مخالفت نفس بھی ایک عبادت ہے۔ انسان سویا ہوا ہوتا ہے جی چاہتا ہےکہ اور سو لے مگر وہ مخالفت نفس کر کے مسجد چلا جاتا ہے تو اس مخالفت کا بھی ایک ثواب ہے اور ثواب نفس کی مخالفت تک ہی محدود ہوتا ہے ورنہ جب انسان عارف ہوجاتا ہے تو پھر ثواب نہیں۔ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ جب آدمی عارف ہوجاتا ہے تو اس کی عبادت کا ثواب ضائع ہوجاتا ہے۔ کیونکہ جب نفس مطمئنہ ہوگیا تو ثواب کیسے رہا؟ نفس کی مخالفت کرنے سے ثواب تھا، وہ اب رہی نہیں۔
(ملفوظات جلد دوم صفحہ552-553 ایڈیشن 1988ء)
اگر اس نے یہ زمانہ خدا کی بندگی، اپنے نفس کی آراستگی اور خدا کی اطاعت میں گزارا ہوگا تو اس کا اسے یہ پھل ملے گا کہ پیرانہ سالی میں جبکہ وہ کسی قسم کی عبادت وغیرہ کے قابل نہ رہے گا اور کسل اور کاہلی اسے لاحق حال ہو جاوے گی تو فرشتے اس کے نامہ اعمال میں وہی نماز روزہ تہجد وغیرہ لکھتے رہیں گے جو کہ وہ جوانی کے ایام میں بجا لاتا تھا۔
(ملفوظات جلد4 صفحہ199حاشیہ ایڈیشن 1988ء)
نماز اصل میں دعا ہے۔ نماز کا ایک ایک لفظ جو بولتا ہے وہ نشانہ دعا کا ہوتا ہے۔ اگر نماز میں دل نہ لگے تو پھر عذاب کے لئے تیار رہے۔ کیونکہ جو شخص دعا نہیں کرتا وہ سوائے اس کے کہ ہلاکت کے نزدیک خود جاتا ہے اور کیا ہے۔ ایک حاکم ہے جو بار بار اس امر کی ندا کرتا ہے کہ میں دکھیاروں کا دکھ اٹھاتا ہوں مشکل والوں کی مشکل حل کرتا ہوں۔ میں بہت رحم کرتا ہوں۔ بیکسوں کی امداد کرتا ہوں۔ لیکن ایک شخص جو کہ مشکل میں مبتلا ہے اس کے پاس سے گزرتا ہے اور اس کی ندا کی پرواہ نہیں کرتا۔ نہ اپنی مشکل کا بیان کرکے طلب امداد کرتا ہے تو سوائے اس کے کہ وہ تباہ ہو اور کیا ہو گا۔ یہی حال خداتعالیٰ کا ہے کہ وہ تو ہر وقت انسان کو آرام دینے کے لئے تیار ہے بشرطیکہ کوئی اس سے درخواست کرے۔ قبولیتِ دعا کے لئے ضروری ہے کہ نافرمانی سے باز رہے اور دعا بڑے زور سے کرے۔ کیونکہ پتھر پر پتھر زور سے پڑتا ہے تب آگ پیدا ہوتی ہے۔
(ملفوظات جلد چہارم صفحہ54)