• 2 مئی, 2024

قسط نمبر۔3 – موٹاپا، Obesity دورِحاضرکا ایک خطرناک چیلنج

موٹاپا سادہ لفظوں میں جسم کی ضرورت سے زائد غذا کھانے سے جسم کے حجم اور وزن کے خطر ناک حد تک بڑھ جانے کا نام ہے اور ایک چھوٹے انجن کی گاڑی کے ذریعے اس کی طاقت سے کئی گنا زیادہ وزن کھینچنے کی کوشش کرنے والی بات ہے۔مثلاً 4سلنڈرکی کار کے پیچھے ایک خاصے بڑے وزن سے لدے ہوئے ٹرک ٹریلر کونتھی( tow)کر دیا جائے۔ جس طرح استعدادِ کار سے زیادہ وزن کھینچنے سے گاڑی کے مختلف کل پرزوں کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے کی وجہ سے انجام قبل از وقت خرابی و بربادی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور ایسی گاڑی کا زیادہ وقت ورکشاپ پہ گزرتا ہے اسی طرح موٹاپے کے شکارا فراد ڈاکٹروں، حکیموں،میڈیکل سٹور کے نہ ختم ہونے والے چکروں میں پھنس کر رہ جاتے ہیں۔

موٹاپے کی ابتدا

ہمارےجسم کا ہر عضو بلکہ ہر چھوٹے سے چھوٹاحصّہ قدرت کی طرف سے حیرت انگیز صنّاعی اپنے اندرسمیٹے ہوئے ہے اور اپنے ذمہ کاموں کوکمال خوبصورتی سے سرانجام دے رہا ہے ۔ہماری طرف سے بے اعتدالی ہونے پہ بد اثرات سے بچانے والے حفاظتی نظام حرکت میں آجاتے ہیں اور ہمیں خبردار کرتے ہوئے واپس اعتدال کی طرف لوٹنے کا پیغام پہنچا تے ہیں اگر ہم مسلسل لاپرواہی برتیں تو نتیجہ تکلیف اور بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔انسانی نظامِ ہضم کھائی جانے والی ہر شے کو چھوٹے ذروں میں توڑ کر اس میں سے توانائی جذب کرکے فضلہ خارج کردیتا ہے، کمپیوٹر پہ دفتری کام کرنے والے درمیانی جسامت کے مرد کو روزانہ تقریباً 2500کیلوریز جبکہ گھریلو کام کرنے والی اوسط جسامت کی عورت کو تقریباً 2000 کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔بالفرض ایک ایسامرد جو خورا ک کھائے اُس میں اُسے3000کیلوریز حاصل ہو ں۔ ایسی صورت میں اضافی500 کیلوریز جسم عارضی طور پہ جمع(deposit) کر لے گا، اب اگر اگلے دن کم خوارک کھائی جائے جس سے2000 کیلوریز حاصل ہوں تو جسم اپنے اندر سے 500 کیلوریزنکالنے (by withdrawing) سے گزارہ کر لیتا ہے لیکن اگرایسا فرد ہر روز زیادہ کیلوریز والی غذا کھاتاجائے اور خرچ کم کرے تو جسم میں جمع شدہ اضافی کیلوریزوزن میں اضافہ کرنا شروع کر دیتی ہیں۔ایک ٹیکسی چلانے والے یا ٹرک چلانے والے درمیانی عمر کے مرد کو روزانہ دو ہزار کیلوریز سے زیادہ نہیں لینی چاہئیں اور کچھ نہ کچھ ورزش باقاعدہ لازماً کرنی چاہئے۔عام آدمی کو ایک پونڈ وزن کم کرنے کے لئے تقریباً 3500کیلوریز صرف کرنا پڑتی ہیں۔ایک گھنٹہ تیز چلنے سے اوسط جسامت کا آدمی تقریباً 700 کیلوریز صرف کرتا ہے۔اس طور روز مرہ کے عام معمولات سے اضافی تقریباً 5 گھنٹے بغیر کچھ مزید کھائے پیئے، تیز چلنا ایک پونڈ وزن کم کر سکتا ہے۔ لہٰذا وزن کم رکھنے میں کیلوریز خرچ کرنے سے کم کیلوریز لینا زیادہ اہم ہے۔

ایک جائزے کے مطابق شہری افراد کی اکثریت برگر، فرائڈ چکن، پیزا، بند کباب یا بریڈ کباب وغیرہ سے اکثر و بیشتر شوق فرماتی رہتی ہے، یہ اور اس طرح کے پکوان فاسٹ فوڈ کے زمرے میں آتے ہیں، فاسٹ فوڈ کا کمال ہے کہ یہ آسانی سے دستیاب ہونے کے علاوہ مزیدار ہے ۔اسے فوری کھایا جا سکتا ہے اور بوقتِ ضروت لفافے بیگ وغیرہ میں پیک کرلے جایا جا سکتا ہے۔ ان جملہ خوبیوں کی وجہ سے اِس کی لت بڑی آسانی سے لگ سکتی ہے۔ بالخصوص بچوں کو ۔ اِسی لئے ہرسال دُنیا میں اربوں ڈالر کا فاسٹ فوڈ فروخت ہوتا ہے کئی ترقی پذیر ممالک میں اسے ایک عیاشی اورفیشن کے طور پہ کھایا جاتا ہے۔سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ فاسٹ فوڈ اپنے اندر لاتعداد خرابیوں کو سمیٹے ہوتی ہیں۔ ایک عام برگر بظاہر زیادہ بڑا نہیں ہوتا اورعموماً پیٹ بھی ایک برگر سے پوری طرح نہیں بھرتا، اسی لئے اس کے بعد اور چیزوں کی طلب ہو جایا کرتی ہے لیکن عام روایتی گھریلو پکوان کے مقابلے میں برگر میں اتنی کیلوریز ہوتی ہیں جو انسانی جسم کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہوتی ہیں یہ زائد کیلوریز جسم میں چربی کی شکل اختیار کرتی ہیں۔ ورزش کرنے کی فرصت نہ ملے اور زندگی کی مصروفیت اور تن آسانی بار بار فاسٹ فوڈ کی طرف لے جاتی رہے تو موٹاپے کی طرف سفر شروع ہو جاتا ہے جو آگے چل کربھیانک انجام سے دوچار کرتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق کے مطابق مشرقی ایشیاکے سوا دُنیا کے بیشتر خطوں میں رہنے والے لوگ موٹاپے کی طرف مائل ہیں۔ ایک تحقیق میں امریکہ کے سوا دُنیا کے63 ممالک کے 1 لاکھ 68 ہزار 159 باشندوں کا جائزہ لیا گیا جن میں ایک چوتھائی موٹے پائے گئے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ موٹے لوگ امریکہ میں پائے جاتے ہیں تاہم اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ موٹاپے کا رجحان عالمی طور پہ موجود ہے۔ اس تحقیق کے مطابق کینیڈا، مشرقِ وسطیٰ اور جنوبی افریقہ میں بسنے والے افراد میں وزن بڑھنے کا رجحان سب سے زیادہ ہے او ر ہر تیسرے فرد یعنی 33 فیصد آبادی کا وزن معمول سے زیادہ ہے جبکہ مشرقی ایشیا میں یہ تناسب7 فیصدہے۔ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ موٹاپا پوری دُنیا میں پھیلی ایک وباءہے اور تحقیق میں شامل ممالک کی نصف سے لے کر دو تہائی آبادی زیادہ وزن یا موٹاپے کا شکار ہے۔

موٹاپے سے پیدا شُدہ مسائل اور بیماریاں

موٹاپے کے نتیجہ میں جسم کے مختلف نظاموں پہ ایسے بوجھ پڑتے ہیں جن کو اٹھانا اُن کی قدرتی ساخت اور استطاعتِ کار سے باہر ہوتا ہے اور نتیجہ مختلف خطرناک بیماریوں کی صورت میں نکلتا ہے۔ موٹاپے کے نقصانات لا متناہی ہیں جس طرح دیمک دھیرے دھیرے لکڑی کو چاٹ کو کھوکھلا کر دیتی ہے اِسی طرح موٹاپا بتدریج صحت کو تباہ وبربادکرتا چلا جاتاہے۔موٹاپا جسمانی نظام کی ساخت کو نقصان پہنچاتاہے ،یہ بڑی عمر میں fat cells کی جسامت میں اضافے کا باعث بنتا ہے اور جتنا عرصہ ان کا سائز بڑا رہے اُسی نسبت سے ان کا سائز کم ہونا مشکل ہوجاتا ہے جبکہ بچوں میں موٹاپا fat cells کی تعداد میں اضافہ کا موجب بنتاہے یہ عمل عمر کے ابتدائی مرحلہ میں زیادہ ہوتا ہے اور پھربلوغت کی ابتدا کی عمر میں مزیدتیز رفتاری سے ہوتا ہے اس عمل میں تیزی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچنے پر موٹی ہونے لگتی ہیں۔ fat cells کی بڑھی ہوئی تعداد کو کم کرنا نامُمکن ہے لہٰذا بچوں میں جس قدرموٹاپاہوچکاہو اُس سے نپٹنا انتہائی مشکل ہوتا ہے جس کے لئے تاحیات شدیدلڑائی لڑنا پڑتی ہے۔اکثر امیر مُلکوں کاایک سنگین مسئلہ زیادہ غذاکے سبب موٹاپااور اس کی وجہ سے لاتعداددرپیش مسائل ہیں خصوصاًبچوں کا موٹاپا خوفناک وباء بن چکاہے۔برطانوی ماہرین کی ایک سروے پہ مبنی رپورٹ کے مطابق زیادہ موٹاپے کے شکار افراد گاڑی چلاتے وقت سیٹ بیلٹ کا استعمال نہیں کر سکتے اور ان موٹاپے کے شکار افراد میں سے55 فیصدگاڑی چلاتے وقت حادثہ کی صورت میں دوسروں سے زیادہ خطرات سے لاحق ہو سکتے ہیں۔

بچپن کے موٹاپے کے دور رس اثرات

موٹاپے کے مضر اثرات ہر عمر کے فرد پہ بھیانک صورت میں پڑتے ہیں لیکن بچپن سے ہی لاحق ہوجانے والے موٹاپے کے مسائل انتہائی گھمبیر ہوتے ہیں اور ناقابلِ تلافی نقصان نہ صرف پڑھائی پہ پڑتا ہے بلکہ اخلاق و کردار پہ بھی منفی اثر پڑتا ہے، اکثر و بیشترموٹے بچے سست و کاہل ہوتے ہیں۔ معمولی جسمانی مشقت پہ سانس پھولنے اور تھکن کی شکایت کرتے اورنفسیاتی اعتبار سے احساس کمتری کا شکا رہو جاتے ہیں۔ ان کے ساتھی بچے ان کو اپنے ساتھ کھیلوں میں شامل کرنے سے کنی کتراتے ہیں۔ اُنہیں اپنے بے ڈھنگے اور بے ڈھب ہونے کا احساس گھن کی طرح کھانے لگتا ہے، لڑکوں کی نسبت لڑکیاں بوجہ زیادہ حساس ہونے کے ایسی صورتوں میں زیادہ متاثر ہوتی ہیں اوربعض کومستقل طور پہ احساسِ کمتری کا مرض لاحق ہو جایا کرتا ہے۔ پھر لڑکپن میں موٹاپا اور زیادہ غذاکھانے کی عادت لڑکوں اور لڑکیوں میں جنسی ہارمونز میں ہیجان پیدا کر کے اُنہیں جنسی بے راہ روی کی طرف مائل کرنے کا موجب بن سکتی ہے خصوصاً اگر فحش جنسی مواد پرنٹ اور الیکٹرانک صورت میں اُن کی دسترس میں ہو۔ بعض ایسے بچے تشدد اور جرائم میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں۔الغرض موٹاپے کی وجہ سے جو مسائل پیدا ہوتے ہیں اُن کی فہرست لمبی ہے چند ایک کامختصرجائزہ پیش ہے۔

قوت ِاستعداد میں کمی

وزن کی زیادتی انسان کے جملہ کام کرنے کی صلاحیت کو بُری طرح متاثر کرتی ہے اور ایسے انسان کی استعدادِ کار (stamina) کم ہوتے ہوتے تقریباً معدوم ہو جاتی ہے اور مفید اور تعمیری کام کرنے کی خواہشات اور ارادے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔یوں وہ بیشتر صورتوں میں اپنے آپ کو ایک ناکام انسان سمجھتے ہوئے مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں گر کر ڈیپریشن کا شکار ہو کر ایک ناکام زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔

حصولِ ملازمت میں مشکلات

ملازمت میں عام طور پہ ایک آسامی پہ سینکڑوں ہزاروں افراد نے درخواست دی ہوتی ہے۔موٹاپے کے شکار افراد عام صحت مند افراد کے مقابل عموماً رد کر دئیے جاتے ہیں کیونکہ موٹاپے کو ایک بیماری تصور کیا جاتا ہے ،ملازمت ملنے میں مشکلات معاشی بدحالی و پریشانی مل کر مزید موٹاپے کا باعث بنتے ہیں۔

شادی میں رکاوٹ

لوگوں کی اکثریت شادی کے لئے انتخاب کرتے وقت موٹاپے میں مبتلا افراد سے ہر ممکن بچنے کی کوشش کرتی ہے، بالخصوص موٹاپے میں مبتلا لڑکیوں کے رشتے ہونے میں سخت دقت پیش آتی ہے۔ موٹاپے کی وجہ سے عمر اصل عمر سے کافی زیادہ نظر آتی ہے اور اگر موٹاپے کے ساتھ عمر بھی کچھ زیادہ ہو جائے تو پھر رشتہ ہونے میں مشکلات زیادہ گھمبیر ہو جاتی ہیں۔

کھیلوں، ورزشی تفریحات سے محرومی

انسانی جسم کو توانا و طاقتور رہنے کےلئے ورزش کی لازمی ضرورت ہوتی ہے۔عام لوگ مختلف کھیلوں کے علاوہ موسم کی مناسبت سے تفریحی مقامات پہ ہائیکنگ، ٹریکنگ، سوئمنگ وغیرہ سے محظوظ ہوتے ہیں جبکہ موٹے افراد کے لئے کھیلوں اور دیگر ایسی تفریحات سے لطف اندوز ہونا ممکن نہیں رہتا۔

مختلف بیماریوں کا تختہ مشق

ڈاکٹروں سے اگر موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہونی والی امراض کا پوچھا جائے تو وہ ایک لمبی لسٹ بیان کرنا شروع کر دیتے ہیں گویا کہ موٹاپا نہیں بلکہ بیماریوں کا ایک بین الاقوامی اجتماع ہے۔ جس میں ہر قسم کی چھوٹی بڑی ہر جنس موجود ہے۔ چند اہم بیماریاں مندرجہ ذیل ہیں۔

دل کی بیماریاں

موٹاپے کی وجہ سے دل میں چربی اور کیلشیم بتدریج جمنا شروع ہوجاتے ہیں جو دل کے حملہ کا باعث بنتے ہیں۔اگر ذیا بیطس کی بھی شکایت ساتھ ہو تو رسک بڑھ جاتا ہے۔اس کے ساتھ بُری قسم کا کولیسٹرول (LdL; bad cholesterol) بھی بڑھ کر مزید خطرے کا باعث بنتا ہے۔

ہائی بلڈ پریشر

خون کی نالیوں میں خون کے بہاؤکے دوران جو پھیلنے اور سکڑنے کی قدرتی لچک پائی جاتی ہے وہ بوجہ کولیسٹرول جمنے کے بتدریج کم ہو تی جاتی ہے اور نتیجہ ہائی بلڈ پریشر کی صورت میں نکلتا ہے ۔ 140/90 mmHg یا اس سے زیادہ کو ہائی بلڈ پریشر کہا جاتا ہے جبکہ تقریباً 120/80 mmHg کو نارمل کہا جاتا ہے۔ہائی بلڈ پریشر کو خاموش قاتل بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی علامات عموماً ظاہر نہیں ہوتیں۔ سینے کادرد، سر چکرانے، طبیعت کی خرابی جو دل، دماغ اور گردوں کی تکالیف کے باعث ظاہر ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ ہائی بلڈ پریشر کے سبب ہے۔ یہ برین ہیمریج ، دل اور گردوں کے فیل ہونے، اندھا پن اور دیگر خطر ناک بیماریوں پہ منتج ہوسکتا ہے۔

فالج

موٹاپے کی صورت میں خون کی نالیوں میں رکاوٹیں بن جاتی ہیں، اگر دماغ میں ایسی رکاوٹیں بنیں تو انتہائی مہلک صورت کا فالج کا حملہ ہو سکتا ہے اور لمحوں میں انسان کی موت واقع ہو سکتی ہے، اس کے علاوہ تمام جسم پہ بائیں طرف، دائیں طرف یا زبان پہ فالج کا حملہ ہو سکتا ہے۔

ذیابیطس، اندھاپن

موٹے افراد میں دوسری قسم کا ذیا بیطس عموماً حملہ آور ہو جایا کرتا ہے، اس کے علاوہ لاعلاج قسم کا اندھا پن بھی ہو سکتا ہے۔

کینسر

موٹاپے کی صورت میں مختلف قسم کے کینسرخصوصاًپتہ اور بڑی آنت کا کینسر خاص طور پہ قابلِ ذکر ہیں، عورتوں میں رِحم اور چھاتیوں کا کینسراور مردوں میں پروسٹیٹ کینسرعام ہیں۔14ہزار افراد پہ تحقیق سے نتیجہ نکلا کہ موٹے افراد میں پروسٹیٹ کینسرلاحق ہونے کے باوجود ابتدائی مرحلہ پہ تشخیص نہ ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ پروسٹیٹ کینسر مردوں میں عام پایا جاتا ہے جو مثانے کی تھیلی کے قریب پروسٹیٹ غدود کو متاثر کرتا ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر کے بعد مردوں میں اموات کی یہ دوسری بڑی وجہ ہے۔

دمہ اور سانس کی تکالیف

موٹاپے کے شکار لوگوں کو اکثر دمہ اور سانس کی تکالیف لاحق ہو جاتی ہیں۔ایک تحقیقی مطالعے میں 3095 مریضوں کا جائزہ لیا گیاجن میں ایک تہائی کا وزن معمول کے مطابق تھا، ایک تہائی کا وزن معمول سے زیادہ تھاا ور ایک تہائی موٹاپے میں مبتلا تھے۔ اس تحقیق سے پتہ چلا کہ موٹاپے میں مبتلا مریضوں میں سانس لینے کی قوت خطرناک حد تک کم تھی اور 86 فیصدموٹے مریضوں نے بیماری سے زیادہ تکالیف کے بارے میں بتایا۔

جوڑوں کا درد

موٹاپے کی وجہ سے بوجہ جسم میں کیمیائی تبدیلیوں اور وزن بڑھ جانے کے جوڑوں کا درد بد ترین شکل میں پیدا ہو سکتاہے جس کا علاج انتہائی مشکل ہوتا ہے۔

بانجھ پن اور بے اولادی

عورتوں میں موٹاپے کی وجہ سے ماہواری کی بے قاعدگی اور دیگر متعلقہ عوارض کے نتیجہ میں بے اولادی کا عارضہ لاحق ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔اس کے علاوہ عورتوں اور مردوں میں موٹاپا جنسی کمزوری کا باعث بھی بنتا ہے۔

نیندمیں خلل

موٹاپے کی وجہ سے نیند کی کوالٹی بُری طرح متاثر ہوتی ہے۔ بار بار آنکھ کھلنا (sleepapnea) ایک تکلیف دہ بیماری ہے جو موٹاپے کی وجہ سے لاحق ہوجاتی ہے۔ برطانیہ کے ایک میڈیکل سنٹر میں زیرِ علاج دو سو مریضوں سے اُن کے سونے، نیند کی عادات اور نیند کادورانیہ، طرزِ زندگی، لاحق امراض، دردوں کی شدت اور دیگر معلومات حاصل کی گئیں۔ تحقیق سے پتہ چلا کہ کم نیند لینے والے موٹاپے میں مبتلا ہو جاتے ہیں جبکہ معمول کی پوری نیند لینے والے سمارٹ رہتے ہیں۔موٹے افراد کی گردن میں سانس کی نالی میں چربی زیادہ ہونے کی وجہ سے اُنکی نیند میں بار بار خلل آتا ہے اور گہری نیند میسر نہ آنے کے سبب وہ تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں، دن میں بھی اُنہیں بار بار نیند آتی ہے حتیٰ کہ گاڑی چلاتے ہوئے بھی اُنہیں نیند کا غلبہ طاری ہو سکتا ہے اور اپنی اور دوسروں کی زندگی کے لئے مہلک خطرہ بن سکتے ہیں۔

دیگرعوارض

موٹاپے کی وجہ سے پتہ کا سائز بڑھ جاتا ہے جو دیگر پچیدگیوں کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ پتے ، مثانے اور گردوں کی پتھری بھی اس وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے۔الغرض موٹاپے کے وجہ سے انسان قسم قسم کی بیماریوں میں جکڑا جاتا ہے۔ زندگی کا لطف ختم ہوجاتا ہے اور زندگی کی بہاریں گذارنے کی بجائے دن کاٹنے والی کیفیت بن جاتی ہے اور بسیارخوری کے ذریعہ سے جسم پہ ڈھائے جانے والے مظالم کا سلسلہ جاری رہے تو اس کے انتہائی خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ موٹاپے کی پُر خطر وادی میں داخل ہونے والے کبھی بھی سکھ نہیں پاتے اور ایک خطرناک دلدل میں پھنس کر رہ جاتے ہیں جہاں داخلہ تو ممکن ہوتا ہے مگر وہاں سے نکلنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، ایسے کئی لوگ بڑے جوش و جذبہ سے مختلف دوائیاں یا ڈائیٹنگ اور ورزش شروع کرتے ہیں مگر اکثر صورتوں میں اپنی پہلی والی صحت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور مزید موٹاپے کی گرفت میں دھنستے چلے جاتے ہیں لہٰذا بہترین حکمتِ عملی موٹاپے میں مبتلا ہونے سے بچنا ہے۔
موٹاپے کے علاج کے بارہ میں ہم ان شاء اللہ تعالیٰ اس مضمون کی اگلی قسط میں اظہارِ خیال کریں گے۔

(ڈاکٹر محمد وقار ظفر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020