قرآنی انبیاء
دو سرا بھائی
قسط 7
ایک بھائی نے خدا تعالیٰ کی خا طراپنی جان مال آرام اورسکو ن کی بھی پرواہ نہ کی اور خداتعالیٰ کے حکم کے ماتحت ایک صحرا میں ڈیرے ڈال لئے۔ دوسرے بھائی نے بھی خدا تعالیٰ سے محبت اور پیار کا تعلق نہ صرف قائم رکھا بلکہ اسے مضبوط تر کرتا چلا گیا۔ یوں وہ بھی خد تعالیٰ کی اس نعمت سے سرفراز کیا گیا جس کا نام نبوت ہے۔
ْمیں حیران ہوں کہ یہ کیسی خبر ہے؟ حضرت سارہ نے اپنے دل میں سوچا ایک طرف اسے سن کر خوشی محسوس ہو رہی ہے لیکن دوسری جانب حیرت بھی ہے۔ عمر کے اس حصہ میں جسے ہم بڑھاپا کہتے ہیں بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری ایک عجیب سی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔ حضرت سارہ جو ایک لمبے عرصہ سے بے اولاد تھیں اور اس وقت اپنی عمر کا بڑا حصہ گزار کر بوڑھی ہو چکی تھیں خدا تعالیٰ کی بشارت پر خوش بھی تھیں اور حیران بھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو اور ان کی بیوی حضرت سارہ کو یہ خوشخبری دی تھی کہ اب تمہاری دعائیں جو تم اولاد کے لئے کرتے رہے ہو ان کی قبولیت کا وقت آگیا ہے۔ ہم تمہیں بے اولاد ہو نے کا جو غم تھا اب اس غم کو بھول جاؤ کیونکہ اب خوشیوں کے دن آنے والے ہیں۔ ہنسنے کے دن آنے والے ہیں۔
آپ کی ازواج میں سے دو خاص طور پر معروف ہیں۔ ایک حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ تھی اور دوسری حضرت اسحاق ؑ کی والدہ تھیں۔ حضرت اسماعیل ؑ کے ذکر میں ہم نے پڑھا تھا کہ ایک لمبا عرصہ بے اولاد رہنے کے بعد بالآخر اللہ تعالیٰ نے حضرت ابرہیم ؑ کی فریاد سن لی اور انہیں قبولیت دعا کے نشان کے طور پر ایک بیٹے کی بشارت دی جس کا نام حضرت اسماعیل ؑ(جس کا مطلب ہے خدا سنتا ہے) رکھا گیا۔ حضرت سارہؑ جو حضرت ابراہیمؑ کہ دوسری بیوی تھیں وہ جہاں حضرت اسماعیل ؑ کی پیدائش پر خوش ہوئی ہوں گی وہاں انہیں اپنی محرومی کا احساس بھی شدت سے ہوا ہو گا۔ کیونکہ ابھی تک بے اولاد تھیں۔ چنانچہ ان کے دل کی کیفیت دعا بن کر نکلی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بھی فضل کر نے کا فیصلہ بھی کیا اور حضرت اسماعیل ؑ کی پیدائش کے چند سالوں بعد حضرت اسحاق ؑ کی پیدائش کی خبر حضرت سارہ اور حضرت ابراہیم ؑ کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا پیغام لے کر آئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کا نام اسحاق رکھا۔ (جس کا مطلب ہے ہنسی) حضرت اسحاق ؑ اپنے گھر میں پرورش پانے لگے۔ بائبل کے مطابق جب آپ آٹھ دن کے ہوئے تو آپ کا ختنہ کیا گیا۔
دن گزرتے گئے اور آپ جوان ہو گئے۔ حضرت ابراہیم ؑ کو آپ سے بہت محبت تھی۔ اس لئے آپ انہیں اپنی نظروں سے دور نہیں کرنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف آپ کی یہ خواہش بھی تھی کہ اسحاق کی شادی کر دی جائے۔ چنانچہ آپ نے اپنے بھتیجے بتوئل کو یہ پیغام بھیجا کہ میں اسحاق کی شادی تمہارے خاندان میں کرنا چاہتا ہوں لیکن میں اسحاق کو اپنی نظروں سے دور بھی نہیں کر سکتا۔ اس لئے اگر تم اپنی بیٹی کا رشتہ اسحاق کے لئے منظور کرو تو اسے میرا پیغام لانے والے شخص کے ساتھ ہمارے گھر بھجوا دو۔ یہ پیغام سن کو بتوئل اور اس کے بیٹے لابان کو بہت خوشی ہوئی اور یوں بتوئل کی بیٹی ربقہ سے حضرت اسحاق ؑ کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی اپنی ذات میں بہت برکات کا باعث بنی کیونکہ اس شادی کے نتیجہ میں حضرت اسحاق ؑ کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔ جن کی نسل میں کئی بزرگ انبیاء پیدا ہوئے۔
بہر حال حضرت اسحاق شادی کے بعد اسی علاقہ کنعان میں رہتے رہے۔ لیکن ایک مرتبہ کنعان میں شدید قحط پڑ گیا جس کی وجہ سے حضرت اسحاق کو یہ علاقہ چھوڑ کر ہجرت کرنا پڑی اور آپ فلسطین کے علاقہ جیرہ میں آباد ہو گئے۔ آپ کا انتقال جبرون میں ہوا اور آپ کو بھی حضرت ابراہیم کی قبر کے ساتھ مکفیلہ کے غار میں دفن کیا گیا۔ اب اس جگہ کو الخلیل کہتے ہیں۔ کیونکہ یہاں حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کی گئی ہے جس کا نام الخلیل ہے۔
(فرید احمد نوید۔ پرنسپل جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)