ایک اور رمضان ہماری زندگیوں میں آرہاہے،اللہ تعالیٰ کافرمان ہے کہ رمضان اس لئے آتا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کایہ فرمانا کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ (البقرہ: 184)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
ہم احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ روزے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو رمضان کا مقصد ہے۔ یعنی تقویٰ پیدا کرنا اور تقویٰ میں ترقی کرنا۔
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’رمضان میں جب ہم تقویٰ کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرنے و الے ہوں گے تو اپنی عبادتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ اگر ہم تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے روزے رکھیں گے تو برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔اگر ہم برائیوں سے نہیں بچ رہے چاہے وہ برائیاں ہماری ذات پر اثر کرنے والی ہیں یا دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے والی۔ ان کو چھوڑنے سے ہی روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر ان کو نہیں چھوڑ رہے تو روزے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہی تقویٰ ہے۔ اگر روزے رکھ کر بھی ہم میں تکبر ہے، اپنے کاموں اور اپنی باتوں پر بے جا فخر ہے، خود پسندی کی عادت ہے، لوگوں سے تعریف کروانے کی خواہش ہے، اپنے ماتحتوں سے خوشامد کروانے کو ہم پسند کرتے ہیں جس نے تعریف کر دی اس پر بڑا خوش ہو گئے، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں لڑائی جھگڑا، جھوٹ فساد سے اگر ہم بچ نہیں رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں عبادتوں اور دعاؤں اور نیک کاموں میں اگر وقت نہیں گزار رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے اور روزے کا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ پس رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور جب انسان اس میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے تو پھر حقیقت میں روزے کے مقصد کو پانے والا ہو سکتا ہے۔ ورنہ اگر یہ مقصد حاصل نہیں کر رہے تو پھر بھوکا رہنا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور … الخ حدیث 1903)
اگر تم ان مقاصد کو حاصل نہیں کر رہے۔ بعض لوگ روزے کے نام پر دھوکہ بھی دیتے ہیں اور بھوکے بھی نہیں رہتے۔ بظاہر یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے لیکن روزہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ ہیں جن کو اپنے کھانے پینے پر بھی ضبط نہیں ہے۔ جو چند گھنٹے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو کھانے پینے سے نہیں روک سکتے۔ جب ایسے لوگ ہیں تو باقی معاملات میں اپنے نفس پر کس طرح ضبط کر سکتے ہیں۔
بعض اگر پورا دن فاقہ بھی کر لیتے ہیں تو نمازوں اور عبادت کی طرف وہ توجہ نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے۔ ایک آدھ نماز پڑھ لی اور بس۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ ایسے روزے پھر اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے جو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
پس ہم احمدیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کو ماننے کے بعد اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں اور یہ بھی کہ تقویٰ تمام پرانے صحف مقدسہ کا خلاصہ ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’کل (یعنی 22؍جون 1899ء) ’’جلسہ کا ذکر فرما رہے ہیں کہ ’’بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔‘‘ فرمایا ’’اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضُعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔‘‘ فرمایا ’’تقویٰ خلاصہ ہے تمام صُحفِ مقدّسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا۔ قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے‘‘۔ (یعنی تقویٰ کے لفظ میں۔) فرمایا ’’میں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متقیوں، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام انہیں سپرد کروں اور پھر میں دنیا کے ہمّ و غم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مردار دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کروں گا۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ303 ایڈیشن 1985ء)
پس یہ درد ہے آپؑ کا کہ میری جماعت کا ہر فرد ایسا ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو۔ نہ کہ صرف دنیا کا غم ہی ہر وقت اسے کھائے جائے۔
آپؑ فرماتے ہیں: ’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (احمدیوں کو مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں) ’’اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں۔ لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے۔‘‘ پس مستقل مزاجی سے ہر نیکی چاہے وہ چھوٹی نیکی ہے یا بڑی نیکی ہے اس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللّٰہُ مِنَ الۡمُتَّقِیۡنَ (المائدہ: 28) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا‘‘۔ (اپنا وعدہ خلافی نہیں کرتا) ’’جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللّٰہَ لَا یُخۡلِفُ الۡمِیۡعَادَ (آل عمران: 10)۔ پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر منفک شرط ہے‘‘۔ (ایک بنیادی شرط ہے جسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تقویٰ بہرحال قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے) فرمایا ’’تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ108-109 ایڈیشن 1985ء)
پس رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بنیادی نسخہ ہے کہ ہمارے روزے اور ہمارا ہر عمل تقویٰ کے حصول کے لئے ہو۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم نے بڑی دعائیں کیں قبول نہیں ہوئیں۔ ان کو پہلے اپنے اندر دیکھنا چاہئے کہ کیا ان کے اندر دین غالب ہے؟ تقویٰ پر چلنے والے ہیں یا دنیا کی ملونی زیادہ ہو گئی ہے؟ پس دعا کی قبولیت کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے۔
روزہ کے حوالے سے ایک حدیث بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار اپنی زبان کو ہمیشہ پاک رکھے اور اگر کوئی اس سے جھگڑے تو تب بھی وہ یہی کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ میں تمہاری ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔
(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول اِنِّی صَائِمٌ اِذَاشُتِمَ)
فرمایا کہ ’’نازک ترین معاملہ زبان سے ہے۔ بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔‘‘ (اب یہ باریکی بھی دیکھنے والی چیز ہے۔ صرف یہی نہیں کہ موٹی موٹی گالیاں دے دیں یا لڑائی کر لی یا جھگڑا کر لیا بلکہ خود پسندی اور دکھاوا بھی ہے۔ زبان کی جو غلطیاں ہیں یا زبان کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں یا زبان کی وجہ سے جو تقویٰ میں کمی ہے اس میں یہ چیزیں بھی آتی ہیں۔) تو فرمایا ’’کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا‘‘ (اس دنیا دار کو) ’’کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کردیا۔‘‘ (دنیا کو دکھانے کے لئے حج تھے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے۔ تقویٰ سے دور ہٹے ہوئے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس بزرگ نے یہ کہا کہ) ’’تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تُو اس امر کا اظہار کرے کہ تُو نے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بےموقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔‘‘ (پس صرف زبان کو دوسروں کو تکلیف دینے سے روکنے کے لئے حکم نہیں ہے۔ اپنی خودنمائی جو ہے، خودپسندی جو ہے، دکھاوا جو ہے یہ بھی نیکیوں سے دور کرنے والا ہو جاتا ہے اور تقویٰ سے دور ہٹانے والا بن جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔)
روزوں میں بہت ساروں کے ذکر الٰہی میں اضافہ ہوا ہےتو اس اضافے کے ساتھ غیر ضروری باتوں میں بھی کمی ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ روزوں کا اور تقویٰ کا مقصد پورا ہو۔
(خطبہ جمعہ بیان فرمودہ 24؍ اپریل 2020ء)
اللہ تعالیٰ ہمیں رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ خاص فضل کے دن رکھے ہوئے ہیں ان میں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کرنے والے ہوں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو ایسا بڑھانے کی کوشش کرنے والے ہوں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اور پھر رمضان تک ہی محدودنہ رہیں بلکہ اپنی زندگیوں کو اس کا حصہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
(احتشام الحسن۔مبلغ سلسلہ آئیوری کوسٹ)