• 25 اپریل, 2024

غیروں کا اقرار کہ محمدؐ مذہبی اور حکومتی لیڈر کے طور پر بھی عظیم تھے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
پھر مشہو ر عیسائی مؤرخ Reginald Bosworth Smith لکھتا ہے کہ ’’مذہب اور حکومت کے رہنما اور گورنر کی حیثیت سے پوپ اور قیصر کی دو شخصیتیں حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ایک وجود میں جمع تھیں۔ آپ پوپ تھے مگر پوپ کی طرح ظاہر داریوں سے پاک۔ آپ قیصر تھے مگر قیصر کے جاہ و حشمت سے بے نیاز۔ اگر دنیا میں کسی شخص کو یہ کہنے کا حق حاصل ہے کہ اُس نے باقاعدہ فوج کے بغیر، محل شاہی کے بغیر اور لگان کی وصولی کے بغیر صرف خدا کے نام پر دنیا میں امن اور انتظام قائم رکھا تو وہ صرف حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں۔ آپ کو اس سازو سامان کے بغیر ہی سب طاقتیں حاصل تھیں‘‘

پھر یہی Bosworth Smith اپنی کتاب محمد اینڈ محمدن ازم (Muhammed and Muhammedanism) میں لکھتے ہیں کہ:
’’آپ کے مشن(یعنی نبوت و رسالت) کو سب سے پہلے قبول کرنے والے وہ لوگ تھے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اچھی طرح جانتے تھے۔ مثلاً آپ کی زوجہ، آپ کا غلام، آپ کا چچا زاد بھائی اور آپ کا پرانا دوست، جس کے بارے میں حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہا تھا کہ اسلام کے داخل ہونے والوں میں سے وہ واحد انسان تھا جس نے کبھی اپنی پیٹھ نہیں موڑی تھی اور نہ ہی وہ کبھی پریشان ہوا تھا۔ عام پیغمبروں کی طرح حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی قسمت معمولی نہ تھی کیونکہ آپ کی عظمت کا انکارکرنے والے صرف وہی لوگ ہیں جنہیں آپ کی ذات کا صحیح علم حاصل نہیں تھا‘‘

(Muhammed and Muhammedanism by R. Bosworth Smith, Smith Elder and Co. 1876, page 127)

پھر Bosworth ہی آگے لکھتے ہیں کہ:
’’وہ رسوم و رواج جن سے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے منع فرمایا، نہ صرف آپ نے ان کی ممانعت فرمائی بلکہ اُن کا مکمل طور پر قلع قمع کر دیا۔ جیسے انسانی قربانیاں (یعنی انسانوں کو قربان کرنا) چھوٹی بچیوں کے قتل، خونی جھگڑے، عورتوں کے ساتھ غیر محدود شادیاں، غلاموں کے ساتھ نہ ختم ہونے والے ظلم و ستم، شراب نوشی اور جوا بازی۔ (اگر آپ ایسا نہ کرتے تو) یہ سلسلہ بلا روک ٹوک عرب اور اس کے ہمسائے ملکوں میں جاری رہتا‘‘۔ (اور آپ نے ان سب کو ختم کر دیا۔)

(ایضاً صفحہ 125)

پھر یہی آگے لکھتا ہے کہ:
’’حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنے مقصد کی سچائی اور نیکی میں عمیق ترین ایمان رکھ کر جو کچھ کیا تھا، کوئی دوسرا شخص اس میں گہرے یقین کے بغیر کچھ بھی نہیں کر سکتا’’۔ (یہ گہرا ایمان اور یقین جو تھا، وہ آپ کو اپنے مقصد کے بارے میں، اپنے دعویٰ کے بارے میں، اپنا خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کے بارے میں ہوا تبھی یہ انقلاب آیا۔ ) وہ کہتا ہے کہ‘‘آپ کی زندگی کا ہر واقعہ آپ کو ایسا حقیقت پسند اور پُر جوش انسان ثابت کرتا ہے جو اپنے مسلمہ عقائد اور نظریات تک آہستہ آہستہ تکالیف برداشت کرتے ہوئے پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘

(ایضاً صفحہ 127)

پھر آگے لکھتے ہیں کہ ’’یہ کہنا کہ عرب کو انقلاب کی ضرورت تھی یا بالفاظ دیگر یہ کہنا کہ نئے پیغمبر کے ظہور کا وقت آ گیا تھا۔ اگر ایسا ہی تھا تو پھر حضرت محمد ہی وہ پیغمبر کیوں نہ ہوں؟ اس موضوع پر موجودہ زمانے کے مصنف سپرنگر نے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آمد سے سالہا سال قبل ایک پیغمبر کے ظہور کی توقع بھی تھی اور پیشگوئی بھی تھی۔‘‘

(ایضاً صفحہ 133)

پھر آگے یہی Bosworth ہی بیان کرتاہے کہ: ’’مجموعی طور پر مجھے یہ حیرانی نہیں کہ حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) مختلف حالات میں کتنے بدل گئے تھے۔ بلکہ تعجب تو یہ ہے کہ آپ کی شخصیت میں کتنی کم تبدیلی پیدا ہوئی تھی۔ صحرائی گلہ بانی کے ایام میں (یعنی جب بھیڑیں چَراتے تھے) شامی تاجر کے طور پر، غارِ حرا کی خلوت گزینی کے ایام میں، اقلیتی جماعت کے مصلح کی حیثیت سے، (جب مکّہ میں تھے)، مدینہ میں جِلا وطنی کے ایام میں، ایک مسلّمہ فاتح کی حیثیت سے، یونانی بادشاہوں اور ایرانی ہرقلوں کے ہم مرتبہ ہونے کی حالت میں ہم آپ کی شخصیت میں ایک غیر متزلزل استقلال کا مشاہدہ کر سکتے ہیں’’۔ کہتا ہے کہ‘‘مجھے نہیں لگتا کہ اگر کسی اور آدمی کے خارجی حالات اس قدر زیادہ بدل جاتے تو کبھی اُس کی ذات میں اس قدر کم تبدیلی رونما ہوتی۔ حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے خارجی حالات تو تبدیل ہوتے رہے مگر ان تمام حالتوں میں مجھے اُن کی ذات کا جوہر ایک جیسا ہی دکھائی دیتا ہے۔‘‘

(ایضاً صفحہ 133)
( خطبہ جمعہ 5؍ اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ریجنل اجتماع لجنہ اماءاللہ این۔بی۔آر۔ گیمبیا

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مارچ 2023