• 14 جولائی, 2025

ماہ رمضان کے فضائل اور برکات

انسان ہمیشہ اپنی بقا کی فکر میں رہتا ہے اور ترقی کرنا پسند کرتا ہے۔ اس لیے وہ ہر لمحہ اس جستجو میں رہتا ہے کہ اس کے لیے کیا چیز فائدہ مند ہے اور کیا نقصان دہ ہے۔ اپنی خوراک کے حوالے سے ہر روز سوچتا ہے کہ اسے کیا پسند اور نا پسند ہے۔ اور اپنی پسند سے کھاتا پیتا ہے تاکہ اس کی صحت ٹھیک رہے اور نشو ونما اچھی ہو۔ دینِ اسلام میں نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی خوراک کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ میں یہ مضمون نہایت عمدگی سے بیان کیا ہے کہ انسان کی جسمانی حالتوں کا اس کی روحانی حالت پر بہت اثر پڑتا ہے۔ اسی لیے اسلام میں مسلمانوں کو پاک اور طیب خوراک کھانے کا حکم دیاہے تاکہ ان کی صحت ٹھیک رہے۔اسی طرح مختلف عبادات کا بھی حکم ہے تاکہ ان کی روح کی ترو تازگی قائم رہے۔ اور عبادات میں بھی بعض جسمانی حرکات کو لازمی کردیا ہے جیسے قیام، رکوع اور سجدہ۔

جس طرح انسان کے جسم پہ اچھی غذا کا اچھا اثرپڑتا ہے اسی طرح انسان کی روح پہ بھی پاک وطیب جسمانی غذا کے ساتھ ساتھ روحانی غذا یعنی عبادات کا بھی اچھا اثر پڑتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ انسان کو زیادہ دیر خوشی نہ ملے تو وہ روحانی طورپہ بھی اک پودے کی طرح مرجھانا شروع ہو جاتا ہے۔ ایسی حالت میں جیسے پودوں کو بارش کی اشد ضرورت ہوتی ہے اسی طرح روح کو بھی روحانی بارش کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں انبیاء پر نازل ہونے والی وحی کو بارش سے تشبیہ دی ہے۔اس آسمانی بارش یعنی وحیٴ الٰہی میں ایسی تعلیمات ہوتی ہیں جو روحوں کی زمین پر پڑ کر انہیں سر سبز وشاداب کر دیتی ہیں۔ آسمان سے اترنے والی روحانی بارش کی ایک مثال ماہِ رمضان المبارک اور اس کی مختلف کیفیات ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی شکل میں اترنے والی عظیم روحانی بارش کا موضوع رمضان قرار دیا ہے۔جیسا کہ فرمایا

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس کا ترجمہ یہ بھی کیا ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔ یعنی قرآن کا مرکزی موضوع رمضان ہے۔ یعنی قرآن میں خود رمضان اور اس کی روحانی کیفیات اور تاثیرات کی تفصیل موجود ہے۔ اس مہینے میں انسان قرآن کی ساری تعلیمات پر عمل کر سکتا ہے اور انہیں اپنی عادت بنا کر سال کے بقیہ مہینوں میں ان پر عمل کرنے کی پریکٹس کر لیتا ہے۔ نماز، روزہ، تلاوتِ قرآن، صدقات و خیرات،غرباء کی بھوک کو بھوکا رہ کے محسوس کرنا، اعتکاف کی شکل میں ایک چھوٹا حج،یہ سب وہ ارکانِ اسلام ہیں جن کو ایک روزہ دار مسلمان رمضان میں کسی نہ کسی شکل میں اپنی اپنی طاقت اور ہمت کے مطابق بجا لاکر گویا سارے قرآن کی تعلیمات پر عمل کر لیتا ہے۔

خدا نے ماہ رمضان کو روحوں کے لیے روحانی بارش بنا کر مسلمانوں کو حقیقی خوشی کی خوشخبری دی ہے کہ جو خدا کی خاطر اپنی من پسند چیزوں کو یہاں تک کہ جائز اور حلال چیزوں کو ایک مہینہ تک معین اوقات میں ترک کرے گا اسے ایسی دائمی خوشیاں نصیب ہوں گی جو سال کے بقیہ ایام میں بھی اس کے ساتھ ساتھ چلیں گی۔ اللہ کی خاطر جائز پسندیدہ چیزوں کو چھوڑ دینے سے وہ عملاً یہ عہد بھی کرتا ہے کہ جب جائز چیزیں اللہ کی خاطر چھوڑ دی ہیں تو ناجائز اور حرام تو بہر حال ترک کردوں گا۔

ہمیں خوش ہونا چاہئے کہ ہماری زندگیوں میں ایک عظیم انقلاب لانے والے یہ دن ایک دفعہ پھر جلد ہماری زندگیوں میں آ نے والے ہیں۔ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیؐ نے ایک موقعہ پر اس ماہ مبارک کی خبر یوں دی کہ، سنو سنو تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیئے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا۔’’

(نسائی کتاب الصوم)

جس طرح کسی پیارے مہمان کی آمد سے پہلے اس کے استقبال کے لئے سجاوٹ کی جاتی ہے اسی طرح رمضان ایسا خوشی کا مہینہ ہے جس کے استقبال کے لئے آسمان پر بھی تیاریاں ہوتی ہیں اور جنت سجائی جاتی ہے۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ماہ رمضان کے استقبال کے لئے یقیناً سارا سال جنت سجائی جاتی ہے۔ اور جب رمضان آتا ہے تو جنت کہتی ہے کہ یا اللہ اس مہینے میں اپنے بندوں کو میرے لئے خاص کردے‘‘

(بیہقی شعب الایمان)

اسی لئے آپؐ نے ایک موقعہ پر فرمایا:
’’رمضان کا خاص خیال رکھو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کا مہینہ ہے جو بڑی برکت والا اور بلند شان والا ہے۔ اس نے تمہارے لئے گیارہ ماہ چھوڑ دیئے ہیں جن میں تم کھاتے ہو اور پیتے ہو اور ہر قسم کی لذات حاصل کرتے ہو مگر اس نے اپنے لئے ایک مہینہ کو خاص کرلیا ہے۔‘‘

(مجمع الزوائد)

رمضان المبارک کو ’’سَیِّدُ الشُّہُور‘‘ یعنی تمام مہینوں کا سردار بھی کہا گیا ہے۔ کیونکہ اس ماہ میں قرآن کو اتارا گیا ہے اور یہ مہینہ بے شمار برکات کا مہینہ ہے۔ چودہ سو برس سے لاکھوں کروڑوں صلحاء و ابرار ان برکات کا مشاہدہ کرتے آئے ہیں اور آج بھی ان برکات سے بہرہ اندوز ہونے والے بزرگ بکثرت موجود ہیں۔ ان ایام میں مخلص روزہ داروں کو خاص روحانی کیف سے نواز ا جاتا ہے، ان کی دعائیں سنی جاتی ہیں۔ ان پر انوار کے دروازے کھلتے ہیں۔ انہیں معارف سے بہرہ ور کیا جاتا ہے۔ وہ کشف، رویا او ر الہام کی نعمت سے سرفراز ہوتے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ انہیں خد ا کی لقا نصیب ہوتی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب نبیﷺ آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ِہمت کس لیتے، اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور گھروالوں کو بیدارفرماتے۔ تویہ بھی ایک سبق ہے کہ ہم لجنہ کی ممبرات پر بھی یہ فرض ہے کہ جب ہم خود اٹھیں تو اپنے بچوں کو بھی نمازوں کے لئے، نوافل کے لئے اٹھائیں۔صرف اس بات پہ بضد نہ رہیں کہ یہ گھر کے سربراہ کا فرض ہے۔ کیونکہ ہم سب کا فرض ہے کہ ہم اپنے پیارے نبی کی سنت پہ عمل کریں اور کبھی سستی نہ کریں بلکہ ہر حال میں عبادات بجا لانے کی کوشش کرتی رہیں اور اپنی اولاد کو بھی اس پر عمل پیر اکروائیں۔کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: قیام اللیل (تہجد) مت چھوڑنا اس لئے کہ رسول اللہﷺ نہیں چھوڑتے تھے اور جب آپؐ بیمار ہوتے یا جسم میں سستی محسوس کرتے تھے توبیٹھ کر تہجد کی نماز پڑھتے۔

(ابوداؤد)

دیکھیں! آنحضرتﷺ کا عمل کیا تھا۔ یہ عمل ہم اختیار کریں تو پھر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے کی امید کر سکتے ہیں۔ ہر روزاس وقت اللہ قریب کے آسمان پر آکر اعلان کرتا ہے کہ کوئی ہے جو مجھ سے مانگے تو میں اس کو دوں؟ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ماہ میں اسے بطور عادت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمیں روزے رکھنے اور رکھوانے کی توفیق دےاور رمضان میں سیکھی جانے والی ساری نیکیوں کو بقیہ ساری عمر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

(شازیہ افروز)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے دوسرے عشرہ، مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی ادعیہ ماثورہ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ