• 19 مئی, 2024

کتاب تعلیم کی تیاری (قسط 36)

کتاب تعلیم کی تیاری
قسط 36

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھے کئے جا رہے ہیں۔

  1. اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
  2. نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
  3. بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

  • نماز کیا ہے؟ ایک قسم کی دُعا ہے جو انسان کو تمام برائیوں اور فواحش سے محفوظ رکھ کر حَسَنات کا مستحق اور انعام الٰہیہ کا مورد بنا دیتی ہے۔ کہا گیا ہے کہ اللہ اسم اعظم ہے اللہ تعالیٰ نے ان تمام صفات کو اس کے تابع رکھا ہے۔ اب ذرا غور کرو۔ نماز کی ابتداء اذان سے شروع ہوتی ہے۔ اذان اَللّٰہُ اَکْبَرْ سے شروع ہوتی ہے۔ یعنی اللہ کے نام سے شروع ہو کر لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ یعنی اللہ ہی پر ختم ہوتی ہے۔ یہ فخر اسلامی عبادت ہی کو ہے کہ اس میں اوّل اور آخر میں اللہ تعالیٰ ہی مقصود ہے نہ کچھ اَور۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ اس قسم کی عبادت کسی قوم اور ملت میں نہیں ہے۔ پس نماز جو دُعا ہے اور جس میں اللہ کو جو خدائے تعالیٰ کا اسم اعظم ہے مقدم رکھا ہے۔ ایسا ہی انسان کا اسم اعظم استقامت ہے۔

اسم اعظم سے مراد یہ ہے کہ جس کے ذریعہ سے انسانیت کے کمالات حاصل ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) میں اس کی طرف ہی اشارہ فرمایا ہے۔ اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا اِنَّ الَّذِیۡنَ قَالُوۡا رَبُّنَا اللّٰہُ ثُمَّ اسۡتَقَامُوۡا تَتَنَزَّلُ عَلَیۡہِمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ اَلَّا تَخَافُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا (حم السجدہ: 31)۔ یعنی جو لوگ اللہ تعالیٰ کی ربُوبیت کے نیچے آگئے اور اس کے اسم اعظم استقامت کے نیچے جب بیضئہ بشریت رکھا گیا۔ پھر اس میں اس قسم کی استعداد پیدا ہو جاتی ہے کہ ملائکہ کا نزول اس پر ہوتا ہے اور کسی قسم کا خوف و حزن ان کو نہیں رہتا۔ میں نے کہا ہے کہ استقامت بڑی چیز ہے۔ استقامت سے کیا مراد ہے؟ ہر ایک چیز جب اپنے عین محل اور مقام پر ہو وہ حکمت اور استقامت سے تعبیر پاتی ہے۔ مثلاً دُوربین کے اجزاء کو اگر جدا جدا کر کے ان کو اصل مقامات سے ہٹا کر دوسرے مقام پر رکھ دیں۔ وہ کام نہ دے گی۔ غرض وضع الشیء فی محلّہٖ کا نام استقامت ہے یا دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ ہیئت طبعی کا نام استقامت ہے۔ پس جب تک انسانی بناوٹ کو ٹھیک اسی حالت پر نہ رہنے دیں اور اُسے مستقیم حالت میں نہ رکھیں وہ اپنے اندر کمالات پیدا نہیں کر سکتی۔ دُعا کا طریق یہی ہے کہ دونوں اسم اعظم جمع ہوں۔ اور یہ خدا کی طرف جاوے کسی غیر کی طرف رجُوع نہ کرے خواہ وہ اس کی ہوا و ہوس ہی کا بُت کیوں نہ ہو۔ جب یہ حالت ہوجائے تو اس وقت اُدۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) کا مزا آجاتا ہے۔

پس میں چاہتا ہوں کہ آپ استقامت کے حصول کے لئے مجاہدہ کریں اور ریاضت سے اُسے پائیں کیونکہ وہ انسان کو ایسی حالت پر پہنچا دیتی ہے جہاں اُس کی دُعا قبولیت کا شرف حاصل کرتی ہے۔ اس وقت بہت سے لوگ دُنیا میں موجود ہیں جو عدم قبولیت دُعا کے شاکی ہیں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ افسوس تو یہ ہے کہ جب تک وہ استقامت پیدا نہ کریں دُعا کی قبولیت کی لذّت کو کیونکر پا سکیں گے۔ قبولیت دُعا کے نشان ہم اسی دُنیا میں پاتے ہیں۔ استقامت کے بعد انسانی دل پر ایک برودت اور سکینت کے آثار پائے جاتے ہیں۔ کسی قسم کی بظاہر ناکامی اور نامُرادی پر بھی دل نہیں جلتا۔ لیکن دُعا کی حقیقت سے ناواقف رہنے کی صورت میں ذرا ذرا سی نامرادی بھی آتش جہنّم کی ایک لپٹ ہوکر دل پر مستولی ہو جاتی ہے اور گھبرا گھبرا کر بےقرار کئے دیتی ہے۔ اسی کی طرف ہی اشارہ ہے۔ نَارُ اللّٰہِ الۡمُوۡقَدَۃُ۔ الَّتِیۡ تَطَّلِعُ عَلَی الۡاَفۡـِٕدَۃِ (الہمزۃ: 7-8)۔ بلکہ حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ تپ بھی نار جہنّم کا ایک نمونہ ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ20-22 ایڈیشن 1984ء)

  • میں سچ کہتا ہوں کہ جو شخص ان سب باتوں سے الگ ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف آتا ہے۔ وہی مومن ہے۔ اور جب ایک شخص خدا کا ہو جاتا ہے تو پھر یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ اُسے چھوڑ دے۔ یہ مت سمجھو کہ خدا ظالم ہے۔ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے کچھ کھوتا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ پا لیتا ہے۔ اگر تم خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کر لو اور اولاد کی خواہش نہ کرو تو یقیناً اور ضروری سمجھو کہ اولاد مِل جاوے گی۔ اور اگر مال کی خواہش نہ ہو تو وہ ضرور دیدے گا۔ تم دو کوششیں مت کرو کیونکہ ایک وقت دو کوششیں نہیں ہو سکتی ہیں۔ اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو پانے کی سعی کرو۔

میں پھر کہتا ہوں کہ اسلام کی اصل جڑ توحید ہے۔ یعنی خدا تعالیٰ کے سوا کوئی چیز انسان کے اندر نہ ہو اور خُدا اور اس کے رسُولوں پر طعن کرنے والا نہ ہو خواہ کوئی بَلا یا مصیبت اس پر آئے، کوئی دُکھ یا تکلیف یہ اُٹھائے مگر اس کے مُنہ سے شکایت نہ نِکلے۔ بَلا جو انسان پر آتی ہے وہ اس کے نفس کی وجہ سے آتی ہے۔ خدا تعالیٰ ظلم نہیں کرتا۔ ہاں کبھی کبھی صادقوں پر بھی بلا آتی ہے مگر دوسرے لوگ اُسے بَلا سمجھتے ہیں درحقیقت وہ بَلا نہیں ہوتی وہ ایلام برنگ انعام ہوتا ہے۔ اس سے خدا تعالیٰ کے ساتھ ان کا تعلق بڑھتا ہے اور ان کا مقام بلند ہوتا ہے اس کو دوسرے لوگ سمجھ ہی نہیں سکتے لیکن جن لوگوں کو خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ہوتا اور ان کی شامتِ اعمال ان پر کوئی بَلا لاتی ہے تو وہ اَور بھی گمراہ ہوتے ہیں۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے فرمایا ہے فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ مَّرَضٌ ۙ فَزَادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا (البقرہ: 11)

پس ہمیشہ ڈرتے رہو اور خدا تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو۔ تا ایسا نہ ہو کہ تم خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والوں میں ہو جاؤ۔ جو شخص خدا تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت میں داخل ہوتا ہے۔ وہ خدا تعالیٰ پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے اس کو ایسی توفیق عطا کی۔ وہ اس بات پر قادر ہے کہ ایک قوم کو فنا کر کے دوسری پیدا کرے۔ یہ زمانہ لوطؑ اور نوحؑ کے زمانہ سے ملتا ہے۔ بجائے اس کے کہ کوئی شدید عذاب آتا اور دنیا کا خاتمہ کر دیتا اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے اصلاح چاہی ہے اور اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ116-118 ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

  • میں یہ بھی بتلا دینا چاہتا ہوں کہ استقامت جس پر میں نے ذکر چھیڑا تھا۔ وہی ہے جس کو صُوفی لوگ اپنی اصطلاح میں فنا کہتے ہیں اور اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ (الفاتحہ: 6) کے معنے بھی فنا ہی کے کرتے ہیں۔ یعنی رُوح کے جوش اور ارادے سب کے سب اللہ تعالیٰ کیلئے ہی ہو جائیں اور اپنے جذبات اور نفسانی خواہشیں بالکل مرَ جائیں۔ بعض انسان جو اللہ تعالیٰ کی خواہش اور ارادے کو اپنے ارادوں اور جوشوں پر مقدم نہیں کرتے وہ اکثر دفعہ دُنیا ہی کے جوشوں اور ارادوں کی ناکامیوں میں اس دُنیا سے اُٹھ جاتے ہیں۔ ہمارے بھائی صاحب مرحوم مرزا غلام قادر کو مقدمات میں بڑی مصروفیت رہتی تھی اور ان میں وہ یہاں تک منہمک اور محو رہتے تھے کہ آخر ان ناکامیوں نے ان کی صحت پر اثر ڈالا اور وہ انتقال کر گئے۔ اور بھی بہت سے لوگ دیکھے ہیں جو اپنے ارادوں کو خدا پر مقدم کرتے ہیں۔ آخرکار اس تقدیم ہوائے نفس میں بھی وہ کامیاب نہیں ہوتے اور بجائے فائدہ کے نقصان عظیم اُٹھاتے ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ18-19 ایڈیشن 1984ء)

  • ایسے لوگ جو خدا میں محو ہیں خدا تعالیٰ نے اُن کو وہ شربت پلایا ہے جس نے ان کے دل اور خیالات اور ارادات کو پاک کر دیا۔ نیک بندے وہ شربت پی رہے ہیں جس کی مِلَونی کافُور ہے وہ اس چشمہ سے پیتے ہیں جس کو وہ آپ ہی چیرتے ہیں۔ اور مَیں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں کہ کافور کا لفظ اس واسطے اس آیت میں اختیار کیا گیا ہے کہ لغت عرب میں کفر دبانے اور ڈھانکنے کو کہتے ہیں۔ سو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے ایسے خلوص سے انقطاع اور رجوع الی اللہ کا پیالہ پیا ہے کہ دنیا کی محبت بالکل ٹھنڈی ہو گئی ہے۔ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ تمام جذبات دل کے خیال ہی سے پیدا ہوتے ہیں اور جب دل ان نالائق خیالات سے بہت ہی دُور چلا جاوے اور کچھ تعلقات ان سے باقی نہ رہیں تو وہ جذبات بھی آہستہ آہستہ کم ہونے لگتے ہیں یہانتک کہ نابُود ہو جاتے ہیں۔ سو اس جگہ خدا تعالیٰ کی یہی غرض ہے اور وہ اس آیت میں یہی سمجھاتا ہے کہ وہ اس کی طرف کامل طور سے جُھک گئے۔ وہ نفسانی جذبات سے بہت ہی دُور نِکل گئے ہیں اور ایسے خدا تعالیٰ کی طرف جُھکے کہ دُنیا کی سرگرمیوں سے اُن کے دل ٹھنڈے ہو گئے اور ان کے جذبات ایسے دب گئے جیسا کہ کافور زہریلے مادوں کو دبا دیتا ہے۔ اور پھر فرمایا کہ وہ لوگ اس کافوری پیالہ کے بعد وہ پیالے پیتے ہیں جس کی ملونی زنجبیل ہے۔

اب جاننا چاہئے کہ زنجبیل دو لفظوں سے مرکب ہے یعنی زنا اور جبل سے۔ اور زنا لغت عرب میں اوپر چڑھنے کو کہتے ہیں اور جبل پہاڑ کو۔ اس کے ترکیبی معنے یہ ہیں کہ پہاڑ پر چڑھ گیا۔ اب جاننا چاہئے کہ انسان پر ایک زہریلی بیماری کے فرو ہونے کے بعد اعلیٰ درجہ کی صحت تک دو حالتیں آتی ہیں۔ ایک وہ حالت جبکہ زہریلے مواد کا جوش بکلّی جاتا رہتا ہے اور خطرناک مادوں کا جوش رُو با اصلاح ہو جاتا ہے اور رسمی کیفیات کا حملہ بخیر و عافیت گزر جاتا ہے۔ اور ایک مہلک طوفان جو اُٹھا تھا نیچے دب جاتا ہے۔ لیکن ہنوز اعضاء میں کمزوری باقی ہوتی ہے۔ کوئی طاقت کا کام نہیں ہو سکتا۔ ابھی مُردہ کی طرح افتاں و خیزاں چلتا ہے۔ دوسری وہ حالت ہے کہ جب اصل صحت عود کر آتی ہے اور بدن میں طاقت بھر جاتی ہے اور قوت کے بحال ہونے سے یہ حوصلہ پیدا ہو جاتا ہے کہ بلا تکلّف پہاڑ کے اُوپر چڑھ جاوے اور نشاط خاطر سے اُونچی گھاٹیوں پر دوڑتا چلا جاوے۔ سو سلوک کے تیسرے مرتبہ میں یہ حالت میسّر آتی ہے۔ ایسی حالت کی نسبت اللہ تعالیٰ آیت موصوفہ میں اشارہ فرماتا ہے کہ انتہائی درجہ کے باخدا لوگ وہ پیالے پیتے ہیں جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہے یعنی وہ رُوحانی حالت کی پُوری قوت پا کر بڑی بڑی گھاٹیوں پر چڑھ جاتے ہیں اور بڑے مشکل کام اُن کے ہاتھ سے انجام پذیر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں حیرت ناک جانفشانیاں دکھلاتے ہیں۔

اس جگہ یہ بھی واضح رہے کہ علم طب کی رو سے زنجبیل وہ دوا ہے جسے ہندی میں سونٹھ کہتے ہیں۔ وہ حرارت غریزی کو بہت قوت دیتی ہے اور دستوں کو بند کرتی ہے اور اس کا زنجبیل اسی واسطے نام رکھا گیا ہے کہ گویا وہ کمزور کو ایسا قوی کرتی ہے اور ایسی گرمی پہنچاتی ہے جس سے وہ پہاڑوں پر چڑھ سکے۔ ان متقابل آیتوں کے پیش کرنے سے جن میں ایک جگہ کافور کا ذکر ہے اور ایک جگہ زنجبیل کا، خدا تعالیٰ کی یہ غرض ہے کہ تا اپنے بندوں کو سمجھائے کہ جب انسان جذبات نفسانی سے نیکی کی طرف حرکت کرتا ہے تو پہلے پہل اس حرکت کے بعد یہ حالت پیدا ہوتی ہے کہ اس کے زہریلے مواد نیچے دبائے جاتے ہیں اور نفسانی جذبات رُو بکمی ہونے لگتے ہیں جیسا کہ کافور سے زہریلے مواد کا جوش بالکل جاتا رہے۔ اور ایک کمزور صحت جو ضعف کے ساتھ ملی ہوئی ہوتی ہے حاصل ہو جاتی ہے تو پھر دُوسرا مرحلہ یہ ہے کہ وہ ضعیف بیمار زنجبیل کے شربت سے قوت پاتا ہے اور زنجبیلی شربت خدا تعالیٰ کے حُسن و جمال کی تجلّی ہے جو رُوح کی غذا ہے۔ جب اس تجلّی سے انسان قوت پکڑتا ہے تو پھر بلند اور اُونچی گھاٹیوں پر چڑھنے کے لائق ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں ایسی حیرت ناک سختی کے کام دکھلاتا ہے کہ جب تک یہ عاشقانہ گرمی کسی کے دل میں نہ ہو، ہرگز ایسے کام دکھلا نہیں سکتا۔ سو خدا تعالیٰ نے اس جگہ ان دو حالتوں کے سمجھانے کے لئے عربی زبان کے دو لفظوں سے کام لیا ہے۔ ایک کافور جو نیچے دبانے والے کو کہتے ہیں اور دوسرے زنجبیل جو اوپر چڑھنے والے کو کہتے ہیں۔ اور اس راہ میں یہی دو حالتیں سالکوں کیلئے واقع ہیں۔

(ملفوظات جلد9 صفحہ30-32 ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

  • بعد ادائیگی جمعہ گرد و نواح کے لوگوں نے بیعت کی اور حضرت اقدس نے ان کو ایک مختصر تقریر نماز روزہ کی پابندی اور ہر ایک ظلم وغیرہ سے بچنے پر فرمائی کہ اپنے گھروں میں عورتوں، لڑکیوں اور لڑکوں سب کو نیکی کی نصیحت کریں اور جیسے درختوں اور کھیتوں کو اگر پورا پانی نہ دیا جاوے تو وہ پھل نہیں لاتے۔ اسی طرح جب تک نیکی کا پانی دل کو نہ دیا جاوے تو وہ بھی انسان کے لئے کسی کام کا نہیں ہوتا۔ جو نیک بن جاتا ہے اس پر یہ بلا طاعون نہیں پڑتی۔ موت تو سب کو آتی ہے اور اس کا دروازہ بند نہیں ہوتا۔ مگر جن موتوں میں ایک قہر کی بو ہوتی ہے وہ نہیں ہوتیں۔ ہنسی اور ٹھٹھے کی مجلسوں سے پرہیز کی تاکید فرمائی۔ انبیاء کی وصیت یاد دلائی کہ صدقہ اور دعا سے بلا ٹل جاتی ہے اگر پیسا پاس نہ ہو تو ایک بوکہ (ڈول) پانی کا کسی کو بھر دو یہ بھی صدقہ ہے اپنے مال اور بدن سے کسی کی خدمت کر دینی یہ بھی صدقہ ہے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ193، سن اشاعت 2016ء مطبوعہ لندن)

  • اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ و شتم تک بھی اس کی نوبت پہنچے تو تم کو چاہئے کہ چپ کر رہو جس حال میں کہ وہ ہمارے حالات سے واقف نہیں ہے نہ ہمارے مُریدوں میں وہ داخل ہے تو کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب چاہیں جو ایک مرید کو کرنا چاہئے۔ یہ بھی ان کا احسان ہے کہ نرمی سے بات کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن آوے کہ جو لوگ محض ناواقف ہیں اگر وہ آویں تو بھائیوں کی طرح سلوک کریں۔ بھلا ان لوگوں کو کیا پڑی ہے کہ تکلیف اُٹھا کر کچی سڑک پر دھکے کھاتے آتے ہیں۔ پیغمبر خدا فرماتے ہیں کہ زیارت کرنے والے کا حق ہے کہ جو چاہے کہے۔ ہمارے لئے تلخی کرنا معصیت ہے ان کو اسی لئے ٹھہراتا ہوں کہ یہ غلطی رفع ہو۔ بھائیوں کی طرح سلوک کیا کرو اور پیش آیا کرو۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ202 حاشیہ ایڈیشن 1984ء)

  • غرض ایک طرف تو یہ صلیبی فتنہ انتہاء کو پہنچا ہوا ہے۔ دوسری طرف صدی ختم ہوگئی، تیسری طرف اسلام کا ہر پہلو سے ضعیف ہونا، کسی طرف نظر اُٹھا کر دیکھو طبیعت کو بشاشت نہیں ہوتی۔ ایسی صورت میں ہم چاہتے ہیں کہ پھر خدا کا جلال ظاہر ہو۔ مجھے محض ہمدردی سے کلام کرنا پڑتا ہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ غائبانہ میری کیسی ہنسی کی جاتی ہے اور کیا کیا افتراء ہوتے ہیں۔ مگر جو جوش خدا نے مجھے ہمدردی مخلوق کا دیا ہوا ہے وہ مجھے ان باتوں کی کچھ بھی پروا نہیں کرنے دیتا۔ میں دیکھتا ہوں کہ میرا مولا میرے ساتھ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ان راہوں میں میں اکیلا پھرا کرتا تھا۔ اس وقت خدا نے مجھے بشارت دی کہ تو اکیلا نہ رہے گا بلکہ تیرے ساتھ فوج در فوج لوگ ہوں گے۔ اور یہ بھی کہا کہ تو ان باتوں کو لکھ لے اور شائع کر دے کہ آج تیری یہ حالت ہے پھر نہ رہے گی۔ میں سب مقابلہ کرنے والوں کو پست کر کے ایک جماعت کو تیرے ساتھ کردوں گا۔ وہ کتاب موجود ہے مکّہ معظّمہ میں بھی اس کا ایک نسخہ بھیجا گیا تھا۔ بخارا میں بھی اور گورنمنٹ میں بھی۔ اس میں جو پیشگوئیاں 22 سال پیشتر چھپ کر شائع ہوئی ہیں وہ آج پوری ہو رہی ہیں۔ کون ہے جو ان کا انکار کرے۔ ہندو، مسلمان اور عیسائی سب گواہی دیں گے کہ یہ اس وقت بتایا گیا تھا جب میں اَحَدٌ مِّنَ النَّاسِ تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ ایک زمانہ آئے گا کہ تیری مخالفت ہوگی مگر میں تجھے بڑھاؤں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اب ایک آدمی سے پونے دو لاکھ تک تو نوبت پہنچ گئی دوسرے وعدے بھی ضرور پورے ہوں گے۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ207-208 ایڈیشن 1984ء)

(ترتیب و کمپوزڈ: عنبرین نعیم)

پچھلا پڑھیں

احمدیہ ہسپتال برکینا فاسو میں استقبالیہ تقریب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2022