• 1 مئی, 2024

چالیس کا ہندسہ اور ہماری ذمہ داریاں

دنیا کے مذاہب کی تاریخ میں مختلف ہندسوں (figures) کی بہت اہمیت رہی ہے۔ ایک، تین، ستر اور ننانوے کے علاوہ ایک ہندسہ چالیس(40) کا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق حضرت موسیٰ علیہ السلام جب کوہ طور پر چلّہ کاٹنے گئے اور حضرت ہارون علیہ السلام کو اپنے پیچھے قوم پر نگران مقرر کر گئے تو قوم نے گائے کے بچھڑے کی پرستش شروع کر دی۔ جس پر حضرت موسیٰؑ بہت ناراض ہوئے اور بعد میں جب غصہ جاتا رہا تو یہ دُعا ئیں کیں۔

*رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِاَخِیۡ وَاَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ۔ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ

(الاعراف: 152)

ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

*اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ

(الاعراف: 156)

ترجمہ: تُو ہی ہمارا ولی ہے پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔

حضرت موسیٰؑ کا یہ چلہ بھی چالیس دن کا تھا۔

(’’آج کی دعا‘‘ از الفضل آن لائن 21مارچ 2022ء)

  • انبیاء علیہم السلام کی بعثت کی عمر 40سال قرار دی جاتی ہے۔ ہمارے پیارے رسول حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبوت پر اس وقت فائز ہوئے جب آپؐ کی عمر 40برس تھی۔

حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’خدا تعالیٰ قرآن شریف میں بار بار فرماتا ہے کہ مفتری اسی دنیا میں ہلاک ہو گا بلکہ خدا کے سچے نبیوں اور مامورین کے لئے سب سے پہلی یہی دلیل ہے کہ وہ اپنے کام کی تکمیل کر کے مرتے ہیں۔ اور ان کو اشاعت دین کے لئے مہلت دی جاتی ہے اور انسان کی اس مختصر زندگی میں بڑی سے بڑی مہلت تئیس (23) برس ہیں کیونکہ اکثر نبوت کا ابتدا چالیس برس پر ہوتا ہے اور تئییس برس تک اگر اور عمر ملی تو گویا عمدہ زمانہ زندگی کا یہی ہے۔‘‘

(اربعین نمبر4، روحانی خزائن جلد17 صفحہ434)

حضرت مسیح موعودؑ کو بھی الہام 40سال کی عمر میں ہونے شروع ہوئے اور آغاز میں بیعت کرنے والوں کی تعداد بھی 40ہی تھی۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’جب میری عمر چالیس برس تک پہنچی تو خدا تعالیٰ نے اپنے الہام اور کلام سے مجھے مشرف کیا۔‘‘

(تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد15 صفحہ283)

تھا برس چالیس کا میں اس مسافر خانہ میں
جبکہ میں نے وحی ربّانی سے پایا افتخار

(براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد21 صفحہ135)

جہاں تک پہلی بیعت کے افراد کی تعداد کا تعلق ہے اس کے متعلق لکھا ہے۔ حضرت ام المومنین ؓ، حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ اورحضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی تحقیق کے مطابق 40افراد ہی نے بیعت کی تھی۔

(ملاحظہ ہو سیرت المہدی حصہ اول صفحہ18، ذکر حبیب صفحہ9، سلسلہ احمدیہ صفحہ29)

آپؑ نے ہوشیار پور میں جو چلہ کاٹا اس میں کی جا نے والی دعاؤں کے طفیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیشگوئی مصلح موعود ؓ حضرت مسیح موعود ؑ کو عطا ہوئی تھی۔ یہ چلہ بھی چالیس دن کا تھا۔

40کا ہندسہ اور تربیتی امور

40 کے ہندسے کے تاریخی سفر سے اب ہم روحانی سفر میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کے لئے سب سے پہلے اللہ کی آخری کتاب ’’القرآن الحکیم‘‘ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ سورۃ الاحقاف آیت 16 میں اللہ تعالیٰ نےانسانی زندگی کے کچھ مدارج بیان فرمائے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

وَوَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا ؕ حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا وَّوَضَعَتۡہُ کُرۡہًا ؕ وَحَمۡلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوۡنَ شَہۡرًا ؕ حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡن

(الاحقاف: 16)

ترجمہ: اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے۔ اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا۔ اور اُس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہوگیا تو اس نے کہا اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکر یہ ادا کر سکوں جو تُو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اورایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تُو راضی ہو اور میرے لئے میری ذرّیّت کی بھی اصلاح کردے۔ یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ (ترجمہ از حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)

اللہ تعالیٰ نے انسانی تخلیق کے ذکر کے بعد فرمایا کہ جب انسان اپنی پختگی کی عمر یعنی 40سال کا ہو گیا تو اس نے اپنے والدین پر، اپنی سابقہ زندگی میں ملنے والی نعماء الٰہی اور افضال باری تعالیٰ پر شکر ادا کرنے اور نیک اعمال بجا لاتے رہنے اور اولاد کی اصلاح کے لئے اپنے رب سے التجا کی۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے کہ جب ایک طرف اس کے والدین زندہ ہوتے ہیں اور دوسری طرف ان میں سے اکثر کی اولاد بھی ہو چکی ہوتی ہے۔ اس لئے والدین کے حقوق کی طرف بھی نشان دہی کر دی اور اولاد کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دلا دی۔

یہی وہ عمر ہے جس کو پیش نظر رکھ کر حضرت مصلح موعود ؓ نے انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی بنیاد رکھی۔ اور لجنہ کی بنیاد، انصار سے پہلے رکھنے میں بھی یہی حکمت ہے کہ اس عمر تک پہنچنے والے کا کام ’’کار نبوت‘‘ جیسا ہے۔ یعنی تعلیم و تربیت اور اس میں ’ماؤں کا فرض‘ باپوں کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے دو ہی عمروں کا ذکر تخلیق انسانی کے حوالہ سے کیا ہے یعنی بچپن اور 40سال کی عمر۔

خاکسار نے بحیثیت قائد تربیت مجلس انصار اللہ پاکستان اس موضوع پر ایک طویل مضمون لکھ رکھا ہے۔ جو کسی وقت الفضل آن لائن کی زینت بناؤں گا۔ ان شاء اللہ

چالیس برس اور موت کا نظارہ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:۔
’’اوائل عمر کے لوگوں کی بیعت میں مجھے بہت تردّد ہوتا ہے جب تک انسان کی عمر چالیس برس کی نہ ہو تب تک ٹھیک انسان نہیں ہوتا۔ اوائل عمر میں تلوّن ضرور آتے ہیں میرا ارادہ نہیں ہوتا کہ ایسی حالت میں بیعت لوں مگر بدیں خیال کہ دل آرزدگی ہوتی ہے بیعت کر لیتا ہوں۔ انسان جب چالیس برس کا ہوتا ہے تو اسے موت کا نظارہ یاد آتا ہے اور جس کے قریب ابھی موت کا خوف ہی نہیں اس کا کیا اعتبار۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ 393 ایڈیشن2016ء)

چالیس افراد

  • آنحضورؐ نے فرمایا ہے۔ جس کسی کے جنازہ پر چالیس مومنین حاضر ہو کر اس کے نیک ہونے کی گواہی دیں وہ مرحوم بخش دیا جاتا ہے۔ اسی طرح پڑوسی کی حدود کو چالیس گھروں تک قرار دیا اس حوالے سے ہماری ذمہ داریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

• حضرت مسیح موعود ؑ متعدد بار اپنی جماعت میں ایسے40 افراد کا ذکر کر چکے ہیں جو ہر وقت اپنی جان قربان کرنے کے لئے تیار ہوں۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’اگر ہماری جماعت میں چالیس آدمی بھی ایسے مضبوط رشتہ کے جو رنج و راحت، عسرو یسر میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مقدم کریں، ہوں تو ہم جان لیں کہ ہم جس مطلب کے لئے آئے تھے وہ پورا ہو چکا اور جو کچھ کرنا تھا وہ کر لیا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ16 ایڈیشن1984ء)

*ایک اور موقع پر فرماتے ہیں:۔
’’اگر چالیس آدمی بھی ایسے نکل آویں جن کے نفس منوّر ہو جاویں اور پوری بصیرت اور معرفت کی روشنی انہیں مل جائے تو وہ بہت کچھ فائدہ پہنچا سکیں گے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 صفحہ258 ایڈیشن1984ء)

اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسے لاکھوں، چالیس عطا فرما دیے جو اوپر بیان شدہ الفاظ پر ہو بہو پورا اترتے اور اپنی جان، مال، وقت اور عزت کو ہمہ وقت قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔

عیب کا ذکر اور 40 دن کی دعا

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 40 کے ہندسہ کو تربیتی او ر اصلاحی انداز میں کئی جگہوں پر بیان فرمایا۔ جیسا کہ فرمایا۔
’’ہماری جماعت کو چاہئے کہ کسی بھائی کا عیب دیکھ کر اس کے لئے دعا کریں لیکن اگر وہ دعا نہیں کرتے اور اس کو بیان کر کے دور سلسلہ چلاتے ہیں تو گناہ کرتے ہیں۔ کون سا ایسا عیب ہے جو کہ دُور نہیں ہو سکتا اس لیے ہمیشہ دعا کے ذریعہ سے دوسرے بھائی کی مدد کرنی چاہئے۔۔ ۔۔وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دُعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہئے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لئے رو رو کر دُعا کی ہو۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ60-61 ایڈیشن 1988ء)

*پھر اللہ کے حضور رونے اور چلانے کو اپنا شعار بنانے کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’عاجزی کو اپنا شعار بنا لو اور رونے کی عادت ڈالو کیونکہ رونا اسے بہت پسند ہے اگر 40دن تک رونا نہ آئے تو سمجھ لو دل سخت ہو گیا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ132)

موت قریب ہوتی نظر آتی ہے

چالیس سال کی عمر پانے کے بعد، باوجود جسمانی کمزوری آنے کے روحانی معنوں میں تیزی آتی ہے۔ اس عمر کو پہنچ کر کبھی انسان کی ٹانگوں میں درد اور کبھی جسم کے دوسرے حصوں میں دردیں شروع ہو جاتی ہیں۔اسی لیے بعض کہتے ہیں کہ جوانی کی عمر کو ایک نعمت عظمی سمجھتے ہوئے اپنے اللہ کو پانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے شیوہ پیغمبری کہا گیا ہے تا ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مضمون کو بھی کھول کر اس طرح بیان فرمایا ہے۔

’’انحطاط عمر کا 40سال سے شروع ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ217)

اور اپنے متعلق تحریر فرماتے ہیں:۔
’’میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے۔ اس اثنا میں میَں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جا رہے ہیں یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا۔

اب جب سے چالیس سال گزر گئے، دیکھتا ہوں کہ وہ بات نہیں۔ ورنہ اول میں بٹالہ تک کئی بار پیدل چلا جاتا اور پیدل آتا اور کوئی کسل اور ضعف مجھے نہ ہوتا اور اب تو اگر پانچ چھ میل بھی جاؤں تو تکلیف ہوتی ہے چالیس سال کے بعد حرارت ِغریزی کم ہونی شروع ہو جاتی ہے خون کم پیدا ہوتا ہے اور انسان کے اوپر کئی صدمات رنج و غم کے گزرتے ہیں۔ اب کئی دفعہ دیکھا ہے کہ اگر بھوک کے علاج میں زیادہ دیر ہو جائے تو طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ425 ایڈیشن2016ء)

یہ وہی ارشاد ہے جس کے سیاق و سباق میں حضور ؑ نے فرمایا کہ
’’صوفیاء نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے۔۔ کثرت سے اس میں مکا شفات ہوتے ہیں۔ صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیہ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کو شہوات سے بعد حاصل ہو جائے اور تجلی قلب سے مراد یہ ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لے۔‘‘

(ملفوظات جلد2 ایڈیشن1988ء صفحہ561-562)

پس ہم میں سے ہر ایک کو جو 40 برس سے اوپر ہیں یا 40سال کی عمر کو چھو رہے ہیں یا چھونے والے ہیں ان کا فرض ہے کہ ہم چالیس ہندسہ کے حوالہ سے متعلقہ تربیتی و اصلاحی امور پر عمل پیرا ہوں۔ ورنہ حضرت مسیح موعود ؑ کا یہ ارشاد بھی سامنے رہے۔ آپؑ فرماتے ہیں۔
’’حکماء کہتے ہیں کہ جس قوت کو چالیس(40) دن استعمال نہ کیا جائے، وہ بے کار ہو جاتی ہے۔ ہمارے ایک ماموں صاحب تھے، وہ پاگل ہو گئے۔ ان کی فصد لی گئی اور ان کو تاکید کی گئی کہ ہاتھ نہ ہلائیں۔ انہوں نے چند مہینے تک ہاتھ نہ ہلایا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہاتھ لکڑی کی طرح ہو گیا۔ غرض یہ ہے کہ جس عُضو سے کام نہ لیا جائے، وہ بے کار ہو جاتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ150ایڈیشن 1988ء)

(ابوسعید)

پچھلا پڑھیں

جماعت احمدیہ ڈیٹرائیٹ کا جلسہ یوم مصلح موعود ؓ  کا انعقاد

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اپریل 2022