• 29 اپریل, 2024

رسول کریم ؐ کی خشیتِ الٰہی

فارسی میں کہتے ہیں ’’ہرکہ عارف تراست ترساں تر‘‘ یعنی جتنی کسی کو اللہ کی معرفت ہوتی ہے اتنا ہی وہ اللہ سے ڈرتا ہے رسول کریمﷺ کی خشیت الہی اور تقوی (جسے شریعت کا مغز کہا جا سکتا ہے) کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ آپ ؐ نے اپنے صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا إِنَّ أَتْقَاكُمْ وَأَعْلَمَكُمْ بِاللّٰهِ أَنَا کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا تقویٰ رکھتا ہوں اور اس کی ذات کی معرفت رکھتا ہوں۔

(بخاری کتاب الایمان)

اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین وجود اور اپنے صحابہ کے لئے رَضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ کا خطاب پانے والے آنحضرتﷺ کا ہر عمل اللہ کی خشیت سے بھرا ہوا تھا آپ کے دل ميں خدا کی عظمت اس قدر تھی اور آپؐ اس کی بے نیازذات سے اس قدر خائف رہتے کہ اگر آندھی کے آثار دیکھتے تو آپؐ کا چہرہ متغیر ہو جاتا حضرت عائشہؓ سے ایک دفعہ فرمایا اے عائشہ کیا پتا کہ اس آندھی میں ایسا عذاب پوشیدہ ہو جس سے ایک گزشتہ قوم ہلاک ہو گئی تھی اور ایک قوم نے کہا تھا یہ تو بادل ہے جو بارش لے کر آیا ہے مگر وہ درد ناک عذاب لے کر برسا۔

(بخاری کتاب التفسیر)

حضرت عائشہؓ سے ہی ایک روایت یوں مروی ہے کہ ایک رات جبکہ آپؐ میرے ہاں تشریف فرما تھے آپؐ باہر تشریف لے گئے میں کیا دیکھتی ہوں کہ آپؐ ایک کپڑے کی طرح زمین پر پڑے ہیں اور کہہ رہے ہیں (اے اللہ) تیرے لئے میرے جسم و جان سجدے میں ہیں۔ یہ دونوں ہاتھ تیرے سامنے پھیلے ہوئے ہیں اور جو کچھ میں نے ان کے ساتھ میں نے اپنی جان پر ظلم کیا وہ بھی تیرے سامنے ہے۔اے عظیم! جس سے ہر عظیم بات کی امید کی جاتی ہے۔ عظیم گناہوں کو تو بخش دے۔

(مجمع الزوائد ہیثمی جلد128مطبوعہ بیروت)

پھر فرمایا اے عائشہ! جبرئیل نے مجھے یہ الفاظ پڑھنے کے لئے کہا ہے تم بھی اپنے سجدوں میں یہ پڑھا کرو جو شخص یہ کلمات پڑھے سجدے سے سر اٹھانے سے پہلے بخشا جاتا ہے۔

(بحوالہ الفضل 17 نومبر 2012ء صفحہ1)

آپؐ ساری رات عبادت میں روتے روتے سجدہ گاہ تر کر دیتے تھے۔ آپؐ دعا کیا کرتے تھے کہ میرے اللہ تیری خاطر میں نے رکوع کیا تجھ پر میں ایمان لایا اور تیرا ہی میں فرمانبردار ہوں اور تجھی پر میرا توکل ہے اور تو ہی میرا پروردگار ہے میرے کان میری آنکھیں میرا گوشت، میرا خون، میری ہڈیاں، میرا دماغ اور میرے اعصاب اس اللہ کی اطاعت میں جھکے ہوئے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔

(صحیح مسلم)

صحابہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کی گریہ وزاری اور خشوع وخضوع کی یہ حالت تھی کہ آپؐ کے سینہ سے گڑگڑانے کی آواز سنی جا سکتی تھی جو ہنڈیا کے ابلنے کی آواز سے مشابہ ہوتی تھی۔

(مسند احمد جلد4 مطبوعہ مصر)

حضرت حسنؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:
اللہ کی راہ ميں بہنے والے قطرۂ خون اور رات کے وقت تہجد ميں خشیت باری کے نتیجہ ميں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ کو پسند نہیں۔

(مصنف ابن ابی شیبہ جلد7 صفحہ88 حدیث نمبر 34409)

غزوۂ بدر کے موقع پر آپؐ کی خشیۃاللہ کا یہ عالم تھا کہ گریہ وزاری سے کندھے کانپ رہے تھے اور چادر باربار کندھوں سے گر رہی تھی آپؐ يَا حَیُّ يَا قَيُّوْمُ کہتے ہوئے اپنے رب کو انتہائی کرب سے پکار رہے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے آپؐ کو خدا تعالیٰ کا وعدہ یاد دلاتے ہوئے تسلی دی مگر آپؐ مسلسل دعاؤں میں مصروف رہے کہ کہیں خدائی وعدہ میں کوئی ایسا مخفی پہلو نہ ہو جس کے عدم علم سے تقدیر بدل جائے۔

(صحیح بخاری کتاب الجہاد)

حضرت مطرفؓ اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولِ خداﷺ کو نماز پڑھتے دیکھا گریہ و زاری اور بقا سے یوں ہچکیاں بندھ گئیں تھیں گویا چکی چل رہی ہے اور ہنڈیا کے ابلنے کی طرح آپؐ کے سینے سے گڑگڑاہٹ سنائی دیتی تھی۔

(ابو داؤد)

آپؐ اپنے ربؔ کے حضور دعا کرتے کہ اے دلوں کو پھیرنے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ حضرت امؔ سلمٰیؓ نے آپؐ سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی تو آپؐ نے فرمایا کہ آپؐ نے فرمایا کہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے جس کو چاہے ثابت قدم رکھے اور جس کو چاہے ٹیڑھا کر دے۔

(ترمذی کتاب الدعوات)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ حجة الوداع کا یہ خوبصورت منظر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے حجرِ اسود کی طرف منہ کیا پھر اپنے ہونٹ اس پر رکھ دئیے اور دیر تک روتے رہے پھر اچانک توجہ فرمائی تو حضرت عمر بن خطابؓ کو روتے دیکھا اور فرمایا اے عمر یہ وہ جگہ ہے جہاں (اللہ کی محبت اور خوف سے) آنسو بہائے جاتے ہیں۔

(ابن ماجہ)

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے آنحضرتﷺ سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ! کیا وَالَّذِیۡنَ یُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوۡا وَّقُلُوۡبُہُمۡ وَجِلَۃٌ (المومنون: 61) کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو کچھ چاہے کرے مگر خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے؟ تو آپؐ نے فرمایا: نہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان نیکیاں کرے مگر اس کے ساتھ خدا تعالیٰ سے بھی ڈرتا رہے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد8 بحوالہ خطبہ جمعہ 3 اگست 2012ء)

رسولِ کریمﷺ نے اپنے صحابہ کی موجودگی میں ایک شخص کا قصؔہ بیان فرمایا جس نے خوب گناہ کئے تھے اور پھر مرنے سے پہلے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ مرنے کے بعد اسکی لاش کو جلا دیا جائے اور راکھ کو سمندر میں پھینک دیا جائے چنانچہ اسکے مرنے پر بیٹوں نے ایسے ہی کیا لیکن خدا نے زمین کو حکم دیا کہ جہاں جہاں اس شخص کی راکھ کے ذرؔے ہیں انکو اکٹھا کرکے اس کے حضور پیش کرو۔وہ شخص لرزاں ترساں خدا تعالیٰ کے سامنے آ حاضر ہوا۔ خدا نے اس سے پوچھا کہ تُو نے یہ سب کیوں کیا۔ اس نے کہا اے خدا تیری خشیت اور خوف نے مجھے ایسا کرنے پر مجبور کیا۔ اللہ تعالیٰ کو اس کا احساسِ ندامت پسند آیا اور اسے بخش دیا۔

(بخاری کتاب التوحید)

آنحضورﷺ نے فرمایا کہ جو شخص محض شہرت کی خاطر کوئی کام کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو رسوا کر دے گا اور جو ریا کاری سے کام لے گا اللہ تعالیٰ اس کی ریاکاری سب پر ظاہر کردے گا۔

(بخاری کتاب الرقاق)

حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ یوں دعا کیا کرتے تھے کہ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْٓ اَعُوْذُبِکَ مِنْ قَلْبٍ لَّا یَخْشَعُ وَدُعَآءٍ لَّا یُسْمَعُ وَمِنْ نَّفْسٍ لَّا تَشْبَعُ وَمِنْ عِلْمٍ لَّا یَنْفَعُ۔ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھٰٓؤُلَآءِ الْاَرْبَع۔ کہ اے اللہ! مَیں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع نہیں کرتا۔ اور ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی۔ اور ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا۔ اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہے۔ مَیں تجھ سے ان چاروں سے پناہ چاہتا ہوں۔

(سنن الترمذی کتاب الدعوات)

آپؐ کی خشیۃ اللہ کا یہ حال تھا کہ ہر وقت خداتعالیٰ کے حضور حاضری کے لئے تیار رہتے تھے رات کو سوتے ہوئے یہ دعا کرتے کہ اے اللہ میں تیرے نام کے ساتھ سورہا ہوں اور تیرے نام کے ساتھ اٹھوں گا اگر تو نے میری روح قبض کرلی تو اس سے رحمت کا سلوک کرنا اور اگر تو نے اسے واپس کیا تو اس کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تو اپنے نیک بندوں کی حفاظت کرتا ہے۔

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب التعوذ عند المنام حدیث نمبر 5845)

تقویٰ اور خشیت کس طرح پیدا ہوتی ہے اس سلسلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’تقویٰ اور خدا ترسی علم سے پیدا ہوتی ہے۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّمَا یَخۡشَی اللّٰہَ مِنۡ عِبَادِہِ الۡعُلَمٰٓؤُا (فاطر: 29) یعنی اللہ تعالیٰ سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو عالِم ہیں۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم خَشْیَۃ اللّٰہ کو پیدا کر دیتا ہے۔ اور خدا تعالیٰ نے علم کو تقویٰ سے وابستہ کیا ہے کہ جوشخص پورے طور پر عالم ہو گا اُس میں ضرور خَشْیَۃ اللّٰہ پیدا ہو گی‘‘۔ فرمایا ’’علم سے مراد میری دانست میں علم القرآن ہے۔ اس سے فلسفہ، سائنس یا اَور علومِ مروّجہ مراد نہیں۔ کیونکہ اُن کے حصول کے لئے تقویٰ اور نیکی کی شرط نہیں۔ بلکہ جیسے ایک فاسق فاجر اُن کو سیکھ سکتا ہے ویسے ہی ایک دیندار بھی۔ لیکن علم القرآن بجز متّقی اور دیندار کے کسی دوسرے کو دیا ہی نہیں جاتا۔ پس اس جگہ علم سے مراد علم القرآن ہی ہے جس سے تقویٰ اور خشیت پیدا ہوتی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد4 صفحہ599)

اللہ تعالیٰ ہمیں خَشْیَۃ اللّٰہ کی روح کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں کو گزارنے والے بنائے۔ آمین

(امة القیوم انجم۔ کیلگری، کینیڈا)

پچھلا پڑھیں

جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 جون 2022