• 19 اپریل, 2024

نظام جماعت سے وابستگی اور اطاعت عہدیداران

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ وَ اُولِی الۡاَمۡرِ مِنۡکُمۡ ۚ

(النساء:60)

اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو!اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے حکام کی بھی۔
لَا الشَّمۡسُ یَنۡۢبَغِیۡ لَہَاۤ اَنۡ تُدۡرِکَ الۡقَمَرَ وَ لَا الَّیۡلُ سَابِقُ النَّہَارِ ؕ وَ کُلٌّ فِیۡ فَلَکٍ یَّسۡبَحُوۡنَ۔ (یٰس:41) سورج کی دسترس میں نہیں کہ چاندکو پکڑ سکے اور نہ ہی رات دن سے آگے بڑھ سکتی ہے اور سب کے سب (اپنے اپنے) مدار پر رواں دواں ہیں۔

دنیا میں جاری مادی اور روحانی نظام میں قدر مشترک امر ’’تنظیم‘‘ ہے۔ سورۃ یٰس کی آیت 41 میں دنیا میں جاری نظام کے متعلق بیان ہوا ہے کہ تمام اجرام فلکی چاند،سورج ،زمین اپنے اپنے مدار میں تنظیم کے ساتھ گھوم رہے ہیں اور ان میں اگر کوئی ذرہ بھر بھی اپنے مدار سے دُور ہو تو زمین تہہ و بالا ہو جاتی ہے۔ زلزلے آتے ہیں اور سونامی جیسی تباہی دیکھنے کو ملتی ہے۔اسی طرح روحانی دنیا میں تنظیم کو قائم رکھنے کے متعلق واضح احکام قرآن کریم میں موجود ہیں اور سیدنا حضرت محمدمصطفی ﷺ نے اس کی جو تشریحات و توضیحات فرمائی ہیں۔ہم ان کو جماعت ، نظامِ جماعت،خلافت اور اطاعت عہدیداران کا نام دے سکتے ہیں۔ان سب کی آپس میں کڑیاں ملتی ہیں اور ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو ایک موقع پر یوں فرمایاہے ۔
’’نظام ِجماعت کی اطاعت کی جائے ۔آنحضرت ﷺ نے خود فرمایا ہے کہ جس نے میرے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ پس نظام جماعت کو معمولی نہ سمجھیں ۔خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں اطاعت کے مضمون سے گزرکر جاتی ہیں۔ اس لئے نظامِ جماعت کی اطاعت کو اپنا شعار بنائیں۔ ہر صورت میں آپ نے اطاعت کرنی ہے اور نظامِ جماعت کا احترام کرنا ہے ۔اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جاوے تو دل میں ایک نور پیدا ہوتا ہے اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے۔ مجاہدات کی اتنی ضرورت نہیں جتنی کہ اطاعت کی، اطاعت سے عظیم انقلاب برپا ہو سکتے ہیں۔‘‘

(پیغام جلسہ سالانہ جرمنی 2006ء از ماہنامہ اخبار احمدیہ جرمنی 2006ء)

حضرت عمرفرمایا کرتے تھے کہ اسلام میں جماعت ہے، جماعت میں امارت ہے۔ امارت میں اطاعت ہے۔

آنحضور ﷺ نے متعدد بار صحابہؓ کو جماعت کے ساتھ رہنے کی تلقین فرمائی اور مختلف انداز میں مثالیں دے کر اس مضمون کو سمجھایا ہے۔جیسے ریوڑ کی مثال دی کہ ریوڑ سے الگ ہونے والی بھیڑ کو بھیڑیا اچک کرلے جاتا ہے ۔اس طرح آدمی کا بھیڑیا شیطان ہے جو اُسے بہکا لے جائے گا جب وہ جماعت سے الگ ہوا۔جسم کی مثال دے کر بھی سمجھایا اور ایک دفعہ مضبوط عمارت سے مثال دی کہ مومن دوسرے مومن کے لئے مضبوط عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے کو تقویت دیتا ہے۔ آپ ؐنے اس مفہوم کو واضح کرنے کے لئے ہاتھوں کی کنگھی بنائی۔

آنحضور ﷺ نے آخری زمانہ کی جو علامات بیان فرمائی ہیں۔ ان میں جماعت کو لازم پکڑنے کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا کہ میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ 72 ناری ہوں گے۔ ایک جنتی ہوگا۔ صحابہؓ نے عرض کہ مَنْ ھُم۔ فرمایا مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ اور ایک موقع پر فرمایا وَھِی الْجَمَاعَۃُ کہ وہ جماعت ہوگی۔

تمام کرۂ ارض پر صرف ایک ہی فرقہ ایسا ہے جو جماعت کہلانے کا مستحق ہے وہ جماعت احمدیہ ہے ۔جس کا ایک واجب الاطاعت امام موجود ہے۔ اس کے مبارک منہ سے نکلے ہوئے الفاظ پر دُنیا بھر میں پھیلے احمدی احباب لبیک یا سیدی کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ حقیقی تنظیم، اتحاد و یگانگت اور جماعت کا نقشہ صرف جماعت احمدیہ میں ملتا ہے۔ جو ساری دنیا میں موجود احباب ایک وجود کی آواز پر کھڑے ہو رہے ہیں اور اسی کی آواز پر بیٹھتے ہیں۔تنظیم چندسو یا چند لاکھ افراد کے اجتماع یا ازدہام کا نام نہیں بلکہ فکر و عمل اور سوچ و خیال و عقائدمیں اشتراک اورموافقت کا نام تنظیم ہے اور یہ نعمت صرف جماعت احمدیہ کو حاصل ہے۔ اسلامی نظام موجود ہے ۔جیسے قضاء کا نظام ہے۔بیت المال موجودہے۔ غرباء، بیوگان، مستحق، یتامیٰ کی دیکھ بھال۔ مریضوں کی امداد اور طلبہ میں وظائف کا مستقل مضبوط نظام موجود ہے اور مَا اَنَا عَلَیْہِ وَ اَصْحَابِیْ کے مصداق مخلص دوست تمام دنیا میں پھیلے مالی ،قالی، حالی، جانی خدمات کررہے ہیں۔ جبکہ اس کے مقابل پر غیروں میں محض حسرت، افسوس، نا امیدی کا اظہار اور خلافت کی ضرورت پر زور دیا جاتا ہے۔

نظام جماعت اور اطاعت کے مضمون کو سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے تسبیح سے مشابہت دے کر سمجھایا ہے کہ تسبیح کے دانے ایک تاگے میں پروئے ہوئے ہوتے ہیں اور تاگے کے دونوں سرے اکٹھے کر کے ایک لمبا دانہ پرویا ہوتا ہے۔ وہ دراصل امام ہے جس کے ساتھ تعلق رکھ کر ہر دانہ اس کی اطاعت کر رہا ہوتا اور کچھ دانوں کے بعد ایک بڑا دانہ آتا ہے جو اس تعلق کو مزید مضبوط کرنے کا باعث بنتا ہے وہ دراصل عہدیدار ہے۔ اور یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ جس طرح تسبیح کے دانوں کے لئے ایک امام کی ضرورت ہے اسی طرح ہمیں بھی ایک امام کے پیچھے چلنا چاہئے۔

اطاعت کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے ایمان کے اصطلاحی معنوں کاسمجھنا ضروری ہے۔ ایمان نام ہے بعض خلافِ طبیعت باتیں ماننے اور بعض خلاف طبیعت باتیں چھوڑنے کا۔ایمان کی اسی تعریف کے تناظر میں حضرت مصلح موعود نے اطاعت کی تعریف میں لکھا ہے کہ

’’اطاعت صرف ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خداتعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنے کا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(تفسیرکبیر جلد2 صفحہ15)

اطاعت بہت وسیع لفظ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سو کے قریب آیات میں مختلف انداز میں اطاعت کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس کی برکات کا ذکر کیاہے۔اطاعت کرنے والوں کو بشارتیں دی ہیں جبکہ اطاعت کا جوا اپنی گردن سے اتارنے والوں کو انذار کیاہے۔

اطاعت کی تین اقسام ہیں۔ اللہ کی اطاعت ،رسول کی اطاعت اوراولی الامر کی اطاعت ۔اطاعت میں سب سے پہلا نمبر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا آتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کا عبد بننے کی کوشش کرے۔ جو احکام قرآن ِکریم میں بیان ہوئے ہیں۔ان پر عمل کیا جائے۔ جس میں نماز کی ادائیگی ہے، زکواۃ کی ادائیگی ہے، شرائط کے مطابق روزہ رکھنا ہے اور دیگر کئی احکام ہیں جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے۔

صحابہ نے اس میدان میں بھی اطاعت کے اعلیٰ نمونے دکھلائے۔ جب رسول ﷺ کے سامنے آواز دھیمی رکھنے کا حکم نازل ہوا تو حضرت عمر ؓنے اپنی آواز دھیمی کر لی اور حضرت ثابت بن قیس تو گھر ہی بیٹھ گئے۔

شراب کی ممانعت کا حکم نازل ہوا تو شراب میں مخمور صحابہؓ نے مٹکے توڑ ڈالے اور شراب مدینہ کی گلیوں میں بہنےلگی۔

ایک مہاجر صحابیؓ نے قرآنی احکام کی فہرست تیار کر رکھی تھی اور اُن کی کوشش تھی کہ کوئی حکم رہ نہ جائے جس پر عمل پیرا نہ ہوسکوں۔جامع البیان میں لکھا ہے کہ وہ ساری عمر اس بات پر کوشاں رہے۔ قرآنی حکم کہ “اگر تمہیں کہا جائے کہ لوٹ جاؤ تو لوٹ آیا کرو” کی تعمیل میں انہوں نے یہ کہہ کر مدینہ کے ہر گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ کوئی مجھے کہہ دے کہ میں اس وقت نہیں مل سکتا اور میں قرآنی حکم کے مطابق لوٹ آؤں۔ مگر مجھے ایسی آوازسنائی نہ دی۔

رسول اور خلیفہ کی اطاعت

دوسرے نمبر پر رسول اور خلیفہ کی اطاعت ہے ۔جو خدا تعالی کے قرب اور رضا کے حصول کا باعث بنتی ہے۔ صحابہ ؓ نے اس میدان میں کمال بے نظیر اور بے مثل نمونے پیش کئے اور اطاعت کی ایسی تا ریخ رقم کی جو مذہبی دنیا میں تا قیامت سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

آنحضور ﷺ نے ایک دفعہ مسجد نبوی میں فرمایا بیٹھ جاؤ تو ایک صحابی حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ابھی مسجد سے باہر مسجد کی طرف بڑھ رہے تھے کہ کانوں میں بیٹھنے کی آواز آئی تو وہیں بیٹھ گئے اور پرندے کے پھدکنے کی طرح مسجد کی طرف بڑھنے لگے۔ قریب کھڑے ایک صحابی نے کہا بھی کہ آپ مخاطب نہیں ہیں ۔ فرمایا میرے کانوں میں میرے آقا کی آواز پڑی ہے اگر میری جان ابھی نکل جائے تو خدا کو کیا جواب دوں گا کہ رسول ﷺ کے ایک حکم پر عمل نہیں کر سکا۔

آنحضور ﷺ نے حضرت اسامہ ؓکی سر براہی میں ایک لشکر ترتیب دیا ۔ جس میں بڑے بڑے صحابہ ؓ بھی شامل تھے۔ ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ آنحضور ﷺ کی وفات ہو گئی آپؐ کی وفات پر بعض صحابہؓ نے اس لشکر کو روکنے کا مشورہ دیا مگر حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا ابو قحافہ کی کیا مجال کہ اس لشکر کو روکے جس کو آنحضور ﷺ سے روانہ کرنے کا حکم دیا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مدینہ میں بعض امور کی سرانجام دہی کے لئے ضرورت بھی تھی تو باوجود خلیفہ ہونے کے اور صاحبِ حکم ہونے کے ان کو خود رکنے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ بلکہ حضرت اسامہ ؓ سے درخواست کی کہ آنحضور ﷺ نے ان کو آپ کے لشکر میں شامل کیا ہے مگر مجھے زکوٰۃ کے حصول کے لئے ان کی ضرورت ہے۔ اگر اجازت ہو تو انہیں روک لوں۔

آج کے دور میں مَا اَنَا عَلَیْہِ اَصْحَابِی کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپؑ کے ماننے والوں نے اطاعت و تسلیم و رضا کی داستانیں زندہ کی ہیں۔

خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام ایک دفعہ گورداسپور تشریف لے گئے گرمی کا مہینہ تھا۔ آپ کے لئے ایک ایسی چھت پر بستر لگایا گیا جس پر منڈیر نہ تھی۔ آپ یہ کہتے ہوئے نیچے آ گئے کہ میرے آقا ومولیٰ حضرت محمد ﷺ نے ایسی چھت پر سونے سے منع کیا ہے جس پر منڈیرنہ ہو اور مئی کے شدید گرمی کے مہینہ میں اندر کمرے میں ساری رات بسر کردی۔

خلافت خامسہ کے انتخاب پر دربارِ خلافت سے ایک حواری کی زبانی یہ اعلان ہوا کہ حضور فرماتے ہیں کہ بیٹھ جائیں تو جو نقشہ اطاعت اورفرمانبرداری کا گریسن ہال روڈ پر بیٹھنے کاایم ٹی اے نے تا قیامت محفوظ کر لیاہے۔اسے دیکھ کر آنحضور ﷺ کے دور کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں۔

اولوالامر کی اطاعت

تیسری قسم کی اطاعت اولواالامر یعنی حکام اور عہدیدارانِ جماعت کی اطاعت ہے۔جس کو خدا اور رسول کی اطاعت کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے اور فرمایا کہ کسی بات پر اختلاف کو دور کرنے اور صحیح راہ پر متعین کرنے کا معیار خدا اور رسول کے احکام ہیں۔ ان احکام کی روشنی میں اگر تم اپنا معاملہ طے کرو گے تو بہتر صورت پیدا ہونے کی ضمانت دی جاتی ہے۔ نیز تم ان برکات و فیوض کے وارث ہوگے۔جو اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کسی قوم کو عطا فرماتا ہے۔

اس حکم کی تشریح میں آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ نے ایسے ارشادات بیان فرمائے ہیں کہ اطاعت کا مفہوم اور اس کی اہمیت روز روشن کی طرح کھل کے سامنے آتی ہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ مسلمان پر اپنے افسروں کی ہربات سننا اور ماننا فرض ہے۔خواہ اسے ان کا حکم اچھا لگے یا نہ۔

(بخاری)

اس حدیث میں اور دیگر احادیث میں اَلسَّمْعُ وَالطَّاعَۃُ کے الفاظ ہیں۔جس میں یہ اشارہ ہے کہ ہر مسلمان نے صرف اس حکم کی اطاعت نہیں کرنی جو خود بخود یا کسی کے ذریعہ پہنچے بلکہ خدا ،اس کے رسول اور حکامِ بالا کے احکام پر کان لگائے رکھنے ہیں اور خود سن کر اطاعت کرنی ہے۔اس میں کوشش کر کے اجلاسات اور درسوں پر حاضرہو کر سننا بھی مراد ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطبات کو اطاعت کی نیت کرتے ہوئے سننا بھی مراد ہے۔

سیدنا حضرت محمد ﷺ نے حکام اور امراء کی اطاعت کو اپنی اور خدا تعالیٰ کی اطاعت قرار دے کر عہدیداران کی اطاعت کے مضمون کو اُجاگر کیا ۔ فرمایا جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی جس نے امیر یا حاکمِ وقت کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جو امیر، حاکمِ وقت اورعہدیدار کا نافرمان ہے وہ میرا نافرمان ہے۔

امیر یا حکام کی اطاعت کے بارے آنحضور ﷺ کے بہت واضح ارشادات ہیں جیسے حبشی غلام جس کا سر انگور کے خشک دانے کی طرح ہو اُس کی بھی اطاعت کرنی ہوگی۔

آنحضور ﷺ نے لشکربجھوایا ۔اس کے امیر نے آگ جلائی اور شاملین کو کود جانے کا حکم دیا۔ بعض نے انکار کر دیا کہ آگ سے نکل کر تو اسلام کی طرف آئے ہیں اور ایک گروہ تیار ہو گیا۔ جس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا اگر یہ کو د جاتے تو ہمیشہ آگ میں ہی رہتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
’’تقویٰ کا یہ بھی تقاضا ہے کہ ہر فردِ جماعت اپنے عہدیدار کے ساتھ مکمل تعاون اور اطاعت کا جذبہ رکھنے والا ہو۔ اور ہر عہدیدار اپنے سے بالاعہدیدار کا احترام ،تعاون اور اطاعت کے معیاروں کو حاصل کرنے والا ہو۔ذیلی تنظیمیں اپنے دائرے میں بے شک آزاد ہیں اور خلیفہ وقت کے ما تحت ہیں ۔ لیکن جماعتی نظام کے تحت ذیلی تنظیموں کا ہر عہدیدار بھی فردِ جماعت کی حیثیت سے جماعتی نظام کا پابند ہے اور اس کے لئے اطاعت لازمی ہیں……اطاعت میں فرق نہیں آنا چاہئے‘‘

(خطبہ جمعہ 16اپریل 2010ء)

حضرت عبادہ بن صامتؓ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے حضرت رسول اللہ ﷺ کی بیعت اس شرط پر کی کہ ہم سنیں گے اور اطاعت کریں گے۔ آسانی میں بھی اور تنگی میں بھی، خوشی میں بھی اور رنج میں بھی اور ہم اُولو الامرسے نہیں جھگڑ یں گے اور جہاں کہیں بھی ہم ہوں گے حق پر قائم رہیں گے اور کسی ملامت کرنے والے سے نہیں ڈریں گے۔

(مسلم کتاب الامارۃ، باب و جوب طاعۃ الامراء)

اطاعت اور نظام جماعت و نظام خلافت کے آپس کے اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے شہد کی مکھی کی مثال دی ہے کہ کس طرح ایک نظام کے تحت مکھیاں ملکہ کی اطاعت کر رہی ہوتی ہیں اور پھر اس کی اطاعت کے نتیجہ میں ایک ایسی غذا یعنی شہد تیار ہوتا ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ فِیْہِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ۔ اس طرح جماعت میں رہتے ہوئے ایک خلیفہ کی اطاعت میں صحت مند مقوی غذا فتوحات اور ترقیات کی صورت میں ملتی ہے اور جماعت کو مل رہی ہے کیونکہ اطاعت، اطاعت اور اطاعت ہی ہمارا پہلا سبق ہے اور پورا طرہ امتیاز ہے۔ دیکھیں جنگ خندق کی کھدوائی کے وقت جب درمیان میں چٹان آئی تو بعض صحابہ نے کہا کہ چند قدم ہٹ کر یہ خندق کھودی جائےمگر حضرت سلمان فارسی بضد رہے کہ جو لکیر خندق کھودنے کے لئے میرے آقا حضرت محمد ﷺ نے لگائی ہے۔ میں تو اس سے ایک قدم بھی نہیں ہٹوں گا۔ اتنے میں آنحضور ﷺ تشریف لائے آپ نے کدال پکڑی اور زور سے ضربیں لگائیں کہ چٹان بھی ٹوٹی اور قیصرو کسریٰ کے بادشاہوں کی تباہی کی خبر یں دیں۔ آج اس زمانہ کے مامور حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود علیہ السلام بھی فارسی النسل ہیں۔ سلمان فارسی کی نسل سے ہیں اور ہم ان کے روحانی فرزند ہیں ہم پر لازم ہے کہ اس خط کے نقوش کو جو تعلیمات و ارشادات حضرت محمد ﷺ کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہیں کو گہرے کرتے چلیں۔ جس حد تک حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات کو ہم دلوں میں اتاریں گے ان کے نقوش کو گہرا کریں گے۔ اسی قدر خدا تعالیٰ کا قرب بھی ملے گا اور فتوحات بھی ملیں گی۔ ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبات میں آئندہ بہت بڑی فتوحات، بشارات اور خوشخبریاں دے رہے ہیں۔ پس ان فتوحات کو قریب تر لانے اور دیکھنے کےلئے اور اس کے رسول کی اطاعت اور نظام جماعت کا لازم پکڑنا ہوتا اور اپنی نسلوں کو باور کرنا ہوگا کہ ہر قسم کی ترقی اطاعت رسول اور اس کے نمائندہ کی اطاعت سے نہ صرف وابستہ کر دی گئی ہے۔ بلکہ تمام عہدیداران کی اطاعت اور ان کا احترام جس حد تک بڑھے گا۔ خداتعالیٰ کی محبت بھی بڑھتی جائے گی۔

(ابو سعید)


پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020