• 4 مئی, 2024

’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو‘‘

’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو‘‘
(حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض اور اقتباسات پیش کروں گا جو سچائی کے اظہار کے بارے میں ہیں کہ کس طرح ہونا چاہئے، کیسے موقعوں پر ہونا چاہئے، اس کی مختلف حالتیں کیا ہوتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: ’’اصل بات یہ ہے کہ فراست اچھی چیز ہے۔ انسان اندر ہی اندر سمجھ جاتاہے کہ یہ سچا ہے،‘‘۔ کسی کی بات کوئی کر رہا ہو، اگر فراست ہو تو سمجھ جاتا ہے۔ فرمایا کہ: ’’سچ میں ایک جرأت اور دلیری ہوتی ہے۔ جھوٹا انسان بزدل ہوتا ہے۔ وہ جس کی زندگی ناپاکی اور گندے گناہوں سے ملوث ہے، وہ ہمیشہ خوفزدہ رہتا ہے اور مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ایک صادق انسان کی طرح دلیری اور جرأت سے اپنی صداقت کا اظہار نہیں کر سکتا اور اپنی پاکدامنی کا ثبوت نہیں دے سکتا۔ دنیوی معاملات میں ہی غور کر کے دیکھ لو کہ کون ہے جس کو ذرا سی بھی خدا نے خوش حیثیتی عطا کی ہو اور اُس کے حاسدنہ ہوں۔ ہر خوش حیثیت کے حاسد ضرور ہو جاتے ہیں اور ساتھ ہی لگے رہتے ہیں۔ یہی حال دینی امور کا ہے۔ شیطان بھی اصلاح کا دشمن ہے۔ پس انسان کو چاہئے کہ اپنا حساب صاف رکھے اور خدا سے معاملہ درست رکھے۔‘‘ شیطان تو ساتھ لگا ہوا ہے، لیکن اگر انسان کے اندر سچائی ہے، اپنا معاملہ اللہ سے صاف ہے تو پھر کوئی فکر نہیں۔ فرمایا کہ ’’خدا کو راضی کرے، پھر کسی سے خوف نہ کھائے اور نہ کسی کی پروا کرے۔‘‘ فرمایا کہ ’’ایسے معاملات سے پرہیز کرے جن سے خود ہی موردِ عذاب ہو جاوے۔‘‘ خود انسان غلطیوں میں پڑے تو تبھی عذاب آتا ہے، تبھی سزا ملتی ہے۔ اگر انسان سچائی پر قائم رہے، نیکیوں پر قائم رہے، اعمالِ صالحہ بجا لانے والا ہو، برائیوں سے بچنے والا ہو تو پھر یہ چیزیں نہیں آتیں۔ لیکن یہ سب کچھ خودنہیں حاصل ہوتا۔ فرمایا: ’’مگر یہ سب کچھ بھی تائیدِ غیبی اور توفیقِ الٰہی کے سوا نہیں ہو سکتا۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی تائید ہو گی، اللہ تعالیٰ توفیق دے گا تو تبھی ہو گا۔ اور پھر اُس کے لئے وہی استغفار اور اللہ تعالیٰ کے لئے جھکنا ہے۔ فرمایا کہ ’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو۔‘‘ انسان بہت کچھ کرتا ہے کہ مَیں یہ کر دوں گا، وہ کر دوں گا اور دینی معاملات میں تو بالکل ہی انسانی کوشش نہیں بنا سکتی۔ اللہ کا فضل ہو تو دین کی خدمت کی بھی توفیق ملتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا بھی حاصل ہوتی ہے۔ پھر فرمایا: ’’صرف انسانی کوشش کچھ بنا نہیں سکتی جب تک خدا کا فضل بھی شاملِ حال نہ ہو۔ خُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفاً۔ (النساء: 29) انسان ناتواں ہے، غلطیوں سے پُر ہے، مشکلات چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ پس دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نیکی کی توفیق عطا کرے اور تائیداتِ غیبی اور فضل کے فیضان کا وارث بنادے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ543 ایڈیشن 2003ء)

پس ان باتوں کو ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے۔ دین میں بھی، دنیا میں بھی مشکلات آتی ہیں۔ ہر جگہ اگر سچائی پر قائم ہو گے، تقویٰ پر قائم ہو گے، اپنے اعمال پر نظر ہو گی تو یہ مشکلات بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دور ہوتی چلی جائیں گی۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا کہ سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال دیتا ہے۔ بعض دفعہ عملاً یہ بھی ہوتا ہے لیکن اگر اپنا ظاہر و باطن ایک ہو تو پھر ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مشکلات بھی غائب ہو جاتی ہیں اور یہ صرف دشمنوں کی طرف سے نہیں ہوتا بلکہ بعض دفعہ اپنوں سے بھی سچ کا اظہار مشکلات میں ڈال سکتا ہے کیونکہ اپنوں میں بھی کئی قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ تقویٰ کی کمی ہوتی ہے۔ اس لئے انسان بعض دفعہ اپنوں سے بھی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2022