• 1 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خط

ایڈیٹر کے نام خط
ایک احمدی ہونہار بچی نائلہ کے دوران تعلیم حجاب پر لیکچرز

  • مکرمہ بشرٰی نذیر آفتاب۔کینیڈا سے لکھتی ہیں:

28 مارچ 2022ء کے روز نامہ الفضل آن لائن لند ن میں آپ کا اداریہ بعنوان ’’پہلے حجاب پھر کتاب‘‘ پڑھا۔ ہمیشہ کی طرح معلوماتی، علمی اور متاثر کردینے والا اداریہ تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ہم عورتوں کا ترجمان اداریہ بھی تھا۔ مسکان صاحبہ کا واقعہ میرے اسکول میں بھی زبان زدِخاص و عام تھا۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی کہ اسکول کے اسٹاف ممبرز میں ہم دو احمدی اسٹاف ممبرز اسلامی پردہ کو اپنانے اور رواج دینے کی پوری کوشش کرتی ہیں اور اسی طرح سے اس اسکول میں 20 سے زیادہ مسلمان اور احمدی مسلمان بچیاں بھی زیر تعلیم ہیں اور یہ طالبات حیا دار لباس زیب تن کرتیں اورسر پرا سکارف بھی لیتی ہیں۔

مدیر محترم! ان گنت برکات خلافت میں سے ایک یہ بھی خلافت کی بہت بڑی برکت ہے کہ ایسے والدین اور خاص طور پر ایسی احمدی مائیں جو خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی خلیفۃ المسیح کے خطابات، خطبات، بچوں کے ساتھ حضور انور کی کلاسسز اور ہر وہ پروگرام جس میں خلیفۃ المسیح موجود ہوتے ہیں سنتی ہیں اور اس بات کی نگرانی کرتی ہیں کہ ان کے بچے بھی بغور ان پروگرامز کو سنیں اور حضور انور کی قیمتی نصائح پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔ خلافت کے ساتھ جڑنے والے ایسے بچے اور بچیاں اپنے اسکولز، کالجز اور یونیورسٹیز (Universities) میں نہ صرف اپنے حیادار لباس کے ساتھ تبلیغ کا ذریعہ بن رہے ہیں بلکہ ان کی رفتار و گفتار، چال ڈھال، عادات و اطوار، وقار، حیا، سلیقہ شعاری اور سگھڑ پن بھی اسلام کا پیغام پھیلانے میں ممدو معاون ثابت ہو رہا ہے، الحمد للّٰہ۔

بعض احمدی بچیوں نے تو چھوٹی بلکہ بہت ہی چھوٹی عمر میں بلا خوف و خطر اسکول میں اپنے کلاس فیلوز اور اساتذہ کو واشگاف الفاظ میں یہ بتا دیا کہ ہم اسکول تو چھوڑ سکتی ہیں مگر اپنے پردے پر آنچ نہیں آنے دیں گی۔ اسی طرح کا ایک واقعہ جو میری بیٹی کے ساتھ پیش آیا اور مجھے یقین ہے کہ ساری دنیا میں بسنے والی اور بھی بہت ساری بچیوں اور بہنوں کے ساتھ بھی پیش آیا ہو گا اور اس اداریے کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے جو میرے اس خط کا محرک بنا۔

ہم ستمبر 2006ء میں ٹورانٹو سے نقل مکانی کر کے سسکاٹون آگئے تھے۔ اس وقت یہاں پر احمد ی گھرانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اسی طرح سے دیگر مسلمانوں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔میری بڑ ی بیٹی نے تیسری کلاس جس اسکول سے ختم کی وہاں اس کےا سکارف لینے پر مخالفت نہ ہوتی تھی مگر بعض بچے اس کے ساتھ کھیلنا پسند نہ کرتے تھے۔ مگرجیسے ہی یہ چوتھی کلاس میں ہوئی ہم اُس علاقے کو چھوڑ کر سسکاٹون ہی میں ایک دوسرے علاقے میں منتقل ہو گئے۔ اس نئے اسکول میں اور نئی کلاس میں بچی کے اسکارف لینے کی وجہ سے مخالفت شروع ہو گئی۔ کوئی بھی بچی اس کے ساتھ کھیلنے کو تیار نہ تھی اور نہ ہی اس کے ساتھ بچے گروپ میں کام کر نے کے لئے تیار ہوتے۔ ہر روز گھر آکر بتاتی کہ بچے میرےا سکارف اور کپڑوں کو ناپسند کرتے ہیں لیکن مجھےا سکارف لینا اچھا لگتا ہے۔ ایک دن میرے پاس خط لکھ کر لائی کہ یہ پیارے حضور کو بھیج دیں۔ ہم نے اس کا خط حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں بذریعہ ڈاک بھیج دیا۔ چندہی دنوں میں پیارے آقا کی طرف سے جواب بھی آگیا جس میں حضور انور نے از راہ شفقت و محبت بچی کے لئے دعا کی اور اسے درج ذیل دعا پڑھنے کی طرف بھی توجہ دلائی۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْ رِھِمْ وَ نَعُوْذُ بِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ (ابوداؤد کتاب الصلٰوۃ)

ترجمہ:۔ اے اللہ ! جو کچھ ان (دشمنوں) کے سینوں میں ہے اس کے مقابل پر ہم تجھے ہی ڈھال بناتے ہیں۔ اور ہم ان کے تمام شرّ اور مضر اثرات سے تیری پناہ میں آتے ہیں۔

میری بیٹی یہ دعا پڑھتی رہی اور باقاعدگی سے اسکول جاتی رہی۔ ایک دن مجھے اسکول سے فون آیا کہ میں فوراً اسکول پہنچوں، میرے اسکول پہنچنے پر پرنسپل کے آفس میں میری بیٹی کا استاد، پولیس آفیسر،میری بیٹی اور پرنسپل موجود تھیں۔ میری بیٹی نے جیسے ہی مجھے دیکھا بھاگ کر میرے ساتھ لگ گئی اور چہرے سے بھی بہت پریشان لگ رہی تھی۔ اس کے کلاس ٹیچر نے مجھے بتایا کہ آج لنچ کے دوران اس کی کلاس کے دو بچوں نے مخالف سمت میں اس کا دوپٹہ کھینچا ہے اور کچھ بچوں کے شور مچانے پر لنچ سُپر وائزر نے آ کر اسے چھڑایا ہے اس واقعہ کی اطلاع ہم نے پولیس کو بھی کردی تھی (کینیڈا میں ہر اسکول کے ساتھ دو یا تین پولیس آفیسرز کام کرتے ہیں کسی بھی حادثہ کی صورت میں یہ فوراً مدد کے لئے پہنچ جاتے ہیں) اس لئے آپ کو بلایا ہے مگر ہم آپ کو یہ بھی بتاتا چاہتے ہیں کہ آپ کی بیٹی بہت بہادر ہے اور اس کو فخر ہے کہ یہ احمدی مسلمان بچی ہےاور اسکارف لیتی ہے۔ مگر ہمارے اسکول میں طلباء کے لئے یہ بالکل نئی چیز ہے اور مجھے امید ہے کہ آہستہ آہستہ بچے اس کلچر کو قبول کر لیں گے۔ اپنی بیٹی کے استاد کی بات سننے کے بعد میں نے پرنسپل صاحبہ سے کہا کہ یہ بہت ہی سنگین واقعہ ہے اور کینیڈا کے آئین اور قانون کے مطابق سب کو مذہبی آزادی اور رواداری حاصل ہے اور اگر میری بیٹی کو اپنی مذہبی تعلیمات پر عمل کرنے کی وجہ سے مخالفت کا سامنا رہا تو شاید میں اپنی بیٹی کو اسکول نہ بھیج سکوں یا خوف کے مارے میری بیٹی اسکول جانے سے انکار کر دے۔آپ اس کواپنی کلاس میں بچوں کو یہ بتانے کا موقعہ فراہم کریں کہ یہ حیا دار لباس کیوں پہنتی ہے، اسکارف کیوں لیتی ہے اور یہ کہ اس کے لباس اور اس کے مذہب سے کسی کوکسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں۔ میری یہ تجویز سن کر پرنسپل صاحبہ نے بلا توقف کہا کہ کلاس ہی میں کیوں، میں کل ہی پورےا سکول کی اسمبلی کا انعقاد کر تی ہوں اور نائلہ (بیٹی) ہمیں اپنے مذہب، لباس اور کلچر کے بارے میں بتائے گی۔ اگلے ہی دن عزیزہ نائلہ نے چار سو تین طلبا اور اٹھارہ اساتذہ کی موجودگی میں دس منٹ انگریزی زبان میں ’’قرآن کریم میں پردے کی اہمیت‘‘ پر اسکول کی اسمبلی میں تقریر کی جسے سب نے بہت پسند کیا۔ اِس کی تقریر کے بعد پرنسپل صاحبہ نے میری بیٹی کی تقریر کو سراہتے ہوئے تمام طلبا کو بتایا کہ آئندہ سے ہم کلاس لیول پر بھی اس طرح کی تقاریر کا سلسلہ جاری رکھیں گے تاکہ تمام بچوں کو اس نئے کلچر سے متعلق معلومات مل سکیں۔ اس کی تقریر کے اگلے روز چند احمدی بچیاں جو اسی اسکول میں زیر تعلیم تھیں نے بھی یہ عہد کیا کہ وہ آئندہ سے اسکارف لینا شروع کر دیں گی۔

مخالفت کے اس ایک چھوٹے سے واقعہ نے ہمارے لئے تبلیغ کی کئی راہیں کھول دیں، الحمد للّٰہ۔ اس دن سے لیکر آج تک ہمیں سسکاٹون کے اکیس (21) مڈل اور ہائی اسکولوں کی ساٹھ(60) کلاسسز میں اسلام کی خوبصورت تعلیمات بار ہا بتا نے کا موقعہ ملا ہے۔ خاص طور پر ’’پردے، ایک احمدی عورت کی نظر میں‘‘ علاوہ ازیں درج ذیل عناوین پربھی پریزنٹیشنز (Presentations) دینے کا موقعہ ملااور مسلسل مل رہا ہے۔ رمضان، عیدین، حجاب، ڈیٹنگ (Dating) اور وطن سے محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے وغیرہ۔ اس کے علاوہ ہر سال درجنوں اسکولوں میں قرآن کریم، اسلام کی پر امن تعلیمات، اکتوبر اسلامی ورثہ کا مہینہ اور رمضان پر Exhibitions منعقد کرنے کی توفیق مل رہی ہے۔اسی طرح سے چار سو سے زائد اسا تذہ کرام اور دو ہزار 2000 سے زائد طلباء و طالبات نے ہماری مسجد بیت الرحمت کا دورہ کیا اور اس دوران ہمیں نماز جمعہ اوربا جماعت نماز ادا کرتے ہوئے دیکھا اور بہت سارے سوالات بھی پوچھے جن کے تسلی بخش جوابات پا کر اساتذہ اور طلباء بہت خوش ہوئے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکموں میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے۔‘‘

(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد19 صفحہ26)

ایک چھوٹی سی احمدی مسلمان بچی کے اللہ تعالیٰ کے پردے کے حکم پر عمل کرنے کے نتیجے میں اور خلیفۂ وقت کی دعا کی بدولت نہ صرف چوتھی کلا س کے بچوں کے دل بدلے بلکہ تبلیغ کے ایسے مواقع اور ذرائع باہم پہنچائے جو عام حالات میں ناممکن تھے۔ بلکہ اسی بچی کو جواب Saskatchewan یونیورسٹی میں ڈاکٹر آف میڈیسن کے دوسرے سال میں ہے۔ درجنوں اسکولوں میں جا کر احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی پُر امن اور زندگی بخش تعلیمات پہنچانے کی توفیق مل رہی ہے۔ الحمد للّٰہ علی ذالک

پچھلا پڑھیں

رمضان کے دوسرے عشرہ، مغفرت اور اس میں بخشش طلب کرنے کی ادعیہ ماثورہ

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ