا مبارک زمانہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان پُر آشوب دنوں میں محض اپنے فضل سے آنحضرتﷺ کی عظمت کے اظہار کے لئے یہ مبارک ارادہ فرمایا کہ غیب سے اسلام کی نصرت کا انتظام فرمایا اور ایک سلسلہ کو قائم کیا۔میں ان لوگوں سے پوچھنا چاہتا ہوں جو اپنے دل میں اسلام کے لئے ایک درد رکھتے ہیں اور اس کی عزت اور وقعت ان کے دلوں میں ہے وہ بتائیں کہ کیا کوئی زمانہ اس سے بڑھ کر اسلام پر گزرا ہےجس میں اس قدر سبّ و شتم اور توہین آنحضرتﷺ کی کی گئی ہو اور قرآن شریف کی ہتک ہوئی ہو؟ پھر مجھے مسلمانوں کی حالت پر سخت افسوس اور دلی رنج ہوتا ہے اور بعض وقت میں اس درد سے بے قرار ہو جاتا ہوں کہ ان میں اتنی حس بھی باقی نہ رہی کہ اس بے عزتی کو محسوس کر لیں۔ کیا آنحضرت ﷺ کی کچھ بھی عزت اللہ تعالیٰ کو منظور نہ تھی جو اس قدر سبّ و شتم پر بھی وہ کوئی آسمانی سلسلہ قائم نہ کرتااور ان مخالفین اسلام کے منہ بند کرکے آپ کی عظمت اور پاکیزگی کو دنیا میں پھیلاتا۔جب کہ خود اللہ تعالیٰ اور اس کے ملائکہ آنحضرتﷺ پر درود بھجتے ہیں کہ اس توہین کے وقت میں اس صلوٰۃ کا اظہار کس قدر ضروری ہے اور اس کا ظہور اللہ تعالیٰ نے اس سلسلے کی صورت میں کیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ8۔9)

جماعت احمدیہ ڈنمارک نے لوکل سطح پر بھی اپنا رد عمل ظاہر کیا۔مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب نے ایک احمدی دوست مکرم خرم جمیل صاحب کی معاونت سے ڈینش زبان میں ایک مضمون تیار کرکے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بغرض راہنمائی بھجوایا۔حضور کی ہدایت پر یہ احتجاجی مضمون اشاعت کے لئے اخبار کو بھیجا گیا جو پو لینڈ پوسٹن میں 13؍اکتوبر 2005ء کے صفحہ7 پر شائع ہوا۔اس کے علاوہ موٴرخہ 21؍نومبر 2005ء کو جماعت احمدیہ ڈنمارک کے دو رکنی وفد نے وزیر مملکت برائے پناہ گزین، غیر ملکی اور امیگریشن Miss Rikke Hveisht سے ملاقات کر کےجماعت کے موقف سے آگاہ کیا۔اسی طرح ڈینش جرنلسٹ یونین کی میٹنگ میں بھی جماعت احمدیہ کے وفد نے شرکت کر کے اپنا موقف ان کے سامنے پیش کرتے ہوئے فرمایا:
’’ڈنمارک کا قانون آزادئ ضمیر کی اجازت دیتا ہے مگر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ دوسروں کے مذہبی راہنماؤں اور قابل تکریم ہستیوں کی ہتک کی جائے۔اس معاشرہ میں جہاں مسلمان اور عیسائی اکٹھے رہ رہے ہیں وہاں ایک دوسرے کے جذبات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو امن قائم نہیں ہو سکتا نیز اسلامی تعلیمات کی روشنی میںانہیں بتایا کہ اسلام آزادئ ضمیر کی اجازت دیتا ہے مگر اس سے کچھ ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ 2؍دسمبر کو TV2 کے نمائندگان نے مشن ہاؤس آکر مکرم نعمت اللہ بشارت صاحب کا انٹرویو لیا جس میں خاکوں کی اشاعت پر پُر زور احتجاج کیا گیا۔ جبکہ 9؍جنوری 2006ء کو جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی گئی۔

(دیکھیں الفضل انٹر نیشنل 21؍اپریل 2006ء)

ڈینش کا رٹونوں کی ایک بارپھر اشاعت اور جماعت احمدیہ کا احتجاج سنہ 2008ء میںایک بار پھر ڈینش اخبارات میں آنحضرتﷺ کے خاکے طبع ہوئے جس سے ایک بار پھر احمدیوں کے دل چھلنی ہو گئے۔اس کی دوبارہ اشاعت پر بہانہ یہ بنایا گیا کہ ہم بدلہ لے رہے ہیں کہ پولیس نے تین آدمیوں کو گرفتار کیا ہے جو ایک کارٹون بنانے والے کو مارنا چاہتے تھے۔اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 15؍فروری 2008ء کو خطبہ ارشاد فرمایا۔آپ نے فرمایا ہمارا فرض تھا کہ ہم ان کو سمجھاتے سو ہم نے انہیں سمجھایا لیکن یہ ہمارے دل دکھانے سے باز نہیں آتے اب ہمارا کام ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکیں اور پہلے سے بڑھ کر اس رسول کے پاک اسوہ کو قائم کرنے کی اور اپنی زندگیوں پر لاگو کرنے کی کوشش کریں اور پہلے سے بڑھ کر ہم رسول پاکﷺ پر درود بھیجیں۔اللہ تعالیٰ سب قدرتوں کا مالک ہے وہ خود اپنی قدرت دکھائے گا۔نیز آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس پیش فرمایا کہ:
’’مسلمان وہ قوم ہے جو اپنے بنی کریمؐ کی عزت کے لئےجان دیتے ہیں اور وہ اس بے عزتی سے مرنا بہتر سمجھتے ہیں کہ ایسے شخص سے دلی صفائی کریں اور ان کے دوست بن جائیں جن کا کام دن رات یہ ہے کہ وہ ان کے رسول کریمﷺ کو گالیاں دیتے ہیں اور اپنے رسالوں اور کتابوں اور اشتہارات میں نہایت توہین سےان کا نام لیتے ہیں اور نہایت گندے الفاظ میں ان کو یاد کرتے ہیں۔آپ یاد رکھیں کہ ایسے لوگ اپنی قوم کے بھی خیر خواہ نہیں ہیں کیونکہ وہ ان کی راہ میں کانٹے بوتے ہیں اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر ہم جنگل کے سانپوں اور بیابانوں کے درندوں سے صلح کر لیں تو یہ ممکن ہےمگر ہم ایسے لوگوں سے صلح نہیں کر سکتےجو خدا کے پاک نبیوں کی شان میں بد گوئی سے باز نہیں آتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ گالی اور بد زبانی میں ہی فتح ہےمگر ہر ایک فتح آسمان سے آتی ہے۔‘‘

(مضمون جلسہ لاہور منسلکہ چشمہ معرفت صفحہ14)

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ73)

امریکہ میں قرآن کریم کو جلانے کی مذموم کوشش پر جماعت احمدیہ کا ردّعمل

امریکہ میں ایک چرچ کے پادری نے سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے یہ مذموم کوشش کی اور بہانہ یہ بنایا کہ قرآن کریم چونکہ دہشت گردی کی تعلیم دیتا ہے اس لئے اس کوجلایا جانا چاہئے۔اس پر حضور انور ایدہ اللہ نے 20؍اگست 2010ء کو خطبہ ارشاد فرمایا اور پادری کی اس حرکت کے خلاف قدم اٹھانے کی ہدایت فرمائی۔ جماعتی کوشش سے اس کی پہلی کوشش تو ناکام ہوئی لیکن بعد میں اس نے یہ مذموم حرکت کرہی دی۔جس پر حضور نے اس سلسلہ میں 25؍مارچ 2011ء کو پھر خطبہ ارشاد فرمایااور آپ نے امریکہ کی جماعت کو یہ ہدایت فرمائی کہ امریکہ میں جگہ جگہ قرآن کریم کی نمائشیں بڑے بڑے ہال کرایہ پر لیکر ان میںلگائی جائیں اور سیمینار کئے جائیں اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کے تراجم کے پوسٹر اور بینرز تیار کروا کر مختلف جگہوں پر لگائے جائیں۔ اس طرح قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم سے لوگوں کو روشناس کروایا جائے اور یہ کوشش کی جائے کہ اس کی میڈیا کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ کوریج ہو۔ نیز حضور انور نے فرمایا:
’’پس ہمارا کام یہ ہے کہ جب بھی ہم اسلام، آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر دشمنوں کے غلیظ حملوں کو دیکھیں تو سب سے پہلے اپنے عملوں کو صحیح اسلامی تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں، پھر معاشرے میں اس خوبصورت تعلیم کا پرچار کریں اور اس کے لئے جو ذرائع بھی میسر ہیں انہیں استعمال کیا جائے۔‘‘

(خطبات مسرور جلد9 صفحہ147)

امریکہ میں اسلام اور محمدؐ کے خلاف بنائی جانے والی فلم پر دفاع

سنہ 2012ء کی بات ہے کہ ایک امریکن عیسائی نکولابسیلے نے قرآن کریم اور رسول کریمﷺ پر ایک فلم بنائی جس میں قرآن کریم کی تعلیمات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا تھا۔اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے لگاتار دو خطبات ارشاد فرمائے

آ پ نے 21؍ستمبر2012ء کے خطبہ میں ارشاد فرمایا:
’’آج کل مسلم دنیا میں،اسلامی ممالک میں بھی اور مختلف ممالک میں رہنے والے مسلمانوں میں بھی اسلام دشمن عناصر کے انتہائی گھٹیا، گھناؤنے اور ظالمانہ فعل پر غم و غصہ کی لہر دوڑی ہوئی ہے۔اس غم و غصہ کے اظہار میں مسلمان یقیناً حق بجانب ہیں۔مسلمان تو،چاہے وہ اس بات کا صحیح ادراک رکھتا ہے یا نہیں کہ آنحضرتﷺ کا حقیقی مقام کیا ہے،آپﷺ کی عزت و ناموس کیلئے مرنے کٹنے پر تیار ہو جاتا ہے۔۔۔اس عظیم محسن انسانیت کے بارے میں ایسی اہانت سے بھری ہوئی فلم پر یقیناً ایک مسلمان کا دل خون ہونا چاہئے تھا اور ہوا اور سب سے بڑھ کر احمدی مسلمان کو تکلیف پہنچی کہ ہم آنحضرتﷺ کے عاشق صادق اور غلام صادق کے ماننے والوں میں سے ہیں۔جس نے ہمیں آنحضرتﷺ کے عظیم مقام کا ادراک عطا فرمایا۔پس ہمارے دل اس فعل سے چھلنی ہیں۔ہمارے جگر کٹ رہے ہیں۔ہم خدا کے حضور سجدہ ریز ہیں کہ ان ظالموں سے بدل لے۔اُنہیں وہ عبرت کا نشان بناجو رہتی دنیا تک مثال بن جائے۔ہمیں تو زمانے کے امام نے عشق رسولﷺ کا اس طرح ادراک عطا فرمایا ہےکہ جنگل کے سانپوں اور جانوروں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدﷺ، حضرت خاتم الانبیاءؐ کی توہین کرنے والے اور اُس پر ضد کرتے چلے جانے والے سے ہم صلح نہیں کرسکتے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 12؍اکتوبر 2012ء)

حضور انور نے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ لوگ یہ یاد رکھو کہ جس رسول کی تم لوگ ہتک کر نے کی کوشش کررہے ہوآخر اسی نے غالب آنا ہے۔حضور نے فرمایا کہ یہ وہ رسول ہے جس پر اللہ اور اس کے فرشتے درود بھجتے ہیں اس لئے اس موقعہ پر ہمارا یہ در عمل ہونا چاہئے کہ ہم بھی کثرت سے رسول کریمﷺ پر درود بھجیں۔آپ نے مسلمانوں کے غلط رد عمل پر انہیں بھی نصیحت فرمائی کہ اپنے ہی ملک کی املاک کو جلانا اور جائیدادوں کو برباد کرنے کا عمل درست نہیں۔

فرمایا کہ یہ بات درست ہے کہ بعض رد عمل غلط ہیں لیکن معصوم نبیوں کا استہزاء کرنا بھی بہت بڑا گناہ ہے۔فلم بنانے والوں کو خدا تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے فرمایا:
’’پس یہ غلاظت کرکے انہوں نے یقیناً خدا تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دی ہے اور دیتے چلے جا رہے ہیں۔اسی طرح اس فلم کے سپانسر کرنے والے بھی خدا تعالیٰ کے عذاب سے نہیں بچ سکتے۔ ان میں وہ ایک عیسائی پادری بھی شامل ہےجو مختلف وقتوں میں امریکہ میں اپنی سستی شہرت کے لئے قرآن وغیرہ جلانے کی بھی کوشش کرتا رہا ہے۔ اَللّٰھُمَّ مَذِّ قْھُمْ کُلَّ مُمَذَّقٍ وَ سَحِّقْھُمْ تَسْحِیْقًا۔‘‘ اس میں آپ نے مسلم وکلاء کو یہ بھی مشورہ دیا کہ وہ سارے اکٹھے ہو کر اس کے خلاف پٹیشن داخل کریں۔

اس خطبہ کے بعد آپ نے 28؍ستمبر 2012ء کو دوسرا خطبہ ارشاد فرمایاجس میں آپ نے فرمایا کہ اس فلم کی وجہ سے اور مسلمانوں احتجاج کی وجہ سے پوری دنیا میں شور برپا ہوا تو میڈیا کے نمائندے اس سلسلہ میں جماعت کا موقف جاننے کے لئے آئے۔حضور نے فرمایا کہ آپﷺ کا اُسوہ ہر مسلمان کے لئے قابل تقلید ہے۔ مسلمانوں کا رد عمل جو غم و غصہ کا ہے وہ ایک لحاظ سے تو ٹھیک ہےکہ پیدا ہونا چاہئے تھا،گو بعض کا اظہار غلط طور پرہو رہا ہے۔ہمارے دلوںمیں آنحضرتﷺ کا جو مقام ہے دنیا دار کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی۔اس لئے دنیادار کو یہ احساس ہی نہیں ہے کہ کس حد تک اور کس قدر ہمیں ان باتوںسے صدمہ پہنچا ہے۔ ایسی حرکتیں دنیا کا امن برباد کرتی ہیں۔حضور نے فرمایا ہمارے دل میں آنحضرتﷺ کی جس قدر محبت ہے اس کا تو آپ اندازہ بھی نہیں کرسکتے۔کیا کبھی کوئی شخص کسی کے باپ کو گالی دے وہ اسے برداشت کرے گا؟ آنحضرتﷺ کا مقام تو ان کے نزدیک اس سے بھی کہیں بڑھ کر ہے۔حضور انور نے ایک تو جماعت کو کثرت سے دروود پڑھنے کی طرف توجہ دلائی دوسرے آپ نے فرمایا کہ اس خطبہ کی کاپیاں ہر زبان میں ترجمہ کرکے تقسیم کی جائیں۔اسی طرح لائف آف محمدﷺ (نبیوں کا سردار) سب لائبریریوں میں رکھوائی جائیں۔ اسی طرح سیمینار اور جلسے منعقد کئے جائیں جن میں غیروں کو بھی بلایا جائے۔ اسی طرح امن اور احترامِ مذہب کے عنوان سے لیف لیٹ تیار کرکے اسے تقسیم کیا جائےکیونکہ اسلام تمام انبیاء کی عزت کرنے کی تعلیم دیتا ہے اس لئے ایک احمدی کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرے۔اسی فلم ہی کے تعلق سے ایک تیسرا خطبہ بھی ارشاد فرمایا۔آپ نے اس خطبہ میں 24 مستشرقین کے ایسے حوالے پیش کئے جو انہوں نے آنحضرتﷺ کی سیرت حسنہ سے متاثر ہو کر بیان کئے ہیں۔حضور انور نے اپنے پہلے خطبہ کے حوالہ سے یہ بات بھی بیان فرمائی کہ میں نے وکلاء سے کہا تھا کہ وہ سب مل بیٹھ کر اس بات پر غور کریں کہ اس سلسلہ میں کیا کیا جاسکتا ہے حضور نے فرمایا دوسرے مسلم وکلاء کیا کرتے ہیں اس بات کا تو علم نہیں لیکن پاکستان کے احمدی وکلاء نے اس پر کچھ کام شروع کیا ہے اور بہت سے فیصلے مختلف عدالتوں کے انہوں نے جمع کئے ہیں اور مجھے بھیجے ہیں جنہیں میں نے دوسرے ممالک کے وکلاء کو بھی غور کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ وہاں سے بھی رائے آجائے گی اور جو بھی رائے قائم ہوگی پھر اس پر کوئی عملی کاروائی کرنی ہوگی۔

(الفضل انٹر نیشنل 26؍اکتوبر 2012ء)

اسی طرح حضور نے فرمایا کہ سلمان رشدی کی کتاب کا جو جواب ارشد احمدی صاحب نے تیار کیا تھا اور شائع کی گئی تھی اب اس میں بھی ایک باب کا اضافہ کر کے اور بعض ترامیم کے ساتھ اسے بھی دوبارہ شائع کرنے کا ارشاد فرمایا۔اسی طرح ایک موقعہ پر آپ نے اخبارات میں مضامین لکھ کرتوہین رسالت کا جواب دینے کی طرف توجہ دلائی۔الغرض یہ مضمون تو ایسا ہے کہ جس قدر بھی بیان کیا جائے وہ کم ہے کوئی ایک موقعہ بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا کہ کسی نے قرآن کی توہین کی ہو کسی نے رسول پاکﷺ کی توہین کی ہو تو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فوری طور پر اس کا دفاع نہ کیا ہو۔حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’آج تک ہم دیکھ رہے ہیںکہ آنحضرتﷺ اور قرآن کریم پر مخالفین ِاسلام نہایت گھٹیا اور رقیق حملے کرتے اور الزام لگاتے ہیں لیکن اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے اور آج بھی مسلمانوں میں ایک گروہ ہے اور بڑی تعداد میں ہے جو آپ کی لائی ہوئی شریعت کو اصل حالت میں اپنی زندگیوں پر لاگو کر رہا ہےیا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔یہ اس بات کی دلیل ہےکہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک کے لئے بھیجے گئے ہیں اور آپ کی لائی ہوئی شریعت زندہ ہے اور زندہ رہے گی۔ ان شاء اللّٰہ اور دشمنان اسلام کی کوششیں اور دھمکیاںنہ پہلے اسلام کا کچھ بگاڑ سکی تھیں نہ اب بگاڑ سکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہےکہ میں اس کے لئے کافی ہوں۔ اپنے بندوں کو ان کے شر کے بد انجام سے ہمیشہ بچاؤں گا۔‘‘

(خطبات مسرور جلد7 صفحہ40)

پس توہین رسالت کرنے والوں کا جواب قرآنی تعلیم کی روشنی میں اور حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کے ارشادات کی روشنی میں اور خلفائے احمدیت کی راہنمائی میں جس طرح جماعت احمدیہ دے رہی ہے وہی حقیقی اسلامی تعلیم ہے۔اسلام کسی پر بھی جبر کرنے کی تعلیم نہیں دیتا اور نہ ہی اسلام میں توہین رسالت کرنے والے کے لئے قتل کی سزا مقرر ہے اسلام آشتی اور امن کا دین ہے، یہ اپنی حسین تعلیمات کی بنیاد پر ساری دنیا میں غالب آئے گا اور اسلام کے غلبہ کو کوئی طاغوتی طاقت نہیں روک سکتی۔

(سید طفیل احمد شہباز۔مربی سلسلہ نشرو اشاعت قادیان)

پچھلا پڑھیں

ڈوری برکینا فاسو کا تعارف

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 فروری 2023