• 17 جون, 2025

رمضانُ المبارک کے متعلق احادیثِ مبارکہ کی تشریح بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہُ اللہ تعالیٰ

تسلسل کےلئے دیکھئے 13مئی 2020

قسط نمبر2

عبادات جنت کے بالا خانے تک لےکر جاسکتی ہیں تو رمضان المبارک میں

“حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :یقینا جنت میں بالا خانے ہوں گے جن کے اندرونے باہر سے اور خارجی حصے اندرسے نظرآتے ہوں گے۔ اس پر ایک اعرابی نے کھڑے ہو کر سوال کیاکہ حضور ؐ یہ کن کے لئے ہوں گے۔ فرمایا یہ ان کے لئے ہوں گے جو خوش گفتار ہوں گے، ضرورتمندوں کو کھانا کھلانے والے ہوں گے، روزے کے پابند اور راتوں کو جب لوگ سوتے ہوں تو وہ نمازیں ادا کریں ’’

(سنن ترمذی کتاب صفۃ الجنۃ)

توان احادیث سے روزے کی اہمیت مزید واضح ہوتی ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ صر ف بھوکا پیاسا نہیں رہنا بلکہ اس کے ساتھ تمام برائیوں کو بھی چھوڑنا ہے، نیکیوں کو اختیار کرناہے، غریبوں کا خیال رکھناہے، ان کی ضروریات کو پورا کرناہے، نمازوں کی ادائیگی بھی کرنی ہے، فرض سے بڑھ کر نوافل پڑھنے کی طرف بھی توجہ کرنی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ روزے دار بھی ہو، تمام جائز چیزوں، خوراک وغیرہ کو ایک معینہ مدت کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاطر چھوڑنے والے ہو، تمام شرائع پورے کرنے والے ہو تو یہ تمہارے جو فتنے ہیں جن فتنوں میں تم پڑے ہوئے ہو اولاد کی طرف سے، کاروباری ہیں، ہمسایوں کے ہیں، لڑائی جھگڑے ہیں تو ان نیکیوں کی وجہ سے جو تم انجام دے رہے ہوگے ان سے تم بچ سکتے ہو اور یہ نیکیاں ہیں جو ان فتنوں کا کفارہ ہو جائیں گی”

(خطبہ جمعہ 31 اکتوبر 2003ء)

اللہ تعالیٰ ہر روز ہزاروں لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات دیتاہے۔تو رمضان المبارک میں

“حضرت ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب رمضان کے مہینے کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی طرف دیکھتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کی طرف دیکھتا ہے تو پھر اسے کبھی بھی عذاب نہیں دیتا۔ اور اللہ تعالیٰ ہر روز ہزاروں لاکھوں افراد کو جہنم سے نجات دیتا ہے۔ پس جب رمضان کی 29ویں رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ رمضان کی گزشتہ 28راتوں کے برابرلوگوں کو بخش دیتا ہے۔

(الترغیب والترھیب۔ کتاب الصوم۔ الترغیب فی صیام رمضان)

یہاں اس حدیث میں ہے وَاِذَا نَظَرَاللّٰہُ اِلَی عَبْدٍ لَمْ یُعَذِّبْہُ اَبَدًا۔ تو یہاں عَبْد کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ یعنی جو کامل فرمانبردار ہو، اس کی طرف جھکنے والا ہو، اس کی عبادت کرنے والا ہو۔ فرمایا کہ جب میرے ایسے بندے ہوں گے، جب ایک دفعہ میں ان کو اپنی پیار کی چادر میں لپیٹ لوں گا تو پھر انہیں کوئی دشمن نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اور اللہ تعالیٰ بھی انہیں جنتوں کا وارث ٹھہرائے گا۔۔۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ ؐ فرما رہے تھے رمضان آ گیاہے اور اس میں جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے مقفل کر دئیے جاتے ہیں۔ اور شیاطین کو اس میں زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ ہلاکت ہو اس شخص کے لئے جس نے رمضان کو پایا اور اس سے بخشا نہ گیا۔ اور وہ رمضان میں نہیں بخشا گیا توپھر کب بخشا جائے گا۔

(الترغیب والترھیب)

تواس سے پہلی حدیث کی بھی مزید وضاحت ہو گئی کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر ایسے سامان پیدا کر دئیے ہیں جن سے ایک انسان اللہ تعالیٰ کا حقیقی عبد بھی بن سکے پھر بھی اگر وہ عبد نہیں بنتا، رمضان سے فیض نہیں اٹھاتا، اس کی عبادت کرنے والا، اس کے احکامات پر عمل کرنے والا، نیکیوں کو پھیلانے والا نہیں بنتا، تو فرمایا کہ پھر اس پر صرف افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ اللہ کے رسول نے فرمایا کہ اس پر ہلاکت ہے کہ ان تمام سامانوں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باوجود بھی اپنے آپ کو نہ بخشوا سکا”

(خطبہ جمعہ 15 اکتوبر 2004ء)

اعتکاف میں بیٹھناہے۔ تو رمضان المبارک میں

“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ ہر رمضان میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے، ایک رمضان میں نماز فجر کی ادائیگی کے بعد آپ اپنے خیمہ میں داخل ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ نے اعتکاف بیٹھنے کی اجازت مانگی تو آپؐ نے ان کو اجازت دے دی۔ انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا حضرت حفصہؓ نے حضرت عائشہ ؓ کے اعتکاف کرنے کا سنا تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا۔ حضرت ز ینب ؓ نے یہ خبر سنی تو انہوں نے بھی اعتکاف کے لئے خیمہ لگا لیا۔ رسول اللہﷺ نے جب اگلی صبح دیکھا تو چار خیمے لگے ہوئے تھے۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ اس پر آپؐ کو امہات المومنین کا حال بتایا گیا(کہ ہر ایک نے ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی خیمہ لگا لیا ہے، اس لحاظ سے کہ آنحضرتﷺ کا قرب حاصل ہو جائے گا) اس پر آنحضورﷺ نے فرمایا کہ ان کو ایسا کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے۔ کیا نیکی نے؟ ان خیموں کو اٹھا لو مَیں ان کو نہ دیکھوں۔ چنانچہ وہ خیمے اکھاڑ دئیے گئے، پھر آنحضورﷺ نے اس رمضان میں اعتکاف نہ کیا۔ اپنا خیمہ بھی اٹھا لیا۔ البتہ(اس سال) آپ نے(روایت کے مطابق) آخری عشرہ شوال میں اعتکاف کیا۔

(بخاری کتاب الاعتکاف۔ باب اعتکاف فی شوال)

یہ دیکھا دیکھی والی نیکیاں بدعات بن جاتی ہیں۔ آپؐ برداشت نہ کر سکتے تھے کہ بدعات پھیلیں۔ نیکیوں کی خواہش تو دل سے پھوٹنی چاہئے۔ اس کا اظہار اس طرح ہو کہ لگے کہ نیکی کی خواہش دل سے نکل رہی ہے۔ یہ نہ ہو کہ لگ رہا ہو دیکھا دیکھی سب کام ہو رہے ہیں۔ امّہات المومنین بھی یقیناً نیکی کی وجہ سے ہی اعتکاف بیٹھی ہوں گی کہ آنحضرتﷺ کے قرب میں ان برکات سے ہم بھی حصہ لے لیں جو ان دنوں میں ہونی ہیں۔ لیکن آپﷺ کو یہ برداشت نہ تھا کہ کسی نیکی سے دکھاوے کا ذرا سا بھی اظہار ہوتا ہو۔ ذرا سا بھی شبہ ہوتا ہو۔ چنانچہ آپؐ نے سب کے خیمے اکھڑوا دئیے۔
پھر آپؐ نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ اعتکاف کس طرح بیٹھنا چاہئے، بیٹھنے والوں اور دوسروں کے لئے کیا کیا پابندیاں ہیں روایت میں آتا ہے کہ “آپؐ نے رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا، آپؐ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنایا گیا، ایک دن آپؐ نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا، نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ایک دوسرے کو سنانے کے لئے قراءت بالجہر نہ کرو۔”

(مسند احمد بن حنبل جلد 2صفحہ 67۔ مطبوعہ بیروت)

یعنی مسجد میں اور بھی لوگ اعتکاف بیٹھے ہوں گے اس لئے فرمایا معتکف اپنے اللہ سے راز و نیا زکر رہا ہوتاہے، دعائیں کر رہا ہوتا ہے۔ قرآن شریف بھی اگر تم نماز میں پڑھ رہے ہو یا ویسے تلاوت کر رہے ہو تو اونچی آواز میں نہ کرو تاکہ دوسرے ڈسٹرب نہ ہوں۔ ہلکی آواز میں تلاوت کرنی چاہئے۔ سوائے اس کے کہ اب مثلاً جماعتی نظام کے تحت بعض مساجد میں خاص وقت کے لئے درسوں کا انتظام ہوتا ہے۔ وہ ایک جماعتی نظام کے تحت ہے اس کے علاوہ ہر ایک معتکف کو نہیں چاہئے کہ اونچی آواز میں تلاوت بھی کرے یا نماز ہی پڑھے۔ کیونکہ اس طرح دوسرے ڈسٹرب ہوتے ہیں۔ تو یہ ہیں احتیاطیں جو آنحضرتﷺ نے فرمائیں۔ کہاں یہ احتیاطیں اور کہاں اب یہ حال ہے کہ بعض دفعہ پہلے ربوہ میں بھی ہوتا تھا لیکن دوسرے شہروں میں ابھی بھی باہر ہوتا ہے۔ شاید یہاں بھی یہی صورت حال ہو۔ معتکف کے لئے بڑی تکلیف دہ صورتحال ہوتی ہے۔ کہ وہ اپنی عبادت میں مصروف ہوتا ہے پردہ کے لئے ایک چادر ہی ٹانگی ہوتی ہے نا۔ پردہ کے پیچھے سے ایک ہاتھ اندر داخل ہوتا ہے جس میں مٹھائی اور ساتھ پرچی ہوتی ہے کہ میرے لئے دعا کرو یا نمازی سجدے میں پڑا ہوا ہے اوپر سے پردہ خالی ہوتا ہے تو اوپر سے کاغذ آکر اس کے اوپر گر جاتا ہے(ساتھ نام ہوتا ہے) کہ میرے لئے دعا کرو۔ یا ایک پراسرار آواز پردے کے پیچھے سے آتی ہے آہستہ سے کہ مَیں فلاں ہوں میرے لئے دعا کرو۔ یہ سب غلط طریقے ہیں۔ پھر شام کو افطاریوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ افطاریاں بڑی بڑی آتی ہیں ٹرے لگ کے، بھر کے، جو معتکف تو کھا نہیں سکتا لیکن مسجد میں ایک شور بھی پڑ جاتا ہے اور گند بھی ہو رہا ہوتا ہے۔ اور پھر جو لو گ افطاریاں بھیج رہے ہوتے ہیں۔ بعض بڑے فخر سے بتاتے بھی ہیں کہ آج مَیں نے افطاری کا انتظام کیا ہوا تھا، کیسی تھی؟ کیا تھا؟ یا دوسروں کو بتا رہے ہیں کہ یہ کچھ تھا۔ میری افطاری بڑی پسند کی گئی۔ پھر اگلے دن دوسرا شخص اس سے بڑھ کر افطاری کا اہتمام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تو یہ سب فخرومباہات کے زمرے میں چیزیں آتی ہیں۔ بجائے اس کے کہ خدمت کی جائے یہ دکھاوے کی چیزیں بن جاتی ہیں۔ اس لئے یا تو اعتکاف بیٹھنے والا، اپنے گھر سے سحری اور افطاری منگوائے یا جماعتی نظام کے تحت مہیا ہو۔ ناموں کے ساتھ ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ افطاریاں آنی غلط طریق کار ہے۔ یہ کہیں بھی جماعت کی مساجد میں نہیں ہونا چاہئے۔ کیونکہ اس سے آگے اور بدعتیں بھی پھیلتی چلی جائیں گی۔ ربوہ میں بھی دارالضیافت سے، جو مرکزی مساجد میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کے لئے اور میرا خیال ہے دوسری جگہوں پہ بھی۔ (اگر نہیں ہے تو جانی چاہئیں )افطاری وسحری وہیں سے تیار ہو کر جاتی ہے اور سارے ایک جگہ بیٹھ کے کھا لیتے ہیں۔ پھر بعض لوگ اعتکاف بیٹھ کر بھی کچھ وقت کے لئے دنیاداری کے کام کر لیتے ہیں۔ مثلاً بیٹے کو کہہ دیا، یا اپنے کام کرنے والے کارندے کو کہہ دیا کہ کام کی رپورٹ فلاں وقت مجھ کو دے جایا کرو۔ کاروباری مشورے لینے ہوں تو فلاں وقت آ جایا کرو کاروباری مشورے دیا کروں گا۔ یہ طریق بھی غلط ہے۔ سوائے اشد مجبوری کے یہ کام نہیں ہونا چاہئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے اس بارے میں سوال ہوا کہ آدمی جب اعتکاف میں ہو تو اپنے دنیوی کاروبار سے متعلق بات کر سکتا ہے یا نہیں ؟۔ آپؑ نے فرمایا کہ سخت ضرورت کے سبب کر سکتا ہے اور بیمار کی عیادت کے لئے اور حوائج ضروریہ کے واسطے باہر جا سکتاہے۔ فرمایا کہ سخت ضرورت کے تحت۔ یہ نہیں ہے کہ جیسا میں نے پہلے کہا کہ روزانہ کوئی وقت مقرر کر لیا، فلاں وقت آ جایا کرو اور بیٹھ کر کاروباری باتیں ہو جایا کریں گی۔ اگر اتفاق سے کوئی ایسی صورت پیش آ گئی ہے کسی سرکاری کاغذ پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا کسی ضروری معاہدے پر دستخط کرنے ہیں، تاریخ گزر رہی ہے یا اور کوئی ضروری کاغذ ہے، ایسے کام تو ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہر وقت، روزانہ نہیں”

(خطبہ جمعہ 29،اکتوبر 2004ء)

اعتکاف اور بیمار پرسی۔رمضان المبارک میں

“حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہﷺ بیمار پرسی کے لئے جاتے اور آپؐ اعتکاف میں ہوتے۔ پس آپؐ قیام کئے بغیر اس کا حال پوچھتے۔

(ابو داؤد۔ کتاب الصیام )

پھر اسی طرح ابن عیسیٰ کی ایک ایسی ہی روایت ہے۔ تو تیمارداری جائز ہے لیکن کھڑے کھڑے گئے اور آ گئے۔ یہ نہیں کہ وہاں بیٹھ کر ادھر ادھر کی باتوں میں وقت ضائع کرنا شروع کر دیا یا باتیں بھی شروع ہو گئیں۔ اور یہ بھی اس صورت میں ہے(وہاں مدینے میں بڑے قریب قریب گھر بھی تھے) کہ قریب گھر ہوں اور کسی خاص بیمار کو آپ نے پوچھنا ہو، اگر ہر بیمار کے لئے اور ہر قریبی کے لئے، بہت سارے تعلق والے ہوتے ہیں آپ جانے لگ جائیں تو پھر مشکل ہو جائے گا اور یہاں فاصلے بھی دور ہیں، مثلاً جائیں تو آنے جانے میں ہمیں دو گھنٹے لگ جائیں۔ اور اگر ٹریفک میں پھنس جائیں تو اور زیادہ دیر لگ جائے گی۔ یہ قریب کے گھروں میں پیدل جہاں تک جا سکیں اس کی اجازت ہے، ویسے بھی جانے کے لئے جو جماعتی نظام ہے وہاں سے اجازت لینی ضروری ہے۔ یہ مَیں باتیں اس لئے کر رہا ہوں کہ بعض لوگ اس قسم کے سوال بھیجتے ہیں۔ ام المومنین حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ “رسول اللہﷺ اعتکاف میں تھے۔ میں ان کی ملاقات کو رات کے وقت گئی۔ اور میں نے آپ ؐ سے باتیں کیں جب میں اٹھی اور لوٹی تو آپؐ بھی میرے ساتھ اٹھے۔ حضرت صفیہ ؓ کا گھر ان دنوں اسامہ بن زید ؓ کے مکانوں میں تھا۔ راستے میں انصاری راہ میں ملے۔ انہوں نے جب آپ کو دیکھا تو تیز تیز چلنے لگے۔ آپؐ نے(ان انصاریوں کو) فرمایا کہ اپنی چال سے چلو۔ یہ صفیہ بنت حُییّ ہے۔ ان دونوں نے یہ سن کر کہا سبحان اللہ یا رسول اللہ ! ہمارا ہرگز ایسا گمان آپ کے بارے میں نہیں ہو سکتا۔ آپ نے فرمایا: نہیں، شیطان خون کی طرح آدمی کی ہر رگ میں حرکت کرتا ہے۔ مجھے خوف ہوا کہیں شیطان تمہارے دل میں بری بات نہ ڈال دے۔ ‘‘(ابو داؤد کتاب الصیام باب المعتکف یدخل البیت لحاجتہ)۔۔۔ لیکن پھر بھی کچھ وقت کے لئے مسجدکے صحن میں یا باہر ٹہلنے کی ضرورت محسوس ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مجلس میں بیٹھے تھے، خواجہ کمال دین صاحب اور ڈاکٹر عباد اللہ صاحب ان دنوں میں اعتکاف بیٹھے تھے تو آپؑ نے ان کو فرمایاکہ “اعتکاف میں یہ ضروری نہیں ہے کہ انسان اندر ہی بیٹھا رہے اور بالکل کہیں آئے جائے ہی نہ(مسجد کی) چھت پر دھوپ ہوتی ہے وہاں جا کر آپ بیٹھ سکتے ہیں۔ کیونکہ نیچے یہاں سردی زیادہ ہے۔” وہاں تو ہیٹنگ(Heating)کا سسٹم نہیں ہوتا تھا۔ سردیوں میں لوگ دھوپ میں بیٹھتے ہیں، پتہ ہے ہر ایک کو ’’اور ضروری بات کر سکتے ہیں۔ ضروری امور کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور یوں تو ہر ایک کام(مومن کا) عبادت ہی ہوتا ہے۔’’

( خطبہ جمعہ 29، اکتوبر 2004ء)

گزشتہ گناہ بخش دئیے جاتےہیں لیلۃ القدر کی رات ۔ تو رمضان المبارک میں

“حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبیﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور محاسبہ نفس کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے اور جس شخص نے ایمان کی حالت میں اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر کی رات قیام کیا اس کو اس کے گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔’’

(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر)

اب یہاں دیکھیں روزے رکھنا، اور لیلۃ القدر کی رات کا قیام یعنی لیلۃ القدروالی رات میں عبادت۔ ان دونوں کے ساتھ شرط ہے کہ ایک تو ایمان کی حالت میں ہو اور مومن ہو اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ہو۔ مومن وہ ہے جو ایمان کی تمام شرائط پوری کرتا ہے۔ صرف زبان کا اقرار نہیں ہے۔ اب شرائط کیا ہیں ؟۔ قرآن کریم میں متعدد شرائط کا ذکرہے۔ سب سے بڑی بات اللہ پر ایمان ہے۔ مومن تو وہی ہے جو اللہ پر ایمان لائے۔ اس کی مثال دے دیتے ہیں۔ یہی فرمایا کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ …(الانفال:3)یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جن کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں۔ تو جس کے دل میں اللہ کا خوف ہو گا وہ کبھی دوسرے کا حق مارنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ وہ کبھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کا سوچے گا بھی نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے معاشرے میں ہر ایک سے بناکے سنوار کے رکھو۔ ہمسایہ سے حسن سلوک کرو، اپنے وعدے پورے کرو، دوسروں کے لئے قربانی دو، اور اس طرح کے بے شمار حکم ہیں۔ تو جب یہ چیزیں ہوں گی تبھی ایمان کی حالت ہو گی اور تبھی اللہ تعالیٰ کا خوف بھی دل میں ہو گا۔ یا اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے یہ سب کام ہو رہے ہوں گے۔ تو عبادتوں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے اور اپنا محاسبہ کرنے، صبح شام یہ جائزہ لینے کہ مَیں نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا ہے یا نہیں، اور تقویٰ سے رات بسر کی ہے یا نہیں، جس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا۔ جب ایسی حالت ہو گی تو فرمایا کہ ایسے لوگوں کے روزے بھی قبول ہوں گے اور لیلۃ القدر کی برکتیں بھی حاصل ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ یہ لوگ ہیں جو اجر عظیم حاصل کرنے والے ہیں۔ پھر ہر مومن کی خواہش ہوتی ہے کہ پتہ لگے کہ’’ لیلۃ القدر‘‘ کی راتیں ہیں کون سی؟ کون سی وہ راتیں ہیں جب ہم اللہ تعالیٰ کے اس انعام سے حصہ پا سکتے ہیں۔ ایک روایت میں آتا ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں کہ‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو’’ (بخاری)یعنی تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں وغیرہ راتوں میں تلاش کرو۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے متعدد صحابہ کرام کو رؤیا میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلۃ القدر دکھائی گئی۔ اس پر رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ میں دیکھتا ہوں تمہاری خوابوں میں رمضان کی آخری سات راتوں میں لیلۃ القدر کے ہونے میں موافقت پائی جاتی ہے۔ یعنی ان سب میں تقریباً یہی بات نظر آ رہی ہے پس تم میں سے جو بھی اس کو تلاش کرنا چاہے وہ اسے رمضان کی آخری سات راتوں میں تلاش کرے’’

(بخاری کتاب فضل لیلۃ القدر۔ باب فضل لیلۃ القدر)

تو بہرحال آخری عشرہ یا سات راتیں مختلف روایتوں میں آیا ہے۔

لیلۃ القدر کی مبارک دُعا

“حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میں نے عرض کی۔ اے اللہ کے نبی اگر مجھے لیلۃ القدر میسر آ جائے تو میں کیا دعا مانگوں۔ آپؐ نے فرمایا لیلۃ القدر نصیب ہونے پر یہ دعا کرنا کہ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی یعنی اے اللہ تو بہت زیادہ درگزر کرنے والا ہے اور درگز کو پسند کرتا ہے۔ پس مجھ سے درگزر فرما۔

(مسند احمد بن حنبل۔ باقی مسند الانصار)

تو یہ دعا آنحضرتﷺ نے سکھائی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اور دعائیں نہیں کرنی چاہئیں۔ وہ بھی کریں لیکن اگر اس حدیث کو اوپر جو میں نے پہلے حدیث بیان کی ہے اس کے ساتھ ملائیں تو مزید بات کھلتی ہے کہ ایمان اور محاسبہ کرتے ہوئے لیلۃ القدر ملے تو گناہ بخشے گئے۔ اب جب ایک مومن اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اے خدا! اس سارے رمضان میں اپنے گناہوں اور زیادتیوں کا میں جائزہ لیتا رہا ہوں اور اب میں عہد کرتا ہوں کہ آئندہ کوشش کروں گا کہ یہ غلطیاں اور زیادتیاں مجھ سے نہ ہوں۔ تُو معاف کرنے والا ہے۔ تو درگزر کو، معاف کرنے کو، بخشش کو پسند کرتا ہے، میرے گناہ بخش اور میری زیادتیوں سے درگزر فرما۔
تو جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ استغفار اور گناہوں سے معافی جو ہے توبہ قبول ہونے میں مددگار ہوتی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے انسان پھر ایسا نیکیوں پر قائم ہونے کی کوشش کرتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ بھی ایسے لوگوں کی مدد فرماتا ہے۔ تو وہ لوگ جو اس طرح دعا مانگتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی عبادتوں کے معیار بھی قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور بندوں کے حقوق ادا کرنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ تبھی تو عفو اور درگزر کا واسطہ دے کے اللہ تعالیٰ سے مانگ رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کی نیک نیتی سے مانگی ہوئی دعاؤں کو اپنے وعدوں کے مطابق قبول بھی کرتا ہے۔ اسے نیکیوں میں بڑھاتا بھی ہے۔ تو یہ ساری چیزیں جو عفو، درگزر ہے یا معاف کرنا ہے، استغفار ہے، یہ کوئی چھوٹی دعا نہیں ہے، بہت بڑی دعا ہے۔ اگر آدمی اپنا پورا محاسبہ کرتے ہوئے مانگے تو، بہت ساری برائیوں کو چھوڑے گا تو اللہ کے پاس بھی جائے گا تاکہ بخشش کے سامان پیدا ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اس احساس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو کر اس سے عفو اور بخشش کے طلبگار ہوں۔ پھر جیسا کہ ہم جانتے ہیں اور ہمیں یہ علم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیا ہے لیلۃ القدر کے صرف اتنے ہی معنے نہیں ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں چند راتوں میں سے ایک رات آ گئی اور اس میں دعائیں کر لی جائیں اور بس۔ بلکہ اس کے اور بھی بہت وسیع معنے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ‘‘ ایک لیلۃ القدر تو وہ ہے جو پچھلے حصہ ٔ رات میں ہوتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ تجلی فرماتا ہے اور ہاتھ پھیلاتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا اور استغفار کرنے والا ہے جو مَیں اس کو قبول کروں لیکن ایک معنے اس کے اور ہیں جس سے بدقسمتی سے علماء مخالف اور منکرہیں اور وہ یہ ہیں کہ ہم نے قرآن کو ایسی رات میں اتارا ہے کہ تاریک و تار تھی اور وہ ایک مستعد مصلح کی خواہاں تھی۔ خداتعالیٰ نے انسان کوعبادت کے لئے پیدا کیا ہے جبکہ اس نے فرمایا مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ(الذاریات: 57)پھر جب انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ تاریکی ہی میں پڑا رہے۔ ایسے زمانے میں بالطبع اس کی ذات جوش مارتی ہے کہ کوئی مصلح پیدا ہو پس اِنَّآاَنْزَلْنٰہُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِ(القدر:2)اس زمانۂ ضرورت بعثت آنحضرتﷺ کی ایک اور دلیل ہے’’

(خطبہ جمعہ 29 اکتوبر 2004ء)

آخری عشرہ میں تہلیل و تکبیراور تحمید کا کثرت سے ورد۔رمضان المبارک میں

“حضرت ابن عمر ؓ نبی اکرمﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا عمل کے لحاظ سے ان دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خداتعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب کوئی دن نہیں۔ پس ان ایام میں تہلیل یعنی لاالہ الا اللہ کہنا، اللہ تعالیٰ کی بندگی پوری طرح اختیار کرنا اور تکبیر کہنا اور تحمید کہنا، اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا، اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنا، بکثرت اختیار کرو۔

اب یہ حدیث بھی اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے۔ فرمایاکہ رمضان کے اس آخری عشرے میں مکمل طورپر اُس کی بندگی اختیار کرو۔ کوئی باطل معبود تمہیں نیک کاموں سے ہٹا نہ سکے۔ ان دنوں میں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی کبریائی، اس کا بڑا ہونا تمہارے ذہنوں پر رہے اور پھر اس کی حمد بھی کرو کہ اس نے تمہیں اتنی نعمتیں بخشی ہیں، اتنی نعمتوں سے نوازا ہے، تمہیں یہ دن نصیب کئے ہیں جن میں اس نے تمہاری بخشش کے سامان پیدا فرمائے اور سب سے بڑھ کر یہ، اور اس پر جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیاجائے کم ہے کہ اس نے خالص اپنا بندہ بننے کی توفیق عطا فرمائی اور ہمیں یہ دن بخشے جس میں ہم خالص طورپر اسی کی طرف جھکتے ہوئے اس سے مدد چاہتے ہیں۔۔۔پھر حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ مَیں نے رسول اللہﷺ سے عرض کی کہ یارسول اللہ اگرمجھے علم ہوجائے کہ کون سی رات لیلۃ القدر ہے تو مَیں اس میں کیا دعاکروں۔ فرمایا کہ توُیہ دعا کرکہ:اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔ اے اللہ توبہت معاف کرنے والا اور معاف کرنے کو پسند فرماتاہے پس توُ مجھے بھی بخش دے اور معاف فرما دے۔

(ابن ماجہ کتاب الدعا باب الدعا بالعفو…)

اب اس حدیث میں بڑی خوبصورت اور بڑی جامع دعا سکھائی گئی ہے۔ اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ میرے گناہوں سے درگزرکر، مجھے معاف کردے۔ فرمایاکہ رمضان کی برکات سے توُنے مجھے فیضیاب فرمایا، مجھے توفیق دی کہ مَیں نے روزے رکھے، تیری عبادت کی، تجھ سے مغفرت طلب کی، اپنے گناہوں کی تجھ سے معافی مانگی، تجھ پرمکمل یقین اور ایمان مجھے حاصل ہوا۔ اور آج توُنے مجھ پریہ ظاہرکرنے کے لئے کہ مَیں نے تمہاری دعاؤں کو سنا، تمہاری گریہ و زاری کو سنا، مجھے لیلۃ القدر کاعلم دیا اور مجھے لیلۃا لقدر دکھائی۔ تو میری یہ دعاہے کہ میرے اندر کی تمام برائیوں کا نام و نشان مٹا دے، میرے گناہوں کو یوں دھو ڈال جیسے کہ یہ کبھی تھے ہی نہیں۔ توُبادشاہ ہے، تیرے خزانے میں کبھی کوئی کمی نہیں آئے گی اگر توُیہ سلوک میرے ساتھ کرے۔ اور پھریہ سلوک بھی کر کہ مجھے کبھی ان باتوں کا، ان غلط حرکات کا کبھی خیال تک بھی نہ آئے جو مَیں ماضی میں کر چکاہوں۔ اوررمضان کے بعد ہمیشہ میں پاک صاف ہو کر اور تیرا بندہ بن کررہوں۔ اور یہی چیزہے جسے توُ اپنے بندوں کے لئے پسند کرتاہے”

(خطبہ جمعہ 14 نومبر 2003ء)

عیدوں کی راتوں میں عبادت کرنے کی اہمیت

“آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص محض للہ دونوں عیدوں کی راتوں میں عبادت کرے گا اس کا دل ہمیشہ کے لئے زندہ کر دیا جائے گا اور اس کا دل اس وقت بھی نہیں مرے گا جب سب دنیا کے دل مر جائیں گے۔

(ابن ماجہ کتاب الصیام۔ باب فی من قام فی لیلتی العیدین)

پس دیکھیں، رمضان کی تبدیلیوں کو جو پاک تبدیلیاں دل میں پیدا ہوتی ہیں ان کو مستقل بنانے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے خوبصورت انداز میں ترغیب دلائی ہے۔ عید کی خوشیوں میں اکثر لوگ بھول جاتے ہیں، (اگلے جمعے عید بھی آنی ہے) کہ نماز بھی وقت پہ پڑھنی ہے کہ نہیں، تو رات کی عبادت کی طرف، نوافل کی طرف توجہ دلا کر یہ بتا دیا کہ فرائض تو تم نے پورے کرنے ہی ہیں لیکن اگرہمیشہ کی رضا اور خداتعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنی ہے تو راتوں کو بھی ان دنوں میں عبادت سے سجاؤ۔ رمضان کے بعدبھی اور خاص طور پر ایسے موقعوں پر جب خوشی کے موقعے ہوتے ہیں۔ جب آدمی کو دوسری طرف توجہ زیادہ ہو رہی ہوتی ہے۔ صرف ڈھول ڈھمکوں اور دعوتوں میں ہی نہ وقت گزار دو۔ پس یہ عبادتیں جو ہیں یہ زندگی کا مستقل حصہ بننی چاہئیں۔ دعاؤں کے سلسلے میں چند اور احادیث ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور کس طرح ہم دعاؤں کے فیض حاصل کر سکتے ہیں۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جس کے لئے باب الدعا کھولا گیا گویا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دئیے گئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتی ہیں ان میں سے سب سے زیادہ محبوب اس کے نزدیک یہ ہے کہ اس سے عافیت طلب کی جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر جو ابتلاء آچکے ہیں یا جن سے خطرہ درپیش ہو ان سے محفوظ رہنے کے لئے سب سے زیادہ مفیدبات دعا ہے۔ پس اے اللہ کے بندو تمہیں چاہئے کہ تم دعا میں لگے رہو۔

(سنن الترمذی۔ کتاب الدعوات)

تو اللہ تعالیٰ کی محبوب دعاؤں میں سے سب سے زیادہ محبوب دعا اس سے عافیت طلب کرناہے، اس کی رضا حاصل کرنا ہے، اس کی پناہ میں آنا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو جائے تو پھر باقی چیزیں تو ایک مومن کو خود بخود مل جاتی ہیں۔۔۔حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ “وہ دعا جو معرفت کے بعداور فضل کے ذریعہ سے پیدا ہوتی ہے وہ اور رنگ اور کیفیت رکھتی ہے۔ وہ فنا کرنے والی چیز ہے۔ وہ گداز کرنے والی آگ ہے۔ وہ رحمت کو کھینچنے والی ایک مقناطیسی کشش ہے۔ وہ موت ہے پر آخر کو زندہ کرتی ہے۔ وہ ایک تندسیل ہے پر آخر کو کشتی بن جاتی ہے۔ ہر ایک بگڑی ہوئی بات اس سے بن جاتی ہے۔ ہر ایک زہر آخر اس سے تریاق ہو جاتا ہے”۔

(خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2005ء)

پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت سنتا ہوں، تمہیں خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔۔۔ خداتعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خداتعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔خداتعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔ اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ آمین”

(خطبہ جمعہ 5 ستمبر 2008ء)

(جاوید اقبال ناصر۔جرمنی)

پچھلا پڑھیں

Covid-19 افریقہ ڈائری نمبر28 ، 14 ۔مئی 2020ء

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 14 مئی 2020