• 9 جولائی, 2025

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ) (قسط 32)

دُعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 32

اللہ تعالیٰ کے فضل کے قریب آنے پر
قبولیت دعا کے اسباب ظاہر ہوتے ہیں

جب اللہ تعالیٰ کا فضل قریب آتا ہے تو وہ دعا کی قبولیت کے اسباب پہنچا دیتا ہے دل میں ایک رقت اور سوزو گداز پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن جب دعا کی قبولیت کا وقت نہیں ہوتا تو دل میں اطمینان اور رجوع پیدا نہیں ہوتا۔ طبیعت پر کتنا ہی زور ڈالو مگر طبیعت متوجہ نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کبھی خداتعالےٰ اپنی قضاءو قدر منوانا چاہتا ہے اور کبھی دعا قبول کرتا ہے۔ اس لئے میں تو جب تک اذنِ الٰہی کے آثار نہ پالوں قبولیت کی کم امید کرتا ہوں اور اس کی قضاءو قدر پر اس سے زیادہ خوشی کے ساتھ جو قبولیت دعا میں ہوتی ہے راضی ہوجاتا ہوں کیونکہ اس رضا بالقضاء کے ثمرات اور برکات اس سے بہت زیادہ ہیں۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ103-104 ایڈیشن 1984ء)

نری دعا کے ساتھ
عقائد کی درستی ضروری ہے

دعا میں جس قدر بیہودگی ہوتی ہے اسی قدر اثر کم ہوتا ہے یعنی اس کی استجابت ضروری نہیں سمجھی جاتی۔ مثلاً ایک شخص ہے کہ اس کا گزارہ ایک دوروپیہ روزانہ میں بخوبی چل سکتا ہے لیکن وہ پچاس روپیہ روزانہ طلب کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کا سوال بیہودہ ہوگا۔ یہ ضروری امر ہے کہ ضرورتِ حقہ اللہ تعالیٰ کے آگے پیش کی جاوے۔ جب کسی کی مصیبت کا خط آتا ہے اور اس میں دعا کی درخواست ہوتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ دل خوب لگ کر دعا کرتا ہے۔ لیکن دوسری بیہودہ درخواستوں میں اس قدر دل نہیں لگتا۔

عام لوگ جو آجکل دفع طاعون کے لئے دعا مانگتے ہیں اس پر آپ نے فرمایا کہ
اس وقت اللہ تعالےٰ اپنی ذات کو منوانا چاہتا ہے۔ نِری دعا سے کیا فائدہ ہوسکتا ہے جبتک کہ عقائد کی اصلاح نہ ہو۔ ایسی دعائیں کیا بُت پرست نہیں مانگتے؟ پھر اُن میں اور ان میں فرق کیا ہوا؟ بلکہ مجھے خیال آتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ (البقرہ: 187) کے یہی معنے ہیں کہ اگر سوال ہو کہ خدا کا علم کیونکر ہوا تو جواب یہ ہے کہ اسلام کا خدا بہت قریب ہے۔ اگر کوئی اسے سچے دل سے بلاتا ہے تو وہ جواب دیتا ہے۔ دوسرے فرقوں کے خدا قریب نہیں ہیں بلکہ اس قدر دور ہیں کہ ان کا پتہ ہی ندارد۔ اعلےٰ سے اعلےٰ غرض عابد اور پرستار کی یہی ہے کہ اس کا قرب حاصل ہو اور یہی ذریعہ ہے جس سے اس کی ہستی پر یقین حاصل ہوتا ہے۔ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ (البقرہ: 187) کے بھی یہی معنے ہیں کہ وہ جواب دیتا ہے گونگا نہیں ہے۔ دوسرے تمام دلائل اس کے آگے ہیچ ہیں۔ کلام ایک ایسی شئے ہے جو کہ دیدار کے قائمقام ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ106-107 ایڈیشن 1984ء)

دعا کے لئے انسان کو اپنے خیال
اور دل کو ٹٹولنا چاہیئے

دعا کے لئے انسان کو اپنے خیال اور دل کو ٹٹولنا چاہیئے کہ آیا اس کا میلان دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف یعنی کثرت سے وہ دعائیں دنیاوی آسائش کے لئے ہیں یا دین کی خدمت کے لئے۔ پس اگر معلوم ہو کہ اٹھتے بیٹھتے اور لیٹتے ہوئے اسے دنیاوی افکار ہی لاحق ہیں اور دین مقصود نہیں تو اسے اپنی حالت پر رونا چاہیئے۔ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ کمر باندھ کر حصول دنیا کے لئے مجاہدے اور ریاضتیں کرتے ہیں۔ دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طرح طرح کے امراض لاحق ہوجاتے ہیں۔ بعض مجنون ہوجاتےہیں لیکن سب کچھ دین کے لئے ہوتو خدا تعالیٰ ان کو کبھی ضائع نہ کرے۔ قول اور عمل کی مثال دانہ کی ہے۔ اگر کسی کو ایک دانہ دیا جاوے اور وہ اسے لیجا کر رکھ چھوڑے اور استعمال نہ کرے تو آخر اسے پڑے پڑے گُھن لگ جاوے گا۔ ایسے ہی اگر قول ہو اور اس پر عمل نہ ہو تو آہستہ آہستہ وہ قول بھی نہ رہے گا۔ اس لئے اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیئے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ117 ایڈیشن 1984ء)

دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کی جاوے

بہت ہیں کہ زبان سے تو خدا تعالیٰ کا اقرار کرتے ہیں لیکن اگر ٹٹول کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر دہریت ہے۔ کیونکہ دنیا کے کاموں میں جب مصروف ہوتے ہیں تو خداتعالےٰ کے قہر اور اس کی عظمت کو بالکل بھول جاتے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ تم لوگ دعا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے معرفت طلب کرو۔ بغیر اس کے یقین کامل ہرگز حاصل نہیں ہوسکتا وہ اس وقت حاصل ہوگا جبکہ یہ علم ہو کہ اللہ تعالیٰ سے قطع تعلق کرنے میں ایک موت ہے گناہ سے بچنے کیلئے جہاں دعا کرو وہاں ساتھ ہی تدابیر کے سلسلہ کو ہاتھ سے نہ چھوڑو اور تمام محفلیں اور مجلسیں جن میں شامل ہونے سے گناہ کی تحریک ہوتی ہے ان کو ترک کرو اور ساتھ ہی ساتھ دعا بھی کرتے رہو۔ اور خوب جان لو کہ ان آفات سے جو قضاءو قدر کی طرف سے انسان کے ساتھ پیدا ہوتی ہیں جب تک خدا تعالےٰ کی مدد ساتھ نہ ہو۔ہرگز رہائی نہیں ہوتی۔ نماز جو کہ پانچ وقت ادا کی جاتی ہے اس میں بھی یہی اشارہ ہے کہ اگر وہ نفسانی جذبات اور خیالات سے اسے محفوظ نہ رکھے گا۔ تب تک وہ سچی نماز ہرگز نہ ہوگی۔ نماز کے معنے ٹکریں مارلینے اور رسم اور عادت کے طورپر ادا کرنے کے ہرگز نہیں۔ نماز وہ شئے ہے جسے دل بھی محسوس کرے کہ روح پگھل کر خوفناک حالت میں آستانۂ الوہیت پر گِر پڑے۔ جہانتک طاقت ہے وہاں تک رقّت کے پیدا کرنے کی کوشش کرے اور تضرّع سے دعا مانگے کہ شوخی اور گناہ جو اندر نفس میں ہیں وہ دُور ہوں۔ اسی قسم کی نماز بابرکت ہوتی ہے اور اگر وہ اس پر استقامت اختیار کرے گا تو دیکھے گا کہ رات کو یادن کو ایک نور اس کے قلب پر گرا ہے اور نفسِ امارہ کی شوخی کم ہوگئی ہے۔ جیسے اژدہا میں ایک سمّ قاتل ہے۔ اسی طرح نفس امارہ میں بھی سمّ قاتل ہوتا ہے اور جس نے اسے پیدا کیا۔ اسی کے پاس اس کا علاج ہے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ123 ایڈیشن 1984ء)

اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے
دردِ دل سے دعا کی جاوے

ہر ایک جماعت کی اصلاح اوّل اخلاق سے شروع ہوا کرتی ہے۔ چاہیئے کہ ابتدا میں صبر سے تربیت میں ترقی کرے اور سب سے عمدہ ترکیب یہ ہے کہ اگر کوئی بدگوئی کرے تو اس کے لئے دردِ دل سے دعا کرے کہ اللہ تعالےٰ اس کی اصلاح کر دیوے اور دل میں کینہ کو ہرگز نہ بڑھاوے۔

(ملفوظات جلد7 صفحہ127 ایڈیشن 1984ء)

وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے

اللہ تعالیٰ مخفی ہے مگر وہ اپنی قدرتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ دعا کے ذریعہ سے اس کی ہستی کا پتہ لگتا ہے۔ کوئی بادشاہ یا شہنشاہ کہلائے۔ ہر شخص پر ضرور ایسے مشکلات پڑتے ہیں جن میں انسان بالکل عاجز رہ جاتا ہے اور نہیں جانتا کہ اب کیا کرنا چاہیئے۔ اس وقت دعا کے ذریعہ سے مشکلات حل ہوسکتے ہیں۔

(ملفوظات جلد8 صفحہ135 ایڈیشن 1984ء)

(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)

پچھلا پڑھیں

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2022