• 11 جولائی, 2025

قرآن کریم کی روحانی اور مادی تاثیرات

تسلسل کے لئے دیکھئے 4مئی 2020

قسط 6

مادی تاثیرات آیات قرآنی

روحانی تاثیرات کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مادی تاثیرات بھی رکھی ہیں تا اس کی حقیقی روحانی تاثیرات پر دلیل ہوں اور اُن کے لئےجذب اور کشش کا موجب ہوں۔حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’خود اس راقم کے تجربہ میں بعض تاثیرات عجیبہ آیت قرآنی کی آچکی ہیں جن سے عجائبات قدرت حضرت باری جل شانہٗ معلوم ہوتے ہیں۔‘‘

(سرمۂ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 ص100)

اسی طرح ایک صحابی ٔ رسولؐ حضرت ابوسعید معلیٰؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے بلایا اور فرمایا کیا مَیں تمہیں قرآن کی سب سے عظیم سورت مسجد سے نکلنے سے پہلے نہ سکھاؤں پھر آپؐ نے میرا ہاتھ پکڑا اور جب ہم مسجد سے نکلنے لگے تو مَیں نے عظیم سورت بتانے کی بات یاد کروائی۔ آپ نے فرمایا کہ وہ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ہے۔ یہی السبع المثانی (باربار دُہرائی جانیوالی آیات) اور قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل الفاتحۃ الکتاب)

سورة فاتحہ کی تاثیرات

سورہ فاتحہ قرآن کریم کا خلاصہ ہے۔یہ ایک بہترین جامع وکامل دُعا اور روحانی لحاظ سے اعلیٰ روحانی تاثیرات تو رکھتی ہی ہے۔ اسے ہر بیماری سے شفاء اور دَم کرنیوالی سورت بھی بیان کیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن جابرؓ سے روایت ہے کہ سورہ فاتحہ میں ہر چیز کی شفا ہے سوائے موت کے۔

(شعب الایمان جلد2 ص449 ذکر فاتحۃ الکتاب)

حضرت ابوسعیدؓ خدری سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ صحابہؓ ایک سفر کے لئے روانہ ہوئے۔ دورانِ سفر اُنہوں نے عرب کے ایک قبیلہ کے پاس پڑاؤ کیا اور اُن سے (عرب دستور کے مطابق) مہمان نوازی کا تقاضا کیا۔ مگر اُنہوں نے میزبانی سے انکار کیا۔ دریں اثناء قبیلہ کے سردار کو کسی (زہریلی) چیز نے ڈس لیا۔ اہلِ قبیلہ کے علاج سے توکوئی فائدہ نہ ہوا۔تب ان میں سے کسی نے کہا کہ تم اس قافلہ والوں کے پاس جاؤ شاید اُن میں سے کسی کے پاس کچھ (علاج) ہو۔ چنانچہ وہ ان کے پاس آئے اور کہا کہ اے قافلے والو! ہمارے سردار کوکسی چیز نے ڈس لیا ہےہمارے علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کیا تم میں سے کسی کے پاس کوئی چیز ہے تو ایک صحابی نے کہا۔ہاں خدا کی قسم میں دَم کرتا ہوں۔ مگر ہم نے تم سے ضیافت طلب کی اور تم نے انکار کیا۔بخدا مَیں ہرگز تمہارے لئے دَم نہ کروں گا۔یہاں تک کہ تم ہمارےلئے کچھ انعام یا معاوضہ مقرر کرو۔ چنانچہ اُنہوں نے بکریوں کا ایک ریوڑ دینے کا وعدہ کیا۔ وہ صحابی اس سردارپر سورۂ فاتحہ پڑھ کر پھونکنے لگے۔ اس کے نتیجہ میں ایسے لگا جیسے اس شخص کا بندھن کھول دیا گیا ہو (یعنی وہ اچھا ہو گیا) اور اس طرح چلنے لگا جیسے اُسے کوئی تکلیف نہ تھی۔ اہلِ قبیلہ نے جو معاوضہ(یعنی بکریاں) اُن کے ساتھ طے کیا تھا وہ دےدیا۔ ایک صحابی نے کہا کہ اسے باہم تقسیم کردو۔لیکن جس نے دَم کیا تھا اُس نے کہا کہ ابھی ایسا نہ کرو یہاں تک کہ ہم نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر اس سارے واقعہ کا ذکر کرکے رہنمائی لیں کہ آپ ہمیں کیا ارشاد فرماتے ہیں۔ چنانچہ اُنہوں نے رسول کریم ﷺ کے پاس حاضر ہوکر اس کا ذکر کیا تو آپؐ نے (دَم کرنیوالےسے) فرمایا کہ تمہیں کیسے پتہ لگا کہ یہ (سورۂ فاتحہ) دَم کرنے والی ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا: تم نے ٹھیک کیا۔یہ بکریاں باہم تقسیم کرلو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی نکالو۔ پھر رسول کریم ﷺ ہنس پڑے۔

(بخاری کتاب الاجارۃ باب ما یعطى فی الرقیة على أحیاء العرب بفاتحة الكتاب)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’فاتحہ میں………وہ علاج موجود ہے کہ جو اس کے غیر میں ہرگز نہیں پایا گیا۔‘‘

(براہین احمدیہ۔روحانی خزائن جلد1 ص406)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ فرماتے ہیں۔
’’سورہ فاتحہ شفا ہے کہ اس میں تمام اُن وساوس کا ردّ ہے جو انسان کے دل میں دین کے بارہ میں پیدا ہوتے ہیں اور وہ رُقْیَة ہے کہ علاوہ دَم کے طور پر استعمال ہونے کے اس کی تلاوت شیطان اور اس کی ذریت کے حملوں سے انسان کو بچاتی ہے اور دل میں ایسی قوت پیدا کرتی ہے کہ شیطان کے حملے بےضرر ہو جاتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد1 ص4)

سورہ فاتحہ کی ظاہری تاثیروبرکت کا اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہوئےحضرت مولوی غلام رسول راجیکیؓ بیان فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کو مجھ پر ابتداء میں حسن ظن تھا۔ بلکہ قبولیت دُعا کے واقعات دیکھ کر اُن کی اہلیہ صاحبہ جو شیعہ مذہب رکھتی تھیں اُن کو بھی حسن ظن ہو گیا تھا اور اکثر دُعا کے لئے کہتی تھیں۔ ایک دفعہ اُن کا چھوٹا لڑکا بشیر حسین بعمر چھ سات سال سخت بیمار ہو گیا۔ ڈاکٹر صاحب خود بھی توجہ سے اُس کا علاج کرتے تھے اور دوسرے ماہر طبیبوں سے بھی اُس کے علاج کا مشورہ کرتے تھے۔ لیکن بچے کی بیماری دن بدن بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک دن اس کی حالت اس قدر نازک ہو گئی کہ ڈاکٹر صاحب اُس کی صحت سے بالکل مایوس ہو گئے اور یہ دیکھتے ہوئے کہ اُس کا وقت نزع آ چکا ہے گورکنوں کو قبر کھودنے کے لئے کہنے کے واسطے اور دوسرے انتظامات کیلئے باہر چلے گئے۔ اس نازک حالت میں ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ نے بڑے عجز و انکسار سے اور چشم اشکبار سے (روتے ہوئے) مجھے بچہ کیلئے دُعا کے واسطے کہا۔ مَیں اُن کے الحاح اور عاجزی سے بہت متاثر ہوا اور مَیں نے یہ پوچھا کہ رونے کی آواز کہاں سے آ رہی ہے۔ اُنہوں نے بتایا کہ بعض رشتہ دار عورتیں اندر بشیر کی مایوس کن حالت کے پیش نظر اظہار غم و الم کر رہی ہیں۔ مَیں نے کہا کہ مَیں دُعا کرتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ آپ سب بشیر کی چارپائی کے پاس سے دوسرے کمرے میں چلی جائیں اور بجائے رونے کے اللہ تعالیٰ کے حضور دُعا میں لگ جائیں اور بشیر حسین کی چارپائی کے پاس جائے نماز بچھا دی جائے تا مَیں دُعا میں اور نماز میں مشغول ہو جاؤں تو بشیر حسین کی والدہ نے اس کی تعمیل کی۔ کہتے ہیں کہ مجھے اُس وقت سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کا بیان فرمودہ قبولیت ِدُعا کا گُر یاد آ گیا اور کمرے سے باہر نکل کر کیلیانوالی سڑک کے کنارے جا کھڑا ہوا۔ اور ضعیف اور بوڑھی غریب عورت کو جو وہاں سے گزر رہی تھی آواز دے کر بُلایا۔ اس کی جھولی میں روپیہ ڈالتے ہوئے اُسے صدقہ کو قبول کرنے اور مریض کیلئے جن کے واسطے صدقہ دیا تھا دُعا کرنے کیلئے درخواست کی۔ اس کے بعد مَیں فوراً مریض کے کمرے میں واپس آ کرنماز و دُعا میں مشغول ہو گیا اور سورہ فاتحہ کے لفظ لفظ کو خداتعالیٰ کی خاص توفیق سے حصولِ شفا کے لئے رِقّت اور تضرّع سے پڑھا۔ اس وقت میری آنکھیں اَشکبار اور دِل رقّت اور جوش سے بھرا ہوا تھا اور ساتھ ساتھ ہی مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنی شانِ کریمانہ کا جلوہ ضرور دکھائے گا۔ کہتے ہیں کہ پہلی رکعت میں مَیں نے سورہ یٰسین پڑھی اور رکوع و سجود میں بھی دُعا کرتا رہا۔ جب مَیں ابھی سجدے میں ہی تھا کہ بشیر حسین چار پائی پر اُٹھ کر بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ میرے شاہ جی کہاں ہیں؟ میری ماں کہاں ہے؟ مَیں نے اُس کی آواز سے سمجھ لیا کہ دُعا کا تیر نشانے پر لگ چکا ہے اور باقی نماز اختصار سے پڑھ کر سلام پھیرا۔ مَیں نے بشیر حسین سے پوچھا کہ کیا بات ہے۔ اُس نے کہا مَیں نے پانی پینا ہے۔ اتنے میں بشیر کی والدہ آئیں اور مجھے باہر سے ہی کہنے لگیں کہ مولوی صاحب آپ کس سے باتیں کر رہے تھے۔ مَیں نے کہا کہ اندر آئیں اور جب وہ پرد ہ کرکے کمرے میں آئیں تو کیا دیکھتی ہیں کہ عزیز بشیر چارپائی پر بیٹھا ہے اور پانی مانگ رہا ہے۔ تب انہوں نے اللہ کا بہت شکر کیا اور بچے کو پانی پلایا۔

(حیات قدسی جلد پنجم صفحہ31،32)

یہاں ضمناً یہ وضاحت مناسب ہے کہ بے شک قرآن کریم کے ایک ایک حرف اور نکتہ میں روحانی و مادی تاثیرات ہیں لیکن ان کے لئے جن کا اس پاک کلام پر ایمان کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہو۔آیاتِ قرآنی کے ذریعہ دَم یا دُعا کو تعویذ گنڈے کے لئےجواز بنانا ہرگز جائز نہیں۔بےشک تعویذ کے طور پر کوئی قرآنی یامسنون دُعا یا دُعائیہ جملہ لکھ کر دینا جائز ہے لیکن ایک تو اس کو رواج دینا مستحسن نہیں دوسرے اصل چیز انسان کا اپنے اعمال میں پاک تبدیلی پیدا کرنا، صدقہ دینا، دُعا اور استغفار کرنا ہے ۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابع ؒ نےاس بارہ میں یہ وضاحت فرمائی ہےکہ
’’دُعا کو چھوڑ کر تعویذ گنڈوں کی طرف جانا حد سے زیادہ جہالت ہے۔یہ تاریک زمانے کی پیداوار باتیں ہیں اور ایسی قوموں کو دُعا سے ہٹا کر جادو منتر وغیرہ کی طرف منتقل کر دیتی ہیں۔یہ کہہ دینا کہ رسول اکرم ﷺ نے دَم کی اجازت دی، یہ ایک بالکل الگ بات ہے۔ تعویذ گنڈے کا معاشرہ پیدا کرنا بالکل الگ بات ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں ایسا ہر گزیہ کوئی معاشرہ نہیں تھا۔ دُعا ہی کا معاشرہ تھا اور جس دَم کی بات کرتے ہیں اس میں سورة فاتحہ بطور دُعا استعمال ہوتی ہے اور وہ اب بھی اسی طرح جائز ہے فاتحہ کو دُعا کے طور پر آپ چاہے پانی پر پڑھ کے دَم کریں اور نفسیاتی لحاظ سے اس کو برکت کے لئے دے دیں۔ اس حد تک تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ لیکن تعویذ گنڈے …………تو بہت خطرناک بیہودہ رسم ہے۔ جو روشنی سے اندھیروں کی طرف لے جانے والی ہےاور حضرت مسیح موعود ؑکے آنے کےمقاصد کے بالکل برعکس تحریک ہے۔بالکل برعکس جماعت کا رُخ موڑنے والی بات ہے۔‘‘

(الفضل 4 دسمبر 2002ء)

سورۃ البقرہ کی ظاہری تاثیرات

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا اپنے گھروں کو قبرستان مت بناؤ اوروہ گھر جس میں سورۃ البقرہ پڑھی جاتی ہے اس میں شیطان داخل نہیں ہوتا۔

(ترمذی کتاب افضائل القرآن فضل سورہ البقرہ)

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات جو قرآن بھی ہیں اور وہ دونوں تسکین اور شفا دیتی ہیں اور وہ دونوں اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری ہیں۔

(الاتقان فی علوم القرآن جلد2ص436)

آیۃ الکرسی، سورۂ یونس کی آیت اور معوذتین کی تاثیرات

حضرت فاطمۃؓ الزہراء سے روایت ہے کہ جب اُن کے ہاں ولادت کا وقت قریب آیا تو رسول کریم ﷺ نے اپنی ازواج حضرت امّ سلمہؓ اور حضرت زینبؓ بنت جحش کو بُلوا یا اور فرمایا کہ وہ حضرت فاطمہؓ کے پاس جائیں اور آیۃ الکرسی اور اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ (یونس:4) یقیناً تیرا ربّ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا اور معوّذتین (یعنی سورۃ الفلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر اُنہیں دَم کریں۔

(اسنی المطالب جلد7 ص36۔ذکر وتذکیر جلد1 ص55)

سورۃ البقرہ کی آیت اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْن کی تاثیر

اس آیت میں اُن صبر کرنے والوں کا اجر بیان ہوا ہے جو مصیبت نازل ہونے پر اپنا معاملہ اِنَّا لِلّٰهِ کہہ کر خدا کے سپرد کرتے اور راضی برضا ہوجاتے ہیں۔

حضرت عمرؓ نے اس آیت کے بعد اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ (البقرة 158) میں بیان شدہ اجرِ الٰہی پرکیا خوب تبصرہ فرمایاکہ کیا ہی اچھےسواری کے دونوں طرف کے تھیلےاور بیچ کابوجھ ہے۔ یعنی سورۃ البقرہ کی اس آیت میں جو خوشخبری سنائی ہےکہ جولوگ مصیبت آنے پر اِنَّالِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْن پڑھتے ہیں کہ ہم اللہ کے ہی ہیں اور اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ ایسے لوگوں پر اُن کے ربّ کی طرف سے بطور انعام ایک توصلوات ہیں دوسرے رحمتیں تیسرے یہی لوگ ہدایت پانیوالے ہیں۔

(بخاری کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمۃ)

حضرت عمرؓ صبر کے عوض ان تین انعامات کی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہوئے اس کی مثال ایسے لدےہوئے اُونٹ سےدیتے تھےجس کے دائیں پہلو میں صلوات یعنی رحمتیں اور بائیں طرف مزیدرحمتیں اوربرکتیں اوردرمیان میں ہدایت کا اجر لدا ہوا ہے۔

حضرت سعید بن المسیب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت عمرؓ کی جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا۔ اس پر آپؓ نے اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُوْن (البقرہ:157) پڑھا کہ ہم اللہ کے ہی ہیں اور اُسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔

لوگوں نے پوچھا اے امیر المؤمنین !کیا آپؓ اپنی جوتی کا تسمہ(گم ہونے) پر بھی اِنَّا لِلّٰهِ پڑھتے ہیں؟ آپؓ نے فرمایا: (بات یہ ہے کہ) مومن کو جب بھی کوئی ناپسندیدہ بات درپیش آتی ہے تو وہ مصیبت ہی ہوتی ہے (اور ایسے موقع پر راضی برضا ہوکر اِنَّا لِلّٰهِ کہنا چاہئے)۔

(كنز العمال جلد3 ص751)

یہ بھی تجربہ میں آیا ہے کہ گمشدہ چیز پر صدقِ دل سے یہ آیت پڑھنے کی برکت سے وہ چیز یا اس کا نعم البدل عطا ہوتا ہے۔

آیۃ الکرسی کی برکات

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتےہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سورۃ البقرہ میں ایسی آیت ہے جو قرآن کی سردار ہے وہ جس گھرمیں بھی پڑھی جائےاس سےشیطان نکل بھاگتا ہے وہ آیۃ الکرسی ہے۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل سورۃ البقرۃ)

حضرت ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے میرے ذمہ رمضان میں اموالِ زکوٰۃ (غلّہ) کی حفاظت کا کام سونپا۔ کوئی شخص آیا اور اس غلّہ میں سے نکالنے لگا۔ میں نے اُسے پکڑ لیا اور اُسے کہا کہ مَیں تجھے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں لے کر جاتا ہوں ۔اس پر اُس نے کہا مَیں تجھے ایک بات بتاتا ہوں جب تم بستر پہ جاؤ تو آیۃ الکرسی پڑھ لیا کرو۔ اللہ تمہاری ہمیشہ حفاطت فرمائے گا اور شیطان صبح تک تمہارے پاس بھی نہ پھٹکے گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی بات سنی تو فرمایا: اس نے یہ بات سچ کہی لیکن وہ جھوٹا شیطان تھا۔

(بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل البقرۃ)

آیت الکرسی وسورۃ البقرہ کی آخری دو آیات کی تاثیر

حضرت ابو قتادہؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ جس نےمصیبت کے وقت آیۃ الکرسی اورسورۃ البقرہ کی آخری دو آیات پڑھیں اللہ تعالیٰ اُسے اس مصیبت سے بچا لے گا۔

(عمل الیوم واللیلۃ جلد2ص154)

سورۂ فاتحہ، البقرہ، آل عمران اور بعض دیگر آیات کی ظاہری برکت

حضرت عبدالرحمان بن ابولیلیؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ مَیں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک بدوآیا اور عرض کی کہ میرا بھائی بیمار ہے۔ آپؐ نے فرمایا: تیرے بھائی کوکیا بیماری ہے؟اُس نے کہا، اسے آسیب(یعنی بدروح کااثر) ہے۔آپؐ نے فرمایا: اسے میرے پاس لےکر آؤ۔ وہ جاکر اُسے لے آیا توآپؐ نے اُسے اپنے سامنے بٹھا لیا۔ مَیں نے آپؐ کو درج ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کرکےاس شخص پر دَم کرتے ہوئے سنا۔جس کے بعد وہ دیہاتی تندرست ہو کر ایسے کھڑا ہوا کہ تکلیف کا کچھ اثر بھی باقی نہ تھا۔

(ابن ماجہ کتاب الطب باب الفزع والأرق ومایتعوذمنه)

اس دَم میں قرآن کریم کے دس مقامات تھے جن میں فاتحہ، بقرہ کی ابتدائی آیات اور آیت163، آیۃ الکرسی، سورۂ بقرہ کی آخری تین آیات، آل عمران کی آیت:19، الاعراف کی آیت:55، المؤمنون کی آیت:118، الجن کی آیت: 4، الصافات کی ابتدائی دس آیات، سورہ الحشر کی آخری تین آیات اور آخری تین سورتیں شامل ہیں۔ جن کو بالترتیب مع ترجمہ درج کیا جارہا ہے۔ (یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ ان سب آیات کا مضمون توحید باری، صفات الہٰیہ، مومن کی صفات کے علاوہ قرآن شریف کی جامع دُعاؤں پر مشتمل ہے جو بلاشبہ ایک کامل دَم اوردُعا ہے۔) اور وہ بالترتیب یہ ہیں۔

سورة فاتحہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ مَالِكِ یوْمِ الدِّیْنِ إِیَّاكَ نَعْبُدُ وَإِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَصِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ غَیرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ

اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنیوالا،بن مانگے دینے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔تمام حمد اللہ ہی کیلئے ہے جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔بے انتہا رحم کرنیوالا،بن مانگے دینے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔جزاسزا کےدن کا مالک ہے۔تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے ہم مدد چاہتے ہیں۔ہمیں سیدھے راستہ پرچلا۔اُن لوگوں کے راستہ پر جن پر تو نے انعام کیا۔جن پرغضب نہیں کیا گیا اور جوگمراہ نہیں ہوئے۔

سورۂ بقرہ کی ابتدائی پانچ آیات

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیمِ المٓ  ذَالِكَ الْكِتَابُ لَا رَیْبَ فِیْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِیْنَالَّذِیْنَ یؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَیُقِیْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنْفِقُونَ وَالَّذِیْنَ یؤْمِنُوْنَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَیْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَ۔ (البقرہ:1تا5) اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنیوالا، بن مانگے دینے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے۔ مَیں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں۔ یہ ’’وہ‘‘ کتاب ہے۔اس میں کوئی شک نہیں۔ ہدایت دینے والی ہے متّقیوں کو۔ جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم اُنہیں رزق دیتے ہیں اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔

سورۂ بقرہ کے درمیان سے دو آیات وَ اِلٰهُکُمْ اِلٰهٌ وَاحِدٌ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِیْم (البقر ہ: 163) یعنی اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔ کوئی معبود نہیں مگر وہی رحمان(اور) رحیم

اور آیۃ الکرسی اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ۔

(البقرہ : 256)

اللہ!اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور) قائم بالذات ہے۔ اُسے نہ تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔اُسی کیلئے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔کون ہے جواُس کےحضور شفاعت کرے مگر اُس کے اذن کےساتھ۔وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہےاور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کرسکتے مگر جتنا وہ چاہے۔اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور دونوں کی حفاظت اُسے تھکاتی نہیں اور وہ بہت بلند شان(اور)بڑی عظمت والا ہے۔

سورہ بقرہ کی آخری تین آیات

لِلّٰهِ مَا فِی السَّمَاواتِ وَمَا فِی الْأَرْضِ وَاِن تُبْدُواْ مَا فِيۤ اَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُمْ بِهِ اللّٰهُ فَيَغْفِرُ لِمَن يَّشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَّشَآءُ وَاللّٰهُ عَلیٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌآمَنَ الرَّسُولُ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُوْنَ كُلٌّ آمَنَ بِاللّٰهِ وَمَلَائِكَتِهٖ وَكُتُبِهٖ وَرُسُلِهٖ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِنْ رُسُلِهٖ وَقَالُوْا سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَاِلَیْكَ الْمَصِیْرُلَا یُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَیْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَیْنَا اِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلٰی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهٖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا اَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلٰی الْقَوْمِ الْكَافِرِیْنَ

(البقرہ:285تا287)

اللہ ہی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہےاور خواہ تم اُسے ظاہر کروجو تمہارے دلوں میں ہے یااُسے چھپاؤ،اللہ اس کے بارہ میں تمہارا محاسبہ کرے گا۔پس جسے وہ چاہے گا بخش دے گا اور جسے چاہے گا عذاب دے گااور اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔رسول اُس پر ایمان لے آیا جو اُس کے ربّ کی طرف سے اُس کی طرف اُتارا گیا اور مومن بھی۔(اُن میں سے) ہر ایک ایمان لے آیا اللہ پر اور اُس کے فرشتوں پر اور اُس کی کتابوں پر اور اُس کے رسولوں پر(یہ کہتے ہوئے کہ) ہم اُس کے رسولوں میں سے کسی کے درمیان تفریق نہیں کریں گےاور اُنہوں نے کہا کہ ہم نے سنا اور ہم نے اطاعت کی۔تیری بخشش کے طلبگار ہیں۔اے ہمارے ربّ!اور تیری طرف ہی لوٹ کرجانا ہے۔

اللہ کسی جان پر اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا۔اُس کے لئے ہے جو اُس نے کمایا اور اُس کا وبال بھی اُسی پر ہے جو اُس نے(بدی کا)اکتساب کیا۔اے ہمارے ربّ!ہمارا مؤاخذہ نہ کر اگر ہم بھول جائیں یا ہم سے کوئی خطا ہو جائےاور اے ہمارے ربّ! ہم پرایسا بوجھ نہ ڈال جیسا ہم سے پہلے لوگوں پر(اُن کے گناہوں کے نتیجہ میں) تُو نے ڈالااور اے ہمارے ربّ! ہم پر کوئی ایسا بوجھ نہ ڈال جو ہماری طاقت سے بڑھ کر ہواور ہم سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔تُو ہی ہمارا والی ہے۔پس ہمیں کافر قوم کے مقابل پر نصرت عطا کر۔

آل عمران کی آیت شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۙ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُوا الۡعِلۡمِ قَآئِمًۢا بِالۡقِسۡطِ ؕ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ ( آل عمران:19) یعنی اللہ انصاف پر قائم رہتے ہوئے شہادت دیتا ہے کہ اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور اہلِ علم بھی (یہی شہادت دیتے ہیں)۔ کوئی معبود نہیں مگر وہی کامل غلبہ والا (اور)حکمت والا۔

سورۂ اعراف کی آیت اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ ۟ یُغۡشِی الَّیۡلَ النَّہَارَ یَطۡلُبُہٗ حَثِیۡثًا ۙ وَّ الشَّمۡسَ وَ الۡقَمَرَ وَ النُّجُوۡمَ مُسَخَّرٰتٍۭ بِاَمۡرِہٖ ؕ اَلَا لَہُ الۡخَلۡقُ وَ الۡاَمۡرُ ؕ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الۡعٰلَمِیۡنَ (الاعراف: 55)یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیاپھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔وہ رات سے دن کو ڈھانپ دیتا ہے جبکہ وہ اُسے جلد طلب کررہا ہوتا ہےاور سورج اور چاند اور ستارے (پیدا کئے) جو اُس کے حکم سے مسخر کئے گئے ہیں ۔خبردار! پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے اور حکمت بھی۔ بس ایک وہی اللہ برکت والا ثابت ہوا جو تمام جہانوں کا ربّ ہے۔

سورۂ مومنون کی یہ آیت وَ مَنۡ یَّدۡعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ ۙ لَا بُرۡہَانَ لَہٗ بِہٖ ۙ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنۡدَ رَبِّہٖ ؕ اِنَّہٗ لَا یُفۡلِحُ الۡکٰفِرُوۡنَ (المؤمنون : 118) اور جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تو یقیناً اس کا حساب اس کے ربّ کے پاس ہے۔یقینا! کافر کامیاب نہیں ہوتے۔

سورہ جن کی آیت وَّ اَنَّہٗ تَعٰلٰی جَدُّ رَبِّنَا مَا اتَّخَذَ صَاحِبَۃً وَّ لَا وَلَدًا (الجن :4) اور (کہا) کہ یقیناً ہمارے ربّ کی شان بلند ہے۔ اُس نے نہ کوئی بیوی اپنائی اور نہ کوئی لڑکا۔

سورہ صافات کی ابتدائی دس آیات

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ وَ الصّٰٓفّٰتِ صَفًّا فَالزّٰجِرٰتِ زَجۡرًا فَالتّٰلِیٰتِ ذِکۡرًا اِنَّ اِلٰـہَکُمۡ لَوَاحِدٌ رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا بَیۡنَہُمَا وَ رَبُّ الۡمَشَارِقِاِنَّا زَیَّنَّا السَّمَآءَالدُّنۡیَابِزِیۡنَۃِۣ الۡکَوَاکِبوَحِفۡظًامِّنۡ کُلِّ شَیۡطٰنٍ مَّارِدٍ لَا یَسَّمَّعُوۡنَ اِلَی الۡمَلَاِ الۡاَعۡلٰی وَ یُقۡذَفُوۡنَ مِنۡ کُلِّ جَانِبٍ ٭ۖدُحُوۡرًا وَّ لَہُمۡ عَذَابٌ وَّاصِبٌ اِلَّا مَنۡ خَطِفَ الۡخَطۡفَۃَ فَاَتۡبَعَہٗ شِہَابٌ ثَاقِبٌ ۔

(الصافات:1تا10)

اللہ کے نام کے ساتھ جو بے انتہا رحم کرنےوالا،بن مانگے دینے والا (اور) باربار رحم کرنے والاہے۔قطار درقطار صف بندی کرنے والی(فوجوں)کی قسم ۔ پھر ان کی جو للکارتے ہوئے ڈپٹنے والیاں ہیں۔ پھر ذکر بلند کرنے والیوں کی۔ یقیناً تمہاراً معبود ایک ہی ہے۔آسمانوں کا بھی ربّ ہے اور زمین کا بھی اور اُس کا بھی جو ان دونوں کے درمیان ہے اور تمام مشرقوں کا رب ہے۔یقیناً ہم نے نزدیک کے آسمان کو ستاروں کے ذریعہ ایک زینت بخشی اور (یہ)حفاظت کے طور پر ہے ہر دھتکارے ہوئے شیطان سے۔ وہ ملاء اعلیٰ کی باتیں نہیں سن سکیں گے اور ہر طرف سے پتھراؤ کئے جائیں گے۔ اس حال میں کہ دھتکارے ہوئے ہیں اور ان کے لئے چمٹ جانے والا عذاب(مقدر) ہے۔ سوائے اُس کے جو کوئی ایک آدھ بات اُچک لے تو اُس کا بھی ایک روشن شُعلہ تعاقب کرے گا۔

سورۂ حشر کی آخری تین آیات

ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَ الشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ  ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ اَلۡمَلِکُ الۡقُدُّوۡسُ السَّلٰمُ الۡمُؤۡمِنُ الۡمُہَیۡمِنُ الۡعَزِیۡزُ الۡجَبَّارُ الۡمُتَکَبِّرُ ؕ سُبۡحٰنَ اللّٰہِ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ ہُوَ اللّٰہُ الۡخَالِقُ الۡبَارِئُ الۡمُصَوِّرُ لَہُ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی ؕ یُسَبِّحُ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡحَکِیۡمُ۔

(الحشر:23تا25)

وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔غیب کا جاننے والا ہےاورحاضر کا بھی۔وہی ہے جو بن مانگے دینے والا،بے انتہارحم کرنے والا(اور)باربار رحم کرنے والاہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔وہ بادشاہ ہے، پاک ہے ،سلام ہے، امن دینے والا ہے،نگہبان ہے،کامل غلبہ والاہے،ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور) کبریائی والا ہے۔ پاک ہے اللہ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔ وہی اللہ ہے جو پیدا کرنے والا۔پیدائش کا آغاز کرنے والا اور مصور ہے۔تمام خوبصورت نام اُسی کے ہیں۔اُسی کی تسبیح کررہا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ کامل غلبہ والا(اور)صاحبِ حکمت ہے۔

(باقی آئندہ)

قسط نمبر 1۔2

قسط نمبر 3۔4

قسط:5

(حافظ مظفر احمد)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020