• 14 جولائی, 2025

شیخ مبشر احمد دہلوی مرحوم

یادرفتگان
شیخ مبشر احمد دہلوی مرحوم کا ذکر خیر

شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب لاہور جماعت کی ہر دلعزیز شخصیت تھے۔ان سے ملنے والا پہلی ہی ملاقات میں ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا، کیونکہ ان کی گفتگو کا انداز ہی منفرد تھا جس میں انتہا کی مٹھاس اور کشش ہوتی تھی۔گہری نگاہ سے دیکھتے ہوئے بولتے تھے کہ پھر سامنے والا سننے کو ہی ترجیح دیتا۔بہت پر حکمت اور مدلل گفتگو کرتے تھے۔ایک صاحب علم انسان تھے اور عمل پر کامل یقین رکھتے تھے۔یہی وجہ تھی کہ جو بھی ذمہ داری ان کو امیر جماعت کی طرف سے سونپی گئی اس کو نہ صرف احسن طریق سے نبھایا بلکہ مثبت نتائج بھی دیئے۔عشق خلافت اور اطاعت امیر دونوں میں ایک نمونہ تھے۔نظام جماعت کی پابندی کو ایمان کا حصہ سمجھتے تھے۔آپ شفقت اور محبت کا پیکر تھے۔کسی کی غلطی کا احساس بڑی حکمت کے ساتھ اس کو چند جملوں سے ہی کرادیتے تھے۔ سلسلہ کے کاموں کے لئے وقت کی قربانی کرنے والوں میں سرفہرست تھے۔لاہور میں شفٹ ہونے کے بعد مجلس خدام الاحمدیہ اور پھر جماعت احمدیہ لاہور کے ساتھ کئی دہائیوں تک خد مت دین کی توفیق پائی۔جماعت احمدیہ لاہور کے سیکرٹری تعلیم کے طور پر لمبا عرصہ خدمت کی۔ لاہور کے ایم ٹی اے کے انچارج کی حیثیت سے نمایاں خدمت کی، احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر لاہور جماعت کے اردو،انگریزی زبانوں میں مجلوں کی تیاری و اشاعت کا اہم فریضہ احسن طریق سے نبھایا اور تاریخ کو محفوظ کر گئے۔ انچارج احمدیہ سٹوڈنٹس فیڈریشن لاہور کے طور پر بھی ذمہ داری احسن طریق سے نبھائی۔ کچھ عرصہ تک نائب امیر جماعت احمدیہ لاہور بھی رہے تھے۔

خاندانی تعارف

شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب چار اکتوبر 1933ء کو دہلی کے ایک کاروباری خاندان میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کا دہلی کے ایک ایسے خاندان سے تعلق تھا جس کے دو بزرگوں کو یکے بعد دیگرے دہلی جماعت کی بطور امیر لمبا عرصہ خدمت کرنے کی سعادت ملی۔ان میں ان کے دادا جان شیخ محمد اعجاز حسین صاحب دہلوی اوردوسرے ان کے والد محترم بابو نذیر احمد صاحب دہلوی شامل تھے۔ آپ کے خاندانی ذرائع کے مطابق آپ کل گیارہ بہن بھائی تھے۔حضرت اماں جانؓ نے آپ کے والد کو سات پوت کی دعا دی تھی۔آپ سات بھائی تھے جن میں آپ کا چوتھا نمبر تھا۔ شیخ مبشر احمد صاحب دہلوی نے ابتدائی تعلیم دہلی میں حاصل کی پھر اپنے بڑے بھائی شیخ مختار احمد صاحب کے ساتھ قادیان چلے گئی جہاں احمدیہ مدرسہ قادیان میں تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ہندوستان کی تقسیم کے وقت آپ کے والد ایک جماعتی کام کرکے واپس آرہے تھے کہ راستے میں کہیں شہید کر دئے گئے تھے اور ان کا جسد خاکی بھی نہ مل سکا تھا۔اس واقعہ کے بعد شیخ مبشرصاحب اپنے بڑے بھائی کے ساتھ قادیان سے دہلی واپس لوٹ آئے اور خاندان کے تمام لوگوں کو پاکستان بھیج دیا اور خود بھائی کیساتھ دہلی میں ہی رک گئے تھے۔ شیخ لطیف محمود صاحب ابن شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب کے مطابق ان کے والد بتایا کرتے تھے کہ حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خانؓ کا ہمارے خاندان پر احسان رہا ہے۔ایک بار جب وہ اپنے بھائی مختار صاحب کے ہمراہ پاکستان اپنے خاندان سے ملنے گئے تو بعد میں دہلی میں حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ سے ملاقات ہوئی تو آپ نے ہدایت کی آپ پاکستان اپنی فیملی کے پاس چلے جائیں یا دہلی میں ان کو بلا لیں اور ایک جگہ اکھٹے ہو جائیں۔اس طرح پھر پورا خاندان راولپنڈی پاکستان میں قیام پذیر ہو گیا۔ شیخ مبشر دہلوی نے راولپنڈی سے بی ایس سی کی تعلیم مکمل کی اور پھر پیپر مل انڈسٹری سے وابستہ ہو گئے اور اپنی قابلیت کی بدولت بہت جلد اس میدان میں نمایاں مقام حاصل کرلیا۔

لاہور میں آمد

راولپنڈی سے لاہور شفٹ ہوئے تو ماڈل ٹاؤن میں پڑاؤ ڈالا اور تا دم وفات وہیں رہائش پذیر رہے اور خدمات سلسلہ بجا لانے کی توفیق پائی۔ لاہور میں شفٹ ہونے کے بعد شخ مبشر احمد دہلوی صاحب نے پاکستان کی مختلف پیپرز ملوں میں کام کرنے کے بعد لاہور کی معروف و مشہور پیپر مل ’’پیکیجز فیکٹری‘‘ میں بطور ’’پروسس منیجر‘‘ 1969ء کے بعد ریٹائرڈ ہونے تک دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک کام کیا اور اپنی اہلیت کو لوہا منوایا۔ پیکچز سے ریٹائرمنٹ کے بعد مختلف کمپنیوں میں بطور ایڈ وائزر کے کام کیا۔

بحیثیت قائدمجلس خدام الاحمدیہ ماڈل ٹاؤن لاہور مساعی

ماڈل ٹاؤن میں شفٹ ہونے کے بعد آپ کو بطور قائد مجلس خدام الاحمدیہ ماڈل ٹاؤن کام کرنے اور خلافت جوبلی علم انعامی لینے کی توفیق ملی۔ 1971ء میں جب مجلس خدام الاحمدیہ لاہور کی تقسیم ہوئی تو پانچ مجالس نئی بنیں، مجلس ماڈل ٹاؤن پہلے سے موجود تھی لیکن اس میں نئے حلقوں کا اضافہ کیا گیا جن میں وحدت کالونی، ماڈل ٹاؤن، رحمان پورہ، احمدیہ ہوسٹل، نیو کیمپس، شادمان کالونی، گلبرگ اور والٹن کے حلقے شامل تھے۔ مبشر دہلوی صاحب اس نئی مجلس ماڈل ٹاؤن کے پہلے قائد تھے۔ اس وقت چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ تھے۔ تقسیم مجالس کے بعد آپ نے لاہور کی انہی مجالس کا دورہ کیا اور حضرت خلیفة المسیح الثالث ؒ کی تقسیم مجالس کے بارے ارشادات جملہ مجالس تک جس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ بیداری مجلس ماڈل ٹاؤن میں پیدا ہوئی تھی اور ہر مرکزی تحریک پر مجلس کے خدام نے لبیک کہا۔مجلس کے قائد شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب تھے۔ان کے دور میں مجلس ماڈل ٹاؤن کے دو سالانہ اجتماعات منعقد ہوئے تھے۔نئی مجلس بننے کے بعد پہلے اجتماع میں چوہدری حمید اللہ صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے بھی شرکت کی تھی جو جنوری1972ء میں منعقد ہوا تھا۔اسی طرح سیرت البنیﷺ کے پروگرام منعقد ہوئے جس میں جید علماء نے خطاب کیا۔مجلس ماڈل ٹاؤن کی طرف سے سائیکل تحریک میں بھرپور شرکت کی گئی، دارالذکر میں مجلس ماڈل ٹاؤن کی طرف سے تبلیغی نمائش لگائی گئی جس کا افتتاح صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے کیا تھا۔ شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب کے دور قیادت میں مجلس ماڈل ٹاؤن لاہور کی طرف سے ’’تاریخ مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ مرتب کرنے کی تجویز مرکز شوریٰ پر ارسال کی گئی تھی، سب کمیٹی نے اس سے اتفاق کرتے ہوئے تجویز کو مفید قرار دیتے ہوئے اس سے اتفاق کیا اور سفارش کی صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اس سلسلہ میں ایک الگ کمیٹی قائم کریں جو اس کی تفصیلات طے کرکے تین ماہ کے اندر اپنی رپورٹ صدر مجلس کو پیش کرے (ماہنامہ خالد نومبر1972ء)۔ یہ ایک بڑا اعزاز تھا مجلس اور ضلع لاہور کے لئے۔ مجلس ماڈل ٹاؤن کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے مرکزی صدر صاحب اور مہتممین نے مجلس کے حلقوں کے بھی دورے کئے اور جائزہ لیا۔ اپنی اس کارکردگی کے نتیجہ میں مجلس ماڈل ٹاؤن نے1971-1972ء میں خلافت جوبلی کا علم انعامی لینے کی توفیق پائی اور جلسہ سالانہ ربوہ کے دوسرے دن شیخ مبشر احمد صاحب قائد مجلس ماڈل ٹاؤن نے حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ کے دست مبارک سے خلافت جوبلی علم انعامی وصول کیا۔

خدام الاحمدیہ میں خدمت کرنے کے بعد انصاراللہ میں قدم رکھا تو بھی خدمت دینیہ کا سلسلہ جاری رہا اور بعد ازاں جماعت احمدیہ لاہور کی مجلس عاملہ کے رکن منتخب ہوگئے پھر سال ہا سال تک خدمت کی توفیق پائی بابرکت تقریب میں شامل ہونے کی سعادت ملی تھی جو ‘‘لوائے احمدیت’’ کو محفوظ کرنے کی غرض سے تھی۔

جماعت احمدیہ لاہور کے صد سالہ مجلوں کی تیاری

احمدیہ صد سالہ جشن تشکر کے موقع پر اردو، انگریزی زبانوں میں جماعت احمدیہ لاہور کے مجلوں کی تیاری و اشاعت آپ کی شب و روز کی انتھک محنت کا نتیجہ تھی۔ اردومجلہ بعنوان ’’ہمارے 100 سال‘‘ کی تیاری کے لئے شیخ مبشر صاحب نے مکرم امیر صاحب کی مشاورت سے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔آپ اس کمیٹی کے صدر تھے جب کہ دیگر ممبران میں شیخ عبد الماجد صاحب، شیخ مبارک محمود صاحب پانی پتی، عبد المالک صاحب، خالد ہدایت بھٹی صاحب، شیخ ریاض محمود صاحب، مرزا ندیم احمد صاحب، محمود مجیب اصغر صاحب، شیخ نوید احمد صاحب، لطیف محمود صاحب، طارق محمود صاحب اور عمران محمود صاحب شامل تھے۔ مرزا ندیم احمد صاحب ابن مرزا نصیر احمد ایڈو کیٹ مرحوم، خاکسار کے جماعتی کولیگ تھے لاہور میں اور فائن آرٹس کالج کے طالب علم تھے، (مقیم یوکے) انہوں نے مجلہ کی تیاری کے دوران کی پرانی باتوں کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ کمیٹی کی میٹنگزانہی کے گھر ہوا کرتی تھیں اوررات گئے تک کام ہوا کرتا تھا۔ان دنوں کئی مہینوں تک شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب، ان کی فیملی اور بیٹوں نے انتھک محنت اور اراکین کمیٹی کی خدمت کی۔ اس دوران ممبران کمیٹی کو کھانا، اور دیگر ضروریات کی فراہمی بھی انہی کی فیملی فراہم کرتی تھی۔ کمیٹی کے کچھ اراکین کے پاس گاڑیاں نہیں تھیں جن میں میاں ماجد صاحب، عبد المالک صاحب، شیخ مبارک محمود پانی پتی صاحب خاکسار (مرزا ندیم احمد) بھی شامل تھے۔ ہم سب کورات کو دو گاڑیوں میں ہمیں گھروں تک ڈراپ کیا جا تا تھا۔ ایک اقبال ٹاؤن، سمن آباد کی طرف جاتی تھی اور دوسری، دوسری طرف جاتی جو عبد المالک صاحب کو دارالذکر گھر تک چھوڑتی۔یہ وہ ٹیم تھی جس نے مواد اکھٹا کرکے تحیقیاتی کام کیا اور مجلہ کے لئے مضامین تیار کئے تھے۔ اس کے علاوہ مجلہ کے مضامین کی اردو کمپوزنگ، تصاویر کی پوسٹنگ ٹائٹل کی تیاری سمیت دیگر امور ایم ٹی اے ٹیم کے نوجوان اراکین نے سرانجام دیئے تھے۔ محمد شفیق طاہر صاحب ایم ٹی اے کے قیام و ابتداء کے دنوں کے مکرم عبد الستار صاحب کے ساتھی ہیں، ان کی وفات کے بعد بھی کام کرتے رہے ہیں آج کل جرمنی میں مقیم ہیں۔ انہوں نے اس وقت کی پرانی یادوں کو کھنگالتے ہوئے بتایا کہ مجلہ کے ٹائٹل کا کور پیج اور اندر کے صفحات کے layout کا ڈیزائن انہوں نے تیار کیا تھا۔اردو کمپوزنگ اور اس کی سیٹنگ کا کام کامران ارشد صاحب اور محمدآصف فاروق صاحب نے کی تھی۔ یہ دونوں 28مئی 2010 میں دارالذکر پر دہشت گردوں کے حملہ میں شہید ہوگئے تھے۔ اسی طرح ’’ایڈیٹر کے نام خط‘‘ میں مکرم ابن ایف آر بسمل صاحب لاہور کے حوالے سے اپنی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھتے ہیں کہ ’’جب لاہور کا صد سالہ جوبلی سوونیئر تیار ہو رہا تھا، اتفاق سے ان دنوں میری پوسٹنگ لاہور میں تھی۔ مبشر احمد دہلوی صاحب صدرسوونیئر کمیٹی نے مجھے بھی شامل کر لیا اور حضرت خلیفة المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ کے دورہ جات لاہور کا assignment مجھے دیا۔ جو سوونیئر کے صفحات45-49 پر شائع ہوا (روزنامہ الفضل آن لائن مورخہ 14فروری 2022)۔ یہ شیخ مبشر صاحب کی اہلیت و قابلیت تھی کہ انہوں نے فراست، تدبر، محبت کیساتھ سبھی کو ساتھ ملا کر ایک ٹیم کے ساتھ یہ تاریخی ذمہ داری نبھائی۔آج اس مجلہ کے مضامین بطور ریفرنس استعمال کئے جاتے ہیں۔خاکسار ایک ہی دن ان کے ساتھ کام کرنے گیا، رات گئے تک جب واپسی ہوئی تو پھر دوبارہ نہ جاسکا۔بعد میں عرصہ تک شفقت سے جب بھی ملتے تو مسکرا کر کہتے کہ بس اک رات ہی؟‘‘

ایم ٹی اے لاہور کے انچارج کی ذمہ داری

ایم ٹی اے لاہورسٹوڈیو کے پہلے انچارج عبد الستار صاحب جن کی شب و روز کی انتھک محنت کے نتیجہ میں سٹوڈیو کا قیام عمل میں آیا تھا اور بنیادی ڈھانچہ تیار ہوا تھا، کی مارچ 1998 میں بوجہ ہارٹ اٹیک وفات کے بعد ایم ٹی اے لاہور کی ذمہ داری شیخ مبشر دہلوی صاحب کو سونپی گئی تو اس کو آپ نے کماحقہ طور پر نہ صرف نبھایا بلکہ ضرورت کے مطابق سٹوڈیو کو اپ گریڈ بھی کیا اور نوجوانوں کی ایک ٹیم بھی تیار کر ڈالی۔یوں سالہا سال تک جماعتی، ذیلی تنظیموں کے بڑے پروگراموں کی ریکارڈنگ کرتے رہے۔ ایک بار سٹوڈیو میں محفل مشاعرہ بھی منعقد کرایا جو نشر بھی ہوا، اسی طرح لاہور جماعت کے بزرگان کے انٹرویوز بھی ریکارڈ کرکے تاریخ کو محفوظ کیا گیا۔ شیخ مبشر احمد دہلوی صاحب سے دارالذکر لاہور میں جماعتی اجتماعات و تقریبات میں ان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی، لیکن براہ راست تعلق اس وقت قائم ہوا جب ان کو ہم نے خدام الاحمدیہ کے علمی پروگراموں میں بطور منصف بلانا شروع کیا اور پھر ایم ٹی اے کی ذمہ داری سنبھالنے پر مختلف علمی پروگراموں کی ریکارڈنگ کا سلسلہ شروع ہوا، پھر یہ تعلق بتدریج بڑھتا ہی گیا۔ خاکسار جب خدام الاحمدیہ ضلع لاہور میں بحثیت ناظم تعلیم خد مت کی توفیق پا رہا تھا، تو ایک دن مجھے مجھے کہنے لگے کہ اچھی آواز اور قرآت پڑھنے والے خدام کو تلاش کریں ان کی نظمیں ریکارڈ کی جائیں، بعد ازاں اس پر عمل درآمد بھی ہوا۔ بحرحال وہ کام لینے کے ہنر کی صلاحیت سے مالا مال تھے۔ محبت کے ساتھ کام لیتے تھے۔

احمد سعید کرمانی پاکستان تحریک آزادی کے دوران قائد اعظم کے قریب رہے تھے اور حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان ؓ کے جو نیئر وکیل بھی تھے اور کرمانی صاحب چوہدری صاحب کے زبردست مداح تھے۔ایک غیر احمدی صحافی دوست نے ایک کھانے پر ملاقات کے دوران بتایا کہ کرمانی صاحب کے پاس چوہدری صاحب سے متعلق بہت یادیں باتیں ہیں ان کو ریکارڈ کرکے محفوظ کر لینا چاہیے،اس تجویز پر سید قمر سلیمان صاحب نے خاکسار کو کہا کہ مبشر دہلوی صاحب سے بات کریں۔ بعد ازاں مشاورت کے بعد وہ انٹرویو دارالذکر سٹوڈیو میں ریکارڈ ہوا تھا جس میں کرمانی صاحب نے تاریخی باتوں پر مشتمل اپنی یاداشت ریکارڈ کروائیں تھیں۔احمد سعیدکرمانی صاحب کی وفات95 برس کی عمرمیں اگست2018 میں ہوئی تھی۔ شاید2003 میں جب مکرم مبشر دہلوی صاحب ربوہ شفٹ ہوئے تو پھر ایم ٹی اے لاہور کی ذمہ داری محمود محمود خان صاحب کو سونپی گئی جو انہی کی ٹیم کا ایک ممبر تھے۔

مرکزی خدمت کی سعادت

مبشر دہلوی صاحب ایک صائب الرائے شخصیت تھے جن کے مشورے تقویٰ اور دور اندیشی پر مبنی ہوتے تھے، یہی وجہ تھی کہ آپ مرکز کی نگاہوں میں بھی ایک نمایاں مقام رکھتے تھے۔ خاندانی ذرائع کے مطابق آپ چونکہ پیپر کی صنعت کا وسیع تجربہ اور اس کی تیاری پرگہری نظر رکھتے تھے۔آپ کے اسی تجربہ اور قابلیت کی بناہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد ازاں آپ کو ’’لوائے احمدیت‘‘ کو محفوظ کرنے کے حوالے سے مرکز ربوہ میں خد مت دین کرنے کی ایک بہت بابرکت سعادت ملی۔ لوائے احمدیت کو ہینڈ میڈ پیپر (Hand made Paper) میں محفوظ کرنے کا مشورہ مبشر دہلوی صاحب کا تھا، بعد ازاں انہی کی نگرانی میں شیخ منور احمد صاحب اور شیخ مظفر احمد صاحب ساکن لاہور جو اسی کاروبار سے منسلک تھے، نے یہ پیپر تیار کیا تھا جو صد فیصد خالص روئی سے تیار کیا گیا تھا اور اس میں کسی قسم کا کوئی کیمیکل استعمال نہیں کیا گیا تھا اور اس کی تیاری کے دوران بھی مشاورت کا عمل جاری تھا۔ 10جون 2006 کو ربوہ میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے لان میں ہونے والی ایک بابرکت تقریب میں شامل ہونے کی سعادت ملی تھی جو ’’لوائے احمدیت‘‘ کو محفوظ کرنے کی غرض سے تھی۔ اسی طرح ایک اور خد مت جو آپ کے حصے میں آئی تھی وہ سپیشل ویزہ پر قادیان کی زیارت کرنا اور وہاں کے روٹی پلانٹ کے معاملات کو دیکھنا تھا اور ایک ماہ سے زائد عرصہ وہاں قیام کرنا تھا۔یہ دورہ جلسہ کے دنوں سے ہٹ کر الگ تھلگ تھا۔۔ ملازمتوں کو خیر باد کہنے کے بعد دفتر جلسہ سالانہ ربوہ میں بھی کچھ عرصہ تک خدمت کی توفیق پائی۔

لاہور کے مخلصین بزرگان میں آپ کا نام سر فہرست ہے جنہوں نے خلافت کے ساتھ وفا اور نظام جماعت کی کامل اطاعت کے ساتھ زندگی بسر کی اور اپنے بچوں کی تربیت بھی انہی خطوط پر کی جن پر تمام عمر آپ نے زندگی بسر کی۔

شیخ مبشر دہلوی صاحب لاہور جماعت کے ان چند چیدہ احباب میں شامل تھے جن کو چوہدری حمید نصراللہ خان صاحب امیر لاہور کا مکمل اعتماد حاصل تھا، جو بھی ذمہ داری ان کو سونپی جاتی،پوری دیانتداری، وفا اور اخلاص سے نبھاتے تھے۔ ان کے بیٹے مکرم لطیف محمود صاحب (مقیم کینیڈا) کو فوٹو گرافی سے بہت لگاؤ تھا، یہی شوق پھر جماعتی خدمت کے جنون میں ڈھل گیا اور وہ بھی تمام جماعتی پروگراموں کی فوٹو گرافی کی ذمہ داری نبھانے لگے، سالہا سال تک اہم مواقع کی فوٹو گرافی کرنے کی توفیق ملی۔ اپنی بیماری کے دنوں میں شیخ مبشر دہلوی صاحب کو وہیل چیئر پر اپنے بڑے بیٹے ڈاکٹر محمود شیخ صاحب کے ساتھ آخری مرتبہ جلسہ سالانہ قادیان جانے کی توفیق ملی، واہگہ بارڈر پر میری بھی ان سے ملاقات ہوئی تو بہت خوش ہوئے۔پھر قادیان میں آپ نے موقع ملنے پر متعدد تاریخی پرانے مقامات بارے مجھے بتایا اور یوں نہ بھولنے والا وقت ان کی رفاقت میں گزرا۔

شیخ مبشر احمد صاحب کی وفات 15مئی 2014 کو سرگودھا میں ان کے بڑے بیٹے ڈاکٹر محمد محمود شیخ صاحب کے گھر میں ہوئی اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔ آپ کی یاد گار اولاد میں دو بیٹے لطیف محمود صاحب (مقیم کینیڈا) اور مکرم ڈاکٹر محمد محمود شیخ صاحب (سرگودھا پاکستان) اور تین بیٹیاں امتہ العلیم صاحبہ اہلیہ ناصر خان صاحب، امتہ الشکور صاحبہ اہلیہ شیخ منور احمد صاحب، امتہ القدوس صاحبہ اہلیہ شیخ مظفر احمد صاحب شامل ہیں۔آپ نفیس احمد عتیق صاحب مربی سلسلہ کے تایا تھے۔

(روزنامہ الفضل ربوہ 20مئی 2014)

(منور علی شاہد –جرمنی)

پچھلا پڑھیں

رمضان کے دوسرے عشرہ، مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی ادعیہ ماثورہ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ