• 18 اپریل, 2024

توبہ کے حقیقی معانی

حضرت مسیح موعودعلیہ السلام فرماتےہیں۔
’’توبہ کے معنے ہیں ندامت اور پشیمانی سے ایک بد کام سے رجوع کرنا۔ توبہ کوئی بُرا کام نہیں ہے۔ بلکہ لکھا ہے کہ توبہ کرنے والا بندہ خدا کو بہت پیارا ہوتا ہے۔ خداتعالیٰ کا نام بھی توّاب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنے گناہوں اور افعال بد سے نادم ہو کر پشیمان ہوتا ہے اور آئندہ اس بدکام سے باز رہنے کا عہد کر لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس پر رجوع کرتا ہے رحمت سے۔ خدا انسان کی توبہ سے بڑھ کر توبہ قبول کرتا ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ اگر انسان خدا کی طرف ایک بالشت بھر جاتا ہے تو خدا اس کی طرف ہاتھ بھر آتا ہے۔ اگر انسان چل کر آتا ہے تو خداتعالیٰ دوڑ کر آتا ہے یعنی اگر انسان خد اکی طرف توجہ کرے تو اللہ تعالیٰ بھی رحمت، فضل اور مغفرت میں انتہاء درجہ کا اس پر فضل کرتا ہے، لیکن اگر خدا سے منہ پھیر کر بیٹھ جاوے تو خداتعالیٰ کو کیا پروا۔

دیکھو یہ خدا تعالیٰ کے فیضان کے لینے کی راہیں ہیں۔ اب دروازے کھلے ہیں تو سورج کی روشنی برابر اندر آ رہی ہے اور ہمیں فائدہ پہنچا رہی ہے، لیکن اگر ابھی اس مکان کے تمام دروازے بند کر دئیے جاویں تو ظاہر ہے کہ روشنی آنی موقوف ہو جاوے گی، اور بجائے روشنی کے ظلمت آ جاوے گی۔ پس اسی طرح سے دل کے دروازے بند کرنے سے تاریکی ذنوب اور جرائم آ موجود ہوتی ہے اور اس طرح انسان خدا کی رحمت اور فضل کے فیوض سے بہت دور جا پڑتا ہے پس چاہئے کہ توبہ استغفار منتر جنتر کی طرح نہ پڑھو۔ بلکہ ان کے مفہوم اور معانی کو مدنظر رکھ کر تڑپ اور سچی پیاس سے خدا تعالیٰ کے حضور دعائیں کرو۔ توبہ میں ایک مخفی عہد بھی ہوتا ہے کہ فلاں گناہ میں کرتا تھا۔ اب آئندہ وہ گناہ نہیں کروں گا۔ اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستّار ہے بہت سے لوگوں کو خداتعالیٰ کی ستّاری نے ہی نیک بنا رکھا ہے ۔ ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستاّری نہ فرماوے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشیدہ ہیں‘‘

(ملفوظات جلدپنجم صفحہ608)

’’ان سب باتوں کے بعد میں تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی رحمتیں سمندروں سے بھی زیادہ ہیں۔ اگر وہ شدید العقاب ہے تو غفور رحیم بھی تو ہے۔ جو شخص توبہ کرتا اور استغفار اور لاحول میں مشغول ہو جاتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم کر لیتا ہے تو وہ ضرور بچایا جاتا ہے۔ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کا یہ متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو عذاب آنے سے پہلے ڈرتے ہیں اور خدا کی یاد میں مشغول ہو جاتے ہیں وہ اس وقت ضرور بچائے جاتے ہیں جبکہ عذاب اچانک آ دباتا ہے۔ لیکن جو اس وقت روتے اور آہ و زاری کرتے ہیں جبکہ عذاب آ پہنچتا ہے اور اس وقت گڑ گڑاتے اور توبہ کرتے ہیں جبکہ ہر ایک سخت سے سخت دل والا بھی لرزاں اور ترساں ہوتا ہے تو وہ بے ایمان ہیں وہ ہرگز نہیں بچائے جاتے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ 404)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020